Skip to content
نئی دہلی۔ 6مارچ(ایجنسیز)عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے معاملے میں سپریم کورٹ میں ایک نئی عرضی داخل کی گئی ہے جس میں عبادت گاہوں کے قانون کی دفعہ 4(2) کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یہ سیکشن عدالتوں کو مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل کرنے سے متعلق مقدمات کی سماعت سے منع کرتا ہے۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دفعہ 4(2) کو اسی ایکٹ کی تمہید اور آئین ہند کے آرٹیکل 14، 21، 25 اور 26 (مساوات اور مذہبی آزادی) کے تحت بنیادی حق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ یہ اعلان کرے کہ مجاز عدالت کو مذہبی مقام کے بنیادی کردار کا فیصلہ کرنے سے متعلق مناسب حکم جاری کرنے کا حق ہے۔یہ نئی درخواست قانون کے طالب علم نتن اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں داخل کی ہے۔کہا گیا ہے کہ عدالت یہ اعلان کرے کہ عبادت گاہوں کا قانون عبادت گاہ کے بنیادی کردار کو تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے نہ کہ اس کی
قانون عبادت گاہ کے مذہبی کردار کی حفاظت کرتا ہے، اس کی ساخت کا نہیں۔ کہا گیا ہے کہ عمارت کا سروے کیے بغیر اصل کردار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم گزشتہ سماعت میں ہی سپریم کورٹ نے نئی درخواستوں کے مسلسل دائر ہونے پر اعتراض ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ بہت ہوگیا، عدالت اس معاملے میں کسی نئی درخواست پر غور نہیں کرے گی۔سپریم کورٹ اپریل کے پہلے ہفتے میں کیس کی سماعت کرے گا۔
اگر کسی کے پاس کوئی نئی بنیاد ہے تو وہ مداخلت کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔ عدالت اس کیس کی سماعت اپریل کے پہلے ہفتے میں کرے گی۔اس قانون کے حوالے سے سپریم کورٹ میں نصف درجن سے زائد درخواستیں اور مداخلت کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ ان میں سے کچھ میں قانون کو چیلنج کیا گیا ہے اور کچھ قانون کی حمایت میں ہیں۔سپریم کورٹ نے فی الحال عدالتوں پر مذہبی مقامات پر دعووں کے مقدمات میں سروے کرنے یا موثر احکامات جاری کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
Like this:
Like Loading...