Skip to content
ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
زبان کے حوالے سے آج کل ملک میں عجب افرا تفری کا ماحول ہے ایک طرف یوگی اردو کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں اور دوسری جانب راجستھان میں اردو کے بجائے سنسکرت تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تمل ناڈو میں تو ہندی کی پرزور مخالفت ہوتی رہی ہے مگر اب مہاراشٹر میں بھی راج ٹھاکرے نے ہندی کے خلاف محاذ کھول دیاہے۔ان مثالوں سے زبان کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ داوں الٹا بھی پڑ سکتا ہے بلکہ پڑ رہا ہے۔ زبان کے معاملے میں ہندوتوا نواز یوگی اور راج ٹھاکرے آمنے سامنے ہیں اور موصوف کا دعویٰ ہے ہم ہندو تو ہیں مگر ہندی نہیں ہیں حالانکہ اردو زبان میں ہندی کے معنیٰ ہندوستانی کے بھی ہوتے ہیں۔ بیچارے راج ٹھاکرے کو نہیں معلوم کہ ہندی صرف ایک زبان کانہیں بلکہ ایک قوم کا بھی نام ہے اور اس حوالے سے وہ ہندی زبان کے مخالف ہونے کے باوجود ہندی ہیں ۔ یہی بات علامہ اقبال نے ترانۂ ہندی میں کہی ہے جسے بیشتر قومی تقریبات میں بغیر سمجھے پڑھا جاتا ہے مگر1904میں علامہ اقبال پریہ بات الہام ہوگئی تھی کہ 120سال بعد کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے لگیں گے اسی لیے انہوں نے عوام الناس کو اس فتنے سے خبردار کردیا ؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم ،وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اردو ایک ہند آریائی زبان ہے جو دہلی و نواح کی برج بھاشا، کھڑی بولی، ہریانوی، قنوجی اور میواتی بولیوں سے مل کر وجود میں آئی۔ ہندوستانی لسانیات کے ماہر سنیتی کمار چٹرجی کے خیال میں ’اگر مسلمان ہندوستان میں نہ آتے تب بھی جدید ہند آریائی زبانوں کی پیدائش ہو جاتی لیکن ان کے ادبی آغاز و ارتقا میں تاخیر ضرور ہوتی۔‘ انیسویں صدی میں اردو برصغیر کے اندر فارسی، عربی اور سنسکرت کے خلاف ایک ہمہ جہت لسانی انقلاب تھا۔ اس کی تدوین و ترویج میں انگریزی سامراج کابھی اہم حصہ ہے۔ 1800 میں کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج کے اندر جان گلکرسٹ کی سربراہی میں ہندوستانی زبانوں کا الگ شعبہ قائم کیا گیا تو اس میں اردو خصوصی توجہ کا مرکز بن گئی ۔اس کالج کا بنیادی مقصد ہندوستان میں زیرِ ملازمت انگریز افسروں کو ہندوستانی تہذیب و زبان سے آگاہ کرنا تھا۔اس وقت ہندوستانی کہلانے والی اردو میں بہت سی کتابوں کے تراجم کیے گئے، آگے چل کر یہ ترجمے اردو کی ادبی ترقی اور ترویج میں معاون ثابت ہوئے تاہم انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں منہمک مذہبی طبقات کی طرف سے ابتدامیں اسے کافی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اتر پردیش میں اردو پر سیاست اور اسے مسلمان بنانے کی ابتدا آزادی کے وقت سے ہی ہو گئی تھی اور ابتداء کے دو تین انتخابات تک اردو بھی ایک مدعا رہتی تھی۔ اردو کے ساتھ نفرت انگیزی کی سیاست اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کے باوجود عوام کے دلوں سے اردو کے ساتھ محبت کو دور نہیں کیا جا سکا ۔ اس کا منہ بولتا ثبوت جشن ریختہ کی غیر معمولی مقبولیت ہے۔ روہنی سنگھ جیسی معروف صحافیہ کہ اس عمر میں اردو سیکھ کر کتاب لکھنا اور اسےپونر جنم کہنا بھی اس حقیقت کا غماز ہے۔سپریم کورٹ کےحالیہ فیصلے نے بھی اردو کو مذہبی پیرائے سے جوڑ کر دیکھنے والی ذہنیت کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔بعض ریاستوں میں تین زبانوں کے فارمولے کی آڑ میں جان بوجھ کر اردو کو کنارے لگایا جا رہا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اپنے حالیہ فیصلے میں آئین کے دفعہ 343 کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’آئین سازوں کا اس دفعہ میں سرکاری زبانوں کے حوالے سے ہندی اور انگریزی کے خصوصی ذکر کایہ مطلب نہیں تھا کہ ہندوستانی اور اردو کو ختم کر دیا جائے۔‘
عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ فیصلے سے اردو داں حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ اُردو کےتعلق سے سپریم کورٹ کےفیصلے کا اتفاق اور خیرمقدم کرتے ہوئےباپو پٹوردھن نےکہاکہ ’’ اُردو بھی ہندی، مراٹھی ،گجراتی اور بنگالی کی طرح صد فیصد ہندوستانی زبان ہے۔ ان کے مطابق غلط فہمی میں مبتلا لوگ اُردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتےہیں حالانکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر زبان کو تقسیم کرنے سے منع کیا۔ ممبئی میں اُردو مرکزکے ڈائریکٹر ایڈوکیٹ زبیر اعظمی نے کہاکہ ’’ سپریم کورٹ کی تاریخ میں اردوزبان کےتعلق سے یہ پہلا فیصلہ سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ معزز عدالت ِعظمیٰ نے اردو کو ہند آریائی زبان قرار دیتے ہوئے اسے ہندی اور مراٹھی جیسی زبانوں کا ہم پلہ قراردیا ہے۔ یہ فیصلہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب،کثرت میں وحدت اور ہندوستانی تہذیب وثقافت کے عظیم نظریے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔فیصلے میں قانونی اصطلاحات مثلاً عدالت، پیشی، تحصیل، منصب دار، مؤکل، مدعاعلیہ اور وکالت نامہ وغیرہ کا ذکر کر کے اردو کی قانونی و آئینی اہمیت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ زبانیں علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں، مذاہب سے نہیں۔ اردواپنی انفرادی شناخت کے ساتھ اس ملک کی زبان رہی ہے۔ہم اس تاریخی فیصلہ کو ہندوستان میں لسانی ہم آہنگی اور تہذیبی یگانگت کی جانب ایک سنگ میل سمجھتےہیں ۔‘‘
لبیک نامی مجموعہ کلام کے مصنف اور نوی ممبئی کےمعروف شاعر ڈاکٹر لکشمن شرما واحد نے اُردوزبان سےمتعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ اس کا احترام کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق ’سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ دیاہے۔ اُردو ہماری تہذیب کا ایک ایسا اٹوٹ حصہ ہے، جسے علاحدہ نہیں کیاجاسکتا‘۔ راجستھان کے رہنے والے اُردو کے مداح لکشمن شرما نے اپنی زبان کے حوالے سے کہا کہ ’’ہمارے ملک میں صدیوں سے یہ پڑھی، لکھی اوربولی جارہی ہےلیکن کچھ لوگ ،اس پیاری زبان کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کرتےہیں،یہ ان کی سیاسی شعبدہ بازی ہےجبکہ حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ اُردو ہم سب کی زبان ہے ۔ میں ایسے متعدد پنڈتوں کو جانتاہوں جو بہتر ین اُردو جانتے ہیں اور انہوں نے اُردو زبان کی ترقی اور ترویج کیلئے اپنی خدمات پیش کی ہیں، اسی طرح متعدد مسلمان دانشوروں نے سنسکر ت کےفروغ میں اہم کردار نبھایاہے۔‘‘
اُردو اور ہندی کے باہمی رشتے پر تو بہت بات ہوتی ہے مگر مراٹھی زبان کے ساتھ اس کا تعلق بتاتے ہوئے کرلاکے محمد حسین پرکار کہتے ہیں کہ ’’اُردو اورمراٹھی کے قریبی تعلقات ہیں۔ دونوں ہی زبانیں ایک دوسرے کےاشتراک سے پروان چڑھی ہیں،ساتھ ہی یہ دونوں زبانیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں، رہیں گی اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری وساری رہنا چاہئے ۔‘‘ انہوں نے اُردو سےمتعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتےہوئےکہاکہ ’’ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت مثبت ہے۔ اس فیصلہ پر عمل کرنےکی ضرورت ہے‘‘ موصوف زبانوں کو زندہ رکنے اور تعلقات قائم رکھنے کی اہمیت بتا کر اپنی بات اپنی زبان اورلہجے میں کرنے پر زور دیا۔ تھانےکےدلیپ کمار کھرات نے کہاکہ ’’ سپریم کورٹ کا فیصلہ قطعی درست ہے۔ دراصل پاتور میونسپل کونسل ( اکولہ) کے سائن بورڈ پر اُردو زبان کےاستعمال کی مخالفت حماقت تھی ۔ ایسا کرنےوالوںکو علم ہی نہیں تھاکہ وہ ایک ایسی زبان کی مخالفت کررہےہیں جو اسی ملک میں پلی بڑھی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ سے ان کی حماقت کو واضح کردیاہے۔انہیں امید ہے کہ اس فیصلہ سے اُردو کےمتوالوں کو حوصلہ ملے گا۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن نے اپنے حالیہ فیصلے میں تقسیم ہند کی وجہ سے ہندوستان میں اردو کو ہونے والے نقصان کااعتراف بھی کیا ۔اس بینچ نےملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’انہوں نے مانا تھا کہ (اردو) ہندوستانی انڈیا کی لنگوا فرینکا ہو گی‘ اور ’آزادی کی تحریک کے دوران یہ واضح تھا کہ ہندوستانی ملک کی قومی زبان ہو گی مگر تقسیم ہند کی وجہ سے سب سے زیادہ اردو متاثر ہوئی۔‘ بابائے قوم گاندھی جی نے بھی متعدد تحریروں میں ’ہندوستانی‘ کو قومی زبان بنانے کی وکالت کی ہے۔ ہندوستانی سے مراد سنسکرت اور فارسی سے الگ عام لوگوں کے بول چال کی زبان جو اردو سے قریب تر تھی۔2023 میں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور نامور وکیل کپل سبل نے بحث کے دوران سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے سامنے بشیر بدر کا ایک شعر پڑھا تو بحث کا رخ اردو زبان کی طرف مڑ گیا۔سابق چیف جسٹس نے اردو کو خوبصورت زبان کہا،تو سبل مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بولے اسے مرض الموت میں مبتلا زبان قرار دے دیاتھا۔ دو سال بعد اسی عدالت نے اردو کے حوالے سے ایک حوصلہ افزاء فیصلہ سنا دیا۔
اردو کے تعلق سے کپل سبل کی تشویش بجا ہے مگردو سال قبل مشہور انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے اعداد و شمار اس تاثر کی تردید کرتے ہیں کہ یہ زبان ختم ہو رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 320 زبانوں میں ویکیپیڈیا پر دستیاب آرٹیکلزکے اندر سب سے زیادہ66 لاکھ 71 ہزار 236 انگریزی کےتھے۔ دوسرے نمبرپر فلپائن کی ایک علاقائی زبان سیبانو کے 61 لاکھ 23 ہزار 197 آرٹیکلز دستیاب تھے ۔ دیگر مشہور زبانوں میں جرمن (28.6 لاکھ)، سویڈش (25.1 لاکھ)، ڈچ (21.2 لاکھ) اور فرانسیسی (25.3 لاکھ) زبانوں کا نمبر آیاتھا جبکہ چینی زبان میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 13.6 لاکھ تھی۔ہندوستان کی آئینی تسلیم شدہ زبانوں میں اردو کو وکی پیڈیا پر آرٹیکلز کی دستیابی میں سبقت حاصل تھی ۔ اردو میں دستیاب آرٹیکلز کی تعداد 1.91 لاکھ تھی جبکہ بالترتیب ہندی (1.57 لاکھ)، تامل (1.54 لاکھ) اور بنگلہ (1.4 لاکھ) کے نمبر آئے تھے۔ ایسے میں بے ساختہ داغ دہلوی کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
Like this:
Like Loading...
القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم
آیت نمبر 22
ترجمہ:
اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے