Skip to content
”بلڈوزر انصاف” کیا بھارتی جمہوریت کی بنیادیں کھوکھلی کر رہا ہے؟
ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
(اکولہ،مہاراشٹر)
========
بھاری بھرکم مشینوں کی وہ گرج، جو کبھی تعمیراتی مقامات تک محدود تھی، آج انصاف کے ایوانوں میں بھی سنائی دے رہی ہے، اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت کی بنیادیں لرزہ براندام ہیں۔ ”بلڈوزر انصاف” کی یہ اصطلاح، جو اب ہر خاص و عام کی زبان پر ہے، بجا طور پر ایک ایسے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے، جو ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے سمِ قاتل ہے۔ اس سے مراد ہے حکومتوں، بالخصوص بی جے پی کی زیرِ اقتدار ریاستوں کی جانب سے، جرائم کے ملزم ٹھہرائے جانے والے شہریوں کے گھروں کو، قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، محض بلڈوزر کی طاقت سے مسمار کر دینا۔ یہ سفاکانہ سلسلہ، جو 2017 کے لگ بھگ شروع ہوا، آج قانون کے نفاذ کے ایک عام طریقے سے کہیں بڑھ کر، حکمرانی کی ایک ایسی علامت بن چکا ہے، جو بے شمار سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ کیا یہ قانون کی حکمرانی کی صریح خلاف ورزی نہیں؟ کیا یہ اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی پامالی نہیں؟ کیا یہ بھارتی جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ نہیں؟
”بلڈوزر انصاف” کا سادہ اور دلخراش مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی شہری کو، منصفانہ قانونی عمل کی پرواہ کیے بغیر، مجرم قرار دے کر سزا سنا دینا۔ یہ اصطلاح، بجا طور پر، ہمارے عدالتی نظام اور عدلیہ کے وقار پر ایک بدنما داغ، ان کی بنیادوں پر ایک کاری ضرب ہے۔ بی جے پی کی ریاستی حکومتیں، بلڈوزر کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے، ان بدنصیب شہریوں کے گھروں کو مٹی میں ملا رہی ہیں، جن پر ابھی جرم ثابت ہونا باقی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اکثر اوقات، قانونی کارروائی کی ابتدائی رسمیات بھی ادا نہیں کی جاتیں۔ ابتداء میں، اس غیر انسانی فعل کو جرائم اور غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ایک بے لچک اور سخت گیر اقدام کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن بہت جلد ہی، یہ ڈر، خوف اور اجتماعی سزا دینے کا ایک سفاک ہتھیار ثابت ہوا۔ اور ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ اس بربریت کی چکی میں کون پس رہا ہے؟ وہی پسماندہ اور کمزور طبقات، بالخصوص ہماری مظلوم مسلم اقلیت۔
اس ظالمانہ روش کا آغاز اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے مارچ 2017 میں، بلڈوزر کو مجرموں کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا عندیہ دیا۔ ابتداء میں، نشانہ صرف بدنام زمانہ بدمعاشوں کی جائیدادیں بنیں، لیکن پھر دھیرے دھیرے، یہ ایک عام رواج، ایک بھیانک روایت بن گئی۔ بلڈوزر کو حکومتی رعب داب اور فوری، بے لاگ انصاف کی علامت بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ یہ سفاکانہ عمل، اتر پردیش کی جغرافیائی حدود تک محدود نہ رہا، بلکہ مدھیہ پردیش سے ہوتا ہوا، دہلی، ہریانہ، آسام، اتراکھنڈ، ممبئی اور اب ناگپور تک پھیل چکا ہے۔ عوام الناس کو یہ زہر گھول کر پلایا جا رہا ہے کہ بلڈوزر فوری اور منصفانہ انصاف کی فراہمی کا ضامن ہے، یہ بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے پاک اور سزا دینے کا ایک بے مثال ذریعہ ہے۔ لیکن اس نام نہاد ”فوری انصاف” کے خوشنما اور دلفریب پردے کے پیچھے، قانونی اور آئینی اصولوں کی سنگین پامالی، ایک تاریک اور بھیانک حقیقت بن کر منہ کھولے کھڑی ہے۔
”بلڈوزر انصاف” درحقیقت، قانون کی حکمرانی کی صریحاً نفی، اس کے تقدس کی پامالی ہے۔ یہ ہمارے جمہوری نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا ایک مہلک ہتھیار ہے۔ کسی بھی مہذب اور جمہوری معاشرے میں، قانون کی حکمرانی ایک ناگزیر ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ”بلڈوزر انصاف” کے نفاذ کے ساتھ ہی، انتظامیہ، بیک وقت، منصف، جیوری اور جلاد کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی شہری کو، محض الزام کی بنیاد پر، بغیر کسی قانونی چارہ جوئی یا منصفانہ سماعت کے، سزا سنا سکتی ہے۔ یہ تو ہمارے عدالتی نظام کی کھلی توہین، انصاف کے بنیادی تقاضوں کی بے شرمی سے پامالی ہے۔ اس سے اختیارات کی علیحدگی کا وہ مقدس اصول بھی مجروح ہوتا ہے، جو جمہوریت کا حسن اور اس کا محافظ ہے۔ انتظامیہ، عدلیہ کے منصب پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہوئے، اس کے بنیادی فرائض خود سنبھال لیتی ہے، جس کے نتیجے میں عدلیہ کا کردار، انصاف کی فراہمی کے عمل میں، عملاً بے معنی اور غیر مؤثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، یہ وہ بنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے جسے ”بلڈوزر انصاف” کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی معتبر عالمی تنظیموں کی مستند رپورٹس اس تلخ حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ اس ظالمانہ کارروائی کی بھاری قیمت، مسلمانوں کو بالخصوص ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ صریحاً امتیازی سلوک، انصاف کا خون ہے۔ اس سے معاشرے میں یہ زہریلا اور خطرناک پیغام تیزی سے سرایت کر رہا ہے کہ قانون کی حکمرانی سب کے لیے یکساں نہیں، بلکہ کچھ مخصوص طبقات کے لیے اس کی حیثیت ثانوی، بلکہ محض ایک نمائشی چیز ہے۔ ”بلڈوزر انصاف” تو منصفانہ ٹرائل کے اس بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق کو بھی بے رحمی سے سلب کر لیتا ہے۔ کسی بھی شہری پر محض الزام عائد ہوتے ہی، اس کا گھر، اس کا آشیانہ، بلڈوزر کے جبڑوں میں دے دیا جاتا ہے، اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا، اسے انصاف کے حصول کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا بھی حق نہیں ملتا۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی صریح اور ناقابل معافی پامالی ہے، اور یہ عمل، ہمارے عدالتی نظام کی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔
”بلڈوزر انصاف” کے بھارتی جمہوریت پر دور رس اور تباہ کن اثرات، ایک زہر کی مانند سرایت کر رہے ہیں۔ یہ ظالمانہ روش، ملک میں خوف اور دہشت کا ایک ایسا ماحول پیدا کر رہی ہے کہ عام شہری کا قانونی نظام پر سے اعتماد متزلزل ہو کر رہ گیا ہے۔ جب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ حکومت خود ہی قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہے، اسے پاؤں تلے روند رہی ہے، تو پھر انصاف کی پکار کس کے در پر لے کر جائیں؟ یقیناً ایسی صورتحال میں انصاف پر سے یقین اٹھ جانا، جمہوریت کے کھوکھلے وعدوں پر اعتبار نہ کرنا، ایک فطری امر ہے۔ مزید برآں، یہ جابرانہ عمل اختلاف رائے اور احتجاج کی ان تمام آوازوں کو بھی دبا دیتا ہے جو کسی بھی صحت مند جمہوریت میں تنقید اور احتساب کا لازمی اور ناگزیر جزو ہوتی ہیں۔ جہاں جمہوریت میں اختلاف اور احتجاج، حکومت کو جوابدہ بنانے اور شکایات کے ازالے کا ایک بنیادی اور جائز ذریعہ ہیں، وہیں ”بلڈوزر انصاف” ان تمام جمہوری اقدار کو بے رحمی سے پامال کر کے، اختلاف کی ہر صدا کو بلڈوزر کی گرج میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دینے کی سازش ہے۔ یہ ”بلڈوزر انصاف”، ہماری آئینی اقدار کی جڑوں کو کھوکھلا، اور ہمارے جمہوری ڈھانچے کی بنیادوں کو کمزور سے کمزور تر کرتا جا رہا ہے۔ یہ مناسب قانونی عمل، مساوات اور عدالتی نگرانی جیسے بنیادی اصولوں کو پامال کر کے، من مانی طاقت اور انتظامیہ کی بے لگام زیادتی کا ایک ایسا جابرانہ نظام مسلط کر رہا ہے جو ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرے گا۔
”بلڈوزر انصاف” کے دل دہلا دینے والے واقعات کی ایک طویل اور لرزہ خیز فہرست ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے رقم ہو رہی ہے۔ 2022 میں پریاگ راج میں جاوید محمد کے گھر کی مسماری، اس سفاکیت کی ایک زندہ اور تازہ مثال ہے۔ جاوید محمد کو محض احتجاج میں شرکت کے ناروا الزام میں نشانہ بنایا گیا، حالانکہ ان کے بے بس خاندان نے بارہا کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے سے صاف انکار کیا اور اس ظالمانہ انہدام کو سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا۔ لیکن بے حس حکومت نے کسی کی فریاد نہ سنی، انصاف کی پکار ان کے بہرے کانوں تک نہ پہنچی اور بلڈوزر، قہرِ حکومت بن کر، ان کے آشیانے پر ٹوٹ پڑا۔ اسی طرح، 2022 میں جہانگیرپوری میں انہدام کی ظالمانہ اور غیر انسانی کارروائی کو بھی فرقہ وارانہ فسادات کی آڑ میں غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کا ایک مضحکہ خیز نام دیا گیا، لیکن حقیقت سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ یہ بھی مسلمانوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی اور گھناؤنی سازش تھی۔ سپریم کورٹ نے بیچ میں مداخلت کی تو یہ انہدام کی وحشیانہ اور بے رحم لہر کسی حد تک تھمی۔ اور پھر 2024 میں ادے پور میں ایک طالب علم کے گھر کو محض اس بے بنیاد الزام پر بلڈوزر سے نیست و نابود کر دیا گیا کہ اس نے کسی بے گناہ کو چاقو مارا تھا۔ یہ چند منتخب واقعات، اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ”بلڈوزر انصاف” کا یہ موذی ناسور کس طرح پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور اب یہ حکمرانی کا ایک ایسا بھیانک اور ناقابل برداشت معمول بنتا جا رہا ہے، جو ہماری جمہوریت کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور ہمیں ایک ایسے مستقبل کی جانب دھکیل رہا ہے جہاں قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور باقی نہیں رہے گا۔
”بلڈوزر انصاف” کے حامی، اس وحشیانہ اور غیر انسانی عمل کو جرائم کے خلاف ایک ناگزیر اقدام اور غیر قانونی تجاوزات کے خاتمے کا واحد اور حتمی ذریعہ قرار دینے کی مضحکہ خیز اور لاحاصل کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ دلیلیں کسی کھوکھلے ڈھول کی مانند، اندر سے بالکل خالی اور بے وزن ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس جابرانہ نظام کا نشانہ ہمیشہ سے پسماندہ اور کمزور طبقات ہی رہے ہیں، جبکہ بااثر اور امیر لوگ اس کی آہنی گرفت سے محفوظ و مامون ہیں۔ قانونی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی بھی قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے، اور بغیر کسی منصفانہ سماعت کے، محض الزام کی بنیاد پر، کسی بھی شہری کے گھر کو مسمار کر دینا انصاف کے بنیادی اصولوں کی صریح اور سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ ”بلڈوزر انصاف” جرائم کی شرح کو کم کرتا ہے، ایک بودا، بے بنیاد اور مضحکہ خیز بہانہ ہے۔ اصل اور حقیقی مقصد تو صرف اور صرف مخصوص طبقات کو خوفزدہ کرنا اور اختلاف رائے کی ہر آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینا ہے۔
تاہم، اس گھٹاٹوپ اندھیری رات میں امید کی ایک کمزور اور لرزتی ہوئی شمع روشن ہوتی ہے، اور وہ ہے 2024 میں سپریم کورٹ کی بروقت اور جرات مندانہ مداخلت۔ عدالت عظمیٰ نے من مانی مسماری پر قدغن لگا کر اور 15 دن کا نوٹس اور مناسب قانونی عمل کو ہر صورت لازمی قرار دے کر، یقیناً انصاف کے متلاشیوں کے لیے ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ عدالت نے دو ٹوک اور بے لاگ الفاظ میں ”بلڈوزر انصاف” کو ”قانون کی حکمرانی میں کسی بھی صورت ناقابل قبول” قرار دے کر، اس خطرناک اور افسوسناک رجحان کے آگے ایک مضبوط اور فولادی بند باندھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عدالتی مداخلت اس بے رحم اور سفاک عفریت کو ہمیشہ کے لیے زیر کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟ کیا اس سے ان سیاسی محرکات کی بنیادوں میں کوئی حقیقی اور دیرپا تبدیلی رونما ہو سکے گی جو اس ظالمانہ اور غیر انسانی روش کو مسلسل ہوا دے رہے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ سوال ہنوز تشنہ جواب ہے۔ ناگپور میں فہیم خان کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا حالیہ، دلخراش واقعہ، ایک تلخ اور ناقابل تردید حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے، جہاں محض ناگپور دنگوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ قرار دے کر، ان کا آشیانہ خاک میں ملا دیا گیا۔ یہ دنگے، جن کی بنیاد وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی جانب سے اورنگزیب عالمگیر علیہ رحمہ کے مزار کو ہٹانے کے غیر انسانی مطالبے پر رکھے گئے احتجاج پر تھی، اور جن میں اسلامی شعائر کی بدترین بے حرمتی کے شرمناک الزامات بھی لگے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک اور المناک سچائی ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح اور دو ٹوک احکامات کے باوجود، بلڈوزر کی یہ دھمک، یہ جبر و استبداد کا بھیانک استعارہ، آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ حکومت کے باگ ڈور سنبھالے ہوئے لیڈر، آج بھی فخریہ انداز میں اپنے جلسوں اور انتخابی تقریروں میں بلڈوزر کا برملا ذکر کرتے ہیں، جو اس بات کی واضح اور ناقابل تردید علامت ہے کہ ”بلڈوزر انصاف” کے پیچھے کارفرما ذہنیت، تعصب، نفرت اور بربریت کی وہ آگ، ابھی تک بجھی نہیں ہے، بلکہ اندر ہی اندر سلگ رہی ہے اور کسی بھی وقت ایک اور بھیانک شعلہ بن کر بھڑک سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے رہنما خطوط، بلاشبہ، ایک خوش آئند اور بروقت پیش رفت ہیں، لیکن ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد اور ”بلڈوزر انصاف” کو جنم دینے والے ان گہرے سیاسی اور سماجی رویوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ابھی باقی ہے، اور یہ ایک کٹھن، صبر آزما اور طویل جدوجہد کا متقاضی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ”بلڈوزر انصاف” محض انتظامیہ کی جانب سے ایک وقتی زیادتی نہیں، بلکہ بھارتی جمہوریت کی بنیادوں کے لیے ایک خاموش قاتل، ایک زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ آئینی اقدار کو پامال، قانون کی حکمرانی کو کمزور، عدم مساوات کو فروغ اور خوف و ہراس کا ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جو جمہوریت کے لیے سمِ قاتل ہے۔ عدالتی مداخلت، اس اندھیرے میں امید کی ایک کمزور کرن، ایک ضروری بریک ضرور ہے، لیکن اس ظالمانہ اور جابرانہ روش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پیہم اور مسلسل جدوجہد لازم ہے، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنی آنکھوں سے اپنی پیاری جمہوریت کی بنیادیں مسمار ہوتے دیکھیں گے۔ یہاں، ہمیں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے ان الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا کہ ”آئینی اخلاقیات، نہ کہ اکثریت کی طاقت، کو ہی بھارت کے جمہوری سفر کی رہنمائی کرنی چاہییظلم اور بربریت پر مبنی اس ہولناک عمل کو ہر صورت روکنا ہوگا، اور اس کی جگہ انصاف، مساوات اور جمہوری اقدار کی پائیداری کے اس ابدی عزم کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا جو ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا تھا۔ ورنہ، ہماری یہ خاموشی، ہماری بے حسی، ہماری جمہوریت کی آخری رسومات، اور اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
========
Like this:
Like Loading...
اس طرح کی کارروائیاں ہندوستان کا عام شہری بھی نہیں چاہتا ۔ان کاروائیوں سے سب سے زیادہ متاثر عام شہری ھی ھوتا ھے ۔ان لوگوں کے بچے ایسے یا قریبی ایسی کارروائیوں سے کوسوں دور رھتے ھیں ۔