Skip to content
مجاہدین حماس: قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
’حماس‘ کے عسکری شعبے القسام بریگیڈز کی جنرل ملٹری کونسل کے رکن اور غزہ بریگیڈ کے کمانڈر عزالدین الحداد نے الجزیرہ ٹی وی چینل اپنے ایک نادرِ روزگار انٹرویو میں ’طوفان الاقصیٰ‘ کے حوالے سےنہایت چشم کشا تفصیلات پیش کیں اورمختلف اسرار و رموزکی نقاب کشائی کی۔ ذرائع ابلاغ میں موجود یہ انٹرویو اس مہم کی ضرورت و اہمیت کے ساتھ اس کی منصوبہ بندی اور اہداف کو واضح کرتا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی فوج کی حساس انٹیلی جنس اور فوجی معلومات کی فراہمی سے لے کرصہیونیوں کے خلاف حماس کی کامیاب حکمت عملی کو بڑے دو ٹوک انداز میں پیش کیا۔ عزالدین الحداد نے بیت المقدس ، مسجد اقصیٰ اور اسیرانِ فلسطین کے حوالے سے تمام تر عالمی کوششوں میں ناکامی کو طوفان الاقصیٰ کی غرض و غایت قرار دیا ۔ تمام انصاف پسندکوگ معترف ہیں کہ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کو ایک عام واردات کے طور لینے کا مزاج بن گیا تھا اور ان پر احتجاج تو کجا توجہ تک دینے کی زحمت نہیں گوارہ کی جاتی تھی۔
طوفان الاقصیٰ نامی مہم کی دوسری اہم وجہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی جانے والی ایک تباہ کن جنگ کے حوالے سے منصوبے کی معلومات تھی ۔غزوۂ بدر سے قبل مشرکین کے تجارتی قافلہ اور اس کے عزائم کی معلومات نےبھی تاریخ اسلام میں بہت اہم کردار کیا تھا ۔ الحداد کے مطابق القسام انٹیلی جنس برانچ نے اسرائیلی خفیہ شعبے 8200 کو ہیک کیا تو پتہ چلا کہ دشمن تمام مزاحمتی دھڑوں کے خاتمے کی خاطر اچانک فضائی حملہ کرنے کے بعد ایک بڑی اور تباہ کن زمینی فوج کشی کا منصوبہ بناچکا ہے۔ ظاہر ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انتظار کرنا تو خودکشی کےمترادف تھااس لیےبروقت میدان میں آنا پڑا۔صہیونی اپنے آپ کو بہت ذہین سمجھتے ہیں اور اپنی فریب کاری سے دشمن کو غفلت میں رکھ کر اچانک ہلہ بول دیتے ہیں۔ اسرائیل پسِ پردہ تو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے تیاریوں میں مصروف تھا مگر بظاہر حماس کو مسجد اقصیٰ اور مغربی کنارے سے علیحدگی اختیار کرنےکے عوض مزاحمتی مالی سہولیات کی پیشکش بھی کررہاتھا۔
حماس نے اس کے جواب میں فوجی کارروائی کا انتخاب تو کیا مگر اسرائیل کو سٹریٹجک فریب کاری کے تحت منصوبہ بندطریقے پر یقین دلایا کہ حماس سہولیات کے حصول کے خواہاں ہیں اور اسے اسرائیل کےساتھ لڑائی میں کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسے لوہے کو لوہے سے کاٹنا کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کو خوش فہمی کے فریب میں مبتلا رکھنے کی خاطراپنے فیصلے کواسی طرح صیغۂ راز رکھاگیا جیسے فتح مکہ سے قبل پیش قدمی کو افشا کرنے سے گریز کیا گیا تھا ۔ اس طرح حکمتِ عملی کی جنگ میں حماس کو اسرائیل پرپہلی برتری حاصل ہوگئی۔ الحداد کے مطابق مزاحمت کے محور ممالک کو آگاہ تو کیا گیا مگر رازداری کے پیش نظر وہ معلومات بہت کم لوگوں تک محدود تھی۔ اس حکمتِ عملی کے سبب حماس محض مدافعت پر اکتفاء کرنے کے بجائے اقدام میں پہل کرسکا۔غزوۂ بدر میں بھی اسلامی فوج کو میدانِ جنگ میں پہلے پہنچنے کا فائدہ ملا تھا۔
طوفان الاقصیٰ کو بلا تیاری ایڈونچر قرار دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس مہم کی تیاریوں کے سلسلے میں یکم اکتوبر 2023ء سے منصوبوں کی منظوری، حتمی شکل دینے اور عمل درآمد کی ترتیب و نظام اوقات پر مرکوز مستقل اجلاس کا سلسلہ جاری رہا۔الحداد کے مطابق فیصلہ کن مرحلے سے 24 گھنٹےقبل کمانڈ اینڈ کنٹرول رومز کے مرکزی آپریشنز روم سے رابطے تیز کردیئے گئےتاکہ عمل درآمد کی نگرانی ممکن ہوسکے۔
اس کے بعد مجاہدین کو متحرک کرکے انہیں اسلحہ سے لیس کیا گیا۔ حملے کی خاطر7؍ اکتوبر کو صبح 6:30 بجے کا تعین کرکے اس محتاط اور مربوط میزائل حملےمیں ڈرونز اور گلائیڈرز کا استعمال کیا گیا۔ غزہ کی گھیرا بندی کرنے والی باڑکو گرانے کے لیے بحری انجینئرنگ یونٹس سے تعاون لیا گیا۔ اس کے بعد ہزاروں تربیت یافتہ القسام کے جنگجو دیوار توڑ کر داخل ہوگئے۔
اسرائیل اپنی مہارت کا بلند بانگ دعویٰ تو کرتاہے مگر اسرائیلی خفیہ ایجنسی اس آپریشن کی پیشگی اطلاع حاصل کرنے میں پوری طرح ناکام رہی بلکہ اس کا دفاعی نظام مکمل طور پرغیرمؤثر ہوگیا۔یہودی ذہانت کے فریب میں مبتلا مرعوب دانشور ایک سازشی نظریہ کے تحت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نیتن یاہو نے جان بوجھ کر چشم پوشی کرکےاس کی اجازت دی۔ مندرجہ بالا تیاریوں کی تفصیلات اس کی نفی کرتی ہے ۔اس کے علاوہ دوثبوت تو خود اسرائیل نے پیش کردئیے۔ گزشتہ سال اسرائیلی خفیہ ادارے کی ایلیٹ یونٹ کے سربراہ نے حماس کی جانب سے کیے گئے 7؍ اکتوبر کے حملوں کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کرکے عہدے سےاستعفیٰ دے دیا تھا ۔ 8200 یونٹ انٹیلی جنس سگنلز اور پیغامات کا مشاہدہ اور انہیں ڈی کوڈ کرنے کا کام کرتا ہے۔ اس سے قبل یونٹ کے کمانڈر میجر جنرل اہارون ہالیوا کو ان کی کوتاہی کے لیے برطرف کیا گیا تھا مگر یوسی ساریئل نے تو مستعفی ہونے ساتھ اپنے مشن میں پورا نہ اترنے پر ’معافی‘ بھی مانگی تھی۔
ان شواہد کے باوجود اگر کوئی اسے ناٹک کہہ کر جھٹلادے تو ایسے لوگوں کا مرض لا علاج ہےمگر اس تاریخی حقیقت کا انکار ناممکن ہے کہ صدمے میں مبتلا اسرائیلیوں سے پہلے القسام بریگیڈز کی غزہ ڈویژن نے چند گھنٹوں کے اندر دیوار گراکر حملہ کرنے میں کامیابی کی تصدیق کی تھی۔ سات اکتوبر 2023 کی مہم کا بنیادی مقصد غزہ ڈویژن پر حملہ کر کے ٹھکانوں اور کیمپوں کو تباہ کرنے کے ساتھ فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے ممکنہ بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرنا تھا۔ غزہ کے اطراف اسرائیلی اڈوں اوربیرکوں پر حملے میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی اور افسران ہلاک اور 240 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔
یہ حملہ اسرائیل سمیت یوروپ و امریکہ کے لیے ایک چونکا دینے والا دھچکا تھا۔ اس نے تنازعہ میں ایک نیا محاذ کھول کر بے دریغ تباہی مچائی ۔الحداد نے بلا تکلف یہ مانا کہ اپنی ذلت آمیز انٹیلی جنس کی شکست کے بعد اسرائیل نے امریکی انتظامیہ اور بعض مغربی حکومتوں کی حمایت سے فلسطینی عوام سے وحشیانہ انتقام لینا شروع کر دیامگر اپنی سرزمین کے دفاع کی خاطر زمینی فوج کشی کے دوران گھات لگاکر حملے کیے گئے، بارودی سرنگیں بچھائی گئیں اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ نوع تیاری کی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہاسرائیل کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل نے اپنے 850؍ فوجیوں اور افسران کی ہلاکت اور 6000 کے قریب زخمیوں کا اعتراف کیا ہے جب کہ دیگر رپورٹس کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے وقت حماس کے جانباز اسرائیلی ہتھیاروں کا مظاہرہ کرکے اپنے اس دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہوں نے دوران جنگ اسرائیلی فوجیوں سے ان کااسلحہ چھین لیا تھا۔ اسرائیل کے ذریعہ اس ناکامی کی سب سے نمایاں علامات دفاعی کونسل سے لے کر وزیر دفاع تک کے استعفے ہیں ۔ الحداد کو توقع ہے کہ جب تحقیقات آگے بڑھیں گی تو مزید استعفے آئیں گے۔ انہوں نے غزہ کی جنگ میں حمایت کرنے والے محورِ مزاحمت میں شامل لبنان، یمن اور عراقی مزاحمت کے ساتھ ایران بلکہ تمام ممالک اور تحریکوں کے کردار کو سراہا۔الحداد نے اپنی جامع گفتگو میں پر عزم مجاہدین کے ساتھ جانباز عوام کو بھی خوب سراہا ۔ وہ بولے مجاہدینِ القسام نے مہم کے تمام مراحل میں محاذ آرائی اور ذمہ داری سنبھالنے میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے القسام کے مزاحمت کاروں کی ہمت و شجاعت اور میدان جنگ میں بلند اخلاق کی دل کھول کر تعریف کی ۔
اس حقیقت کا کون انکار کرسکتا ہے کہ حماس کا حملہ فوجی ٹھکانے پر تھا جب کہ اسرائیل نے بے قصور عورتوں اور بچوں پر بمباری کی ۔ اسپتالوں، اسکولوں اور عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا۔ مجاہدین حماس کی کے حسنِ اخلاق کا سب سے بڑااعتراف تو ان کی قید سے رہا ہونے والے یرغمال ہیں۔ قرآن حکیم میں اہلِ حق اور با طل کے پیروکاروں کا فرق بڑی خوبصورتی سے واضح کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خد ا کو گواہ ٹھیرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘۔ طاغوت کو وعید سنانے کے بعد اہل اسلام کی بابت فرمایا گیا:’’دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے، جو رضا ئے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے‘‘۔ عصرِ حاضر میں مجاہدین حماس اس آیت کی چلتی پھرتی تفسیر ہیں ۔ علامہ اقبال کا یہ شعر اسی موقع کے لیے ہے؎
يہ راز کسی کو نہيں معلوم کہ مومن
قاري نظر آتا ہے ، حقيقت ميں ہے قرآن!
Like this:
Like Loading...