جمعہ نامہ : جنونِ وفا مستقل چاہیے
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’انسان جلد باز مخلوق ہے ‘‘۔ قرآن حکیم کا یہ منفرد اعجاز ہے کہ اس میں خالق کائنات بذاتِ خوداشرف المخلوقات کو اس کی معرفت کرواتا ہے۔ حضرتِ انسان کو اپنی خوبیوں اور خامیوں سے روشناس کرتا ہے۔ اس آیت قرآنی میں انسانی فطرت کا یہ راز فاش کیا گیا کہ اس کی سرشت میں جلد بازی نقص پایا جاتا ہے۔یہ خرابی اس کو نہ صرف اپنی آخرت سے غافل کردیتی بلکہ اس کی جلدی مچانے پر بھی آمادہ کردیتی ہے۔ قصائص ولطائف کی مدد نبیٔ کریم ﷺ کی مخالفت کرنے والے نے جلد عذاب کامطالبہ کیا یہ آیت نازل ہوئی :’’ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاؤ‘‘۔ نضر بن حارث کے حق میں یہ وعید سچ ثابت ہوگئی اور وہ غزوۂ بدر کے بعد گرفتار ہوکر ہلاک ہوا مگرپھر جہنم کا عذاب تو ناگزیر ہی ہے ۔ انسان کو جلد بازی اپنے خیر و شر سے بے نیاز کرکے ہلاکت و بربادی سے دوچار کردیتی ہے۔ اس کے برعکس مستقل مزاج اور سکون و اطمینان سے کام کرنے والے لوگ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔
وطن عزیز میں فی الحال مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت تحفظِ اوقاف کی تحریک چل رہی ہے۔ اس مہم میں مختلف الجہات احتجاج کیا جارہا ہے مثلاً کبھی پریس کانفرنس اور خطابات عام کا انعقاد ہوتا ہے تو کبھی دھرنا دےکریا ’بتی گل‘ کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ایسے میں شیطان ورغلاتا ہے کہ ان علامتی سرگرمیوں سے کیا ہوگا ؟ وسوں کا شکار کرکے کہتا ہےکہ اپنی بجلی بند کرنے کے بجائے ظالموں کی بتی گُل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ کوئی مجرد سرگرمی نہیں ہے بلکہ ایک سلسلے کی کڑی ہے اور اس طرح مجموعی طور پر غاصب سرکار پر دباو بڑھے گا ان شاء اللہ۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشادگرامی ہے:’’جب تم نے بردباری سے کام لیا تو اپنے مقصد کو پالیا، یا عنقریب پا لوگے اور جب تم نے جلدبازی کی تو تم خطا کھاجاؤ گے یا ممکن ہے کہ تم سے خطا سرزد ہوجائے‘‘۔ حضرت حسنؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو جلدی کرتا ہے وہ خطا میں پڑتا ہے‘‘۔ لہٰذا جلد بازی کے بجائے مستقل مزاجی سے جدوجہد جاری و ساری رکھنے کی ضرورت ہے۔
مستقل مزاجی نہ صرف دینی کاموں میں ناگزیر ہے بلکہ اس کے بغیر دنیا کے کام بھی حسن و خوبی کے ساتھ انجام تک نہیں پہنچتے۔ اسی لیےرسولِ خدا ﷺ نے عمل کی کثرت کے مقابلے مداومت پر زور دیا یعنی انسان اپنے اعمال خیر کو بلا توقف صبر و استقلال سے برابر کرتا رہے ۔ حضرت عائشہؓ نے آپﷺ کے سامنے ایک خاتون کا ذکر کیا جو کثرت سے نمازیں پڑھتی تھی، اور کثرتِ صلوٰۃ کے سبب بہت مشہور تھی ۔ آپﷺ نے اس پرکوئی کلمۂ تحسین کہنے کے بجائے فرمایا:’’ عائشہ! رہنے بھی دو، اللہ نے تم پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ڈالی ہے جو تم کرسکو‘‘۔ انسان اسی عمل کو مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھ سکتا ہےجو اس کی قوت برداشت سے زیادہ نہ ہو، جس میں اعتدال ہو اور اسے وہ اپنی تمام دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ بسہولت ہمیشہ نباہ سکے۔ اس کے بعد نبیٔ پاک ﷺ نےفرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا، انسان خود اکتا جاتا ہے‘‘۔
انسانی زندگی میں توازن کے حوالے سے یہ حدیث بہت اہم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل واحسان فرماتے فرماتے اور اجر وصلہ دیتے دیتے نہیں اکتاتا بلکہ انسان خود اکتا جاتا ہے اور اپنےایسےعمل کے تسلسل کو برقرار نہیں رکھ پاتا جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو یا جس کا محرک رضائے الٰہی کے بجائے کوئی ہنگامی جوش وجذبہ ہو۔ دین واطاعت میں مستقل مزاجی ناگزیر ہے ۔ اہل ایمان کو یاد رکھنا چاہیے کہ خزانۂ قدرت بے حد و حساب ہے ۔ حدیث قدسی ہے : ’’ اے میرے بندو!اگر تمہارے تمام اگلے اور پچھلے اور تمام انسان وجن،ایک میدان میں جمع ہوکربیک وقت مجھ سے (جوچاہیں )مانگنے لگیں،اور میں اسی وقت سب کا سوال پوراکردوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں ہوگی،جو سوئی کے سمندر میں ڈبوکر نکالنے سے ،اس سمندر میں واقع ہوتی ہے‘‘۔
اس حدیث قدسی میں خزانۂ قدرت کی وسعت بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا :’’اے میرے بندو!تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لئے شمار کررہا ہوں،پھر ان اعمال کا تمہیں پوراپورا بدلہ دونگا،لہذا جوشخص اپنے اعمال میں نیکیاں پاتا ہے وہ خوب اللہ تعالیٰ کا شکراداکرتارہے ،اورجوشخص برائیاں پاتاہے وہ صرف اپنے آپ کو ملامت کرتارہے۔‘‘ارشادِ قرآنی ہے :’’بے شک انسان بے صبر اور لالچی پیدا ہوا ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دعویٰ کی دلیل یہ پیش فرمائی ہے کہ:’’ جب اسے مصیبت (یا مالی نقصان) پہنچے تو گھبرا جاتا ہے، اور جب اسے بھلائی (یا فراخی) حاصل ہو تو بخل کرتا ہے‘‘۔ اس عیب سے ان لوگوں کو مستثنیٰ کیا گیا : ’’ جو نماز پڑھنے والے ہیں اوراپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں‘‘۔ یہاں نماز کے حوالے سے تسلسل اور پابندی کو لازم کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا : ’’اور کامیاب ہوگئے وہ مومنین جو اپنی نماز کی محافظت کرتے ہیں‘‘۔ اس آیتِ کریمہ میں محافظت سے مراد ناغہ یا ترک کیے بغیر مستقل مزاجی کے ساتھ نماز پڑھتے رہناہے۔
ایک بار رسول اللہ ﷺ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ مسجد کے دونوں ستونوں کے بیچ میں ایک رسی ٹنگی ہوئی ہے آپ نے دریافت فرمایا یہ رسی کیسی ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ رسی حضرت زینبؓ کی ہے کہ جب وہ ذرا سستی اور تھکاوٹ محسوس کرتی ہیں تو اس رسی میں لٹک جاتی ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ’’کھول دو اس رسی کو تم میں سے کوئی ہو اسی وقت تک نماز پڑھتا رہے جب تک نشاط اور آمادگی رہے اور جب ذرا کسل اور سستی محسوس ہونے لگے تو سو جائے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ: ’’اللہ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو استقلال کے ساتھ برابر کیا جاتا رہے۔ اگرچہ وہ تھوڑا ہو‘‘۔مستقل مزاجی سے مراد بلا اضمحلال اور کمزوری جہدِ مسلسل ہے۔ وقتی جذبے اور ہنگامی جوش کی بنیاد پر کیے جانے والے اقدامات میں چونکہ استقلال کا فقدان ہوتا ہے اس لیے ان کے دور رس نتائج رونما نہیں ہوتے اور ہنگامے کے بعد ایک طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو غلبۂ دین کی خاطر جہدِمسلسل کی توفیق عطا فرمائے۔
بہترین رہنمائی ۔
جزاک اللہ خیر
بیشک صحیح کہا!
جزاکم اللہ احسن الجزاء