Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
In the bunkers of Greater Israel

مسلمانوں کی تعلیمی اسکیموں کا خاتمہ:سرکار کی ایک اور مہربانی

Posted on 28-04-202528-04-2025 by Maqsood

مسلمانوں کی تعلیمی اسکیموں کا خاتمہ:سرکار کی ایک اور مہربانی

از قلم:شیخ سلیم صاحب۔ممبئی

وقف قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاجات جاری ہیں مسلمان ملک بھر میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں وقف قانون کے تحت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میں مساجد درگاہیں قبرستان اور امام بارگاہوں کو شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار نت نئے قانون سازی کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کا کام لگاتار کر رہی ہے۔ بلڈوزر عدالت عالیہ کے حکم کے باوجود مسلسل مسلمانوں کے گھر اور مساجد کو نشانہ بنانے میں لگے ہیں کوئی دن نہیں جاتا جب کوئی گھر کوئی مسجد توڑی نہیں گئی ہو۔ ساتھ ساتھ سرکار نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کی طرف دھکیلنے کا بھی پوری طرح انتظام کر لیا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے قائم کی گئی مختلف اسکیموں میں تبدیلیاں، کٹوتیاں یا ان کا مکمل خاتمہ کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مسلم طلبہ کے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
2006 میں جاری ہونے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ نے واضح کیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کے بعد کانگریس حکومت نے کچھ خصوصی اسکیمیں شروع کیں تاکہ مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال میں بہتری لائی جا سکے۔ ان میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ، پری-میٹرک اسکالرشپ، "پڑھو پردیس” اسکیم اور مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسے ادارے شامل تھے۔موجودہ حکومت کے دور میں ان اسکیموں کا آہستہ آہستہ خاتمہ یا ان میں بڑی کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ جو مسلم طلبہ کی مدد کے لیے تھی جو ایم فل اور پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے، کا خاتمہ کر دیا گیا۔ حکومت نے اس فیلوشپ کو "دیگر اسکیموں کے ساتھ اوورلیپ” کا حوالہ دے کر بند کر دیا، جبکہ یہ اسکیم مخصوص طور پر مسلم طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار تھی۔
پری-میٹرک اسکالرشپ میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ پہلے یہ اسکالرشپ پہلی سے دسویں جماعت تک کے طلبہ کے لیے تھی، جس سے غریب مسلم بچوں کو ابتدائی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملتی تھی۔ اب اسے صرف نویں اور دسویں جماعت تک محدود کر دیا گیا ہے، جس سے نچلی جماعتوں کے بچوں کی تعلیم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
"پڑھو پردیس” اسکیم کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ یہ اسکیم اقلیتی طلبہ کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے میں مالی مدد فراہم کرتی تھی، جس سے انہیں بین الاقوامی معیار کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا تھا۔ اس کا خاتمہ کرکے مسلم طلبہ کو عالمی سطح کی تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے۔
مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بندش بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ ادارہ ایک عرصے سے مسلمانوں، خصوصاً مسلم خواتین کی تعلیمی ترقی کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس کے بند ہونے سے بہت سے تعلیمی اور ترقیاتی منصوبے متاثر ہوئے ہیں۔
اقلیتی تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں بھی کی گئی ہیں۔ مدرسوں کے لیے مختص فنڈز میں بھی نمایاں کٹوتی کی گئی ہے، جس سے ان اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ مدرسے، جو دینی اور دنیوی تعلیم کے مرکز ہیں، اب فنڈ کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
ان تعلیمی اسکیموں کے خاتمے کے کئی سنگین نتائج سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے خاتمے سے مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مالی مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ اس سے مسلمانوں میں تحقیقی کام میں کمی آئے گی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں اضافے کی رفتار سست ہو جائے گی۔
پری-میٹرک اسکالرشپ میں تبدیلی سے ابتدائی جماعتوں کے مسلم بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، خصوصاً معاشی طور پر کمزور طبقات میں۔
"پڑھو پردیس” اسکیم کے خاتمے سے مسلم طلبہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم ہو رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو محدود کر رہا ہے۔
مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بندش سے خواتین کی تعلیم کے لیے چلائے جانے والے خصوصی پروگرام متاثر ہوئے ہیں۔ یہ مسلم خواتین کی تعلیم کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔

مدرسوں کے لیے فنڈز میں کٹوتی سے مسلمانوں کی دینی تعلیم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ مدرسے مسلمانوں کی ثقافتی اور تعلیمی شناخت کا اہم جزو ہیں جو اب مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان اسکیموں کے خاتمے کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی ۔ تعلیمی ماہرین کا ماننا ہے یہ مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کرنے کی منظم کوشش ہے۔اس صورت حال کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعلیمی شرح میں کمی آ رہی ہے اور وہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر مزید کمزور ہو رہے ہیں۔ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ اقدامات ضروری ہیں۔ مسلمانوں کو تعلیمی فنڈ کے لیے نجی وسائل کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ زکوٰۃ اور صدقات کے ایک مناسب حصے کو جدید تعلیم کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔یہ بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت پر زور دینے والی آگاہی مہمات Awareness campaign چلائی جائیں۔ ہر مسلمان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تعلیم میں سرمایہ کاری آنے والی نسلوں کے لیے کتنی اہم ہے۔مسلمانوں کو ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرنی چاہیئے اور تعلیمی حقوق کے لیے مطالبہ کرنا ہوگا۔کوئی مہم بھی چلانی چاہیے تعلیم کسی قوم کا بنیادی حق ہے، خاص طور پر جب وہ قوم ملک کا ٹیکس دینے والا شہری ہو۔
مسلمانوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ مسلمانوں کو سیاسی سطح پر بھی اپنے تعلیمی حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہوگی اور ایسے نمائندوں کو منتخب کرنا ہوگا جو ان کے تعلیمی حقوق کے لیے لڑیں۔تعلیمی اسکیموں کا خاتمہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک نئی آزمائش ہے۔ تاہم، یہ نئی آزمائش ہر مسلمان کے لیے نئے عزم اور نئی توانائی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ہمیں ہر مشکل کو ایک موقع کے طور پر دیکھنا ہوگا اور اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔تعلیم ہی وہ روشنی ہے جو کسی قوم کو جہالت کے اندھیروں سے نکال سکتی ہے۔ اگر مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم کے مواقع سے محروم کیا جا رہا ہے، تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور مشکلات کا مقابلہ کریں۔اس راہ پر چلنا آسان نہیں ہوگا، لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ تعلیم کا حصول ہر مسلمان کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ اگر ہم آج خاموش رہے، تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں یہ یاد دلائیں گی کہ ہم نے ان کے مستقبل کے لیے کیا کیا۔
علم کی شمع جلانے کے لیے ہر گھر، ہر محلے میں کوشش کرنی ہوگی، اور اس سے ہی ہم اپنا مستقبل روشن کر سکیں گے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb