Skip to content
تہذیب کے دامن پر تعصب کا دھبہ
اسلاموفوبک جرائم کا المیہ
🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
یہ حجاب، یہ کلمہ، یہ مسجد کا نور
نہیں مٹ سکتا، ہے یہ ربّ کا سرور
جب مذہب کسی کی پہچان بن جائے، اور یہی پہچان جرم قرار پائے، تو مسئلہ صرف کسی اقلیت کا نہیں رہتا—یہ انسانیت کے ضمیر کا امتحان بن جاتا ہے۔ اسلاموفوبیا کوئی نئی اصطلاح نہیں، لیکن اس کے زخم آج بھی اسی شدّت سے تازہ ہیں۔ آج کے خود ساختہ "مہذب” دور میں بھی مسلمانوں کے ایمان، عزّت اور زندگی کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دنیا اگرچہ ترقی کی بلند ترین دہلیز پر کھڑی ہے، مگر دلوں میں تعصب اور نفرت کی وہی پرانی آگ اب بھی دہک رہی ہے۔ مذہب، جو انسانیت کو جوڑنے، محبت بانٹنے، اور امن کا پیغام دینے آیا تھا، آج اسی مذہب کو ماننے والوں کے لیے جرم بنتا جا رہا ہے۔ اسلاموفوبیا محض ایک اصطلاح نہیں، بلکہ اُن بے آواز مظلوموں کی چیخ ہے، جو صرف اپنی عبادت، اپنے لباس، یا اپنے نام کی بنیاد پر ظلم کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ تحریر ان مظالم کا نوحہ بھی ہے اور ان کے خلاف اٹھنے والی صدائے احتجاج بھی۔ یہ صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ہر صاحبِ ضمیر کی پکار ہے، جو انصاف، رواداری اور انسانیت کے لیے دل میں کوئی تڑپ رکھتا ہے۔ یہ زخمی دلوں کی ترجمان بھی ہے اور اُن سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی، جو نفرت کے شور میں خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔ یہ تحریر ایک صدا ہے—عدل، امن اور باہمی احترام کے حق میں۔
اسلاموفوبک کرائم (Islamophobic crime) سے مراد وہ سنگ دلانہ اعمال ہیں جو کسی فرد یا جماعت کے خلاف محض اس بنیاد پر کیے جاتے ہیں کہ وہ اسلام سے وابستہ ہیں یا اسلامی شناخت رکھتے ہیں۔ یہ جرائم، انسانیت کی چادر کو چاک کرتے ہوئے، تعصب، نفرت، اور مذہبی تعاند کی گہری تاریکیوں سے جنم لیتے ہیں۔ یہ صرف جسم پر حملہ نہیں ہوتا، بلکہ عقیدے، شناخت اور روح پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ جب کسی مسلمان کو اس کی نماز، لباس، زبان یا طرزِ عبادت کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے، تو یہ محض ایک جرم نہیں بلکہ ایک نظریے کے خلاف اعلانِ جنگ ہوتا ہے؛ ایک ایسی جنگ جو معاشروں کو تقسیم، دلوں کو زخمی، اور عالمی ہم آہنگی کو مجروح کرتی ہے۔
جنہیں داڑھی سے نفرت، حجاب سے خار ہے
وہ انسان نہیں، تعصب کا شکار ہے
اسلاموفوبیا پر مبنی جرائم کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں—کہیں مسجد کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے، کہیں حجاب اوڑھنے والی خاتون کو ہراساں کیا جاتا ہے، اور کہیں محض داڑھی یا لباس کی بنیاد پر کسی کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ واقعات صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ہر ایک کے پیچھے ایک دل شکستہ انسان، ایک لرزتی ہوئی روح، اور ایک خاموش چیخ ہوتی ہے۔ ایسے جرائم، آزادیٔ مذہب اور انسانی وقار کے چہرے پر طمانچہ ہیں، اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا صرف ایک مسلمان کا نہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان کا فرض ہے، تاکہ دنیا میں رواداری، احترام اور اخوت کے چراغ روشن رہیں۔
اسلاموفوبک جرائم کی صورتیں کئی رنگوں میں چھپی ہوئی وہ سیاہ حقیقتیں ہیں، جو انسانیت کے دامن کو داغدار کرتی ہیں۔ یہ صرف قانون شکنی نہیں، بلکہ تہذیب و تمدّن کے منہ پر ایک تھپڑ ہیں جو مذہبی نفرت کے ہاتھوں برپا ہوتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے اُس منظر کا، جب کسی مسلمان کو محض اس کے ایمان، اس کے کلمے، یا اس کے سجدے کی پہچان پر زد و کوب کیا جاتا ہے۔ یہ صرف جسمانی حملہ نہیں، بلکہ اس کی روح، شناخت اور عقیدے پر یلغار ہوتی ہے۔
کہیں عبادت گاہیں، جو امن و سلامتی کی علامت ہوتی ہیں، نفرت کی آگ میں جھونک دی جاتی ہیں۔ مسجد کی دیواریں جن پر اللّٰہ کے ذکر کی گونج ہوتی ہے، نفرت کی ضربوں سے چٹخ جاتی ہیں، اور محراب و منبر جلتی ہوئی آنکھوں سے عدل و انصاف کی تلاش میں تکتے رہتے ہیں۔ وہ باوقار خواتین جو حجاب کو اپنی عظمت کا تاج سمجھتی ہیں، جب ان کے سروں سے زبردستی وہ چادر کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو گویا ان کی عزّت، ان کی شناخت اور ان کا سکون تار تار کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف ان پر حملہ ہوتا ہے، بلکہ پورے معاشرے کی تہذیب پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
ہر گلی میں صدا ہے مظلوم کی
نفرتوں نے چھپا دی ہے خوشبو دین کی
سڑکوں پر، اسکولوں میں، دفاتر میں یا سوشل میڈیا کے بے کنار میدان میں جب مسلمانوں کو صرف ان کے دین کی بنیاد پر گالیاں دی جاتی ہیں، اور نفرت انگیز الفاظ کے تیر برسائے جاتے ہیں، تو یہ وہ زہر ہے جو دلوں میں بگاڑ، معاشروں میں دراڑ، اور انسانوں میں اجنبیت پیدا کرتا ہے۔ یہ سب مظاہر، چاہے وہ مجمع میں ہوں یا اکیلے کمرے میں کی جانے والی پوسٹ میں، ایک ہی اصل سے پھوٹتے ہیں: مذہبی نفرت، لاعلمی، اور تعصب کا اندھا کنواں۔ ان کے خلاف اٹھائی گئی ہر آواز، رواداری کی شمع ہے۔ اور خاموشی؟ وہ صرف مظلوم کی نہیں، انسانیت کی شکست ہے۔
اسلاموفوبک جرائم محض انفرادی مظالم نہیں بلکہ وہ اجتماعی ناسور ہیں جو نفرت کی زمین پر اگتے ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ یہ جرائم دراصل نفرت پر مبنی جرائم (hate crimes) کے اُس تاریک دائرے کا حصّہ ہیں، جہاں کسی فرد کی مذہبی شناخت، رنگ، نسل یا عقیدہ اُس کے خلاف جرم کی واحد وجہ بن جاتی ہے۔
جب تعصب عقل پر غالب آ جائے اور دل سے انصاف کا چراغ گل ہو جائے، تب ایسے جرائم جنم لیتے ہیں—ایسے جرائم جو نہ صرف انسانی حقوق کی توہین ہیں بلکہ معاشرتی اقدار کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ نفرت پر مبنی جرم کوئی سادہ خلاف ورزی نہیں؛ یہ ایک پیغام ہوتا ہے، ایک دھمکی، جو پورے مذہبی یا نسلی گروہ کو خوفزدہ کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کو نشانہ بنانا، دراصل پوری امتِ مسلمہ کو نفسیاتی دباؤ میں لانے کی سازش ہوتی ہے۔
دنیا کے کئی مہذب ممالک نے اس تاریکی کو پہچانتے ہوئے اس کے خلاف قانون کی شمع روشن کی ہے۔ ان کے آئینوں میں نفرت پر مبنی جرائم کو محض جرم نہیں، بلکہ معاشرتی زہر سمجھا جاتا ہے۔ ان جرائم کے مرتکبین کے لیے سخت سزائیں متعین کی گئی ہیں تاکہ عدل کی روح باقی رہے اور اقلیتیں اپنے عقیدے کے ساتھ سکون و اطمینان سے زندہ رہ سکیں۔ ایسے قوانین انسانیت کے محافظ ہیں—یہ اُن معصوم لوگوں کے حق میں ڈھال ہیں جنہیں صرف اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ "مختلف” ہیں۔ ان قوانین کا وجود اس امید کا استعارہ ہے کہ دنیا میں انصاف، رواداری اور بقائے باہمی کے اصول اب بھی زندہ ہیں، اور ظلم کے خلاف مزاحمت اب بھی ممکن ہے۔
اسلامی تعلیمات انسانیت، عدل اور رواداری کی بنیاد پر قائم ہیں۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ "لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ” (المائدہ 8) — "کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو؛ انصاف کرو، یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔” اسلاموفوبیا کے خلاف ہماری جدوجہد نہ صرف مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا تقاضا ہے بلکہ خود اسلامی اصولِ عدل و احسان کی پاسداری بھی ہے۔ ہمیں ظلم کے اندھیروں میں حق، صبر اور علم کے چراغ روشن کرنے ہیں۔ نفرت کے خلاف بہترین جواب، علم، کردار اور دعوت ہے—جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے طائف کی گلیوں میں پتھر کھا کر بھی معاف کر دیا، ویسے ہی ہمیں بھی نفرت کے جواب میں کردار، دعا اور اخوت کا راستہ اختیار کرنا ہے۔
اسلاموفوبیا کے خلاف یہ مزاحمت محض دفاع نہیں، بلکہ دین کی اس تعلیم کا تسلسل ہے جو کہتی ہے: "ادفع بالتي هي أحسن…” (فصلت: 34) — "برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو سب سے بہتر ہو۔” نفرت کا جواب نفرت نہیں، بلکہ اعلیٰ کردار اور حسنِ سلوک ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دشمن بھی آپ کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام لائے۔ آج بھی مسلمان اگر اپنے رویے، دیانت، رحمت، امانت اور سچائی کو اپنا شعار بنا لیں، تو اسلاموفوبیا خود بے اثر ہو جائے گا۔
اسلام سب سے پہلے "اقْرَأْ” (پڑھ) کا پیغام دیتا ہے۔ اسلاموفوبیا کا ایک بڑا سبب جہالت اور غلط فہمیاں ہیں۔ مسلمان معاشروں اور افراد کو چاہیے کہ وہ اسلام کی اصل تعلیمات کو علمی، اعتدال پسند اور حکمت بھرے انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ دل دلیل سے بدلتے ہیں، زور سے نہیں۔
اسلام دشمن عناصر کا ہدف ہمیشہ تقسیم در تقسیم ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو فقہی، مسلکی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا، تاکہ ظلم کے خلاف اجتماعی آواز مؤثر ہو۔ "واعتصموا بحبل الله جميعا…” (آل عمران: 103) اسی وحدت کی دعوت ہے۔ اسلام ہمیں "جادلهم بالتي هي أحسن” (النحل: 125) سکھاتا ہے۔ ہمیں اسلام کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا جواب علمی اور مثبت مکالمے سے دینا ہوگا، تاکہ ہم نفرت کے محل میں فہم و رواداری کی روشنی پہنچا سکیں۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مظلوم کی بد دعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللّٰہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔” (بخاری) مسلمان دنیا بھر کے مظلومین کے لیے دعا، عملی مدد، اور قانونی و سفارتی کوششوں کے ذریعے ان کی پشت پناہی کریں۔ اسلاموفوبیا کا مقابلہ وہی نسل کر سکتی ہے جو علمی طور پر باشعور، دینی طور پر پختہ، اور معاشرتی طور پر فعال ہو۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو صرف عبادات نہیں، بلکہ اسلامی تہذیب، تاریخ، میڈیا لٹریسی اور قانونی حقوق سے بھی آگاہ کرنا ہوگا۔
یہ چادر، یہ سجدہ، یہ آذان کا نغمہ
سلامت رہے، چاہے دنیا سہمے یا تھمے
(01.05.2025)
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com
Like this:
Like Loading...