وادیِ کشمیر، جسے قدرت نے بے پناہ حسن سے نوازا اور جسے بجا طور پر "زمین پر جنت” کہا گیا، گزشتہ کئی دہائیوں سے المیوں کی ایک ایسی جانگسل داستان رقم کر رہی ہے جہاں جنت کے تصور پر تشدد، عدم استحکام اور انسانی لہو کے انمٹ نقوش حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی سیاہی سے داغدار ہیں؛ حملے جنہوں نے نہ صرف ان گنت معصوم زندگیوں کے چراغ بے وقت بجھا دیے ہیں بلکہ ملک کی مجموعی قومی سلامتی کے تانے بانے، خفیہ اداروں (انٹیلی جنس ایجنسیوں) کی پیشہ ورانہ استعدادِ کار اور سیاسی و انتظامی قیادت کی جوابدہی کی پوری عمارت پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ فروری 2019 میں ضلع پلوامہ میں نیم فوجی دستے، سی آر پی ایف، کے قافلے پر کیا جانے والا وہ ہولناک اور تباہ کن حملہ، جس کی بازگشت آج بھی ملک کے طول و عرض میں سنائی دیتی ہے، ابھی قوم کے اجتماعی شعور میں ایک گہرے ناسور کی طرح رِس ہی رہا تھا کہ 23اپریل2024 کو پہلگام کی حسین اور بظاہر پرامن وادی میں، تعطیلات منانے آئے نہتے اور بے خبر سیاحوں کا بہیمانہ اور بے رحمانہ قتلِ عام ایک نئے، دل دہلا دینے والے قومی سانحے کے طور پر سامنے آ گیا۔ پلوامہ سے پہلگام تک کا یہ خون آلود، المناک سفر محض دو الگ تھلگ، افسوسناک واقعات کا ایک تکلیف دہ اور قابلِ مذمت تسلسل نہیں، بلکہ یہ درحقیقت ایک ایسی پیچیدہ، تہہ در تہہ اور خطرناک داستان کا بیانیہ ہے جس کے ریشوں میں قومی سلامتی کے نظام کی متواتر، شرمناک ناکامیاں، انٹیلی جنس اداروں کی سنگین اور ناقابلِ فہم خامیاں، سیاسی مصلحتوں اور مفادات کے لیے انسانی جانوں کا استحصال، ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے اور بااثر حصے کا بڑھتا ہوا مشکوک، جانبدارانہ اور گمراہ کن کردار، اور ان تمام عوامل سے بڑھ کر، احتساب اور جوابدہی کا ایک شدید، تقریباً مکمل اور خطرناک حد تک سرایت کر جانے والا فقدان واضح طور پر نظر آتا ہے۔
یہ مضمون ان دونوں عظیم سانحات کے وسیع تر، پیچیدہ پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے، ان تلخ، کڑوی اور ناقابلِ تردید سچائیوں کا ایک گہرا، سنجیدہ اور غیر جانبدارانہ تنقیدی تجزیہ پیش کرنے کی ایک مخلصانہ کوشش کرے گا۔ اس جائزے کا بنیادی مقصد اس مرکزی، بنیادی اور انتہائی پریشان کن سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ آخر اس مسلسل، تباہ کن اور ناقابلِ قبول ناکامی، اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بے دریغ خونریزی کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ المیہ صرف سرحد پار سے دراندازی کرنے والے یا مقامی طور پر گمراہ شدہ چند مزاحمت کاروں کی وحشیانہ کارستانیوں کا نتیجہ ہے، یا اس سانحے کے پیچیدہ پس منظر میں ریاستی اداروں کی مجرمانہ غفلت، سیاسی مصلحتوں اور تنگ نظر مفاد پرستی پر مبنی فیصلے، اور ایک مخصوص، تفرقہ انگیز اور پولرائزیشن پر مبنی بیانیے کو معاشرے پر مسلط کرنے کی دانستہ یا نادانستہ، مگر تباہ کن کوششیں بھی کارفرما ہیں؟ آخر کب تک یہ قوم، یہ ملک، محض جذباتی نعروں، کھوکھلی لفاظی، نامکمل، غیر شفاف اور بے نتیجہ تحقیقات، اور قوم پرستی کی بظاہر میٹھی مگر حقیقتاً زہریلی چاشنی میں لپٹی ہوئی تلخ گولیوں پر اکتفا کرتی رہے گی، جبکہ حقیقی انصاف، مکمل سچائی اور کڑے، بلا امتیاز احتساب کا وہ بنیادی جمہوری و انسانی مطالبہ، جو ہر مہذب معاشرے کی اساس ہے، مسلسل پسِ پشت ڈال دیا جائے گا؟
14 فروری 2019 کا وہ منحوس دن بھارتی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جب پلوامہ کے قریب قومی شاہراہ پر سی آر پی ایف کے جوانوں کو لے جانے والے ایک وسیع قافلے کو ایک خودکش بمبار نے اپنی بارود سے بھری گاڑی سے ٹکرا کر تباہ کر دیا۔ چالیس سے زائد قیمتی انسانی جانوں(بھارتی فوجیوں ) کا یہ اندوہناک ضیاع ایک ایسا قومی صدمہ تھا جس نے پورے ملک کو جڑوں تک ہلا کر رکھ دیا اور قومی سلامتی کے حوالے سے شدید بے چینی، خوف اور تشویش کی ایک گہری لہر پیدا کی۔ اس ہولناک حملے کے فوری بعد، ملک بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا، اور ساتھ ہی قوم پرستی کا ایک زبردست، جذباتی طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ بدلے اور فوری انتقام کے فلک شگاف نعرے ہر طرف بلند ہونے لگے، اور چند ہی ہفتوں بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات کے لیے یہ واقعہ ایک انتہائی اہم، حساس اور جذباتی سیاسی موضوع بن گیا۔ مودی حکومت نے بھی اس موقع کو ضائع نہ کرتے ہوئے فوری طور پر کارروائی کی اور پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں مبینہ دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں پر فضائی حملے (جسے "سرجیکل اسٹرائیک 2.0” کا نام دیا گیا) کا دعویٰ کیا، اور اس اقدام کے ذریعے اپنی مضبوط، فیصلہ کن اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والی قیادت کا تاثر قائم کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی۔
تاہم، اس شدید جذباتی ماحول، بلند آہنگ سیاسی بیان بازی اور قوم پرستی کے بظاہر ناقابلِ تسخیر غبار تلے، پلوامہ حملے سے جڑے وہ بنیادی، سنگین اور ناگزیر سوالات دب کر رہ گئے، یا شاید دانستہ طور پر دبا دیے گئے، جن کے تسلی بخش اور واضح جوابات آج تک قوم کو میسر نہیں، اور جن کا اٹھانا بھی بعض حلقوں کی جانب سے حب الوطنی پر شک کرنے کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ اس کے باوجود، چند جرات مند اور باضمیر آوازیں، خصوصاً آزاد صحافت سے وابستہ افراد، ان اہم سوالات کو زندہ رکھنے اور بار بار اٹھانے کی قابلِ ستائش کوششیں کرتی رہیں۔ ان کلیدی اور نظر انداز نہ کیے جا سکنے والے نکات میں شامل ہیں:
• اول: حملے میں استعمال ہونے والے کثیر مقدار میں مہلک اور تباہ کن دھماکہ خیز مواد، یعنی آر ڈی ایکس، کا اصل ماخذ (Source) کیا تھا اور یہ حملہ آور تک اتنی آسانی سے کیسے پہنچا؟ کیا اس مواد کی حصولی اور ترسیل میں ملوث وسیع اور خطرناک نیٹ ورک کا سراغ لگایا جا سکا؟ اس ضمن میں ہونے والی تحقیقات کس ٹھوس نتیجے پر پہنچیں؟
• دوم: یہ ناقابلِ فہم معمہ کہ حملہ آور کی بارود سے لدی گاڑی، تمام تر مروجہ سیکورٹی پروٹوکولز، ناکوں اور چیک پوسٹوں کو کسی نہ کسی طرح چکمہ دے کر، سی آر پی ایف کے ایک وسیع، حساس اور محفوظ سمجھے جانے والے قافلے کے عین وسط تک بغیر کسی رکاوٹ کے داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہو گئی؟ کیا یہ محض چند اہلکاروں کی اتفاقی غفلت تھی یا سیکورٹی کے پورے نظام میں کوئی ایسا سنگین، بنیادی اور ناقابلِ تلافی شگاف (Loophole) موجود تھا جس کا دہشت گردوں نے کامیابی سے فائدہ اٹھایا؟
• سوم: یہ انتہائی تشویشناک اور غور طلب پہلو کہ حملہ آور نے مبینہ طور پر پورے قافلے میں موجود درجنوں گاڑیوں میں سے صرف اسی ایک بس کو پوری شدت سے نشانہ بنایا جو غیر بلٹ پروف تھی۔ کیا یہ محض ایک اندھا دھند حملہ اور اتفاقی ہدف تھا، یا حملہ آور اور اس کے منصوبہ سازوں کے پاس قافلے کی اندرونی ساخت، گاڑیوں کی تفصیلات اور کمزوریوں کے بارے میں پہلے سے مخصوص، درست اور قابلِ عمل انٹیلی جنس موجود تھی؟
• چہارم : ان سنگین اطلاعات اور دعوؤں کی حقیقت کیا تھی کہ قافلے میں شامل جوانوں نے سفر سے قبل خراب موسمی حالات اور راستے میں ممکنہ سیکورٹی خطرات کے پیش نظر سڑک کے ذریعے طویل اور خطرناک سفر کرنے کے بجائے بذریعہ ہوائی جہاز (ایئر لفٹ) سرینگر منتقل کیے جانے کی باقاعدہ اور تحریری درخواست کی تھی، لیکن ان کی اس جائز اور اہم درخواست کو مبینہ طور پر اعلیٰ حکام نے مسترد کر دیا تھا؟ اس دعوے میں کس حد تک صداقت ہے، اور اگر یہ درست ہے تو اس ممکنہ، مجرمانہ غفلت کا براہ راست ذمہ دار کون تھا، جس کی ناقابلِ تلافی قیمت چالیس سے زائد انسانی جانوں کی صورت میں ادا کرنی پڑی؟
• پنجم: اور شاید سب سے اہم کہ جموں و کشمیر کے اس وقت کے گورنر، جناب ستیہ پال ملک، کے بعد ازاں مختلف انٹرویوز اور بیانات میں کیے گئے وہ سنسنی خیز اور دھماکہ خیز انکشافات کہ پلوامہ حملے جیسے ممکنہ خطرات کے حوالے سے انٹیلی جنس ان پٹ پہلے سے موجود تھے، اور انہوں نے ذاتی طور پر ان سنگین سیکورٹی خدشات سے اعلیٰ ترین حکومتی اور سیکورٹی عہدیداران کو بروقت آگاہ بھی کر دیا تھا، لیکن نہ صرف ان کی تنبیہات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا بلکہ انہیں اس معاملے پر خاموش رہنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔ ان سنگین، براہ راست اور اعلیٰ ترین سطح پر لگائے گئے الزامات کی کتنی غیر جانبدارانہ، شفاف اور گہرائی سے تحقیقات کی گئیں، اور ان کا نتیجہ کیا نکلا؟
ان تمام اہم، بنیادی اور انتہائی سنگین سوالات کی تحقیقات کی ذمہ داری ملک کی سب سے بڑی اور خصوصی تحقیقاتی ایجنسی، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو تفویض کی گئی۔ بظاہر یہ ایک مناسب قدم تھا، لیکن پانچ سال سے زائد کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود، بھارتی قوم آج تک ان تحقیقات کے حتمی، ٹھوس، غیر مبہم اور اطمینان بخش نتائج سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے۔ عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ آر ڈی ایکس کہاں سے آیا، سیکورٹی میں کہاں اور کیسے چوک ہوئی، اور کیا واقعی انٹیلی جنس کی ناکامی ہوئی تھی۔ پلوامہ کے شہیدوں کے نام پر ووٹ ضرور مانگے گئے، قوم پرستی کی لہر کو سیاسی مقاصد کے لیے کامیابی سے استعمال کیا گیا، لیکن ان جوانوں کو، جنہوں نے ملک کی حفاظت کی قسم کھائی تھی اور اسی راہ میں اپنی جانیں نچھاور کیں، حقیقی انصاف فراہم کرنے کے لیے جس کڑی جوابدہی اور بلا امتیاز احتساب کا تعین ناگزیر تھا، وہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آیا۔ جب تک سوالات کے جواب نہیں ملتے، انصاف ادھورا رہتا ہے۔ پلوامہ کا یہ نامکمل، تشنہ انصاف اور جوابدہی کا یہ واضح، ڈھٹائی پر مبنی فقدان، درحقیقت ایک ایسی خطرناک اور تباہ کن مثال قائم کر گیا جس نے مستقبل میں ہونے والی مزید سنگین ناکامیوں اور مجرمانہ غفلتوں کے لیے گویا دانستہ یا نادانستہ طور پر راہ ہموار کر دی۔
اگر پلوامہ کی سنگین اور ناقابلِ تردید ناکامیوں سے، سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر، حقیقی معنوں میں سبق سیکھا جاتا؛ اگر ذمہ داروں کا، چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیوں نہ ہوتے، بلا امتیاز تعین کرکے انہیں عبرت ناک سزا دی جاتی؛ اور اگر سیکورٹی پروٹوکولز، انٹیلی جنس جمع کرنے، اس کا تجزیہ کرنے اور اسے بروقت شیئر کرنے کے پورے نظام کو فوری طور پر، جنگی بنیادوں پر، بہتر اور فول پروف بنایا جاتا، تو شاید پہلگام کی خوبصورت وادی میں رونما ہونے والے دلخراش سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن صد افسوس! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم پرستی کے بلند آہنگ نعروں، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے شور شرابے اور ایک مخصوص، خود ساختہ بیانیے کی گہری دھند میں اصل مسائل، بنیادی کمزوریوں، ادارہ جاتی خامیوں اور ان کے ذمہ داروں کو دانستہ طور پر چھپا دیا گیا یا نظر انداز کر دیا گیا، جس کا ناقابلِ تلافی اور المناک خمیازہ پہلگام کی وادی میں ایک بار پھر بے گناہ، نہتے شہریوں کو اپنی قیمتی جانوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ المیوں کی یہ تکرار دراصل سبق نہ سیکھنے اور روش نہ بدلنے کا ہی منطقی نتیجہ ہے۔
پہلگام، جو اپنی دل موہ لینے والی قدرتی خوبصورتی، وسیع و عریض سرسبز مرغزاروں، بلند و بالا برف پوش پہاڑوں اور سالانہ امرناتھ یاترا کے اہم ترین بیس کیمپ کے طور پر نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں ایک منفرد شناخت رکھتا ہے، اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ماضی کے تلخ تجربات کی بنا پر سیکورٹی کے اعتبار سے ہمیشہ سے ایک انتہائی حساس اور ہائی رسک علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اپریل کے مہینے میں جب وادی کشمیر میں سیاحتی موسم اپنے عروج پر تھا اور پہلگام کی مشہور بیسن وادی جیسے دلکش مقامات مصدقہ اطلاعات کے مطابق کم از کم دو ہزار سے زائد ملکی و غیر ملکی سیاحوں (بشمول ہر عمر کے مرد، خواتین اور معصوم بچوں) سے بھرے ہوئے تھے جو معمول کے مطابق فطرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، تبھی اچانک جدید ہتھیاروں سے لیس مسلح انتہا پسندوں نے، بظاہر کسی بھی پیشگی اطلاع یا مؤثر مزاحمت کے بغیر، ایک آسان اور غیر محفوظ ہدف پا کر ان نہتے، بے خبر اور خوش باش لوگوں پر اندھا دھند، بے رحمانہ فائرنگ شروع کر دی۔ یہ حملہ اتنا اچانک، غیر متوقع اور شدید تھا کہ کسی کو سنبھلنے، چھپنے یا فرار ہونے کا موقع تک نہ مل سکا۔ ابتدائی، مگر دل دہلا دینے والی اطلاعات کے مطابق، اس وحشیانہ اور ناقابلِ بیان کارروائی کے نتیجے میں 28 سے زائد افراد، جن کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں اور کچھ کا بیرون ملک سے بھی تھا، موقع پر ہی یا ہسپتال پہنچنے سے قبل دم توڑ گئے، جبکہ درجنوں دیگر شدید زخمی حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گئے۔ بلاشبہ یہ واقعہ 2019 کے پلوامہ حملے کے بعد وادی کشمیر میں پیش آنے والا سب سے بڑا، ہلاکت خیز اور تشویشناک تخریبی حملہ تھا، جس نے ملک کے سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے پورے نظام کی بنیادوں کو ایک بار پھر بری طرح ہلا کر رکھ دیا اور ساتھ ہی ایسے انتہائی سنگین، بنیادی، پریشان کن اور فوری جواب طلب سوالات کو جنم دیا، جنہیں اب مزید نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
ان سوالات میں سب سے پہلا، سب سے بنیادی اور سب سے زیادہ چونکا دینے والا پہلو یہ تھا کہ اس المناک حملے کے وقت، اس انتہائی حساس اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل سیاحتی مقام پر، جہاں اتنی بڑی تعداد میں غیر مسلح شہری، بشمول غیر ملکی، کھلے عام گھوم پھر رہے تھے، سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی تقریباً صفر، یعنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس حقیقت کی تصدیق نہ صرف جائے وقوعہ پر موجود متعدد عینی شاہدین کے ابتدائی بیانات سے ہوئی بلکہ حیرت انگیز طور پر ابتدائی چند گھنٹوں میں کچھ ذمہ دار میڈیا رپورٹس میں بھی اس کا واضح ذکر آیا، اگرچہ بعد میں ان رپورٹس کو پراسرار طور پر دبا دیا گیا یا ان کا رخ موڑ دیا گیا۔ خواہ وہ مقامی جموں و کشمیر پولیس ہو یا مرکزی نیم فوجی دستے (جیسے سی آر پی ایف یا بی ایس ایف)، بظاہر کوئی بھی مؤثر حفاظتی حصار یا گشتی اہلکار وہاں موجود نہ تھا۔ ہیمنت اتری، جو ایک تجربہ کار دفاعی صحافی ہیں اور ماضی میں خود بھی پہلگام کے اس مخصوص علاقے کا دورہ کر چکے تھے، نے انتہائی کرب اور شدید حیرت کے ساتھ یہ سوال اٹھایا کہ "وہاں 2000 کے آس پاس سیاح تھے… دیسی بھی تھے، ودیشی بھی تھے… سب طرح کے تھے۔ وہاں سیکورٹی کے نام پر کوئی پیراملٹری، کوئی پولیس کا ایک بھی جوان نہیں تھا، جیسا کہ زمین سے رپورٹ کیا گیا ہے۔ وہ سیکورٹی کیوں نہیں تھی؟” یہ سوال محض ایک صحافی کا نہیں، بلکہ ہر اس بھارتی شہری کا ہے جو اپنی منتخب حکومت سے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی آئینی اور انسانی توقع رکھتا ہے۔ ایک ایسے حساس علاقے میں، جو نہ صرف اپنی بین الاقوامی سیاحتی اہمیت بلکہ امرناتھ یاترا کے حوالے سے مذہبی تقدس کا مرکز بھی ہے، جہاں چند ہفتوں بعد ہی سالانہ یاترا کا آغاز ہونا تھا جس کے لیے وسیع اور فول پروف سیکورٹی انتظامات درکار ہوتے ہیں، اور جہاں مبینہ طور پر حملے سے کچھ عرصہ قبل ملک کے وزیر اعظم کے دورے کا منصوبہ بھی زیرِ غور تھا، اس سطح کا سنگین، ناقابلِ یقین اور ناقابلِ فہم سیکورٹی خلاء (Security Lapse) کسی بھی منطق یا دلیل سے قابلِ فہم یا قابلِ معافی نہیں ہے۔ کیا یہ محض چند مقامی اہلکاروں کی سنگین انتظامی غفلت، پیشہ ورانہ نااہلی یا دستیاب وسائل کی شدید کمی کا نتیجہ تھا، یا اس کے پسِ پردہ کوئی اعلیٰ سطحی فیصلہ، کوئی غلط فہمی، یا کوئی اور ناقابلِ بیان وجہ کارفرما تھی جس کی بنا پر سیکورٹی کو اس قدر خطرناک اور جان لیوا حد تک کمزور کر دیا گیا تھا یا مکمل طور پر ہٹا لیا گیا تھا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ناگزیر ہے۔
سیکورٹی میں خلاء کے علاوہ، پہلگام حملہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں (بشمول آئی بی، راء، ملٹری انٹیلی جنس) کی مجموعی کارکردگی اور ممکنہ ناکامی پر بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ یہ واقعہ پورے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی افادیت اور پیشگی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، بالخصوص اس لیے کہ یہ حملہ وزیرِ داخلہ امت شاہ کے حالیہ دورہ کشمیر اور سیکورٹی جائزے کے محض چند روز بعد ہوا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس حملے کی کوئی قابلِ عمل پیشگی اطلاع (Actionable Intelligence) موجود تھی؟ اگر تھی، تو اس پر بروقت کارروائی کیوں نہ ہوئی؟ اور اگر سرے سے کوئی اطلاع ہی نہیں تھی، تو یہ انٹیلی جنس جمع کرنے، تجزیہ کرنے اور اسے متعلقہ اداروں تک پہنچانے کے پورے نظام کی ایک مکمل، شرمناک اور ناقابلِ قبول ناکامی ہے۔ یہ صورتحال مرکزی حکومت کے ان مسلسل دعوؤں کے بالکل برعکس ہے، جو اگست 2019 (دفعہ 370 کی منسوخی) کے بعد سے کیے جا رہے تھے کہ کشمیر میں دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے اور امن بحال ہو چکا ہے۔ پہلگام کا بڑا، منظم حملہ ان دعوؤں کے کھوکھلے پن اور زمینی حقائق سے ان کے خطرناک تضاد کو واضح کرتا ہے۔
اس تمام صورتحال کی تلخ ستم ظریفی یہ ہے کہ حملے سے چند روز قبل ہی وزیر داخلہ امت شاہ نے کشمیر کا تفصیلی دورہ کیا، اعلیٰ سطحی سیکورٹی میٹنگز کیں اور بڑے اعتماد سے دعویٰ کیا تھا کہ "جموں و کشمیر میں دہشت گردی کا ایکو سسٹم مفلوج کر دیا گیا ہے” اور ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ پہلگام حملہ، جو ان کے دورے اور پُرامید اعلانات کے فوراً بعد ہوا، ان دعوؤں کی حقیقت پر سوالیہ نشان لگا گیا۔ اگر دہشت گردی کا نظام واقعی ناکارہ تھا تو اتنا بڑا حملہ اتنی آسانی، ڈھٹائی اور کامیابی سے کیسے ممکن ہوا؟ حکومتی دعوؤں اور زمینی حقیقت کے درمیان یہ واضح تضاد ذمہ داری کے تعین کا متقاضی ہے۔ پہلگام میں سیکورٹی اور انٹیلی جنس کی یہ ناقابلِ تردید ناکامی محض انتظامی کوتاہی نہیں، بلکہ ایک سنگین، مجرمانہ غفلت ہے جس کی قیمت بے گناہ شہریوں نے اپنی جانوں سے ادا کی ہے۔ چونکہ جموں و کشمیر، اگست 2019 سے براہِ راست مرکزی حکومت اور وزارتِ داخلہ کے انتظامی کنٹرول میں ہے، لہٰذا اس شرمناک اور تباہ کن ناکامی کی حتمی ذمہ داری مرکزی وزارتِ داخلہ اور حکومتِ وقت پر عائد ہوتی ہے، جس سے پہلو تہی ممکن نہیں۔
پلوامہ اور پھر پہلگام، ان دونوں عظیم قومی سانحات کے بعد سامنے آنے والے عوامی، سیاسی اور میڈیا ردعمل میں ایک مخصوص، پریشان کن اور بار بار دہرایا جانے والا طرزِ عمل مشترک اور نمایاں رہا۔ ہر دو مواقع پر، اصل اور بنیادی سوالات ،جیسے سیکورٹی انتظامات میں سنگین ناکامی کیوں ہوئی؟ انٹیلی جنس ایجنسیاں پیشگی اطلاع یا اس پر عمل درآمد میں کیوں ناکام رہیں؟ اور اس مجرمانہ غفلت کے اصل ذمہ دار کون ہیں جن کا احتساب ہونا چاہیے؟ کو پسِ پشت ڈال کر، یا کم از کم ان کی اہمیت گھٹا کر، ایک مخصوص، پہلے سے طے شدہ سیاسی اور فرقہ وارانہ بیانیے کو تیزی سے، منظم اور وسیع پیمانے پر فروغ دینے کی واضح کوشش کی گئی۔
اس خطرناک کھیل میں، بدقسمتی سے، ملک کے ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے اور بااثر حصے نے، جسے ناقدین شدید تلخی سے ‘گودی میڈیا’، ‘پروپیگنڈا مشینری’ یا اسی قسم کے دیگر توہین آمیز القابات سے پکارتے ہیں، کلیدی اور انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ ان میڈیا اداروں نے اپنی بنیادی صحافتی ذمہ داری یعنی غیر جانبداری سے حقائق پہنچانا اور عوام کے مفاد میں طاقتوروں (خاص طور پر حکومت) سے کڑے سوالات پوچھنا ،کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، حکومتی ناکامیوں اور ممکنہ غفلت پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی منظم مہم چلائی۔
اس کی ایک واضح مثال پہلگام حملے کے فوراً بعد دیکھنے میں آئی جب ایک معروف نیوز چینل کے رپورٹر نے جائے وقوعہ سے سیکورٹی میں سنگین کوتاہی کی نشاندہی شروع کی (جس کا اعتراف مبینہ طور پر وزارتِ داخلہ کے افسران بھی کر رہے تھے)، تو فوری طور پر اس کی آواز دبا دی گئی اور نشریات کا رخ موڑ دیا گیا۔ اس کے برعکس، اسی میڈیا نے تقریباً متفقہ طور پر اس غیر مصدقہ اور انتہائی اشتعال انگیز بیانیے کو نمایاں طور پر، بار بار اور سنسنی خیز انداز میں پھیلایا کہ ‘دہشت گردوں نے حملہ کرنے سے پہلے لوگوں سے ان کا مذہب پوچھا’۔ اس قسم کی رپورٹنگ کا واضح مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑکا کر عوام کی توجہ حکومتی اور انتظامی ناکامیوں سے ہٹانا تھا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف غیر ذمہ دارانہ بلکہ انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ یہ معاشرے میں تقسیم پیدا کرکے حقیقی مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور احتساب کے عمل کو کمزور کرتے ہوئے طاقتوروں کو جوابدہی سے بچنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
پلوامہ سے پہلگام تک کا یہ خونیں سفر اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ جب تک قومی سلامتی کی سنگین ناکامیوں پر کڑا، غیر جانبدارانہ اور شفاف احتساب یقینی نہیں بنایا جاتا، ایسے المناک سانحات کا تسلسل روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ پلوامہ کے جواب طلب سوالات اور پہلگام میں سیکورٹی و انٹیلی جنس کی ناقابلِ تردید کوتاہیاں، نظام میں موجود بنیادی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہیں، جنہیں دور کرنے کے بجائے سیاسی بیان بازی اور قوم پرستی کے جذباتی نعروں کی دھول میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مزید براں، میڈیا کے ایک بااثر طبقے کا حکومتی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر فرقہ وارانہ بیانیوں کے ذریعے توجہ ہٹانا، صورتحال کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا رہا ہے۔ اس عمل میں عوام کو حقائق جاننے اور حکومت سے جواب طلبی کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
لہٰذا، ناگزیر ہے کہ پلوامہ اور پہلگام، دونوں سانحات کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں، جن کے نتائج پوری شفافیت کے ساتھ عوام کے سامنے رکھے جائیں۔ ذمہ داروں کا تعین، بلا لحاظِ عہدہ و مرتبہ، کیا جائے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ساتھ ہی، سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے نظام میں موجود خامیوں کی اصلاح کے لیے ٹھوس اور فوری اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ کیونکہ جب تک حقیقی احتساب کا عمل شروع نہیں ہوتا، نہ تو ماضی سے سبق سیکھا جائے گا، نہ روش بدلے گی، اور نہ ہی معصوم شہریوں کی جانیں محفوظ ہوں گی۔ بھارتی عوام کو جذباتی نعروں اور کھوکھلی لفاظی کے سراب سے نکل کر پوری قوت سے سچائی، انصاف اور جوابدہی کا مطالبہ کرنا ہوگا، اس لیے کہ یہی ایک محفوظ اور مہذب معاشرے کی حقیقی اساس ہے۔
=======================
1 thought on “نہ سیکھا سبق، نہ بدلی روش: پلوامہ کے سائے میں پہلگام کا سانحہ”
ڈاکٹر عظیم صاحب تمام پہلو کو اجاگر کیا۔۔۔۔اللہ آ پ کی قلم میں اور طاقت عطا کریں۔۔الہلال میڈیا کو ترقی ملے۔۔۔
ڈاکٹر عظیم صاحب تمام پہلو کو اجاگر کیا۔۔۔۔اللہ آ پ کی قلم میں اور طاقت عطا کریں۔۔الہلال میڈیا کو ترقی ملے۔۔۔