سندھ طاس معاہدے کی معطلی:
سیاسی بازیگری یا تجاہلِ عارفانہ؟
ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
پہلگام کے دلخراش حملے کے بعد، جس نے ایک بار پھر خطے کی نازک صورتحال کو اجاگر کیا، بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو "معطل” کرنے کا اعلان ایک ایسا قدم تھا جس نے فوری طور پر پانی کے حساس مسئلے کو سیاسی اکھاڑے میں لا کھڑا کیا۔ اس اعلان کے ردِ عمل میں پاکستان نے سخت الفاظ میں خبردار کیا کہ پانی روکنے کی کسی بھی کوشش کو ایک جنگی اقدام (Act of War) سمجھا جائے گا اور اس کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے پانی کو پاکستان کی "شہ رگ” اور ایک اہم قومی مفاد قرار دیا جس کی حفاظت ہر قیمت پر کی جائے گی۔ یہ بیانات بلاشبہ اس معاملے کی سنگینی اور پاکستان کے لیے اس کی کلیدی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں طے پایا، دو جنگوں کے باوجود اپنی جگہ قائم رہا اور اسے سرحد پار پانی کے انتظام کا ایک نادر نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت سندھ بیسن کے چھ دریاؤں کی تقسیم عمل میں آئی: تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کے حصے میں آئے، جبکہ تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا 80 فیصد پانی پاکستان کے لیے مختص کیا گیا۔ اگرچہ بھارت نے ماضی میں موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر اس معاہدے پر نظرِ ثانی یا ترمیم کا مطالبہ کیا ہے اور پاکستان نے بھی بھارت کے آبی منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں، یہ پہلا موقع ہے کہ، بالخصوص بالائی ملک (Upstream Country) ہونے کے ناطے بھارت کی جانب سے، اس معاہدے کی "معطلی” کا اعلان کیا گیا ہے۔
تاہم، سب سے اہم اور فوری سوال یہ ہے کہ کیا بھارت واقعی سندھ، جہلم اور چناب جیسے وسیع مغربی دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کو پاکستان میں جانے سے بڑے پیمانے پر روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سیاسی بازیگری اپنے تمام تر دعوؤں کے ساتھ سامنے آتی ہے اور تجاهلِ عارفانہ عملی حقائق کو نظر انداز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی جانب سے یہ بلند بانگ دعوے کیے گئے ہیں کہ پاکستان کو "ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسایا جائے گا” یا "پانی سے محروم کر کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے گا”۔ کئی سیاسی رہنماؤں نے اس معاملے پر انتہائی جذباتی اور جارحانہ بیانات دیے ہیں۔
لیکن حقیقت کیا ہے؟ ماہرین کا متفقہ اور غیر مبہم مؤقف یہ ہے کہ بھارت کے لیے مغربی دریاؤں کے پانی کے بہاؤ کو فوری طور پر بڑے پیمانے پر روکنا "تقریباً ناممکن” ہے۔ اس کی سب سے بڑی رکاوٹ ضروری بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے۔ بھارت کے پاس فی الحال اتنے وسیع آبی ذخائر اور پانی کا رُخ موڑنے کے لیے درکار وسیع نہری نظام موجود نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق، بھارت میں زیادہ تر آبی ڈھانچہ "رن آف دی ریور” پن بجلی منصوبوں پر مشتمل ہے، جو بہتے پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور پانی کو بڑی مقدار میں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت معاہدے کے تحت اپنے حصے میں آنے والے مغربی دریاؤں کے 20 فیصد پانی کا بھی مکمل استعمال نہیں کر پا رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ بھی مناسب انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی ہے۔
ماہرین اور حکومتی عہدیداروں کی رپورٹس کے مطابق، مغربی دریاؤں میں پانی کا بہاؤ، خصوصاً برف پگھلنے کے موسم (مئی تا ستمبر) میں، اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ اسے روکنے کے لیے موجودہ ڈھانچہ قطعاً ناکافی ہے۔ اگر بھارت اس بے پناہ پانی کو روکنے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے اسے اپنے ہی علاقے، یعنی کشمیر اور پنجاب کے ہزاروں مربع کلومیٹر علاقے میں شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو سکتی ہیں۔ یہ نقصان پاکستان سے کہیں زیادہ خود بھارت کا ہوگا۔
پانی کو روکنے کے لیے جس بڑے پیمانے کے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے، جیسے کہ عظیم الجثہ ڈیمز اور نہروں کا جال، ان کی تعمیر میں برسوں نہیں بلکہ دہائیاں لگیں گی۔ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ اگر آج سے بھی جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے تو کم از کم 10 سے 20 سال درکار ہوں گے، اور اس پر کھربوں روپے لاگت آئے گی۔ حتیٰ کہ آئندہ 30 سے 50 برسوں میں بھی پاکستان پر کوئی قابلِ ذکر اثر مرتب ہونے کا امکان کم ہے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کی رپورٹس میں خود سرکاری حکام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ علاقے کی جغرافیائی ساخت ایسی ہے کہ بھارت کے لیے مغربی دریاؤں سے زیادہ پانی استعمال کرنا ویسے بھی ممکن نہیں۔ یہ دلیل ان دعوؤں کو بھی کمزور کرتی ہے کہ 1960 کے معاہدے میں بھارت کو کم پانی ملا۔
تو پھر "پانی روکنے” کا یہ سیاسی شور شرابا کیا ہے؟ ماہرین کے مطابق، بھارت فی الحال جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ کہ موجودہ بنیادی ڈھانچے میں کچھ معمولی تبدیلیاں کرے یا نئے منصوبوں کی تعمیر کا آغاز کرے، جس سے پانی کو محدود پیمانے پر روکا یا موڑا جا سکے، اور ممکنہ طور پر یہ اقدامات پاکستان کو پیشگی اطلاع دیے بغیر کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، یہ اقدامات پانی کے بہاؤ کو بہت ہی معمولی سطح پر کم کر سکیں گے۔ آبی ذخائر سے گاد (silt) نکالنے کا کام فوری طور پر شروع کیا جا سکتا ہے، جس سے بھارت کو وقتی طور پر تھوڑا زیادہ پانی میسر آسکتا ہے، لیکن یہ بھی چند ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں، بلکہ برسوں پر محیط منصوبہ ہے۔ پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا ایک اور ممکنہ طریقہ اچانک ذخائر سے پانی اور گاد کا اخراج کر کے نچلے علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا کرنا ہو سکتا ہے، لیکن اس کا فوری اور بڑے پیمانے پر اثر محدود ہے اور یہ خود بھارت کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
اس پورے معاملے میں "تجاہلِ عارفانہ” والا رویہ عیاں ہے۔ ایک طرف سیاسی رہنما اور میڈیا پانی روکنے کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں، جو عوامی جذبات کو تو بھڑکا سکتے ہیں، لیکن دوسری طرف عملی حقائق، جیسا کہ ماہرین اور سرکاری رپورٹس تسلیم کرتی ہیں، یہ ہیں کہ فوری طور پر بڑے پیمانے پر پانی روکنا ممکن ہی نہیں۔ 2016 میں (اُڑی حملے کے بعد) سندھ طاس معاہدے پر تزویراتی فیصلے لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس قائم کیا گیا تھا، لیکن آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی وزراء طویل المدتی منصوبوں کی بات کر رہے ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عملی پیش رفت انتہائی سست رہی ہے۔
دوسری جانب، پاکستان نے اس مسئلے کو اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ شہباز شریف کا یہ انتباہ کہ اگر بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو "سارے آپشن استعمال کیے جائیں گے”، پاکستان کے غیر متزلزل عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ، پہلگام حملے کے تناظر میں سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا بھارت کا اعلان اور پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کے سیاسی بیانات، ایک طرف ملک کے اندر عوامی جذبات کو مشتعل کرنے اور داخلی سیاست چمکانے کی "سیاسی بازیگری” لگتی ہے ، اور دوسری طرف یہ "تجاہلِ عارفانہ” ہے، جہاں عملی مشکلات، لاگت اور وقت کے حقائق کو جانتے بوجھتے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر پانی روکنے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے اور اس کی تعمیر ایک ایسا کٹھن اور طویل المدتی عمل ہے جس کے لیے دہائیوں اور ناقابلِ تصور اخراجات درکار ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس حساس مسئلے کو سیاسی نعرے بازی کے بجائے سنجیدہ تجزیے اور عملی تدبر کی نظر سے دیکھا جائے۔
=======