Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
When asking questions becomes anti-national!

جب سوال پوچھنا ملک دشمنی ٹھہرے !

Posted on 30-04-2025 by Maqsood

جب سوال پوچھنا ملک دشمنی ٹھہرے !

ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین

جموں و کشمیر کے پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے، جس میں 26 افراد کی المناک موت ہوئی، نے نہ صرف قومی سلامتی پر سوالات اٹھائے بلکہ بھارت میں اظہار رائے کی آزادی اور حکومتی احتساب کی حدود پر بھی ایک گہری اور فکر انگیز بحث چھیڑ دی ہے۔ حملے کے بعد حکومت نے سخت کارروائی کا عزم ظاہر کیا، لیکن اسی دوران دو خواتین ، لوک گلوکارہ نیہا سنگھ راٹھور اور لکھنؤ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مادری کاکوٹی کے خلاف حکومت پر سوال اٹھانے والی سوشل میڈیا پوسٹس کی بنیاد پر فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آر) درج کی گئیں۔ ان اقدامات نے ملک بھر میں یہ اہم سوال پیدا کیا ہے کہ کیا بھارت میں حکمران طبقے سے تنقیدی سوال پوچھنا اب غداری کے مترادف سمجھا جانے لگا ہے؟
نیہا سنگھ راٹھور نے پہلگام حملے کے فوراً بعد ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے وزیر اعظم اور حکومت سے براہ راست سوال پوچھا کہ قوم پرستی کے نام پر بننے والی حکومتوں سے دہشت گرد حملوں جیسی ناکامیوں پر سوال کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ جب یہ ویڈیو مبینہ طور پر پاکستانی سوشل میڈیا ہینڈلز نے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کی تو بھارت میں ردعمل تیز ہوگیا۔ اسی پس منظر میں لکھنؤ کے حضرت گنج تھانے میں ایک شخص کی شکایت پر نیہا سنگھ کے خلاف ملک مخالف پوسٹس کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی۔ ایف آئی آر میں ان پر قومی سالمیت کو نقصان پہنچانے، مذہب و ذات کی بنیاد پر نفرت پھیلانے، پہلگام حملے پر ملک دشمن تبصرے کرنے، اور امن عامہ کو خراب کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے، جن کے تحت انڈین پینل کوڈ کی متعدد سخت دفعات اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 69 اے لگائی گئی۔

ایف آئی آر کے جواب میں نیہا سنگھ نے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں سوال اٹھایا کہ "دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایک عام لڑکی سوال کیسے پوچھ سکتی ہے۔” قانونی مدد کی اپیل کرتے ہوئے اور اپنی مالی مشکلات کا ذکر کرنے کے باوجود، وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔ انہوں نے حکومت کو چیلنج کیا کہ وہ اپنی ناکامیوں کا الزام ان پر لگانے کے بجائے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ نیہا سنگھ نے زور دیا کہ "جس طرح جمہوریت میں ہر ووٹ ضروری ہے، اسی طرح ہر سوال بھی ضروری ہے”، اور حکومت کا اصل پریشانی ان کے سوالات سے ہے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے فوجی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی آئی ٹی سیل اور مین اسٹریم میڈیا کی جانب سے انہیں ‘دیش دروہی’ قرار دینے کی کوششوں پر سوال اٹھایا، خاص طور پر جب ان کی ویڈیو ایک پاکستانی اکاؤنٹ نے شیئر کی۔

اسی طرح کا معاملہ لکھنؤ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مادری کاکوٹی کا ہے۔ ان کے خلاف بھی پہلگام حملے کے بعد حکومت اور میڈیا پر تنقید کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ ان کی پوسٹس میں مبینہ طور پر وزیر داخلہ امیت شاہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے۔ ایک پوسٹ میں انہوں نے مذہب کی بنیاد پر قتل، لنچنگ، اور امتیازی سلوک جیسی کارروائیوں کو دہشت گردی کی شکلیں قرار دیا۔ اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے "اسلامی دہشت گردوں” اور "عام مسلمانوں” کا موازنہ "زعفرانی دہشت گردوں” اور "عام ہندوؤں” سے کیا۔ ان کا موقف تھا کہ "فاشسٹ حکومت” کی پالیسیوں نے ہندو مسلم اتحاد کو نقصان پہنچایا جس کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا اور حملہ داخلی سلامتی کی "بڑی ناکامی” ہے۔ نیہا سنگھ کی طرح، ڈاکٹر کاکوٹی کی ویڈیو بھی، بشمول "زعفرانی دہشت گرد” کی اصطلاح، مبینہ طور پر پاکستانی اکاؤنٹس نے شیئر کی۔ ان کے خلاف بھی اے بی وی پی کے ایک کارکن کی شکایت پر انڈین پینل کوڈ (یا اس کے نئے متبادل بھارتیہ نیائے سنہیتا) اور آئی ٹی ایکٹ کی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ان واقعات پر سیاسی ردعمل بھی واضح طور پر منقسم تھا۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے نیہا سنگھ راٹھور کی حمایت کی اور کہا کہ حکومت کو سوال اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری طرف، بی جے پی کے ایم ایل اے نند کشور گرجر نے نیہا سنگھ پر "آئی ایس آئی کا ایجنٹ” اور "دہشت گرد” ہونے جیسے انتہائی سنگین الزامات لگائے اور ان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

یہ واقعات محض انفرادی مقدمات نہیں ہیں، بلکہ یہ کئی وسیع تر اور گہرے خدشات کو اجاگر کرتے ہیں۔ محض سوالات پوچھنے یا حکومت کی کارکردگی، خاص طور پر قومی سلامتی جیسے حساس معاملے پر تنقید کرنے پر، قومی سالمیت کو نقصان پہنچانے اور تشدد پر اکسانے جیسے سنگین الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کرنا جمہوری اختلاف رائے کو دبانے کی ایک واضح کوشش معلوم ہوتی ہے۔ یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ حکومتی ناکامیوں، خصوصاً ایسی سیکیورٹی کوتاہیوں پر جن کی وجہ سے دہشت گرد ملک کے اندر سینکڑوں کلومیٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں، سوال اٹھانا ہرگز ملک دشمنی نہیں ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت ناقدین کے خلاف سخت کارروائی کرکے دراصل حملے کو روکنے میں اپنی ناکامی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان میں موجود عناصر بھارتی حکومت پر تنقید کرنے والے مواد کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم، اہم سوال یہ ہے کہ کیا بیرونی عناصر کی جانب سے اس استحصال کو بنیاد بنا کر ملک کے اندر اٹھنے والی جائز تنقیدی آوازوں کو خاموش کر دینا درست ہے؟ حکومت کی اپنی پالیسیاں، بیانات یا ناکامیاں بھی غیر ملکی پروپیگنڈے کا سبب بن سکتی ہیں، لیکن اس سے داخلی سطح پر پوچھے گئے سوالات یا کی گئی تنقید کی قانونی حیثیت ختم نہیں ہوتی۔ اس بحث میں میڈیا کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا وہ حکومت سے مشکل سوالات پوچھ رہا ہے یا پھر سنسنی خیزی اور "نفرت کی سیاست” کو فروغ دے کر ایسا ماحول بنا رہا ہے جہاں اختلاف رائے کو فوراً ملک دشمنی قرار دے دیا جاتا ہے۔

جمہوریت کا بنیادی ستون ہی عوام کا اپنے منتخب نمائندوں سے سوال پوچھنے اور ان کا احتساب کرنے کا حق ہے۔ جب اس حق کے استعمال پر سنگین فوجداری دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جاتے ہیں، تو یہ حکومت کی جانب سے احتساب اور اظہار رائے کی آزادی کو برداشت کرنے کی صلاحیت پر سنگین سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ نیہا سنگھ راٹھور اور ڈاکٹر مادری کاکوٹی کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر، جن میں وسیع اور سخت الزامات شامل ہیں، یہ تاثر دیتی ہیں کہ تکلیف دہ سوالات پوچھنا، خاص طور پر قومی سلامتی یا دیگر حساس سماجی و سیاسی مسائل پر، تیزی سے خود قوم کے خلاف ایک عمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ الزامات کی سنگینی، جو ممکنہ طور پر بغاوت یا سماجی منافرت پھیلانے تک کے مضمرات رکھتی ہیں، سوشل میڈیا پر تنقیدی تبصرہ کرنے جیسے عمل کے مقابلے میں غیر متناسب معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرز عمل سے ملک میں خوف کا ایسا ماحول پیدا ہونے کا خطرہ ہے جہاں شہری حکومت کی کارکردگی پر جائز تنقید کرنے سے بھی ہچکچائیں، چاہے معاملہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو۔
خلاصہ یہ کہ پہلگام حملے کے بعد نیہا سنگھ راٹھور اور ڈاکٹر مادری کاکوٹی پر قانونی شکنجہ کسنا ایک خطرناک روش کی علامت ہے، جہاں حکومت سے مشکل سوال پوچھنے کی سزا سنگین الزامات کی صورت میں مل رہی ہے۔ مان لیا کہ قومی سلامتی اور امن و امان قائم رکھنا حکومت کا فرض ہے، لیکن جب عام شہریوں کو، جو محض حکومتی پالیسی یا کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہوں، ان قوانین کے تحت نشانہ بنایا جائے جو اصل میں سنگین خطرات کے لیے ہیں، تو ‘ملک دشمنی’ کا لیبل جائز اختلاف رائے پر بھی چپکا دیا جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایف آئی آر بھارت میں جمہوری آزادیوں کے مستقبل پر ایک سنگین سوال کھڑا کر رہی ہیں: کیا اب حکومت سے سوال پوچھنا ہی غداری ہے؟ ریاست کا طرزِ عمل بتا رہا ہے کہ شاید جواب ہاں میں ہے، جو بالآخر انھی جمہوری اصولوں کی اساس کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے جن کے تحفظ کا ریاست دعویٰ کرتی ہے۔
=======

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb