Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
حرم کے مسافر رحمن کے مہمان

حرم کے مسافر رحمن کے مہمان

Posted on 02-05-202502-05-2025 by Maqsood

حرم کے مسافر رحمن کے مہمان

ازقلم: مفتی عبدالمنعم فاروقی
9849270160

بیت اللہ شریف کو اللہ تعالیٰ کے گھر ہونے کا شرف حاصل ہے ،بیت اللہ شریف اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ کا مرکز اور اس کے رحمتوں کا محور ہے ،بیت اللہ شریف روئے زمین پر وہ پہلا گھر ہے جسے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے حکم الٰہی تعمیر کیا گیا ہے ،موجودہ وقت میں قطعہ زمین پر کچی اور پکی جتنی مسجدیں موجود ہیں بیت اللہ شریف ان سب کا مرکز ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جتنی مسجدیں ہیں سب کا رخ بیت اللہ شریف ہی کی طرف ہے ،بیت اللہ شریف کو قبلہ بھی کہاجاتا ہے ،اقطاع عالم سے اہل ایمان سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرکے اور مشقتوں کو اٹھاتے ہوئے بیت اللہ شریف کی زیارت کرنے اور اس کا چکر لگانے کے لئے آتے ہیں ، بیت اللہ شریف وہ عظیم عمارت ہے جس کا صرف دیکھنا عبادت ،جس کے ارد گرد چکر لگانا عبادت اور جس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا ضروری اور لازم ہے، اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف میں بڑی کشش رکھی ہے ،اہل ایمان میں سے جو شخص بھی اسے عقیدت و محبت سے دیکھتا ہے تو اس کا چہرہ کھل اٹھتا ہے ، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں،قلب دھل جاتا ہے، اعضاء عظمت کا اظہار کرتے ہیں اور اسے وہ سکون وچین حاصل ہوتا ہے جس کا الفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے،بلاشبہ ہر صاحب ایمان کی دلی خواہش وتمنا ہوتی ہے کہ کم ازکم زندگی میں ایک مرتبہ اسے بیت اللہ شریف کے دیدار کا شرف حاصل ہوجائے ،اسکے لئے وہ ہر وقت دعائیں کرتا رہتا ہے اور اسباب سفر اکھٹا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ،جب کسی کا کوئی عزیز یا دوست بیت اللہ شریف کے لئے رخت سفر باندھتا ہے تو اس وقت یہ اس خوش نصیب مسافر کو رشک بھری نگاہ سے دیکھتا ہے اور بے خود ہوکر تڑپتے ہوئے دل کی گہرائی سے اپنے لئے بھی دعا کرتا ہے اسے بھی جلد ازجلد رحمن کے مہمان بننے کا موقع نصیب ہوجائے ۔
یقینا بیت اللہ شریف کی زیارت ،اس کا طواف اور اس گھر کے صحن کی عبادت بڑی سعادت اور عظیم اجر وثواب کی بات ہے، حج بیت اللہ اسلام کی عبادتوں میں سے ایک اہم ترین عبادت ہے، حج بیت اللہ اسلام کا پانچواں بنیادی اور اہم ترین رکن ہے جو ہر صاحب استطاعت پر پوری زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے ، حج بیت اللہ کو عشق ومحبت کا سفر کہاجاتا ہے کیونکہ جب بندہ سفر حج پر نکلتا ہے تو وہ محبت وچاہت کے حدود پار کرکے دیوانگی کی وادیوں میں قدم رکھتا ہے تو اس کے تصور میں صرف اور صرف اس کا محبوب ہوتا ہے ،وہ گھر بار ،دوست احباب ،مال ودولت اور ملک ووطن کو چھوڑ کر تن پر معمولی چادر ڈالے ،کھلا سر محبوب سے ملاقات کے لئے نکل پڑتا ہے ،اس کی زبان پر بس محبوب کے نام کی رٹ ہوتی ہے ،وہ زور زور سے لبیک لبیک کہتا رہتا ہے ،اس کی یہ محبت وچاہت قابل دید بلکہ قابل رشک ہوتی ہے ،دراصل حج محبوب کی چاہت اور اس سے محبت کی انتہا ء کا نام ہے۔
حج بیت اللہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :الْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْْرٍ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ (البقرہ:۱۹۷)’’حج کے چند متعین مہینے ہیں،(شوال سے لے کر ذی الحجہ کی دسویں رات تک)پس جو شخص ان مہینوں میں (احرام باندھ کر)اپنے اوپر حج لازم کر لے تو اس کو حج کے دوران فحش بات کرنا، کوئی گناہ کرنا اور جھگڑا کرنا جائز نہیں اور تم جو نیکی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے ‘‘، اگر چہ کہ ماہ شوال سے پہلے ہی حج کی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہے لیکن جیسے ہی شوال کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو حج کی تیاریاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں ، ہمارے ملک ہندوستان کے مختلف علاقوں میں عازمین حج کے لئے تربیتی اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ انہیں مناسک حج کی خاص تربیت دی جاتی ہے ،پھر جیسے جیسے دن گزر تے جارہے ہیں عازمین حج کی تیاریوں میں بھی تیزی آنے لگتی ہے ، خوش نصیب عازمین حج ہر چیز سے فارغ اور یکسو ہوکر دن رات مقدس سفر کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں ،کوئی احرام خرید نے میں مصروف ہے تو کوئی سازوسامان جمانے میں لگا ہوا ہے تو کوئی رشتہ دار ،دوست احباب اور متعلقین سے ملاقات کرتے ہوئے جانی انجانی غلطیوں کی معافی تلافی ،سفر کی کامیابی اور حج کی قبولیت کے لئے دعا کی درخواست کرنے میں لگا ہوا ہوتا ہے۔
ہر مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ حج بیت اللہ کا نمبر لگتے ہی اس خوش نصیب کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے ، چہرہ خوشی سے دمک اٹھتا ہے ، آنکھیں چمک اٹھی ہیں،دل کی کیفیت بدل جاتی ہے ، زبان شکر میں تر نظر آتی ہے ، لب حمد باری میں ہلنے لگتے ہیں اور اس کا پورا وجود ہی سر زمین مقدس کی زیارت اور دیدار بیت اللہ کے لئے بے تاب نظر آتاہے ،یہ کیفیت دراصل ایمانی حرارت اور غیر معمولی محبت وتعلق کی نشانی ہوتی ہے ، سرزمین مقدسہ کا قیام ،حرمین شریفین کی زیارت ، دیدار بیت اللہ شرف اور دربار رسالت مآبؐ میں حاضری بندہ ٔ مومن کے زندگی کی سب سے بڑی خواہش وآرزو ہوتی ہے،عازمین حج دنیا کے وہ خوش نصیب ،قابل قدر بلکہ قابل رشک لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت ، رسول اللہ ؐ کے در کی حاضری ، مختلف مقدس مقامات کی زیارت اور اس زمین پر چند روز ہی سہی قیام کا موقع ملتا ہے جہاں رسول اللہ ؐ اور صحابہؓ کی مبارک جماعت نے قیام کیا تھا ،حاجی دوران سفر مقدس ، قیام حرمین شریفین اور وہاں عبادتوں کی ادائیگی کے بعد اپنے گھر واپس آنے تک جس کیفیت سے دوچار رہتا ہے اس کا لفاظ کے ذریعہ اظہار ممکن ہی نہیں ہے ،بس ان کے لئے اتنا کہنا ہی کا فی ہے کہ یہ وہ خوش نصیب شخص ہے جسے رحمن نے اپنا مہمان بنایا ہے یہ ہ وہ عظیم سعادت ہے جس کے مقابلہ ہر چیز چھوٹی نظر آتی ہے جب حاجی اس سعادت کا تصور کرتا ہے تو اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے ۔
دنیا میں حج کی عبادت کا سلسلہ سید نا ادم ؑ کے زمانہ سے جاری ہے ،روایات میں ہے کہ سیدنا آدمؑ نے ہندوستان سے مکہ معظمہ آکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں کی رہنمائی میں بیت اللہ شریف کی بنیاد یں قائم فرمائیں تھیں اور اس کے بعد حج بیت اللہ سعادت کا شرف حاصل کیا تھا ، اہل علم نے لکھاہے کہ سیدنا آدم ؑ نے اس کے بعد بھی برابر حجاز مقدس کے اسفار فرماتے رہے جن میں سے ۳۰۰ سو اسفار حج کے لئے تھے اور ۷۰۰ سو اسفار عمرے کے لئے تھے ( کتاب المسائل بحوالہ اعیان الحجاج) ،اہل علم فرماتے ہیں کہ سن ۹ ہجری میں حج بیت اللہ فرض کیا گیا ، حج کی فرضیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْْہِ سَبِیْلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ(ال عمران ۹۷)’’اور جو لوگ بیت اللہ تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں ،ان پر اس کا حج فرض ہے ،اور جو انکار کرے تو یقینا اللہ پوری دنیا سے بے نیاز ہیں‘‘،صاحب استطاعت پر پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے ،اگر کوئی اس کے بعد بھی حج کرنا چاہے تو یہ اس کے لئے نفل ہوگا، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ نے ہم کو خطا ب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے ،تو ایک صحابی حضرت اقرع بن حابسؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہر سال میں حج فرض ہے؟تو رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوتا تو تم اس پر عمل نہ کرپاتے اور تمہارے بس میں بھی نہیں تھا کہ تم اس پر عمل کرتے ،حج تو بس ایک مرتبہ فرض ہے اور اس سے زیادہ نفل ہے‘‘(مسند احمد:۲۶۴۲)،جس شخص پر حج فرض ہوجائے تو اسے اداکرنے میں عجلت سے کام لینا چاہیے ،حج کی ادائیگی میں کسی بھی چیز کو بہانا بناکر تاخیر کرنامناسب نہیں، اس سلسلہ میں رسول اللہؐ کا ارشاد گرامی موجد ہے جس میں آپؐ نے حج فرض ہوجانے کے بعد اس میں تاخیر سے منع فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد گرامی ہے کہ:فریضہ ٔ حج کے ادا کرنے میںجلدی کرو؛کیونکہ تم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ آئندہ کیا رکاوٹ پیش آجائے(مسند احمد:۸۲۶۷)،ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے فریضہ ٔ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اشاد فرمایا :من اراد الحج فلیتعجل(ابوداؤد:۱۷۳۲ )۔
عموماً یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ حج فرض ہونے کے باوجود بہت سے لوگ اس فریضہ کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں ،بعض لوگ اولاد کی شادیوںکو حج پر ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے اولاد کی شادیاں ضروری ہیں ،اس ذمہ داری کے پورا کرنے کے بعد حج کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کی جانب توجہ دیتے ہیں ، بعض لوگ وظیفہ پر سبکدوش ہونے کا انتظار کرتے ہیں، تو بعض لوگ گھر کی تعمیر یا اپنے اولاد کے کاروبار جمنے اور اس کے پروان چڑھنے کا انتظار کرتے ہیں ،لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے مذکورہ وجوہات یا اس جیسی چیزوں کو بنیاد بناکر فریضہ ٔ حج کی ادائیگی میں تاخیر کرنا شرعاً نا جائز ہے ، رسول اللہؐ نے ایسے شخص کے لئے سخت ترین وعید سنائی ہے ،ارشاد فرمایا :جو شخص زاد راہ اور بیت اللہ شریف تک پہنچانے والی سواری پر قادر ہو پھر بھی حج نہ کرے تو اس پر کچھ نہیں کہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر،اور یہ بات اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْْہِ سَبِیْلا(ال عمران:۹۷)اور اللہ کے لئے لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا ہے جو شخص وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘(ترمذی :۸۱۷)،اس حدیث میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے وا لوں کے لئے نہایت سخت وعید سنائی ہے ،یہود ونصاریٰ وہ قومیں ہیں جن پر اللہ نے اپنی پھٹکار اور لعنت فرمائی ہے،ان کے بُرے کرتوت ،ہٹ دھرمی ،بدسلوکی ،حد سے تجاوز ، اور کھلے عام شریعت کی نافرمانی کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان پر ذلت و رسوائی کو مسلط کر دیا گیا ہے ،اہل علم احادیث مبارکہ کی روشنی میں فرماتے ہیں حاجی کے لئے حج اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا بیش قیمت تحفہ ہے ، گناہوں کی معافی کا عظیم ذریعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کو اپنے بندوں پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض فرمایا ہے تاکہ اسے بہانہ بناکر بندوں کے پہاڑوں جیسے گناہ معاف کرکے ان کے سر سے گناہوں کا بوجھ ہلکا کیا جاسکے اور حج بیت اللہ کے بعد ان کی گردن پر گناہوں کا بوجھ باقی نہ رہے اور وہ گناہوں کے دھلنے کے بعد ایسے ہوجائیں جیسے نومولود ہوتا ہے ، ایک حدیث میں رسول اللہؐ نے حج بیت اللہ کو مغفرت کا بڑا ذریعہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ( مسلم:۲۴۰۴)’’جو شخص اس طرح حج کرے کہ اس میں کوئی گناہ کا کام اور بے حیائی کی بات نہ کرے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوکر واپس ہوتا ہے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے‘‘ ۔
حاجیوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کر لینے کی ضرورت ہے کہ حج بیت اللہ اس قدر مبارک عمل ہے اور ایسی مہتم بالشان عبادت ہے کہ جس میں حاجی کے لئے بلاتوقف رحمتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ گھر سے نکلنے سے شروع ہو کر گھر واپس آنے تک جاری رہتا ہے ،ایک حدیث میں رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ:حاجی کے لئے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک غلطی معاف کی جاتی ہے،اور طواف کے بعد دورکعت پڑھنے پر بنی اسماعیل ؑ کے غلام آزاد کر نے کا ثواب دیا جاتا ہے،اور صفا ومروہ کی سعی کا ثواب ستر غلاموں کو آزاد کرنے کے برابر ہے،اور جب بندہ میدان عرفات میں وقوف کرتا ہے تو اس دن اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماکر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے پراگندہ بالوں والے بندے دنیا کے کونے کونے سے میری جنت کی امید لگا کر میرے پاس آئے ہیں،لہذا ان کے گناہ اگر چہ ریت کے ذرات ،بارش کے قطرات اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں پھر بھی میں انہیں بخش دوں گا ،پس اے میرے بندو! جاؤ بخشے بخشائے واپس جاؤ تم بھی بخش دئیے گئے اور جس کے لئے تم نے بخشش کی سفارش کی ان کی بھی مغفرت کردی گئی ہے،اورشیطان کو کنکری مارنے کے بدلے ہر کنکری پر کسی بڑے گناہ کی معافی ہوتی ہے ،اور قربانی کا ثواب آخرت کے ذخیرہ میں جمع کیا جاتا ہے،اور احرام کھولنے کے وقت سر منڈانے پر ہر بال کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک بُرائی مٹائی جاتی ہے،اور طواف زیارت کے بعد گناہوں سے بالکل پاک وصاف کر دیا جاتا ہے اور فرشتہ حاجی کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ اب آئندہ کے لئے ازسر نو اعمال کرو،تمہارے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں(مسند البزار:۶۱۷۷) ،یہی وجہ ہے حاجی جب ادائیگیٔ فرض کے بعد لوٹتا ہے تو گناہوں سے پاک صاف اور دھلا دھلایا ہوا ہوتا ہے ،اس کانامۂ اعمال گناہوں سے خالی ہوتا ہے ،رحمت خداوندی کا اس پر سایہ ہوتا ہے ، جب وہ دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے ، رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ،اللہ نے انہیں بلایا جس پر انہوں نے لبیک کہا اور یہ لوگ جو مانگیں گے اللہ تعالیٰ انہیں عطا کریں گے(ابن ماجہ: ۲۸۹۲)،سیدنا ابن عباس ؓ کی روایت جن میں پانچ لوگوں کی دعائیں قبول ہونے کا ذکر ہے ان میں سے ایک حاجی بھی ہے (البحر العمیق :۱؍۷۰)، انہیں احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے اہل علم فرماتے ہیں کہ حاجیوں سے دعا کی درخواست کرنی چاہئے ،سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا’’جب تم حاجی سے ملو تو اس سے سلام ومصافحہ کرو اور اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لئے استغفار کراؤ کیونکہ وہ بخشا بخشایا ہے‘‘(مسند احمد:۵۴۹۷)۔
مسلمانوں میں سے جو لوگ صاحب استطاعت ہیں یقینا ان پر حج فرض ہو چکا ہے ،ان پر شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ اولین فرصت میں حج کا فریضہ انجام دے ،اگر وہ حج فرض ہونے کے باوجود اس کی ادائیگی میں کوتا ہی کرتا ہے تو یاد رکھیں کہ زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے اس سے بڑا بدبخت کوئی اور نہیں ہے اور جن لوگوں پر حج فرض نہیں ہے تو انہیں کم ازکم دل میں حج بیت اللہ کی آرزو رکھنی چاہیے اور محبت وعقیدت کے ساتھ حج پر جانے والوں سے ملاقات کرتے ہوئے ان سے اپنے حق میں دعاؤں کی درخواست کرنی چاہیے ،کیا بعید کہ آئندہ حجاج کی فہرست میں شامل ہوجائے اور سعادت حج بیت اللہ سے مشرف ہوجائیں ، یہ بات ہر حاجی کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ حج بیت اللہ کی سعادت محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم ،اس کی عنایتوں اور اس کے بلاوے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے ،وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے گھر کے دیدار اور اپنے محبوب کے روضے کی زیارت کا شرف عطا کرتا ہے ،بہت سے وہ لوگ ہیں جن کے پاس مال ودولت بھی ہے ،صحت وتندرستی بھی ہے اور اسباب ووسائل بھی ہیں لیکن اس کے باوجود حج بیت اللہ کی سعادت سے محروم ہیں ،معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے اجازت نہیں ہے اور جنہیں اجازت مل جاتی ہے اسباب خود بخود بن جاتے ہیں ، جن عازمین حج کو امسال حج کی سعادت حاصل ہونے جارہی ہے انہیں اپنے نصیب پر خوش ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور زبان حال وقال سے کہنا چاہئے کہ
شکر ہے تیرا خدایا ،میں تو اس قابل نہ تھا
تونے اپنے گھر بُلایا،میں تو اس قابل نہ تھا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb