Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu

جناب عبداللہ طارق صاحب کے گمراہ اور کتاب وسنت کے خلاف افکار وخیالات

Posted on 04-07-202404-07-2024 by Maqsood

جناب عبداللہ طارق صاحب کے
گمراہ اور کتاب وسنت کے خلاف افکار وخیالات

 

از: محمد انصار اللہ قاسمیؔ،
فون نمبر:9985030527
آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت حیدرآباد
استاذ : المعہد العالی الاسلامی ، حیدرآباد

 

جناب عبداللہ طارق صاحب (رام پور) غیر مسلموں میں دعوتِ دین کے عنوان سے ایک سرگرم ومتحرک اور معروف شخصیت ہیں، دعوت دین جیسے اہم اور ضروری عنوان کی کشش وجاذبیت کی وجہ سے بعض حلقوں میں انھیں خاص توجہ و دلچسپی سے سنا جاتا ہے، یوٹیوب پر ان کے مختلف پروگراموں اور بیانات کے ویڈیوز موجود ہیں،غیر مسلموں میں دعوتِ دین کے عظیم اور مبارک کام کا جذبہ رکھنے والے اور اس کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ جاننے اور سیکھنے کے خواہش مند احباب نے جناب عبداللہ طارق صاحب کے ویڈیو بیانات سنے تو انھیں بہت ہی حیرت ہوئی اور افسوس بھی ہواکہ محترم موصوف دین کے بعض بنیادی عقائد اور حقائق کےبارے میںاہل سنت والجماعت کے خلاف اور نہایت ہی گمراہ کن خیالات رکھتے ہیں اور اندازہ ہوا کہ دین حق کی خالص دعوت کو اپنےباطل افکار و خیالات کی آمیزش و ملاوٹ کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے، یو ٹیوب پر موجود بعض بیانات کو سننے کے بعد موصوف کے جو افکار واضح طور پر سامنے آئے، ان میں ایک اہم مسئلہ حضرت مہدی کے ظہورکے عقیدہ سے متعلق بھی ہے، اس سلسلہ میں اسلامی عقیدہ کی وضاحت اور موصوف کے نقطۂ نظر کا تجزیہ پیش خدمت ہے:
مقام محمود کی تشریح کے حوالہ سےظہورِ مہدی کا انکار
(الف) صحیح اور مستند احادیث کی روشنی میں تمام اہل سنت والجماعت مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قیامت کے قریب زمانہ میں حضرت مہدی کا ظہور ہوگا، آپ کا نام نامی اسم گرامی ’’محمد بن عبداللہ‘‘ ہوگا ،آپ سادات خاندان یعنی سیدہ حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے ہوںگے، آپ روشن جبین اور اونچی ناک والے ہوں گے، مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت فرمائیں گے ،کعبتہ اللہ کے صحن میں حجراسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے،آپ پورے عالم اسلام کے متفقہ خلیفہ راشد ہوں گے، سات یا نو سال آپ حکومت کریں گے، اپنے دورِ حکومت میں آپ دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں گے، آپ ہی کے زمانہ میں آسمان سے سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کانزول ہوگا، وہ آپ کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے، پھر آپ ہی کے زمانہ میں کانا دجال نکلے گا، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مہدی اس کا مقابلہ کریں گے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں حضرت مہدی کا انتقال ہوگا، آپ علیہ السلام حضرت مہدی کی نماز جنازہ پڑھائیں گے اور بیت المقدس کے احاطہ میں حضرت مہدی کی تدفین ہوگی۔
حضرت مہدی کے بارے میں یہ ساری تفصیلات ہیں جن کو متواتر اور متوارث طریقہ پر جمہور اہل سنت والجماعت ایک عقیدہ اور نظریہ کی حیثیت سے مانتے چلے آرہے ہیں، ان تفصیلات سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوگئی کہ ’’مہدی کی حقیقت ایک مادی اور جسمانی وجود کی ہے، وہ کوئی افسانوی کردار یا خیالی شخصیت نہیں ہیں۔
(ب) حضرت مہدی کے بارے میں عام مسلمانوں کے اس عقیدہ کے بر خلاف جناب عبداللہ طارق صاحب نے ’’مقام محمود‘‘ کی گمراہ کن تشریح کرتے ہوئے حضرت مہدی سے متعلق اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے، ایک ویڈیو میں وہ کہتے ہیں:
’’اس کی میں وضاحت کردوں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا مقام محمود ہے، جو مہدی کی حقیقت ہے، کوئی جسمانی طورپر امام مہدی کوئی نہیں آئیں گے[ہم جیسے انسانوں کی طرح]….. اصل میں اُس حقیقت کو جو رسول اللہ ﷺ کے [کا] مقام محمود ہے، اُسی کو ’’مہدویت ‘‘ کہا گیا، جسمانی طور پر یہاں دوبارہ کوئی نئی شخصیت نہیں آرہی ہے، نہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کوئی دوسرا جنم لے لیں گے ،یہ اُن کی اس حقیقت کو جو اللہ تعالی نے اُن کو مقام محمود عطا کیا ہے جس میں یہ ایک شیطان اور ابلیس کی کشمکش ہے جو چلے گی…..
ظہور مہدی کے نام سے جو آنا ہے، وہ رسول اللہ ﷺ ہیں، لیکن اگر اسی جسم کے ساتھ آجائیں گے تو وہ حقیقت محمدی ہے، وہ واپس نہیں آنا ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کی چوں کہ موت نہیں ہوئی اس لئے وہ آئیں گے،رسول اللہ ﷺ کی موت ہوگئی ،وفات ہوگئی ،وہ نہیں آئیں گے[ لیکن آپ ﷺ نے] کہا کہ مہدی وہی ہیں…..یہ ہے مہدویت، یہ اُن [آں حضرت ﷺ] کی روحانی واپسی ہے…..‘‘ دیکھئے:
) Video Clip ‘‘ABDULLAH TARIK (WORK) EXPOSED PART 1 ’’ Uploaded: 29-04-2019
@ Rizwan Hussain Qadri Youtube Channel)
مقام محمود کو مقام مہدویت سے جوڑنے کی بناء پر عقیدہ تناسخ کا شبہ موصوف خود ہی پیش کرتے ہیں اور پھر خودہی اُس کا ازالہ بھی کرتے ہیں، چنانچہ ویڈیو میں آگے جاکر کہتے ہیں:
’’یہ مقام مہدی ہے، بہت کنفیوژن ہوگا بعض لوگوں کو ،سب کو نہیں ہوگا،یہ باتیں پہلے آچکی ہیں اُن کے سامنے، یہ کوئی تناسخ ہے؟ جیسے ہندو ؤںمیں آواگون ہوتا ہے ، حضور ﷺ پھر آجائیں گے ؟پھر نہیں آئیں گے،جو ایک دفعہ آگیا، یہاں [دنیامیں] دوبارہ نہیں آئے گا، جسمانی طور پر نہیں آئیں گے، روحانی واپسی ہے، جسے لوگوں نے تمثیلی سمجھ لیا ہے، یہی مقام محمود ہے ،اس دنیا کے اندر بھی اور آخرت میں بھی…..‘‘
) Video Clip ‘‘ABDULLAH TARIK (WORK) EXPOSED PART 1 ’’ Uploaded: 29-04-2019
@ Rizwan Hussain Qadri Youtube Channel)
(ج) مقام محمود سے متعلق اپنی اس خود ساختہ تشریح کو انھوں نے قرآن مجید سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ ایک ویڈیومیں انھوں نے حضرت ذو القرنین کے واقعہ میں تحریف کرتے ہوئے کہاہے:
’’ میں اب اُس خلاصہ کو دہرادوں کہ میں نے قرآن وحدیث کے ثبوتوں کے ساتھ باتیںرکھی تھیں، ذو القرنین کی شخصیت رسول اللہ ﷺ ہیں، جو اصل ذو القرنین ہیں، درمیان میں الگ الگ بادشاہوں پراگر ہم اُس کا اطلاق کرتے ہیں تو وہ تو ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں، وہ آن شک جزوی روپ میں اُن پر وہ آیات فٹ ہوتی تھیں، لیکن اب جو اصل ذوالقرنین ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کا مقام محمود ہے، وہی مہدی کی حقیقت ہے، دوزمانوں والے جسے کوئی مادی شکل میں اس دنیا میں کسی مہدی کو نہیں آناہے، …..‘‘
) Video Clip ‘‘ABDULLAH TARIK (WORK) EXPOSED PART 1 ’’ Uploaded: 29-04-2019
@ Rizwan Hussain Qadri Youtube Channel)
(د) بہر حال حضرت مہدی کے بارے میں جناب عبداللہ طارق صاحب کی گفتگوکا خلاصہ یوں واضح ہواکہ:
۱) مہدی کی آمد کا مطلب کوئی مادی اور جسمانی وجودکا آنا نہیں ہے۔
۲) ظہور مہدی دراصل رسول اللہ ﷺ کا مقام محمود ہے۔
۳) مہدی کی حیثیت سے آں ﷺ کی دوبارہ واپسی ہوگی۔
۴) مہدی کی حیثیت سے آپ ﷺ کی یہ واپسی تناسخ اور آواگون کی طرح جسمانی نہیں روحانی واپسی ہوگی۔
۵) قرآن مجید میں مذکور حضرت ذوالقرنین سے بھی مراد آں حضرت ﷺکا مقام محمود ہے۔
مقام محمود سے متعلق جناب عبد اللہ طارق صاحب کے نقطۂ نظر کی وضاحت کے بعد یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ آیایہ نقطۂ نظر صحیح بھی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں چند سوالات ہمارے ذہن میں رہیں:
(الف) ’’مقام محمود‘‘ کے بارے میں کیا یہ نقطۂ نظر جمہور اہل سنت والجماعت کے مفسرین کی تشریح کے مطابق ہے؟
(ب) مقام محمود سے متعلق پیش کردہ خیالات کا مرجع وماخذ کیا ہے؟
(ج) مقام محمودسے متعلق یہ تشریح پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
(د) ذوالقرنین اور مقام محمود کے بارے میں موصوف کا نقطۂ نظر ’’اصول تفسیر‘‘ کے مطابق ہے؟
مقام محمود کے بارے میںجمہور اہل سنت والجماعت کے مفسرین کی تشریح:
(الف) قرآن مجیدکی آیات کی تفسیر و تشریح میں سب سے زیادہ معتبر و مستند اور اول درجہ کی بات خود رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ذات گرامی کی ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ پر قرآن مجید کا نزول ہوا اور اس کی ہدایات و تعلیمات کی تفسیر و تشریح کو آپ ﷺ کا ’’فرضِ منصبی ‘‘ فرمایا گیا : وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ (النحل: ۴۴)، ہم نے آپ کی طرف قرآن اس لئے اتارا ہے کہ آپ لوگوں پر ان ہدایات کو اچھی طرح واضح کردیں جو ان کی طرف بھیجی گئی ہیں‘‘، مایہ ناز فقیہ اور بلند پایہ محقق و مفسر حضرت الاستاذ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنے ترجمہ قرآن مجید ’’آسان تفسیر‘‘ میں اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’یعنی رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی کی طرف سے جو کام دیا گیا ہے، وہ صرف یہی نہیں ہے کہ آپ قرآن مجید کو امت تک پہونچادیں ،بلکہ اپنے قول وفعل کے ذریعہ قرآن مجید کی تشریح کرنااور کتاب اللہ میں جو احکام اجمال کے ساتھ ذکرکئے گئے ہیں،ان کو کھول کر بیان کرنا بھی آپ کی ذمہ داری میں شامل ہے، اس سے معلوم ہواکہ حدیثیں بھی دین میں حجت اور دلیل ہیں! کیوں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل کے ذریعہ قرآن مجید ہی کی تشریحات اور وضاحتیں ہیں‘‘ ۔
(آسان تفسیر، النحل: ۴۴)
(ب) عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ، اس آیت میں ’’مقام محمود‘‘ کا تعلق خود رسول اللہ ﷺ کے مقام و مرتبہ اور آپ صلی اللہ وسلم کی قدر و منزلت سے ہے، اس لئے دیکھاجائے کہ احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے قول کے ذریعہ اپنے اس مقام و مرتبہ کی کیا وضاحت فرمائی ہے؟ اس سلسلہ میں صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ فرمائیں، صحابی رسول حضرت انس بن مالکؓ نے یہ روایت بیان کی ہے، روایت طویل ہے، اس کا خلاصہ پیش ہے:
’’قیامت کے دن حشر کے میدان میں اہل ایمان کو روک لیا جائے گا، اس کی وجہ سے وہ پریشان ہوں گے، پھر وہ آپس میں کہنے لگیںگے کہ اگر کوئی ہمارے رب کی بارگاہ میں ہماری سفارش کردے تو ہمیں اس پریشانی سے آرام مل جائے گا، اس کے بعد وہ حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پہونچ کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں عطاکردہ خصوصی مقام ومرتبہ کو ذکرکریں گے اور پھر بارگاہِ خداوندی میںان سے اپنے لئے سفارش کی درخواست کریں گے، اس پر یہ انبیاء کرام اپنی بعض بھول چوک والی باتوں کا حوالہ دے کر شفاعت کرنے سے معذرت کرلیں گے، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر تمام انسان رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہونچیں گے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: وہ میرے پاس آئیں گے، (اُن کی سفارش کی درخواست پر) میں اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت چاہوں گا ،اللہ تعالیٰ بار یابی کی اجازت عطافرمائیں گے، جیسے ہی میں اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضرہوں گا تو فوراً سجدہ میں گرجاؤں گا، پھر میں سجدہ میں پڑا رہوں گا جب تک اللہ چاہے گا ،پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: اے محمد! سر اٹھائو! کہو! تمہاری بات سنی جائے گی، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے، اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں، اس پر اپنا سر اٹھائوں گا اور اپنے رب کی خوب حمد و ثنا بیان کروں گا ،جس کا انداز و اسلوب اللہ تعالی نے مجھے سکھایا ہے، پھر میں سفارش کروں گا، اس پر اللہ تعالیٰ میرے لئے حد مقرر فرمائیں گے (اسی مقررہ حد کے مطابق) میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروںگا۔
تین مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ اپنی شانِ عبدیت کے اظہار کے ساتھ اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں گنہگار بندوں کی سفارش فرمائیں گے،سب لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے سوائے ان لوگوں جن کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے…اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے قرآن مجید کی آیت ’’ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘‘ تلاوت فرمائی اور فرمایا یہی وہ مقام محمود ہے جس کا وعدہ تمہارے نبی ﷺ سے کیا گیا ہے۔ ’’وھذاالمقام المحمود الذی وعدہ نبیکم ﷺ…..‘‘(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7440)
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ ﷺ سے بطور خاص اس وعدہ الہی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شفاعت ہے‘‘
’’قال رسول اللہ ﷺ فی قولہ:عسٰی ان یبعثک ربک مقاماً محموداً، سل عنھا قال: ھیالشفاعۃ‘‘۔
(سننِ ترمذی، حدیث نمبر3430)
بہر حال یہ اور اس طرح کی بہت سی صیحیح احادیث کی روشنی میں جمہور مفسرین نے ’’مقام محمود‘‘ کی تشریح یہ کی ہےکہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کا خصوصی مقام و مرتبہ ’’مقام شفاعت ‘‘ ہے ، آپ ﷺ قیامت کے دن اللہ تعالی کی خصوصی اجازت سے گنہ گاروں کے لئے سفارش فرمائیں گے۔
مقام محمود کی تعیین کے سلسلہ میں مقام شفاعت کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں، مثلا ایک یہ کہ قیامت کے دن خصوصی اعزاز وشرف کے طور پر آں حضرت ﷺ کو ’’لواء حمد‘‘ (اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کا علم) دیا جائے گا، دوسرے یہ کہ روز قیامت اللہ تعالی جب عرش الہی پر جلوہ افروزہوں گے تو آں حضرت ﷺ کو بھی اپنے ساتھ’’ قرب خاص‘‘ میں بٹھائیں گے۔(اس سلسلہ میں تفصیل کے لئے تفسیر ابن کثیر ،تفسیر قرطبی وغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں، سورہ بنی اسرائیل،آیت نمبر:79)
آیت کی تفسیر سے متعلق احادیث اور مفسرین کی تشریحات پر غور کرنے سے حسب ذیل باتیںمعلوم ہوئیں:
۱) مقام محمو د سے مرادنبی ﷺ کا خصوصی اعزاز’’ مقام شفاعت‘‘ ہے۔
۲) مقام محمود کا تعلق آخرت سے ہے، اس دنیا سے نہیں، اس لئے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم آخرت میں گنہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے، اس دنیامیں نہیں۔
۳) مقام محمود سے مراد شفاعت کے بجائے اگر دوسرے اقوال بھی مان لیے جائیں تب بھی اس کا تعلق آخرت سے ہوگا، اس دنیا سےنہیں کیوں کہ وہ ساری باتیں آخرت میں پیش آئیں گی۔
۴) موجودہ بعض اُردو تفاسیر میں اگرچہ ’’مقام محمود‘‘ کا تعلق اس دنیا سے بھی بتایا گیا ہے لیکن وہ لغوی معنی ومفہوم کے لحاظ سے ہے، اس کے لغوی معنی قابل تعریف مقام و مرتبہ کے ہے، یعنی آج (نزول قرآن کے زمانہ میں ) مخالفین آپ ﷺ کی ہجو کررہے اور آپ ﷺ کے ساتھ ناشائستہ برتائو کررہے ہیں، لیکن ایک وقت اور زمانہ ایسا آئے گا کہ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے مصداق پوری کائنات میں آپ ﷺ کی تعریف و توصیف کا ڈنکا بجے گا ،اپنے اور بیگانے سبھی آپ ﷺ کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہوں گے،’’بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘۔
غرض یہ کہ مقام محمود کی تفسیر سے متعلق چاہے صحیح معتبراحادیث ہوں، یا گذشتہ مفسرین کی تشریحات ہوں ،یا موجودہ اردو تفاسیرہ کی توضیحات ہوں ، ان میں کہیں بھی ’’مقام محمود‘‘ کو ’’مقام مہدویت‘‘ سے نہیں جوڑا گیا اور نہ اُس کو ’’حقیقت مہدی‘‘ سے تعبیر کیا گیا، یہ جناب عبداللہ طارق صاحب کا اپنا ذاتی خیال اور نقطۂ نظر ہے۔
مقام محمود کی گمراہ کن تشریح کا ماخذ
احادیث اور جمہور مفسرین کی تشریحات کی روشنی میں ’’مقام محمود ‘‘سے متعلق جناب عبداللہ طارق صاحب کا بیان کردہ معنی و مفہوم کا غلط ہونا بالکل واضح ہوگیا، اب اگرچہ مزید بحث کی ضرورت نہیں لیکن موجودہ دور میں تحقیقات اور( Investigation ) کا جو طریقہ کار اور معیار ہے، اُس کے مطابق غلطی کی تہہ تک پہونچنے کے لئے یہ جاننے کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا موقع اور حوصلہ کیسے ملا؟ اس سلسلہ میں یقینی اور قطعی بات تو خود عبداللہ طارق صاحب کہہ سکتے ہیں کہ مقام محمود کے بارے میں اُن کے اپنے نقطۂ نظر کا مرجع و ماخذ کیا ہے؟
البتہ موصوف کے نقطہ نظر میں موجود دوباتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نقطۂ نظرکے تار کہاں جڑتے ہیںاور موصوف کا فکری ونظریاتی رشتہ کس سے میل کھاتاہے؟ ایک بات تو موصوف نے یہ کہی کہ مقام محمود ’’حقیقت مہدی‘‘ ہے،دوسری بات یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے دو دور ہیں، پہلا دور تو آپ ﷺ کا جسمانی تھا، آپ ﷺ بنفس نفیس دنیا میں موجود تھے، آپ ﷺ کی وفات سے یہ دور ختم ہوگیا،دوسرا دور آپ ﷺ کی روحانی واپسی کا ہوگا، یہ روحانی واپسی مہدی کی حیثیت سے ہوگی،رسول اللہ ﷺ کےلئے دو دورکے فلسفہ کو انھوں نے بہت اصرار اور تکرار کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ بھی ایک ملحدانہ فلسفہ ہے، اس کو قادیانی ’’بعثتِ اولیٰ ‘‘اور ’’بعثتِ ثانیہ ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں، اس سے ختم نبوت کے عقیدہ پر کیا زد پڑتی ہے؟ یہ ایک مستقل بحث ہے، انشاء اللہ اس کی الگ سے مستقل وضاحت ہوگی۔
بہر حال مقام محمود کے حوالہ سے مہدویت اور نبوت محمدی کے دو دور کے گمراہ کن فلسفہ کا تذکرہ خارجِ اسلام گمراہ فرقوں کے لٹریچر میں ملتا ہے، اس سلسلہ میں دو تین مثالیں ملاحظہ ہوں:
۱) جھوٹے مدعی نبوت مرزاغلام قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے قرآن مجید کے معانی ومفاہیم میں تحریف کرتے ہوئے’’ تفسیر کبیر‘‘ کے نام سے ایک من گھڑت اور گمراہ کن تفسیر لکھی ہے، یہ شخص قادیانی فرقہ کا نام نہاد دوسرا خلیفہ بھی ہے، اس لئے قادیانیوں کے یہاں اس تفسیر کی بڑی اہمیت ہے،اپنی گمراہ کن تفسیرمیںمرزا بشیر الدین محمود نے ’’مقام محمود‘‘ کے بارے میں مختلف باتیں لکھی ہیں ،اس میں ایک بات ظہور مہدی سے متعلق بھی ہے، یہ شخص کہتا ہے:
’’مقام محمود سے مراد میرے نزدیک خروج مہدی بھی ہے ،کیوں کے اس کے ظہور کا وقت وہی بیان ہوتا ہے جب مسلمانوں کے اسلام کے روگردان ہوجانے کی اور کافروں کے کفرمیں ترقی کرجانے کی خبردی گئی ہے، ایسے وقت اللہ تعالی کے اس پہلو ان کا ظہور جو ان گالیوںکی رَو کو تعریف سے بدل وادے، مقام محمود کا ہی ایک کرشمہ ہے…..‘‘
(تفسیر کبیر، بنی اسرائیل، آیت:79)
۲) قادیانی عقائد و نظریات کا ایک اور ہم نوا ،ہم شکل اورہم رنگ دیندار انجمن کا بھی فتنہ ہے، اس فتنہ کا بانی اور پیشواصدیق دیندار چن بسویشور ہے، مرزا غلام قادیانی کے شیطانی الہامات و کشو ف کا مصداق بننے کے لئے اس نے بھی مختلف دعوے کئے، اس شخص کا ایک فریب خوردہ مرید ابوالکلام عبدالغنی نے اپنی ایک منظوم کتاب بہ نام ’’شمس الضحی‘‘ میں صدیق دیندار چن بسویشور کو ’’مقام محمود‘‘ کا مصداق ٹھہرایا ہے اور اس کے لئے بعثت ثانی دوسرے دور کے ملحدانہ فلسفہ کو بنیاد بنایا ، چنانچہ یہ شخص لکھتا ہے:
’’چونکہ سارےاولیاء اللہ حضور ﷺ کی مدح میں گم تھے، لیکن کسی ولی کو’’مقام محمود‘‘ حاصل نہیں ہوا، اس لئےکہ وہ دور آگے تھا ،جیساکہ آیت سے روشن ہے’’عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘‘ آیت کے اس تیسرے حصہ میں حضور ﷺ کی ذات کو مقام محمود پر لانی کی بشارت دی گئی ہے، یہ دور آخر ہے، جوموعود ہے، حضورﷺنے اسی مقام محمود والی بعثت کے لئے مسلمانوں کو بعد اذاں دعاء سکھائی جس کی تعمیل میں ہر مسلمان وابعثہ مقاماً محموداً کے الفاظ دہراتا ہے، اِدھر نماز کے قعدہ میں شہادت کی انگلی بھی اسی بعثت ثانی کی شہادت میں اٹھائی جاتی ہے جس کا انتظار مسلمانوں میں ہے، وہی بعثت مقام محمودوالی بعثت ہے، جس سے ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ ہر تیرہ سو سال کے بعد ایک امتی کی قبا پہن کر جلوہ گرہوں گے، اسی لئے قعدہ میں ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ کہا جاتا ہے کہ جس سے حضور ﷺ سے مخاطبت ہوتی ہے ’’ایھاالنبی‘‘ کی مخاطبت غائب کی نہیں ہے بلکہ آنکھوں سے دیکھنے کی حجت پیش کرتی ہے، بہر صورت یہ بعثت ثانی کس رنگ میںہوگی بعثتِ ثانی میں وہ اپنا نام کیا پائے گی ، اس کے لئے خود اللہ پاک قرآن میں حضور ﷺ سے دعا کرنے کے لئے کہا ہے، وہ یہ ہے وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ …..سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا حضور ﷺ کے سارے کمالاتِ روحانی کا اگر کوئی وجود متحمل ہوسکتا ہے تو وہ وجود صدیق اکبر کا ہے، بعثتِ اول میں بھی صدیق تھے، بعثت ثانی میں بھی صدیق ( صدیق دیندار چن بسویشور) ہی ہیں…..‘‘ (حوالہ شمس الضحیٰ، ص: ۳۰۔۳۱)
واضح رہے کہ یہ حوالہ جناب زاہد صدیقی کی کتاب ’’دیندار بے نقاب‘‘ میں صفحہ نمبر ۵۰۔۵۱ سے لیا گیا۔ مصنف کتاب پڑوسی ملک پاکستان میں دیندار انجمن کے سابق مبلغ رہ چکے ہیں، بلند پایہ ادیب اور ممتاز نعت گو شاعر جناب ماہر القادری مدیر ماہنامہ فاران کراچی کے ہاتھ پر انھوں نے اپنے گمراہ و گستاخانہ عقائد سے توبہ کی اور اپنے زمانہ ضلالت اور دورِ ظلمت کے کاموں کے کفارہ کے لئے ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ کے مصداق دیندار انجمن کے فتنہ کے رد میں واقعی اسم بامسمّٰی کتاب ’’دیندار بے نقاب‘‘ لکھی، یہ تحریر کتابی شکل میں شائع ہونے سے پہلے فروری1957ء کو فاران میں شائع ہوئی تھی۔
ان دو حوالوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مقام محمود سے متعلق عبداللہ طارق صاحب کے نقطۂ نظر، قادیانی اور دیندار انجمن کے گمراہ، گستاخانہ اور کفریہ افکار و نظریات میںکتنی واضح موافقت اور مطابقت ہے، ظاہر سی بات ہے کہ آدمی جب کتاب و سنت کےبیان کردہ حقائق کو سلفِ صالحین کی تشریحات کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے خود سے کوئی نئی بات نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ذہنی انتشار اورفکری بے راہ روی میں مبتلا ہوجاتا ہے، وہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی معروف اور متعینہ راہ کو چھوڑ کر باطل افکار و خیالات کی پگڈنڈیوں پر چلنے لگتا ہے، پھر انجام کار فکری الحا دوارتداداُس کی منزل قرار پاتی ہے، اس لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا:وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّـبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ (انعام:153)
مقام محمود کی غلط تشریح کی اصل وجہعقیدہ شفاعت کا انکار:
مقام محمود کی گمرہ کن تشریح اور وضاحت کی بنیادی وجہ عقید ۂ شفاعت کا انکار ہے، عبداللہ طارق صاحب نے درس قرآن کے عنوان سے ایک ویڈیومیں صحیح بخاری میں مذکور حدیث شفاعت کا حوالہ دیتے ہوئے عقیدہ شفاعت کا انکار کیا ہے، اس سلسلہ میں موصوف کی بیان کردہ باتوں کا خلاصہ تین چیزیں ہیں:
۱) شفاعت کا عقیدہ قرآن مجید کے خلاف ہے جو چیز قرآن کے خلاف ہوگی ،وہ کیسے رسول اللہ ﷺ بیان کرسکتے ہیں؟
۲) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا دیگر انبیا سے غلط طریقہ پر کمپیئرکیا گیا، اس سے انبیاء کرام کی شان میں گستاخی ہوتی ہے، عظمت انبیاء کے خلاف ہے۔
۳) شفاعت کا عقیدہ مسلمانوں میں یہودیوں وعیسائیوں کی طرف سے آیا ہے، وہ بھی اپنے نبیوں کے بارے میں ایسی باتیں مانتے ہیں کہ وہ انھیں بخشوادیں گے، دیکھئے:
) Video Clip ‘‘ABDULLAH TARIK SHB KA SAHI HADEESO KA INKAAR PART 2 ’’ Uploaded: 11-05-2019
@ Rizwan Hussain Qadri Youtube Channel)
1: (الف) عقیدہ شفاعت سے متعلق عبداللہ طارق صاحب کی مذکورہ بالا باتیں صحیح ہیں یا غلط؟ اس کو جاننے اور سمجھنے سے پہلے شفاعت کا صحیح مفہوم ہمارے ذہن میں رہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ہم نے بعض رسولوں کو بعض رسولوں پر فضیلت دی ہے تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ(البقرہ:253) چنانچہ ’’کلیم اللہ ‘‘ ہونے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دیگر انبیاء کے درمیان ایک خاص فضیلت ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ ہونے کی وجہ سے اپنی الگ امتیازی شان رکھتے ہیں، خلیل اللہ ہونے کی وجہ سے انبیاء کرام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خاص مقام و مرتبہ ہے ، غرض یہ کہ ہر نبی کی الگ شان اور امتیازی خصوصیت ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی امتیازی شان کے مختلف پہلو ہیں،یہ پہلو قرآن مجید میں بھی بیان کئے گئے اور احادیث میں بھی، مثلاً قرآن مجید میں آپ ﷺ کو رحمۃ اللعالمین ، خاتم النبیین کے لقب سے یاد کیا گیا،قرآن میں آپ ﷺ کے ’’مقام محمود‘‘ کو ذکر کیا گیا وغیرہ، اس کے علاوہ احادیث میں آں حضرت ﷺ نے اپنے بارے میںفرمایا: ’’انا سید ولد آدم، انا قائد المرسلین ۔ انا اول شافع و مشفع ‘‘(سنن الدارمی، حدیث نمبر:50)، ایک جگہ تو آپ ﷺ نے دیگر انبیاء کرام سے صاف طور پر تقابل کرتے ہوئے فرمایا فضلت علی الانبیاءبست (صحیح مسلم، حدیث نمبر:523)، مجھے چھ باتوں میں دیگر انبیاء پر فضیلت دی گئی یعنی جوامع الکلم دے گئے، رعب ودبدبہ سے میری مدد کی گئی، میرے لئے زمین کو پاک کردیا گیا،میرے لئے زمین سجدہ گا ہ بنادی گئی، میرے لئے مالِ غنیمت حلال کردیا گیا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا، اس طرح بہت ساری احادیث میں آں حضرت ﷺ نے اپنے امتیازات اور اعزازات کو بیان فرمایا۔
پس مسلمان دیگر انبیاء اکرام کے درمیان اُن کی شان میں ادنیٰ گستاخی و بے ادبی کا تصوربھی کئے بغیر جیسے رسول اللہ ﷺ کے خصوصی مراتب اور درجات کو مانتے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کے خصوصی اعزازوشرف ’’مقام محمود‘‘ یعنی شفاعت کبریٰ‘‘ کو بھی مانتے ہیں۔
(ب) شفاعت کا مطلب نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کے کام میں مداخلت کرنا اور اُس کی مشیت و منشا کو چیالنج کرنا نہیں ہے بل کہ اپنے مقبول و محبوب بندوں کی خاص دلجوئی اور پزیرائی کےطور پر اللہ تعالیٰ انھیں شفاعت کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائیں گے، اس میں شفاعت کرنے والے کا از خود کوئی استحقاق اور اختیار نہیں ہوگا ،باری تعالیٰ باوجود اپنی شان جلالی کے جب ایک راندۂ درگاہ شیطان کو عرض و معروض کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں تو اپنی بے پناہ شفقت و محبت سے اپنے نیک و صالح بندوں کو بھی عرض و معروض کا موقع عنایت فرماسکتے ہیں۔
اصل میں شفاعت و سفارش اللہ تعالی کی شان غفاری کا ایک خاص انداز ہے، مثال صرف سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ہوتی ہے، اس لئے غور کیا جائے، دنیامیں کوئی شریف اور معزز آدمی اپنے کسی ماتحت ملازم سے ناراض ہوتا ہے، اُس کا نہایت ہی قریبی آدمی اپنے خصوصی تعلق کا فائدہ اٹھاکر اُس ملازم کے لئے معافی کی سفارش کرتا ہے، پھر وہ معزز آدمی اپنے قریبی دوست کے خصوصی تعلق کی لاج رکھتے ہوئے اُس کی سفارش قبول کرتا ہے اور اپنے ملازم کو معاف کردیتا ہے، ایسا ہی معاملہ اللہ تعالیٰ کے مقرب اور خاص بندوں کا ہے، آقا ء دو جہاںﷺسےبڑھ کر اللہ تعالیٰ کا قرب خاص اور کس کے لئے ہوسکتا ہے؟؟ آپ ﷺ کے لئے تو ’’قاب قوسین او ادنی‘‘ والی بات ہے، اس لئے اللہ تعالی نبی ﷺ کی شان محبوبیت اور قرب ِخاص کا خیال فرما کر نہ صرف آپ ﷺ کو شفاعت کی اجازت مرحمت فرمائیں گے بلکہ آپ ﷺ کی سفارش کو قبول بھی فرمائیں گے، اس کے علاوہ بارگاہ خداوندی سے کچھ نیک اور خاص بندوں کو بھی سفارش کرنے کی اجازت دی جائے گی، جیسا کہ احادیث میں حافظ قرآن سے متعلق فرمایا گیا کہ اُس کے خاندان کے ۱۰ /افراد کے بارے میں اُس کی سفارش قبول کی جائے گی۔
(ج)اس لئے اہل سنت والجماعت’’ شفاعت کبریٰ ‘‘کو مانتے ہیں اوراس کو دیگر انبیاء کرام کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ کی خاص خصوصیت سمجھتے ہیں ،البتہ معتزلہ اور خوارج شفاعت کے منکر ہیں، چنانچہ حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی ؒ ’’مقام محمود‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ سے اس آیت میں مقام محمود کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ مقام تمام انبیاء میں سے آں حضرت ﷺ کے لئے مخصوص ہے، اس کی تفسیر میں اقوال مختلف ہیں، مگر صحیح وہ ہے جو احادیث صحیحہ میں خود رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے، یہ مقام شفاعیت کبریٰ کا ہے کہ میدان حشر میں جس وقت تمام نبی آدم جمع ہوں گے اور ہر نبی و پیغمبر سے شفاعت کی درخواست کریں گے تو تمام انبیاء علیہ السلام عذر کردیں گے ، صرف رسول اللہ ﷺ کو شرف عطا ہوگا کہ تمام نبی آدم کی شفاعت فرمائیں گے۔
اسلامی فرقوں میں سے خوارج اور معتزلہ شفاعت انبیاء کے منکر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گناہ کبیرہ کسی کی شفاعت سے معاف نہیں ہوگا۔ مگر احایث متواترہ اس پر شاہد ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کی بلکہ صلحا امت کی شفاعت گنہگاروں کے حق میں مقبول ہوگی، بہت سے لوگوں کے گناہ شفاعت سے معاف کردیئے جائیں گے‘‘( معارف القرآن ، بنی اسرائیل :۷۹)
2: شفاعت سے متعلق عبداللہ طارق صاحب کی بیان کردہ باتیں سراسرغلط ہیں، اس لئےکہ:
(الف): شفاعت کا عقیدہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے، عبداللہ طارق صاحب کو یہ عقیدہ قرآن کے خلاف اس لئے نظر آیا کہ انھوں نے شفاعت سے متعلق آیات کو مکمل پڑھنے کے بجائے ادھورا پڑھا، جیسے ایک شخص نے کہا:نماز پڑھنا قرآن مجید کے خلاف ہے، اس لئے کہ قرآن مجید میں نماز پڑھنا تو بہت دور کی بات، اُس کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا، پھر یہ شخص دلیل میں ’’ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ ‘‘ کی آیت پڑھتا ہے، اب اس بے چارے کو کون سمجھائے کہ تم جو کہہ رہے ہو وہ ادھوری بات ہے، مکمل آیت پڑھو تو پوری بات سمجھ میں آئے گی آیت میں ’’لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ ‘‘ کے آگے ’’ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى ‘‘ بھی ہے ، یعنی نشہ کی حالت میں تم نماز نہ پڑھو۔
اسی طرح عبداللہ طارق صاحب شفاعت سے متعلق آیات کو مکمل پڑھنے کے بجائے صرف اُس کا ابتدائی حصہ پڑھتے ہیں ، جیسے ’’مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ….. یا ’’يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ….. یا وَلَا يَشْفَعُوْنَ….. حالاں کہ پوری آیات یوں ہیں! مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖۭ ….. (البقرہ:255)، يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ….. (طٰہٰ :109)، وَلَا يَشْفَعُوْنَ۝۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى …..(الانبیاء:28)۔
ان آیات کا مفہوم و خلاصہ یہ ہے، قیامت کےدن شفاعت کا حق ہر کس وناکس کو نہیں ہوگا، بلکہ اللہ تعالی اپنے خاص فضل و عنایت سے اپنے خاص و مقرب بندوں میں سےجس کو اجازت دیں گے اور جن سے راضی ہوں گے وہی شفاعت کرنے کے اہل ہوں گے،یہاں تک کہ اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ کے مطابق خود رسول اللہ ﷺ بھی اپنے طور پر شفاعت نہیں فرمائیں گے، بلکہ باری تعالی کی بارگاہ سے اجازت پانے کے بعد ہی شفاعت فرمائیں گے، بہر حال قرآن مجید میں شفاعت کی مطلق نفی نہیں کی گئی جیسا کہ موصوف نے باور کروانے کی کوشش کی ہے،غرض یہ کہ شفاعت کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ قرآن مجید کے عین مطابق ہے نہ کہ اُس کے خلاف ہے۔
دوسرے یہ کہ عبداللہ طارق صاحب نے کہنے کو تو کہہ دیا کہ شفاعت کا عقیدہ قرآن کے خلاف ہے لیکن یہ غور نہیں کیا کہ اس کی زد کہاں پڑتی ہے؟ کن مقتدر،مؤقراور مقدس ہستیوں کی عظمت وفضیلت مجروح ہوتی ہے؟ صحیح حدیث سے مقام محمود کا مطلب ’’شفاعت کبریٰ‘‘ واضح ہونے کے باوجود اُس کو قرآن کے خلاف کہنا نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ آپ ﷺ نے اپنے بارے میں جو بات بیان کی اُس کو خود آں حضرت ﷺ نے نہیں سمجھا ،اس لئے آپ ﷺ نے اپنے بارے میں قرآن کے خلاف بات کہی (استغفر اللہ، لاحول ولا قوۃ الا بااللہ)اصل میں جب آدمی کے فکر و نظر کازاویہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے اور غلط رخ پر چلنے لگتاہے،تو بعض لوگ ہمہ دانیکے غرور میںمبتلاہوکر سمجھنے لگتے ہیںکہ قرآن مجید نازل تو ہوا حضرت محمد ﷺ پر لیکن اس کے معانی و مطالب میں حضور ﷺ سے زیادہ جانتا ہوں۔
پھر یہ کہ عہد نبوی سے لے کر آج تک ہر دور کے صالحین نے شفاعت کبری کو مانا ہے، انھیں بھی اس کا خلافِ قرآن ہونا سمجھ میں نہیں آیا، یہ تو پوری اسلامی تاریخ میں قرآن فہمی کی جو روشن اور تابناک مثالیں ہیں اُس پر سوال کھڑا کرنا ہے، مفسرین و محدثین کے علم و فہم کو چیالینج کرنا ہے ،سلف صالحین کی قرآن فہمی اور حدیث فہمی پر آج بھی مسلمانوں کو پورا اعتماد ہے، اس لئے شفاعت کے حوالہ سے سلف صالحین کی وضاحتوں کو مشکوک و مشتبہ بنانے کے بجائے اپنی غلطی کی اصلاح کرنےاورسلف کےنقطۂ نظر کو مان کر آگے بڑھنابہتر ہوگا۔
تیسرے یہ کہ عبداللہ طارق صاحب نے شفاعت کا اس لئے انکار کردیا کہ ان کے اپنے گمان اور خیال کے مطابق یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے، کسی بھی روایت کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے سلسلہ میں محدثین نے اصول و ضوابط مقرر کردئے ہیں، ان کی روشنی میں کوئی روایت صحیح، حسن، ضعیف اور موضوع وغیرہ ہوسکتی ہے، اس سلسلہ میں ائمہ جرح و تعدیل کی خدمات و کارناموں سے ایک مستقل فن وجود میں آیا ہےاور حقیقت یہ ہے کہ کوئی حدیث قرآن کے خلاف ہے ہی نہیں،البتہ منکرین حدیث کے یہاں انکار حدیث کی وجوہات میں ایک اہم وجہ اُن کے اپنےگمان و خیال کے مطابق حدیث کا قرآن کے خلاف ہونا ہے، اس سلسلہ میں مشہور منکر حدیث غلام احمد پرویزنے’’احادیث کے پرکھنے کا معیار‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:
’’میرے نزدیک دین میں سند اور حجت خدا کی کتاب قرآن کریم ہے اور احادیث کےپرکھنے کا معیار یہ ہے کہ جو حدیث قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف نہیں جاتی، اُسے حضور ﷺ کا ارشاد و تسلیم کیا جاسکتا ہے اور جو حدیث اس کے خلاف جاتی ہو اُس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا قول نہیں ہوسکتا…..‘‘ (حوالہ ، ختم نبوت اور تحریک احمدیت، ص: 10)
غرض کہ شفاعت کی حدیث محدثین کے اصول اور معیار کے لحاظ سے تو بالکل اول اور اعلی درجہ کی صحیح حدیث ہے، منکرینِ حدیث کے ضابطہ کے مطابق عبداللہ طارق صاحب اس حدیث کو قرآن کے خلاف مانتے ہیں، اس لئے وہ شفاعت کے منکر ہے اور مقام محمود کے بارے میں جمہور اہل سنت کے بیان کردہ مصداق شفاعت کبری کی جگہ وہ اپنا خود ساختہ معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں۔
(ب): شفاعت کی حدیث سے انبیاء کرام کی شان میں ذرہ برابر گستاخی نہیں ہوتی اور نہ یہ حدیث انبیاء کرام کی عظمت کے خلاف ہے، اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے۔
’’قیامت کے دن حشر کے چٹیل میدان میں تمام انسان سب بہت ہی پریشان حال ہوںگے، اس پریشانی میں انھیں سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کیا کریں اور کہاں جائیں؟ پھر خود ہی آپس میں مشورہ کے بعد اللہ تعالیٰ ی بارگاہ میں سفارش کرنے کے لئے انبیاء کرام کے پاس جائیں گے ،ہر نبی کے پاس پہونچ کر سب سے پہلے اللہ تعالی نے انھیں جو فضیلت اور عظمت بخشی ہے اُس کو بیان کریں گے پھر اپنی مصیبت و پریشانی سےچھٹکارہ پانےکے لئے اُس نبی سے اللہ تعالی کے حضور سفارش کی درخواست کریں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی ان کی درخواست کے جواب میں معذرت کا اظہار کریں گے، اللہ تعالیٰ کے غضب و جلال کا حوالہ دیں گے، اپنی بھول چوک کو بھی یاد کریں گے اور آخر میں اپنے بعد والے نبی کے پاس جانے کے لئے کہیں گے، اس طرح پریشان حال انسان تمام نبیوں سے ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہونچیں گے، آپ ﷺ کی اگلی پچھلی بھول چوک کی معافی اور آپ ﷺ کی شان ختم نبوت کا حوالہ دے کر آپ ﷺ سے بارگاہ خداوندی میں اپنے لئے شفاعت کی درخواست کریں گے۔
اللہ کے رسول ﷺ ان کی درخواست سن کر عرش الہی کے پاس پہونچیں گے اور اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوں گے، پھر خوب اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم ہوگا اے محمد! سر اٹھائو اورمانگو تمہیں عطا کیا جائے گا اور سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی…..‘‘ ( صحیح بخاری، حدیث نمبر 4712)
یہ حدیث ہے جس کو عبداللہ طارق صاحب نے انبیاء کرام کی گستاخی پر محمول کیا ہے، ان کے کہنے کے مطابق ہر نبی ’’نفسی نفسی‘‘ کہیں گے اور حضور ﷺ کی زبان پر ’’امتی امتی‘‘ ہوگا یعنی ہر نبی کو صرف اپنی پڑی ہوگی اور صرف حضور صلی علیہ وسلم کو سارے انسانوں کی فکر ہوگی، حالانکہ اس میں گستاخی و بے ادبی کا کوئی پہلو نہیں ہے ،اس لئےکہ فرق مراتب ہر گروہ میں ہوتے ہیں، انبیاء کرام میں بھی ہیں اورصحابہ کرام میں بھی ہیں، صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سب سے زیادہ افضل ماننے سے کیا دوسرے صحابہ کرام کی توہین ہوجائے گی، انبیاء کرام میں سب سے زیادہ افضل مقام و مرتبہ رسول اللہ ﷺ کا ہے، اس مرتبہ و مقام کی وجہ سے روز قیامت آپ ﷺ کو شفاعت کا اعزاز دیا گیا تو اس سے دوسرے انبیاء کرام کی شان میں گستاخی کیسے ہوجائے گی۔
پھر یہ کہ انبیاء کرام کا ’’نفسی نفسی‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں صرف اپنی پڑی ہے،اس کا معنی یہ ہے کہ آج اللہ تعالی کا جلال اتنا زیادہ ہے کہ ہم نبی ہو کر بھی کچھ نہیں کرسکتے ہیں، اندیشہ ہے کہ کہیں ہماری بھول چوک پر مواخذہ نہ کرلیاجائے، اگر ہر نبی کو صرف اپنی فکر ہوتی وہ اپنے بعد والے نبی کے پاس جانے کے لئےبھی نہیں کہتے، بعد والے نبی کے پاس بھیجنے کا مقصدیہ ہےکہ آگے انسانوں کی پریشانی کا حل کہیں نہ کہیں نکل آئے گا ،بالا آخر حبیب رب العالمین آں حضرت ﷺ کے پاس پہونچنے کے بعد پریشان حال انسانوں کو آں حضرت ﷺ کے سفارش سے پروانہ معافی حاصل ہوتا ہے،یہ گویاایسے ہی ہے کہ دنیا میں جب والد ناراض ہوجاتے ہیں تواُن کو منانے کے لئے گھر کے لوگ سب سے چہیتے اور لاڈلے بیٹے ؍بیٹی کو آگے کردیتے ہیں ،یا اپنے حالات کے لحاظ سے کسی منسٹر یا وزیر سے اپناکام بنانے کے لئے انتہائی اہم اور خاص تعلق رکھنے والے افراد (بیوی، مذہبی وغیرہ) سے سفارش کرواتی جاتی ہے۔
(ج): شفاعت سے متعلق عیسائیوں اور مسلمانوںکے تصور میں بڑا فرق ہے، عیسائی ’’عقیدہ کفارہ‘‘ کی وجہ سے یہ مانتے ہیں کہ یسوع مسیح نے سولی پر چڑھ کر ہمارے گناہ معاف کرادئے، اب ہم گناہ بھی کریں گے تو وہ از خود حضرت عیسی علیہ السلام کی قربانی سے معاف ہوجائیں گے ، عیسائیوں کے یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت ’’شافع مطلق‘‘ کی ہے، وہ روزِ قیامت اسی حیثیت سے گنہ گاروں کی سفارش کریں گے، پھر ان کی شفاعت سے گنہ گاروں کی نجات و بخشش کا قطعی فیصلہ ہوجائے گا، مسلمانوں کے نزدیک شفاعت کا تصور اتنا عام اور آسان نہیں ہے، وہ ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے امیدوار ہوتے ہیں، وہ اس کو اللہ تعالی کی اجازت سے مشروط مانتے ہیں اور پھر شفاعت کی قبولیت مکمل طور سے اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، حضرت مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ نے آیت شفاعت کے ضمن میں اس کی وضاحت یوں کی ہے:
’’مسیح کی شفاعت کبری مسیحیوںکا ایک عقیدہ خصوصی ہے ، مسیح کے لئے ان کے ہاں نہ صرف بالاستقلال شفاعت ثابت ہے بلکہ تخلیق کائنات بھی خدانے (نعوذ باللہ) اپنے اسی فرزند کے واسطہ کی ہے، قرآن مجیدمسیحیوںسے مخاطبہ کے وقت ان کے مخصوص مرکزی عقائد کفارہ وشفاعت وغیرہ پر برابر ضرب لگاتا جاتا ہے۔
باذنہ، یہ تصریح بھی بہت ضروری تھی ،مسیحیوں نے جہاں نجات کا دارومدار شفاعت پر رکھا ہے، وہیں اس کے برعکس بعض مشرک قوموں نے خدا کو قانونِ مکافات (ہندی میں ’’کرم‘‘) کے ضابطوں میں ایسا جکڑا ہوا سمجھ لیا ہے کہ اس کے لئے معافی کی اور اس کے ہاں شفاعت کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے،اسلام نے توسط واعتدال کی راہ اختیار کرکے بتایا کہ نجات کا مدار کسی شفاعت پر ہرگز نہیں ،البتہ اللہ نے اس کی گنجائش رکھی ہے اور اپنی اجازت کے بعد مقبول بندوں کو دوسروں کی شفاعت کا (جو درحقیقت دعا کی ہی ایک صورت ہے) موقع دے گا اور ان کی دعائیں قبول کرے گا اور مقبولین کے سب سے بڑے رئیس وسردار ہمارے رسول کریم ﷺ ہیں۔
اہل سنت نے مسئلہ شفاعت کا استنباط اسی آیت اور ایسی ہی آیتوں سے کیا ہے: وتقرر فی ھٰذہ الایۃ ان اللہ یاذن لمن یشاء فی الشفاعۃ، وھم الانبیاء والعلماء والمجاھدون والملائکۃ وغیرھم ممن اکرمھم اللہ وشرفھم اللہ ثم لایشفعون إلا لمن ارتضٰی…..(قرطبی)‘‘ ( تفسیر ماجدی ، البقرہ: ۲۵۵)
دوسرے یہ کہ عیسائیت آسمانی مذہب ہونے کی بنا مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان بہت سی باتیں مشترکہ ہیں، اس اشتراک کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں کے عقائد وہ نظریات بالکل ایک اور یکساں ہیں،مثلا ً مسلمان تورات کو آسمانی کتاب ماتنے ہیںاور عیسائی بھی اُس پر ایمان رکھتے ہیں ،تو کیا یہ کہا جائے گا کہ مسلمانوں میں تورات کو آسمانی کتاب ماننے کا عقیدہ عیسائیوں کی وجہ سے آیا ہے؟
بہر حال یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ شفاعت کاعقیدہ نہ قرآن مجید کے خلاف ہے ،نہ اس سے انبیاء کرام کی شان میں گستاخی ہوتی ہے اور نہ یہ عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں کی طرف سے آیا ہے۔
ذوالقرنین کے واقعہ سے گمراہ کن استدلال
عبداللہ طارق صاحب نےـ’’ ــــذوالقرنین ‘‘کے بارے میں تمام جمہور مفسرین کی وضاحت وتشریح سے بے پروا ہوکر ذوالقرانین کو رسول اللہ ﷺ کا ’’مقام محمود ‘‘بتا یا ہے، حالاںکہ کے قرآن مجید میں ذوالقرنین کے واقعہ کا ایک خاص پس منظر ہے ، وہ یہ کہ یہودیوں نے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کو جانچنے کے لئے آپ ﷺ سے اصحاب کہف، روح اور ذوالقرنین کے بارے میں سوالات کئے تھے، ان سوالات کے جواب میں بذریعہ وحی آں حضرت ﷺ کو ان واقعات کے بارے میں بتایا گیا، اگر موصوف اس پس منظر کو ہی اچھی طرح سمجھ لیتے تو وہ یہاں ایسی بے تکی اور بودی بات بالکل نہیں کہتے، ذوالقرنین اور مقام محمود کے درمیان سرے سے کوئی جوڑ ہی نہیں۔
لیکن عبداللہ طارق صاحب نے قادیانیوں اورچن بسویشور والوں کی طرح نبوت محمدی کے دو دور کا ایک ملحدانہ فلسفہ اپنے ذہین و دماغ میں بٹھا رکھا ہے، اس لئے وہ ہر جگہ زبردستی اس کو فٹ کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے اگرچہ انھیں دین کے مسلمہ عقائد کا انکار ہی کیوںنہ کرنا پڑے اور اس سے قرآنی آیات کے معانی و مطالب کا جنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے، چنانچہ انھوں نے’’ ذوالقرنین ‘‘کےلفظی معنوں کا سہارا لے کردو دور کی بات کی، کہا ’’ قرن‘‘ کے معنی زمانہ کے ہے ، قرنین کے معنی دو زمانے ’’ذوالقرنین‘‘ دو زمانوں والے، اگر اس طرح لفظی معنوں کا سہارا لے کر قرآن کے ترجمہ میں الٹ پھیر کیا جائے تو قرآن مجید میں مختلف القاب سے ساتھ مذکور کسی بھی شخصیت کا تذکرہ محفوظ نہیں رہے گا ،جیسے قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ’’ ذوالنون‘‘ (مچھلی والے) کے لقب اور اللہ تعالی کے ایک نیک اور صالح بندے کا تذکرہ ’’ذوالکفل‘‘ (دوہرے اجر والے) کے لقب سے ہے، کیا یہاں لفظی معنی کے لحاظ سے عام مچھلی والوں اور دوہرے اجر والوںکو قرآن مجید کی ان آیات سے جوڑ دیا جائے گا؟؟
قرآن مجید میں جس انداز واسلوب میں حضرت ذوالقرنین کے واقعہ کو بیان کیا گیاہے،اُس سے تو ایک خاص فرد اور شخصیت کا تذکرہ واضح ہوتا ہے، مثلا یہ کہ وہ مشرق و مغرب کا سفر کریں گے، یاجوج ماجوج کے ظلم سے لوگوں کو نجات دلائیں گے، اس کے لئے دیوار تعمیر کریں گے وغیرہ، اگر یہاں ذوالقرنین کے لفظی معنی مراد لے جائیں تو یہ ساری تفصیلات کس پر فٹ ہوں گی؟
اصل بات یہ ہے کہ مقام محمود سے متعلق عبداللہ طارق صاحب کی پوری گفتگو از اول تا آخر غلطی اور گمراہی پر مبنی ہے ، پہلی غلطی دو دور کا غیر اسلامی فلسفہ ، دوسری غلطی: دوسرے دور کو حقیقت مہدی قراردینا، اور تیسری غلطی ذوالقرنین کے لفظی معنی کرتے ہوئے اُس کو مقام محمود بتانا، شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا گیا۔
’’خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریا می رود دیوار کج‘‘
ایسے لوگ ’’مستند ہے میرا فرمایا ہو‘‘ کے زعم میںمبتلا ہوکر غلطی پر غلطی کرتےجاتے ہیں اور گمراہی کے نشیمن پراپنا نشیمن تعمیر کرتے جاتے ہیں، (اللہ تعالی حفاظت فرمائے)ظہورِ مہدی سے متعلق جناب عبد اللہ طارق صاحب کا یہ موقف دراصل ایک مثال اور نمونہ ہے ،اس بات کاکہ آدمی جب اپنے خاص اور مقررہ موضوع سے ہٹ کر دیگر موضوعات سے چھیڑ خوانی کرتاہے تو پھر وہ گمراہی کے راستہ پر چل پڑتا ہے۔
خلاصہ تحریر:
1) عبداللہ طارق صاحب کی جانب سے ’’مقام محمود‘‘ کو رسول اللہ ﷺ کا ’’مقام مہدویت‘‘قرار دینا، کتاب و سنت کی صراحتوں اور جمہور امت کے موقف کے بالکل خلاف ہے۔
2) رسول اللہ ﷺ کے لئے دو دور کا غیر اسلامی فلسفہ خارج اسلام فرقوں قادیانیت اور دیندار انجمن کے گمراہ اور گستاخانہ لٹریچر سے ماخوذ ہے۔
3) مسئلہ شفاعت کا انکار مقام محمود کی گمراہ کن تاویل کی اصل وجہ ہے۔
4) ذوالقرنین کو مقام محمود کا مصداق قرار دینا نہایت ہی بے اصل اور بے تکی بات ہے اور تفسیربالرائے کا ایک بدترین نمونہ ہے۔
جناب عبداللہ طارق صاحب کی گمراہیاں وگستاخیاں ایک نظر میں:
مقام محمود کی غلط وضاحت اور تشریح کی وجہ سے جناب عبد اللہ طارق صاحب کی حسبِ ذیل گمراہیاں اور گستاخیاںکچھ یوں واضح ہوتی ہیں:
الف : انھوں نےگمراہ کن تاویل کے ذریعہ اسلام کے متواتر عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ’’ظہور مہدی‘‘ کا انکار کیا ہے۔
ب: انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے خصوصی اعزاز و شرف’’ شفاعت کبری‘‘ کا انکار کرتے ہوئےنادانستہ آپ ﷺ کی توہین کی ہے ۔[نعوذ باللہ[
ج: انھوں نے رسول اللہ ﷺ کےلئے دو دور کاغیر اسلامی فلسفہ بیان کرتے ہوئے مذہب و ملت کے غدار قادیانی اور چن بسویشور سے ہم نوائی کی ہے۔
د: انھوں نے شفاعت نبویﷺ سے متعلق صحیح احادیث کو نہ مان کر منکرین حدیث سے اپنا تعلق ورشتہ جوڑا ہے۔
ہ: انھوں نے مقام محمود اور ذوالقرنین کےبارے میں اپنی طرف سے غلط معنی ومفہوم بیان کرتے ہوئے تفسیر بالرائے کا ارتکاب کیا ہے،جب کہ اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم کاصاف اور واضح حکم ہے جو شخص اپنی رائے کی بنیاد پر قرآن کی تفسیر کرے اُس کو جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالینا چاہئے’’ من قال فی القرآن برایہٖ فلیتبوا مقعدہ من النار‘‘۔(سنن ترمذی، حدیث نمبر:2951)
اللھم ارنا الحق حقّاً وارزقنااتباعہ وارنا الباطل باطلاًوارزقنا اجتنابہ
٭٭٭٭

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb