پہلگام حملہ اسلامی تعلیمات اور انسانیت کے خلاف: امیر شریعت
پہلگام کے معصوم متاثرین کے ساتھ یکجہتی، دہشت گردی اور خاموشی کے خلاف سوال
مونگیر، 23 اپریل 2025: امیرِ شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم، سجادہ نشین خانقاہِ رحمانی مونگیر، نے پہلگام میں پیش آنے والے المناک حملے پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ نہ صرف انسانی اقدار بلکہ اسلامی فکر کے بھی سراسر خلاف ہے۔انہوں نے سانحے میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کے اہلِ خانہ سے دلی ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہم متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
زخمیوں کی جلد صحتیابی اور متاثرین کی زندگیوں میں سکون و استحکام کی امید کرتے ہیں۔حضرت امیرِ شریعت نے کہا کہ بے گناہ اور معصوم سیاحوں کا قتل، خواہ کسی نے کیا ہو، نہایت انسانیت سوز عمل ہے، اور اسلام ایسے کسی فعل کی نہ صرف اجازت نہیں دیتا بلکہ سختی سے مذمت کرتا ہے۔ "قرآن میں سکھاتا ہے کہ ایک بے گناہ جان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔”انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسے سخت سکیورٹی انتظامات، بھاری تعداد میں تعینات اہلکاروں، اور انٹیلیجنس نظام کے باوجود آخر ایسے حملے ممکن کیسے ہو جاتے ہیں؟
کیا یہ صرف سکیورٹی نظام کی ناکامی ہے، یا کہیں کوئی ایسی غفلت یا خاموشی ہے جو کسی گہرے اندیشے کی طرف اشارہ کرتی ہے؟ یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔حضرت نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ کشمیر میں انتخابی موسم سے عین قبل کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو۔ ماضی میں پلوامہ جیسے سنگین سانحات بھی اسی ماحول میں رونما ہوئے، جن کی تفتیش آج تک ادھوری ہے اور مجرموں کو سزا نہیں مل سکی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ایسے حملوں سے سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟
کیا اس کا مقصد وادی کی سیاحت، مقامی معیشت، اور عوامی احتجاجات کو کمزور کرنا ہے؟ کیا یہ ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی شکل ہے جو لوگ وقف جیسے آئینی مسائل پر کر رہے ہیں؟ دفعہ 35-A اور 370 کی منسوخی کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے—آج وہ محض زبانی دعوے ثابت ہو رہے ہیں۔حضرت امیرِ شریعت نے زور دیا کہ:ایسے سانحات کی آزاد اور شفاف تحقیقات کی جائیںصرف حملہ آوروں ہی نہیں، بلکہ ان وجوہات اور خامیوں پر بھی روشنی ڈالی جائے جن کی وجہ سے ایسے واقعات ممکن ہوئےسیاسی اور سکیورٹی ذمہ داران کو اخلاقی جرات کے ساتھ جواب دہ بنایا جائے
، اور اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو انہیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے عہدوں سے سبکدوش ہونا چاہیے۔اختتام پر انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر امن، انصاف، اور باہمی احترام کی علامت بنے—نہ کہ خوف، سیاسی مفاد اور المیے کی پہچان۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سچ سامنے لایا جائے، اور ہر شہری كو اس کا حق، تحفظ اور وقار بحال کیا جائے۔”