Skip to content
حیدرآباد،5اپریل( پریس نوٹ)کل ۴/ اپریل بعد نماز جمعہ فیض گاہ ، آصف نگر حیدرآباد میں علماء و دانشوران کی ایک نشست بلائی گئی تھی ، جس میں پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کے پاس ہونے کے بعد ملکی اور ریاستی سطح پر اس بل کی مخالفت اور مستقبل میں اوقاف کے تحفظ کے امکانات سے متعلق غور وفکر کیا گیا۔
اقلیتوں سے جڑے مسئلہ پر خود اقلیتوں کی مانگ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ، اور ملک کی اکثریتی سیاسی جماعتوں کی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے، انتہائی حساس مسئلہ پر قانون سازی کو متعارف کراکر ، وقف ترمیمی بل ۲ اپریل کو پارلیمنٹ میں پاس کردیا گیا، یہ بل پاس کرانا نہ صرف اقلیتوں پر بلکہ ہندوستان کے دستور پر براہ راست حملہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش ہے۔
ملک کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے وقف ترمیمی بل کی مخالفت کی، اس کے باوجود، بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے اس بل کو لوک سبھا میں منظور کرایا، جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اگرچہ اس بل کو ایوان نے منظور کر لیا گیا ہے ، لیکن اس کے خلاف ووٹوں کی نمایاں تعداد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 232 ارکان نے بل کی مخالفت کی اور یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔
بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کا دعوی کہ یہ اقلیتی برادریوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے، سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، بابری مسجد کو منہدم کرنے والی ، مسلم اقلیت کے خلاف فسادات اور موب لینچنگ کو فروغ دینے والی، مسلم پرسنل لاء کی مخالفت کرنے والی، اقلیتوں کے ریزرویشن کو ختم کرنے والی، اور ان کی باشندگی کو خطرہ میں ڈالنے کی سازش کرنے والی جماعت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اس بل سے اقلیتوں کو فائدہ پہنچانے کا دعوی کرے، یہ ایک مضحکہ خیز دعوی ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے صاف طور پر اس بل کو نہ صرف ’’مسلم مخالف‘‘ بلکہ سیکولرازم کے اصولوں کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کی ہے۔
ان حالات میں اس مسئلہ پر عملی کام کے لئےطے کیا گیا کہ :
ملکی سطح پر کسی بھی پیش رفت کےلئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہدایت کا انتظار کیا جائے گا، اور بورڈ کے دئیے ہوئے لائحہ عمل پر اقدام کیا جائے گا، اور اس تحریک کو ریاست بھر میں مستحکم کیا جائے گا۔
سر دست فوری طور پر ریاستی سطح پر کوشش کی جائے گی کہ تلنگانہ اسمبلی سے بھی وقف ترمیمی قانون سے متعلق ویسی ہی قرار داد منظور ہو جائے جیسے 27 مارچ کو تمل ناڈو اسمبلی نے وقف ترمیمی بل کو واپس لینے پر زور دیتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اس سے مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے اور اقلیتی مسلم کمیونٹی پر منفی اثر پڑتا ہے۔
اس مقصد سے علماء و دانشوران کی ایک جماعت حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم امیر شریعت صوبہ تلنگانہ آندھرا کی ہدایت پر بر سراقتدار پارٹی کانگریس کے لیڈر اور اپوزیشن بی آر ایس کے لیڈروں سے بھی ملاقات کرے گی ، اور زور دے گی کہ تلنگانہ اسمبلی سے بھی وقف ترمیمی قانون سے متعلق ویسی ہی قرار داد منظور ہو جائے جیسے 27 مارچ کو تمل ناڈو اسمبلی سے منظور ہو چکی ہے، او رپڑوسی ریاست کرناٹک اسمبلی سے بھی اس طرح کی قرار داد کو منظور کرنے کی منصوبہ بندی چل رہی ہے۔
اضلاع کے علماء و دانشور طبقہ سے بھی درخواست ہے کہ اپنے اپنے حلقہ میں اسمبلی ممبران سے اجتماعی ملاقاتیں کرکے ریاستی ااسمبلی میں اس قانون کی مخالفت میں قرار داد منظور کرانے کا پر زور مطالبہ رکھیں۔
علماء و دانشوران اورامت کے درد مند طبقہ سے پر زور اپیل کی جاتی ہے کہ اس مہم میں عملاً حصہ لینے کے لئے اپنے وقت کو فارغ کریں۔ اس موضوع پر شہر اور ریاستی علماء کرام، تنظیموں کے سربراہان اور دانشوران کی مزید ایک نشست منعقد کی جائے گی، جس کا عنقریب اعلان کیا جائے گا۔
Like this:
Like Loading...