یادیں:
وقت کے سفر میں باقی رہنے والے نقوش
🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈
اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتاً یادوں کا امین بنایا ہے۔ قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر ہمیں سابقہ قوموں کے حالات، انبیاء کرامؑ کی سیرت اور ماضی کے عبرت انگیز واقعات کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، تاکہ ہم ان سے سبق سیکھیں اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ” (سورۃ ابراہیم: 5)۔ (ترجمہ: اور انہیں اللّٰہ کے دنوں کی یاد دلاؤ، بے شک اس میں ہر صبر و شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں)۔
انسانی زندگی ایک بہتا دریا ہے، اور اس کے لمحے پانی کی ان بوندوں کی طرح ہیں جو آتی اور چلی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ لمحات دل کی گہرائیوں میں ایسے نقش ہو جاتے ہیں جو کبھی خوشبو بن کر سکون بخشتے ہیں اور کبھی درد بن کر آنکھوں کو نم کر دیتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ زندگی کی حقیقت کو سمجھیں، تلخیوں کو معاف کریں، اور محبت کو اپنا شعار بنائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: "افشوا السلام، و أطعموا الطعام، وصلوا بالليل والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام” (مسند احمد)۔ (ترجمہ: سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم سلامتی کے ساتھ جنّت میں داخل ہو جاؤ گے)۔
یہی محبت اور درگزر کا اصول وہ بنیاد ہے جس پر اچھی یادیں استوار ہوتی ہیں۔ اگر ہم رواداری، معافی اور بے لوث محبت کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا لیں، تو نہ صرف ہماری زندگی خوشگوار ہو جائے گی بلکہ ہمارے جانے کے بعد بھی ہماری یادیں دوسروں کے دلوں میں روشنی کی مانند زندہ رہیں گی۔ یادیں صرف ماضی کا حصّہ نہیں ہوتیں، بلکہ یہ وہ آئینہ ہیں جس میں ہم اپنی ذات کا حقیقی عکس دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہر لمحہ اللّٰہ کی رضا کے لیے گزاریں، لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، اور ایسی یادیں چھوڑ کر جائیں جو ہمیں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھیں۔
زندگی ایک بہتا ہوا دریا ہے، جس میں لمحے قطرہ قطرہ آتے اور وقت کی موجوں کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ مگر کچھ لمحے، کچھ احساسات، کچھ ملاقاتیں، اور کچھ جذبات ایسے ہوتے ہیں جو دریا کے بہاؤ میں نہیں بہتے، بلکہ دل کی گہرائیوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یہی یادیں ہیں—وہ انمٹ نقوش جو وقت کے ساتھ ماند نہیں پڑتے، بلکہ کبھی خوشبو بن کر دل کو مہکاتے ہیں، اور کبھی درد بن کر آنکھوں کو نم کر دیتے ہیں۔
چیزیں فناء ہو جاتی ہیں، لوگ بچھڑ جاتے ہیں، وقت ہاتھ سے پھسل جاتا ہے، مگر یادیں ہماری ذات کا حصّہ بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ وہ اثاثہ ہیں جنہیں کوئی چُرا نہیں سکتا، کوئی مٹا نہیں سکتا۔ اچھی یادیں ہماری روح کو تازگی بخشتی ہیں، زندگی کی تلخیوں میں مٹھاس گھول دیتی ہیں، اور ہمارے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ لے آتی ہیں۔ لیکن کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو دل پر بوجھ بن کر رہ جاتی ہیں، جنہیں یاد کر کے آنکھوں میں اداسی تیرنے لگتی ہے، دل کسی انجانے درد میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور زندگی کے رنگ کچھ دیر کے لیے دھندلا سے جاتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس تیز رفتار، پریشانیوں سے بھری دنیا میں اچھی یادوں کو کیسے محفوظ کر سکتے ہیں؟ جہاں رنجشیں عام ہیں، جہاں دلوں میں زہر گھل چکا ہے، جہاں تعلقات خود غرضی اور مفاد پرستی کے بوجھ تلے دب چکے ہیں، وہاں خوشگوار یادوں کو کیسے سمیٹا جائے؟ اس کا حل تین الفاظ میں پوشیدہ ہے: معاف کرنا، برداشت کرنا، اور توقع نہ کرنا۔ معاف کرنا ایک ایسی صفت ہے جو دل کو زخموں سے آزاد کر دیتی ہے۔ جو لوگ معاف کرنے کا ہنر جانتے ہیں، وہ زندگی کی تلخیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ معافی دینے والے ہمیشہ ہلکے رہتے ہیں، جبکہ دل میں نفرت پالنے والے اپنے ہی بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ برداشت کرنا وہ ہنر ہے جو ہمیں مضبوط بناتا ہے، ہمیں دوسروں کی غلطیوں کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ اگر ہم لوگوں کی کوتاہیوں کو دل پر نہ لیں، ان کی تلخ باتوں کو درگزر کریں، اور اپنے دل کو وسعت دیں، تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
اور سب سے اہم، توقع نہ کرنا۔ جب ہم دوسروں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں، تو مایوسی کا در کھول دیتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے لیے کچھ اچھا کرے، تو یہ ایک تحفہ ہے؛ اور اگر نہ کرے، تو ہمیں شکوہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جتنی کم توقعات ہوں گی، اتنی ہی زیادہ خوشی ہوگی، اتنی ہی زیادہ اچھی یادیں جنم لیں گی۔ یادیں وہ خوشبو ہیں جو زندگی کے باغ میں ہمیشہ بسی رہتی ہیں۔ ہمیں خود کو معاف کرنے، دوسروں کو برداشت کرنے، اور بے لوث محبت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے، تاکہ ہماری زندگی کی کتاب میں زیادہ سے زیادہ روشن اور خوشگوار یادیں رقم ہو سکیں۔
رواداری، معافی اور بے لوثی—خوبصورت زندگی کے راز
زندگی ایک لمحاتی سفر ہے، جو پل بھر میں خوشی سے مسکرا اٹھتا ہے اور پل بھر میں اداسی کے سائے میں ڈوب جاتا ہے۔ ہم سب کے پاس وقت محدود ہے، مگر ہم اسے کس طرح گزارتے ہیں، یہی طے کرتا ہے کہ ہمارے دن خوشگوار یادوں سے بھرپور ہوں گے یا پچھتاوے اور تلخیوں کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔ زندگی کا حسن اس میں نہیں کہ ہم دوسروں سے جیتیں، بلکہ اس میں ہے کہ ہم اپنے دل کو اتنا وسیع کر لیں کہ کسی کی تلخ باتیں ہمیں نہ توڑ سکیں اور کسی کی غلطیاں ہمیں زہر آلود نہ کر سکیں۔ رواداری وہ روشنی ہے جو ہمیں اندھیروں میں الجھنے سے بچاتی ہے۔ جب ہم اپنے دل کو وسعت دیتے ہیں، اختلافات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں اور دوسروں کی کوتاہیوں کو درگزر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تو زندگی کے جھگڑے خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ بحث و تکرار کا خاتمہ ہو جاتا ہے، غلط فہمیاں مٹنے لگتی ہیں، اور تعلقات کی دراڑیں خود بخود بھرنے لگتی ہیں۔ رواداری ہی وہ طاقت ہے جو ہمیں ہر بے سود بحث سے بچا سکتی ہے اور ہمیں ایک پُرسکون اور خوشگوار زندگی عطا کر سکتی ہے۔
معاف کرنا صرف دوسروں پر احسان نہیں بلکہ خود پر بھی کرم ہے۔ معافی کا مطلب ہے اپنے دل کو ناراضگی، غصّے، نفرت اور انتقام کی خواہشات سے آزاد کرنا۔ جو شخص معاف کرنا سیکھ لیتا ہے، وہ خود کو ایک ایسے قید خانے سے آزاد کر لیتا ہے جہاں تلخ یادوں کے زہر بھرے تیر مسلسل اسے زخمی کر رہے ہوتے ہیں۔ معاف کرنا دراصل روح کی شفا ہے، جو ہمیں ماضی کے بوجھ سے آزاد کر کے حال کے لمحے کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ توقعات کی کمی زندگی کو خوبصورت بنانے کا سب سے آزمودہ راز ہے۔ جب ہم دوسروں سے امیدیں باندھتے ہیں، تو ہم اپنی خوشی کو ان کے عمل سے مشروط کر دیتے ہیں۔ اگر ہماری توقعات پوری نہ ہوں، تو مایوسی ہمارا دامن پکڑ لیتی ہے، اور یہی مایوسی دل میں شکوے، شکایتیں اور دوریاں پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن اگر ہم بغیر کسی لالچ اور توقع کے دوسروں کے ساتھ خلوص اور محبت سے پیش آئیں، تو زندگی خود بخود آسان ہو جاتی ہے، دل ہلکا رہتا ہے اور اچھی یادیں خود بخود جنم لینے لگتی ہیں۔
زندگی بہت مختصر ہے۔ لمحہ بھر میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ اگلا سانس ہمیں کہاں لے جائے گا۔ ایسے میں نفرت پالنے، دشمنیاں نبھانے اور تلخیوں کو سینے سے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو بوجھل نہیں بلکہ خوشیوں سے بھرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں معافی کو اپنا زیور بنانا ہوگا، رواداری کو اپنا اصول بنانا ہوگا، اور توقعات کو کم کر کے اپنی مسکراہٹ کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ جو لوگ محبت بانٹتے ہیں، وہی اصل میں زندہ رہتے ہیں۔ جو دل دوسروں کی غلطیوں کو بھلا کر آگے بڑھتا ہے، وہی سچ میں سکون پاتا ہے۔ اور جو شخص اپنی توقعات کو کم کر کے زندگی کو جیسے ہے، ویسے قبول کر لیتا ہے، وہی حقیقی خوشی کا راز پا لیتا ہے۔
زندگی: محبت کا رنگ، یادوں کی خوشبو
زندگی کا اصل حسن اس میں نہیں کہ ہم کتنے لمبے عرصے تک جیتے ہیں، بلکہ اس میں ہے کہ ہم کیسے جیتے ہیں۔ اگر زندگی کو نفرت، حسد، اور انتقام میں گزارنا ہے، تو پھر اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟ ہم یہاں چند لمحوں کے مہمان ہیں، اور ان لمحوں کو کس طرح گزارنا ہے، یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ ہر زندگی نشیب و فراز سے گزرتی ہے، ہر دن خوشی اور غم کی ایک نئی کہانی لکھتا ہے۔ لیکن کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو مشکلات سے گھبرانے کے بجائے ان سے سیکھتے ہیں، جو گرتے ہیں مگر دوبارہ اٹھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، جو آنسوؤں کے درمیان بھی مسکرانے کا ہنر جانتے ہیں۔
ہر لمحہ انمول ہے، اور ہر لمحہ یادگار بنایا جا سکتا ہے—اگر ہم اس کی قدر کرنا سیکھ لیں۔ جو وقت آج ہمارے پاس ہے، وہ کل نہیں ہوگا، اور جو رشتے آج ہمارے ساتھ ہیں، وہ ہمیشہ قائم نہیں رہیں گے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسکراہٹیں تلاش کریں، محبت کے چند الفاظ بولیں، اور ایسی یادیں سمیٹیں جو وقت کے ساتھ ماند نہ پڑیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھی یادیں صرف دولت اور آسائشوں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے دادا دادی کے قصے اتنے خوبصورت نہ ہوتے، جن میں نہ تو عالیشان محل تھے، نہ جدید سہولتیں، نہ بڑی بڑی گاڑیاں، بلکہ محض مٹی کے سادہ گھر تھے، تنگ گلیاں تھیں، اور محبت کے دریا بہتے تھے۔ وہ سائیکلوں پر سفر کرتے، کھلی فضاؤں میں کھیلتے، سادہ خوراک کھاتے، اور پھر بھی سکون میں رہتے۔ وہ کماتے بھی تھے، مگر محبت بٹورنے کے لیے، نفرت خریدنے کے لیے نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگیوں میں وہ خوشیاں تھیں جو آج ہماری پرتعیش زندگیوں میں بھی ناپید ہیں۔
بدقسمتی سے آج ہم نے محبت کو چھوڑ کر پیسے کو اپنا سب کچھ بنا لیا ہے۔ رشتے ناپید ہو چکے ہیں، تعلقات صرف ضرورتوں تک محدود ہو چکے ہیں، اور ہم نفرتوں کا ایسا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں جو ہماری روح کو بوجھل کر رہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا، اگر ہم نے اپنی زندگی کو محبت سے خالی رکھا، اگر ہم نے اپنی یادوں کو نفرت کے سائے میں دفن کر دیا، تو آنے والی نسلوں کو ہم کیا دے کر جائیں گے؟ وہ ہم سے محبت کرنا نہیں سیکھیں گے، وہ صرف نفرتوں کے قصے سنیں گے، اور یہی ان کی وراثت بن جائے گی۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد صرف حسرتیں باقی رہیں؟ اگر نہیں، تو ابھی وقت ہے! ہم اپنی زندگی کو خوبصورت بنا سکتے ہیں، نفرتوں کے بوجھ سے آزاد ہو سکتے ہیں، اور محبت کے بیج بو کر ایک ایسا مستقبل تراش سکتے ہیں جہاں ہمارے بچے بھی خوشیوں کی روشنی میں پروان چڑھیں۔ زندگی کا راز سادہ ہے: پیار کرو، معاف کرو، سیکھو، اور ہر لمحے کو یوں جیو کہ وہ ایک حسین یاد بن جائے۔
یادوں کا امر چراغ
زندگی محض سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ ان لمحوں کا مجموعہ ہے جو ہمیں مسکرانے پر مجبور کر دیں، جو ہمارے دل کو روشنی اور روح کو سکون عطاء کریں۔ اچھی یادیں وہ خزانہ ہیں جو وقت کے ہاتھوں نہ تو مٹتی ہیں اور نہ ہی پرانی ہوتی ہیں، بلکہ وہ ہمیشہ ہمارے وجود کا حصّہ بنی رہتی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ زندگی اگر یادوں کی روشنی سے خالی ہو، تو وہ ویسی ہی بے رونق ہو جاتی ہے جیسے ماں کے بغیر گھر۔ ایک گھر چاہے کتنا ہی وسیع اور شاندار کیوں نہ ہو، اگر اس میں ماں کی محبت اور موجودگی نہ ہو، تو وہ محض اینٹوں کا ایک ڈھانچہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح، اگر زندگی میں یادیں نہ ہوں، تو وہ خواہ کتنی ہی آسائشوں میں لپٹی ہو، مگر اندر سے خالی محسوس ہوتی ہے۔
اچھی یادیں عمر کا بوجھ ہلکا کر دیتی ہیں، وہ ہمیں کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتیں۔ یہ وہ جادوئی دوا ہیں جو دل کی ہر تھکن اور روح کی ہر اداسی کو مٹا دیتی ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو، مایوسی میں گھرا ہو، اور ہم اسے اس کی خوشگوار یادوں سے روشناس کرائیں، تو وہ لمحوں میں ان حسین دنوں میں لوٹ جاتا ہے اور اپنے دکھوں کو بھول کر بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہی ہے اچھی یادوں کی طاقت!
حقیقت میں، یادیں وہ لازوال خزانہ ہیں جو نہ صرف ہمیں خود خوشی دیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی روشنی عطا کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہر لمحہ جئیں، ہر پل کی قدر کریں، اور نفرت کو اپنے دل سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیں۔ خوش رہنے کے لیے ہمیں کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت نہیں، ہمیں بس اپنے اندر سے تلخ جذبات کو نکال پھینکنا ہے۔ جب دل کدورتوں سے پاک ہو جائے گا، تو خود بخود زندگی میں خوشی کا چراغ جلنے لگے گا۔ اور جب ہم خود خوش ہوں گے، تو یہی خوشی دوسروں تک بھی پہنچے گی، ہماری مسکراہٹیں دوسرے چہروں پر بھی رنگ بکھیر دیں گی، اور ہماری موجودگی دوسروں کے لیے سکون کا باعث بنے گی۔
یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں امر بنا دیتا ہے۔ جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں گے، تو نہ ہمارے گھر ساتھ جائیں گے، نہ دولت، نہ عہدے، اور نہ ہی ہماری جائیداد—لیکن جو چیز ہمیشہ باقی رہے گی، وہ ہماری یادیں ہوں گی۔ وہ لمحات جو ہم نے دوسروں کے ساتھ محبت اور خلوص میں گزارے، وہ ہنسی جو ہم نے بانٹی، وہ الفاظ جو ہم نے محبت کے ساتھ کہے، وہ سب ہمارے جانے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ ہم دوسروں کے دلوں میں ایک خوبصورت کہانی، ایک خوشبو، ایک روشنی بن کر بستے رہیں گے۔ تو کیوں نہ آج سے اپنی زندگی کو یادگار بنا لیں؟ کیوں نہ نفرت کو مٹا کر محبت کے چراغ جلائیں؟ کیوں نہ ایسی خوشگوار یادیں بنائیں جو ہمیشہ کے لیے ہمارے اور دوسروں کے دلوں میں جگمگاتی رہیں؟ زندگی کا اصل راز یہی ہے: محبت کو گلے لگائیں، نفرت کو چھوڑ دیں، ہر لمحہ جئیں اور ایسی یادیں بنائیں جو ہمیں ہمیشہ زندہ رکھیں۔
اسلام ہمیں محبت، درگزر، رواداری اور نرمی کی تعلیم دیتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کے سب سے بڑے مظاہر میں سے ایک "معافی” ہے، اور ہمیں بھی اسی صفت کو اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "اور جو غصّے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللّٰہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے” (سورہ آل عمران: 134)۔ زندگی میں ہمیں بہت سے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن سچی خوشی وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو دل میں بغض نہیں رکھتے، جو اللّٰہ کی رضا کے لیے دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں، اور جو محبت بانٹنے کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں” (صحیح بخاری)۔
محبت، درگزر اور صبر وہ اوصاف ہیں جو نہ صرف ہماری دنیا کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت بنتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق گزاریں، دوسروں سے حسنِ سلوک کریں، اور اپنے دلوں کو کینے، نفرت اور حسد سے پاک رکھیں، تو یہی ہمارے لیے بہترین یادگار ہوگی—دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں” (صحیح بخاری)۔ پس، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو اسلام کی روشنی میں گزاریں، معاف کرنا، صبر کرنا اور محبت بانٹنا سیکھیں تاکہ ہماری یادیں بھی صدقۂ جاریہ بن جائیں اور ہمارے بعد بھی ہماری محبت، نرمی اور حسنِ سلوک دوسروں کے دلوں میں زندہ رہے۔ اللّٰہ ہمیں ایسا بنانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com