بسم اللہ الرحمن الرحیم
"جیل شادی مبارک ہو”
اب جیل کے قیدی بھی شادی کر سکتے ہیں۔
از قلم عبدالواحد شیخ ممبئی
8108188098
اسکول کی چھٹیاں چل رہی ہے اور ہر جگہ شادی کا موسم چل پڑا ہے۔ لوگ چھٹی کے دنوں میں شادی کر کے رشتہ داروں کو اور سبھی گھر والوں کو اس خوشی میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ کیا جیل میں بند قیدی شادی کر سکتا ہے ؟کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی سزا یافتہ قیدی کو اس کی شادی کے لیے پیرول، جیل سے چھٹی دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں کوئی قانون، اعلی عدالت کے فیصلے بھی ہیں۔ آئیے ہم اسی سلسلے میں بات کرتے ہیں۔ حال ہی میں مدراس ہائی کورٹ، مدرائی بینچ کے جسٹس جی آر سوامی ناتھن اور ایس سر یمتھی نے ایک حکم پاس کیا ہے۔ مارگیت علی خان سزائے عمر قید میں ٹرائی چی سینٹرل جیل میں قید ہے۔ یاسمین بنت عبداللہ اس سے شادی کرنے آمادہ ہے۔ 15 جنوری 2025 کو ان کی شادی کی تاریخ طے کی گئی اور ناگور درگاہ میں ان کی شادی ہونے کو ہے۔ جس کے کےلیے 25 دنوں کی پولیس گارڈ کے بغیر ملزم کو چھٹی درکار ہے۔ 2022 میں ملزم کو سزا دی گئی۔ اب تک دو سال سات ماہ وہ قید کاٹ چکا ہے۔ چونکہ قاعدے کے مطابق اس نے سزا کے بعد تین سال قید نہیں کاٹی اس لیے اس کی رہائی کی عرضی جیل والوں نے مسترد کر دی۔ معاملہ عدالت پہونچا۔ عدالت نے کہا کہ انہیں حیرت اس بات پر ہے کہ کسی قیدے کو شادی کے لیے چھٹی دی جا سکتی ہے ؟ در حالانکہ شادی کرنا اور گھر بسانا ہر انسان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ انٹرنیشنل کونیننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کے آرٹیکل 23 اور یو ڈی ایچ آر کے آرٹیکل 16 میں بھی اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ امریکہ کی سپریم کورٹ نے 1987 میں ٹرنر ورسز سیفلی میں قیدی کی شادی کے حق کو دستوری حق تسلیم کیا ہے۔ تامل ناڈو میں قیدی کی شادی کا قانون موجود ہے۔ رولز آف تمل ناڈو سسپینشن آف سینٹنس رولز 1982 میں درج ہے کہ ایمرجنسی چھٹی قیدی کو دی جا سکتی ہے۔ رشتہ داروں کی موت، شادی یا قیدی کی شادی کے لیے بھی یہ چھٹی مل سکتی ہے۔ عدالت نے لکھا ہے کہ یونائٹڈ کنگڈم میں سزائے عمر قید والے قیدی کو شادی کا حق حاصل نہیں ہے لیکن اگر ہماری ریاست میں قانون موجود ہے تو قیدی ( prisoners) سزا یافتہ قیدی کا مفہوم ہٹا کر جج کو نیا فرق پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے .لہذا یہ عدالت حکم دیتا ہے سپریٹنڈنٹ جیل کو کہ قیدی کو 15 دن کی ایمرجنسی چھٹی پولیس گارڈ کے ساتھ دی جائے۔ پولیس والے سادے لباس میں رہیں گے۔ قیدی کی ماں نے ہائی کورٹ میں یہ عرضی کی تھی۔ عدالت نے حکم دیا کہ قیدی کی ماں ثبوت پیش کرے کہ ناگور درگاہ میں اس کے بیٹے کی شادی 15 جنوری 2025 کو ہونے کو ہے۔ پولیس گارڈ کے اخراجات قیدی کی کمائی ( jail earning) سے حاصل کی جائے ۔ ڈی ائی جی ٹرائی چی نے قیدی کے عرضی مسترد کر دی تھی۔ اس حکم نامے کے خلاف قیدی کی ماں نے ہائی کورٹ میں رٹ آف سرٹیو ریڈیفائیڈ مینڈمز داخل کی تھی ۔آپ جانتے ہیں کہ یہ ریٹ اس وقت استعمال کی جاتی ہے کہ جب نچلی عدالتی/ اتھارٹی نے پرنسپل آف جسٹس کے خلاف کوئی نقص والا فیصلہ سنایا، جس کو اعلی عدالت کے ذریعےدرست کرنا ضروری ہے۔ قیدی کی ماں کا نام ریگینا بیگم ہے۔
ایک دوسرا معاملہ ,2013 کا ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ جہاں ایک قیدی سنجے کو شادی کے لیے تین ہفتوں کی چھٹی دی گئی۔ کیس کا نام ہے سنجے عرف غفودیہ ورسز اسٹیٹ آف راجستھان ۔ 2013میں مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس وی راما سبرمنیم نے موحدین عبدالقادر جو قتل کے مقدمے میں جیل میں سزا کاٹ رہا تھا، اس قیدی کے والد نے قیدی کی شادی کے لیے ہائی کورٹ میں چھٹی کی عرضی کی تھی جس کو ہائی کورٹ نے 10 دن کی چھٹی منظور کی۔
اس کے بعد 2015 کا ایک واقعہ سامنے آتا ہے۔ 2015 میں مشہور آٹو شنکر کیس کے ایک سزا یافتہ قیدی کو ایک ماہ کی چھٹی اس کی شادی کے لیے چنئی ہائی کورٹ نے دی تھی۔ جسٹس ٹی ایس شیوا گنانم نے حکم دیا کہ سزا یافتہ قیدی سیلوا عرف سیلوا راج کو سینٹرل جیل پلایا مکٹئی تھریونل ویلی سے رہا کیا جائے۔ قیدی کی ایک رشتہ دار جو آنکھ کے ہسپتال میں نرس ہے، ایف کیلارانی نے عرضی کی تھی، جو قیدی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس کیس کے اہم ملزم آٹو شنکر جسے 1988 میں گرفتار کر کے 1995 میں پھانسی دی گئی تھی۔
ایک تیسرا کیس 2017 کا ہے کیس کا نام ہے سیسلیا فرناندیس ورسز انسپیکٹر جنرل پریزن پنجی، گوا ۔ آٹھ سال قبل بمبئی ہائی کورٹ گوا میں ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ رولز 36 آف گوا پریزن رولز کے مطابق قیدی کو ایمرجنسی حالت میں رشتہ دار کی موت، شادی اور دیگر مناسب کام کے لیے چھٹی دی جا سکتی ہے۔ عدالت نے اس رول (rule) کا مطلب یہ لیا ہے کہ قیدی کی خود کی شادی اس زمرے میں شامل ہے۔ حالانکہ پولیس کا کہنا تھا کہ چھٹی حاصل کرنے کے لیے یہ جواز یعنی شادی کا واقعہ پیدا کیا گیا ہے۔ عدالت نے چھٹی شادی کے لیے دے دی۔
اپریل 2023 کا ایک اور واقعہ ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک سزا یافتہ قیدی کو شادی کے لیے 15 دن کی پیرول دی۔ قیدی آنند کی ماں رتنما اور اس کی معشوقہ نیتھا نہ ہائی کورٹ میں پیرول کی لیے عرضی کی۔ قیدی بینگلورو سینٹرل جیل میں قید ہے ۔ ماں نے لکھا کہ اس کے دونوں بیٹے جیل میں قید ہیں، وہ معمر اور بیمار ہیں اور اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنے بیٹے آنند کی شادی میتھا سے ہوتا دیکھے، جس کے ساتھ پچھلے نو سال سے آنند کا عشق چل رہا ہے۔جسٹس ایم ناگا پرسننا نے جیل حکام کو حکم دیا کہ 15 دن کی پیرول شادی کے لیے دی جائے اور اسے رہا کیا جائے، آنند کو پہلے سزا ۓعمر قید ملی تھی۔ مگر ہائی کورٹ نے یہ سزا 10 سال میں بدل دی۔ اس وقت تک چھ سال وہ جیل میں کاٹ چکا ہے۔ نیتھا نے اپنی عرضی میں اس بات کے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اس کی شادی آنند سے نہ ہوئی تو اس کے گھر والے اس کی شادی کسی اور کے ساتھ کر دیں گے۔ پولیس کے وکیل کے اعتراض کے باوجود عدالت نے اجازت دے دی۔ بھارت کے پانچ الگ الگ حوالے ہائی کورٹس کے اہم فیصلے ہم نے آپ کے سامنے پیش کیے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی قیدی چاہے وہ سزا یافتہ ہو یا اس کا کیس زیر سماعت ہو وہ اپنی شادی کرنے کا حق رکھتا ہے اور جیل رولز کے حساب سے کچھ ریاستوں میں اسے شادی کے لیے 10 سے 15 دنوں کی پیرول دی جا سکتی ہے ۔ اور انتظامیہ اگر اس کو چھٹی دینے سے انکار کرے تو ہائی کورٹ یہ سہولت دے سکتی ہے ۔15 دنوں میں قیدی نہ صرف شادی کرے بلکہ ہنی مون بھی منا سکتا ہے ۔ اگر آپ کی نگاہ میں کوئی قیدی ہے جو شادی کا خواہش مند ہے تو یہ فیصلے اس کے کام آسکتے ہیں۔ اگر آپ مدراس ہائی کورٹ کا ججمنٹ اور اس پر بنی ہماری ویڈیودیکھنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے ہوئے لنک میں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی سزا یافتہ قیدی اپنی شادی کرنا چاہتا ہے تو ان حوالوں کی مدد سے وہ پیرول کی عرضی دے سکتا ہے اور شادی کے لیے 10 ، 15 یا 20 دن کی چھٹی لے سکتا ہے۔ شکریہ
Share this post:
Like this:
LikeLoading...
1 thought on “"جیل شادی مبارک ہو” اب جیل کے قیدی بھی شادی کر سکتے ہیں۔”
ماشاءاللہ