Skip to content
نئی دہلی: 21اپریل (ایجنسیز) سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے بارے میں رکن پارلیمان نشی کانت دوبے کے متنازع بیان کو لے کر توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی مانگ زور پکڑنے لگی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے اٹارنی جنرل کو خط لکھ کر توہینِ عدالت کے مقدمے کی اجازت طلب کی ہے۔
دراصل، توہین عدالت ایکٹ 1971 کی دفعہ 15(1)(بی) اور 1975 میں بنے سپریم کورٹ کے قواعد کے تحت، توہین عدالت کی کارروائی تبھی شروع ہو سکتی ہے جب اٹارنی جنرل یا سالیسٹر جنرل اس کی منظوری دیں۔ اسی تناظر میں وکیل نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کو خط لکھ کر نشی کانت دوبے کے بیان کی تفصیلات دی ہیں۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ نشی کانت دوبے نے سپریم کورٹ پر پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت کا الزام لگایا ہے اور سپریم کورٹ کو افرا تفری پھیلانے والا بھی قرار دیا ہے۔ وکیل نے لکھا، آئین میں سپریم کورٹ کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے۔
نشی کانت دوبے باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے سپریم کورٹ کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی بڑے مقدمات جیسے کرناٹک حجاب کیس اور وقف ترمیمی قانون سے جُڑے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے کہا ہے کہ نشی کانت دوبے نے سپریم کورٹ پر مندروں کے معاملے میں دستاویزات مانگنے اور مساجد کو چھوٹ دینے کا الزام لگایا ہے۔
ان کے مطابق، اس طرح کے بیانات سماج میں سپریم کورٹ کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر بداعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ نشی کانت دوبے نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کا نام لے کر انہیں ملک میں سول وار (خانہ جنگی) کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے بیانات توہین عدالت ایکٹ کی دفعہ 2(سی)(آئی) کے تحت سپریم کورٹ کی توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔ لہٰذا، وکیل نے اٹارنی جنرل سے درخواست کی ہے کہ وہ نشی کانت دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی اجازت دیں۔ قابل ذکر ہے کہ یوپی کے سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر نے بھی سپریم کورٹ میں اس معاملے پر درخواست دائر کی ہے اور اٹارنی جنرل کو الگ سے اجازت کے لیے خط بھی بھیجا ہے۔
Like this:
Like Loading...