Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Abdullah Tariq

جناب عبداللہ طارق صاحب سے متعلق چند اہم اور ضروری وضاحتیں

Posted on 04-07-202407-07-2024 by Maqsood

جناب عبداللہ طارق صاحب سے متعلق
چند اہم اور ضروری وضاحتیں

از: محمد انصار اللہ قاسمیؔ،
فون نمبر:9985030527
آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت حیدرآباد
استاذ : المعہد العالی الاسلامی ، حیدرآباد

گذشتہ چند ماہ پہلےحیدرآباد کی بعض مساجد اور شادی خانوں میں جناب عبد اللہ طارق صاحب کے پروگراموں کا اعلان ہو ا اور سوشیل میڈیاپر ان پروگراموں کی کا فی تشہیر بھی کی جانے لگی، چوں کہ جناب عبداللہ طارق صاحب کے افکار وخیالات بہت کچھ بدل گئے تھے، افسوس کہ یہ تبدیلی اس حد تک آگے پڑھ گئی کہ گمراہی کی آخری انتہاء’’الحاد‘‘ کو چھونے لگی، اس لئے عام مسلمانوں سے کہاگیا کہ وہ ان پروگراموں کی نہ تشہیر کریں اور نہ ان میں شریک ہوں، الحمد اللہ اس کے بعد مساجد کمیٹی کے ذمہ داران نے اپنے یہاں عبد اللہ طارق صاحب کے طے شدہ پروگرام منسوخ کردیئے،اس کار وائی کے دوران اور اُس کے بعد بھی یہ بات بہت زیادہ سننے کو ملی:
’’ہمیں عبد اللہ طارق صاحب کے افکا روخیالات سے کیا لینا دینا، ہم صرف ان کا طریقہ کار دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ غیر مسلموں میں کس طرح دعوت کا کام کرتے ہیں ‘‘
اس طرح یہ سوال پید اہوا کہ دعوتِ دین میں داعی کے افکار وخیالات سے زیادہ کیا اس کا طریقۂ کا ر اہم ہے؟ کیا طریقۂ کا رکے مفید اور بہتر ہونے کی بناافکار وخیالات کی سنگین گمراہی کو نظر انداز کیا جاسکتاہے؟اس سلسلہ میں چنداہم اور ضروری وضاحتیں پیش خدمت ہیں:

1) افکار ونظریات بہ مقا بلۂ طریقۂ کار:
دعوتِ دین کے میدان میں داعی کے طریقۂ کار سے زیادہ اس کے افکار ونظریات کی اہمیت ہے، داعی اگر اپنے عقیدہ ونظریہ میں حق پر ہوگا تو اس کی دعوت بھی حق ہوگی، اس لئے کہ دعوت عقیدۂ ونظریہ کی دی جاتی ہے نہ کہ طریقہ کار کی، عقیدۂ ونظریہ تبدیل نہیں ہوتا، جب کہ طریقۂ کار وقت ، حالات ، موقع محل ،مدعو کی نفسیات اور خود داعی کے تجربات کے لحاظ سے بدلتے رہتاہے، مثلاً توحید، رسالت ، آخرت ،یہ اسلام کے بنیادی عقائد ہیں ، ان کے معانی ومفاہیم کبھی بدلتے نہیں، البتہ مدعوکی حیثیت اور اس کی ذہنی صلاحیت کی وجہ سے ان عقائد کو بتانے وسمجھانے کا انداز وطریقہ کار الگ ہوسکتاہے، اب اگر کوئی نام نہاد داعی اپنی خاص فکر وسوچ کے مطابق توحید کا مطلب یوں سمجھانے لگے کہ ’’ فلاں کی ذات میں اللہ تعالیٰ حلول کرگیاہے، اُس ذات کو ماننے کا نام توحید ہے‘‘ رسالت کا معنی یوں بتانے لگے کہ ’’دنیا میں انبیاء کی آمد کا سلسلہ شروع سے جاری تھا اور ہمیشہ جاری رہے گا، اب اس دور میں مرزا غلام قادیانی کو نبی و پیغمبرماننا عقیدۂ رسالت میں داخل ہے‘‘ اس طرح کی واہیات اور خرافات خواہ کتنے ہی بہتر انداز میں اور نہایت خوبصورت ’’طریقہ کار‘‘ کے ساتھ کیوں نہ پیش کی جائیں ، اس کو گمراہ وملحدانہ افکار ونظریات کی ملحدانہ دعوت ہی سمجھا جائے گا نہ کہ خود اسلام کی دعوت۔

2) فتنۂ پرداز مبلغین کا استقبال:
اگر داعی کے گمراہ عقائد ونظریات کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اس کے طریقہ کار سے استفادہ کو صحیح مان لیاجائے تو ہمیں اپنے درمیان بہت سے خارجِ اسلام گمراہ فرقوں کے فتنۂ پرداز مبلغین کا بھی استقبال کرنا بڑے گا، مثلاً قادیانی فرقہ، اور دیندار انجمن وغیرہ،ان لوگوں کا بھی بہت زیادہ پروپیگنڈہ ہے کہ وہ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کررہے ہیں ، توکیا محض ان کے طریقۂ کار کی خوبی کی وجہ سے ہم انھیں اپنی مسجدوں میں مدعوکریں گے؟ اور ان سے ہم دعوت کا کام سیکھیں گے؟؟ بالکل نہیں!!کیوں کہ ان کی دعوت ، دعوت اسلام نہیں بلکہ اپنے کفریہ عقائد اور ملحدانہ خیالات کی تبلیغ ہے، اگر کوئی ان کو سچ اور حق مان کرا ن کی دعوت قبول بھی کرلیتاہےتو وہ ’’ آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا‘‘ کا مصداق ہے۔

3) دعوتِ دین کے سچے اور صحیح ہونے کا معیار اور پیمانہ کیا ہے؟:
اس کا معیار کتاب وسنت میں بیان کردہ اسلام کے بنیادی عقائد ونظریات ہے، جس کی تفسیر وتشریح صحابہ کرام سے لے کر ہر دور کے سلفِ صالحین اور بزرگانِ دین نے کی ہے، قرآن وحدیث میں بیان کردہ ان بنیادی عقائد ونظریات کو سلفِ صالحین کی تشریحات وتوضیحات کی روشنی میں پیش کرنے کے بجائے اگر کوئی شخص اپنے ذاتی افکار ونظریات کی آمیزش کے ساتھ اور ملمع سازی کے زریعہ دین کی دعوت کو پیش کررہاہے تو یہ خالص دین کی دعوت نہیں اپنی گمراہ سوچ وفکر کی دعوت ہے،یہ گویا دودھ میں پانی ملاکر پیش کرناہے، دودھ میں پانی ملانا پھر بھی کسی حد تک لائقِ استعمال ہونے کی بناقابل برداشت ہے، مثلاً کوئی صاحب علم اپنی تحقیق کی وجہ سےفقہیات میں اگر اپنی کچھ خاص رائے رکھتے ہیں تو یہ سمجھ کرکہ دین کی بنیاد اور اصل تو اپنی جگہ باقی ہے، توکسی نہ کسی درجہ میں دعوتی مقاصد اور مصالح کی وجہ سے ان کے شذوذ کو گوارہ کیاجاسکتاہے، لیکن ایمانیات ہی میں جوکہ دین کی اصل اور بنیادہے اگر کوئی شخص ان میں اجماعِ امت سے ہٹ کر اپنی الگ رائے رکھتاہے اور اس میں تحریف کرتاہے تو پھر یہ دودھ میں پانی نہیں زہر ملانے کے مترادف ہے ، جو درحقیقت ملحدانہ سوچ پر مبنی اپنے زہر آلودا افکار و نظریات سے غیر مسلموں میں دعوت ِ دین کی عظیم محنت کو زنگ آلود کرناہے، اس سے دین حق کی ہدایت ورہنمائی تو حاصل نہیں ہوگی لیکن گمراہی و بے دینی کا ایک نیا دروازہ ضرور کھل جائے گا، گویا’’یک نہ شددرشد‘‘ غرض یہ کہ اپنے ذاتی افکار وخیالات کی آمیزش وملاوٹ کے بغیر دین حق کی خالص دعوت ہی ہمارے لئے قابل قدر اور لائق تحسین ہے۔

4) مشہور وسرکردہ علماء کرام کی پذیرائی:
جناب عبداللہ طارق صاحب کے گمراہ کن افکار ونظریات سے اختلاف کرنے پر یہ بھی کہاگیا فلاں معروف اور نامور عالم دین نے اپنے ادارہ میں موصوف کے دعوتی ورکشاپس رکھوائے تھے اور اپنے طلبہ کو بھی موصوف کے یہاں رامپور تربیت کے لئے بھیجے تھے، یہ بات صحیح ہے، لیکن ایساصرف ایک ادارہ میں نہیں بلکہ ندوۃ العلماء جیسے مرکزی ادارہ میں بھی موصوف کے لکچرس ہوچکے ہیں،مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب عبد اللہ طارق صاحب کے افکار وخیالات میں گمراہ کن تبدیلی نہیں آئی تھی، اس وقت موصوف عقائد کے باب میں اِ دھر اُدھر کی بحثوں میں الجھنے کے بجائے صرف غیر مسلموں میں دعوتی کام کی ضرورت واہمیت اور اس کے طریقہ کار پر ہی اپنی گفتگو کو محدود رکھتے تھے، اس سلسلہ میں وہ عام فہم انداز میں قرآن مجید کی آیات اور احادیث سے استدلال کرتے، توحید ، رسالت سے متعلق ہندومذہبی کتابوں کے شواہد پیش کرتے اور اسلام پر پنڈتوں کے اعتراضات کے جوابات دیتے، علماءکرام چوں کہ غیر مسلموں میں دعوت کے کام کی اہمیت اور اس کی ضرورت کو خوب جانتے ہیں، اس لئے محض دعوتی نقطۂ نظر سے عبد اللہ طارق صاحب کو اپنے یہاں مدعو کرتے، لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ دعوتی کام کی نسبت سےسرکردہ علماءکرام کی پذیرائی کی وجہ سے شاید موصوف بہت زیادہ خوش فہمی کا شکارہوگئے، وہ یہ سمجھنے لگے کہ دعوت کے عنوا ن سے میںجو کچھ بھی کہوں گا علماء اگر اس کو قبول بھی نہ کریں تو کم از کم اس پر کوئی اعتراض واشکال تو نہیں کریں گے، مگراللہ کے رسول ﷺ کے فرمان کی روشنی میں کہ ’’یحمل ھذا العلم من کلِّ خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الجاھلین وا نتحال المبطلین وتأویل الغالین‘‘ (مشکوۃ کتاب العلم) ہر دور کے ماہر اور مخلص علماءکرام کی یہ روشن وتابناک تاریخ رہی کہ دین کے مسلّمات سے ذرہ برابر انحراف اور ان میں رتی برابر تحریف کو انھوں نے برداشت نہیں کیا۔
اس لئے جب عبد اللہ طارق صاحب نے اپنے ورک شاپس میں گمراہ خیالات پیش کرنے لگے تو خود طلبہ میں شدید بے چینی پید اہونے لگی اور طلبہ نے سوالات کرنے شروع کردیئے، اس کے بعدجب موصوف کے تعلق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ دعوت کے نام پر دین کے مسلّمہ اور بنیادی عقائد ونظریات سے بغاوت کو پھیلارہے ہیں تو سرکردہ علماء کرام نے پہلے تو موصوف کی اصلاح کرنے کی مخلصانہ کوشش کی لیکن جب کسی طرح بات نہیں بنی تو موصوف سے قطع تعلق کرلیا اور انھیں اپنے اداروں میں مدعوکرنا چھوڑ دیا۔
اب یہاں نہ عبد اللہ طارق صاحب سرکردہ علماءکرام کے درمیان اپنی سابقہ پذیرائی کو اپنے موجودہ گمراہ خیالات کے صحیح ہونے کی دلیل ٹھیراسکتے، کیوں کہ یہ پذیرائی خیالات میں گمراہ کن تبدیلی سے پہلے کی ہے، اس کے علاوہ خود عام مسلمان بھی ان سر کردہ علماءکرام سے بدگمانی نہیں رکھ سکتے، اس لئے کہ جب کوئی شخص ابتداء میں صحیح اور اچھاکام کررہا ہوتو عوام کے فائدہ کے لئے اس کو سراہاجائے گا اور ان سے استفادہ کی ترغیب دیں گے، پھر وہ شخص بعد میں اپنے شامتِ اعمال کی وجہ سے غلط راہ پر جاپڑے تو اس میں ان علماء کرام کا قصور کیاہے، وہ کوئی ’’عالم الغیب‘‘ تو نہیں ہے کہ انھیں ان کی گمراہی کا پہلے سے اندازہ ہوتا اور وہ ان سے دور رہتے، یہ توگویا ایسے ہی جیسے کوئی آدمی کسی بزرگ اور اللہ والے کی صحبت میں کہ خوب اس سے فائدہ اٹھایا، پھر خداجانے کیا ہوا آگےچل کر وہ گمراہ اور بے دین ہوگیا، تو کیا اس ارتداد اور گمراہی کی وجہ سے اس اللہ والےکی بزرگی پر سوالات کھڑے کئے جائیں گے؟؟ نہیں ، اس لئے کہ ہدایت کا دینااللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہدایت پر استقامت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے، مَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا۝۱۷ۧ (سورہ کہف:۱۷) پس جن سرکردہ علماء کرام نے ابتداء میں اپنے اداروں میں عبداللہ طارق صاحب کے پروگرام رکھوائے تھے، ان کےباوقار مقام ومرتبہ ،بلندپایہ حیثیت اور قابل اعتماد شخصیت پر سوالات نہیں کیئے جاسکتے۔

5) علماء، دین کے مبلغ بھی اور محافظ بھی:
جناب عبداللہ طارق صاحب کے اس معاملہ میں بعض حضرات کو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ علماء کرام غیر مسلموں میں نہ خود دعوت کا کام کرتے ہیں، بلکہ اُلٹا دعوتی کام سے جڑے افراد کو متہم اور بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ خیال درست نہیں ہے ، اس لئے کہ الحمد للہ خدمتِ دین ومسلمین کے دیگر شعبوں کی طرح علماء کرام غیر مسلموں میں دعوتِ دین کی جدوجہد سے بھی وابستہ ہیں، بہت ہی خاموش طریقہ پر ، سیدھے سادھے مخلصانہ اور ٹھوس انداز میں وہ دعوتی میدان میں سرگرم ہیں، مثلاً حضرت مولانا عبداللہ حسنی ؒ کے کئی ایک شاگرد اور اصلاحی تعلق رکھنے والے حضرات غیر مسلم بھائیوں میں دعوت کا کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ حضرت الاستاذ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی براہ راست نگرانی میں آپ کے کئی ایک شاگرد اور داعی حضرات کام کررہے ہیں، راقم الحروف بعض ایسے علماء کرام سے بھی واقف ہے جو اگرچہ اپنی خدمات وسرگرمیوں پر دعوت کا عنوان اور ٹائٹل تو نہیں لگایاہے، لیکن ان حضرات کی داعیانہ تڑپ کی وجہ سے ان کے ہاتھ پر کئی ایک غیر مسلم حضرات مشرف باسلام ہوچکے ہیں۔

دوسرے یہ کہ علماء کرام کی حیثیت دین کے مبلغ کے ساتھ دین کے محافظ کی بھی ہے، عام داعی حضرات کی طرح وہ صرف مبلغ نہیں ہیں، مبلغ کی حیثیت سے علماء کرام اپنی صلاحیت کے مطابق خود غیر مسلموں میں دعوت کا کام بھی کررہےہیں، کچھ ذمہ دار اور سرکردو علماءکرام اپنی نگرانی وسرپرستی کے ذریعہ داعی حضرات کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمارہے ہیں، پھر جب وہ بعض داعی حضرات کے کاموں میں غلطی اور گمراہی محسوس کرتے ہیں تو دین کے محافظ ہونے کی حیثیت سے وہ اس پر نکیر کرتے ہیں، اس طرح وہ تبلیغ دین اور حفاظتِ دین دونوں ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، البتہ داعی کے مقابلہ میں محافظ کی ذمہ داری بہت زیادہ اہم اور نازک ہوتی ہے، داعی کے مقابلہ میں اس کو بہت زیادہ چوکنا اور چوکس رہناپڑتا ہے، ورنہ پھر چوکیداری اور پہرہ داری کا کوئی مطلب ومقصد ہی نہیں رہ جاتا، مثلاً دفاعی اداروں میں جو ہائی سیکورٹی زون ہوتاہے، وہاں معمولی مچھروں اور مکھیوں کی بھن بھناہٹ سے بھی لال بتیاں روشن ہوجاتی ہیں، سیکورٹی گارڈبلا تاخیر ہتھیار سنبھالے ایکشن لے لیتے ہیں، ایسے موقع پر کوئی عقل مند طنزنہیں کرتاکہ یہ خواہ مخواہ اور غیرضروری کاروائی ہے، ایساہی معاملہ ’’ ایمانیات‘‘ کا ہے، یہ اصل میں ’’ہائی سیکورٹی زون‘‘ ہے، اگر اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹ کر اگر کوئی شخص نئی نئی باتوں کے ذریعہ اس ہائی سیکورٹی زون میں دخل اندازی کرتاہے تو اِس زون کی سیکورٹی فورس یعنی علماء کرام کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر اپنی مومنانہ فراست اوردینی بصیرت سے یہ تاڑ لیتے ہیں کہ یہ شخص نہ معلوم آگے چل کر کیا گل کھلائے گا، اس لئےبرسرِ موقع اس کی دخل اندازی کو ناکام بنادیتے ہیں۔
پس جومنصف مزاج شخص علماء کرام کی ان دونوں حیثیتوں (مبلغ دین، محافظ دین)پر غور کرے گا وہ بعض داعی حضرات کی گمراہ کن باتوں پر علماء کرام کی نکیر کو غلط نہیں سمجھے گا۔
تیسرے یہ کہ دعوتِ دین کا مقصد اسلام میں صرف غیر مسلموں کی ’’بھرتی‘‘ کرنا نہیں ہے، اس کا مقصد صحیح سوچ وفکر کے ساتھ انھیں اسلام کے سچے راستہ پر لگانا اور اس پر گامزن رکھنا ہے، جیسے جب کوئی شخص کسی معتبر اور باوقار ادارہ یا کمپنی سے وابستہ ہونے کا ارادہ کرتاہے تو کمپنی /ادارہ کے ذمہ داران اس کو پہلے اپنے اصول وضوابط سمجھاتے ہیں، اس سے ان اصول وضوابط کی پابندی اور پاسداری کا حلف لیتے ہیں، جب انھیں مکمل اطمینان اور اعتمادہوتا ہے تو اس شخص کو اپنے ادارہ/کمپنی میں شامل اور شریک کرلیتے ہیں، اب اگر کوئی اپنی گمراہ فکرکے ساتھ کسی کو دین کی دعوت دے رہاہے تو گویا وہ اس شخص کو اسلام میںداخل کرنے کے بجائے، اسلام میں اس کی بھرتی کررہاہے، یہ چیز جب ایک معمولی ادارہ سے وابستگی کے لئے نہیں چل سکتی تو اسلام میں داخلہ کے لئے کیوں کر اس کو قبول کیا جاسکتاہے؟؟ صرف عقل وخرد کا مسلمان بنانا کافی نہیں، بلکہ دل ونگاہ کو بھی مسلمان کرنا ضروری ہے۔؎

خرد نے کہہ بھی دیا لاالٰہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور یہ بھی کہ:
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

6) عوام کا غیر سنجیدہ مزاج اور نا معقول رجحان:
گمراہ اور ملحدانہ خیالات ونظریات کے حامل نام نہاد داعیوں کے پروگراموں میں کثیر تعداد میں عوام کی شرکت کو دیکھ کر بعض حضرات اس شرکت کو گمراہ افکارو خیالات کے سچے اور صحیح ہونے پر محمول کرتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ اگر یہ داعی غلط اور گمراہ ہوتےتو ان کے پروگراموں میں عوام کی اتنی بڑی تعداد کیوں شریک ہوتی؟ یہ اصل میں ایک مغالعہ اور دھوکہ ہے، عوام کی کثرت یا قلت سے کسی کے نظریہ اور عقیدہ صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، صحیح یا غلط ہونے کی جانچ اس طرح ہوگی وہ نظریہ /عقیدہ اپنےآپ میں کتنی صداقت اور معقولیت رکھتاہے؟؟ قابل ترین ڈاکٹر س کے مقابلہ میں بعض باباؤں کے یہاں زیادہ بھیڑ ہوتی ہے تو کیا ڈاکٹروں کے علاج کے مقابلہ میں بابا ؤں کے علاج کو صحیح مان لیا جائے گا؟؟ بامقصد جلسوں اور فائدہ مند پروگراموں سے زیادہ فلمی اداکاروں کے تماشوں میں عوام کی شرکت ہوتی ہے، تو کیا ان تماشوں کی اہمیت بامقصد پروگراموں سے بڑھ جائے گی؟؟ اس لئے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ کسی کی دعوت یاتحریک کے صحیح ہونے کا اندازہ اس سے لگایاجائے کہ وقت کے صاحب بصیرت علماء وصلحاء اس سے متفق ہیں یا نہیں؟ اگر متفق نہیں تو کم از کم اس کے مخالف تو نہیں ہیں۔

اصل مسئلہ عوام کے مزاج ورجحان کا بھی ہے، عوام کو سیدھے سادھے انداز میں سلفِ صالحین کی تشریحات کے حوالہ سے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو سننے اور سمجھنے میں دلچسپی نہیں ہوتی، البتہ نئی اور پُراسرار باتوں کو بہت شوق و دلچسپی سے سنتی ہیں، علماء کرام کے بارے میں عام لوگ کہتے ہیں، ’’یہ کیابھائی! بولے سو بولتے رہتے کبھی کچھ نئی بات نہیں بتاتے‘‘ اب علماء عوام کی بے جا خواہش کی بناپر کتاب وسنت کی تعلیمات کو چھوڑ کر دین کے نام پر ادھر اُدھر کی واہیات تو نہیں سنا سکتے، اس لئے مسئلہ گمراہ کن خیالات کی صداقت اور ملحدانہ نظریات کی معقولیت کا نہیں، غیر معقول اور سچائی واچھائی سے غیر مانوس عوامی مزاج ورجحان کا ہے۔

7) فکر ونظر میں توازن و اعتدال:
کوئی بھی کام یا کاز ہو کام کرنے والوں اور کاز سے وابستہ افراد کے فکر و نظرمیں توازن و اعتدال نہایت ضروری ہے، آدمی کو اپنے کا م کا دائرہ اور اس کا جغرافیہ معلوم ہونا چاہئے، وہ ایسی باتیں نہ کہے اور ایسی بحثیں نہ چھیڑیں، جن سے وہ اپنے مقصد و مشن سے دور ہوجائے، سامعین کی طرف سے بعض مرتبہ دانستہ طور پر مقرر کے موضوع سے ہٹ کر غیر ضروری سوالات کیئے جاتے ہیں، ایسے موقع پر نفسیاتی طور پر مقررکو ایک انجانا ساخوف رہتاہے کہ اگر جواب نہ دیاجائے تو میری لاعلمی اور نا واقفیت کی پول کھل جائے گی، اس لئے وہ جیسے تیسے جواب دینےکی کوشش کرتاہےاور ہمہ دانی کے شوق میں بھیانک غلطی کر بیٹھتا ہے، حالاں کہ صحیح اور معقول بات یہ ہوتی کہ وہ اپنے موضوع سے غیر متعلق سوالات کے جوابات دینے سےمعذرت کرلیتا،اس لئے کہ یہ بلند پایہ اہل علم کا انداز اور طریقہ کار رہاکہ وہ ہر سوال کا جواب دینے کے بجائے مہذب اور باوقار انداز میں اپنی لا علمی کا اعتراف کرلیتے، کیوں کہ خود قرآن مجید میں فرمایا گیا: وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا (بنی اسرائیل:85)اور تمہیں صرف تھوڑا ہی علم دیا گیا۔

اس سلسلہ میں حضرت امام مالک ؒ کا نمونہ ہمارے لئے اسوہ ہے، ایک شخص میلوں سفر کرکے آپ ؒ کی خدمت میں حاضرہوا، اور بہت سارے سوالات کیئے، آپؒ نے اکثر سوالوں کے جواب میں فرمایا:’’لاادری‘‘ مجھے نہیں معلوم ، اس پر اُس آدمی نے کہا: میں تو آپ کے علم کا بہت چرچااور شہرہ سناتھا، لیکن یہاںپہونچ کر تو مجھے مایوسی ہوئی، حضرت امام مالکؒ نے فرمایا: ’’لاادری‘‘ (مجھے نہیں معلوم) کہنا خود ایک بڑا علم ہے، صرف عالم ہونا کمال نہیں، اپنے علم کا معیار اور اُس کی حد بھی معلوم ہونا از حد ضروری ہے، یہ عام مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے جب کسی ماہر ترین ڈاکٹر سے ڈاکٹری سے ہٹ کر کوئی بات پوچھی جائے تو وہ ’’ لاادری‘‘ کہہ دیتاہے، لا ادری کہنا اُس کے جہالت کی دلیل نہیں بلکہ اپنے علم کی حد معلوم ہونے کی بناء اُس کے عالمانہ وقار اور شان کی دلیل ہے، اسی طرح جب کسی کمپوڈر سے بیماری کی جانچ کرانا چاہے تووہ صاف کہے گا میرے علم کا یہ معیار نہیں آپ کے مرض کی تشخیص کروں، پھر وہ ماہر ڈاکٹر سے رجوع ہونے کے لئے کہتاہے، اگر کوئی ماہر ترین ڈاکٹر اپنے خاص شعبہ سے ہٹ کر دوسرے شعبہ میں دخل دیتاہےتو وہ معمولی کمپوڈر سے بھی گیا گذراہے، کیوں کہ اُس کو اپنے علم کا دائرہ اور اس کا معیار نہیں معلوم ، جس کی وجہ سے اس کے پاس ’’لاادری‘‘ کہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔

مگر آج کے نام نہاد داعیوں کا حال یہ ہے کہ وہ ’’لاادری‘‘ کہنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، اس طرح اپنے علم کا دائرہ اور اس کا معیار معلوم نہ ہونے کے اپنی نادانی نا سمجھی کا پختہ ثبوت پیش کرتے ہیں اور پھر ان کے فریب خوردہ سامعین خوب واہ واہ کرتے ہیں کہ’’ ہمارے برادر ، ڈاکٹر، پروفیسرکے پاس توہر سوال کا جواب ہے‘‘۔
٭٭٭٭ ٭

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb