دہشت گردی کا حقیقی چہرہ: تاریخ کے آئینہ میں
از قلم:احمد عبید اللہ یاسر قاسمی
832026y@gmail.com
+91 8121832026
مغربی ممالک بشمول امریکا برطانیہ کے ظلم و ستم، اور انکی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کون نا واقف ہے؟ اہل مغرب اپنی سفاکیت اور ستم گری سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں، وہ مغربی اقوام جنکو چوہے اور بلی کا درد تو درد نظر آتا ہے مگر انسانیت کا درد دکھائی نہیں دیتا، وہ دہشت گرد مغربی اقوام __جو انسانوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنی درازی قد کا اظہار کرتے ہیں __اپنی ابدی اسلام دشمنی سے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرچکے ہیں، وہ اذیت پسند مغربی جو ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر تاریخ کے صفحات میں انسانی ظلم و ستم کی ایک گھناؤنی تاریخ رقم کرچکے ہیں، وہ مادہ پرست جنونی اہل مغرب جو اسلامی ممالک بشمول عراق و افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں، جی ہاں!وہ خود پسند اور مغرور ترین مغربی جو دنیاوی اور مادی ترقی کے خاطر لاکھوں انسانی جانوں کو قربان کرتے ہیں،اور ان کی راہ میں حائل ہر اہم شخص کو دہشت گردی میں ملوث قرار دے کر برسر عام قتل کرتے ہیں، لیکن آج دنیا اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتی، بلکہ مغربی تہذیب و ثقافت کے علمبرداروں کی ایک بڑی تعداد ہمارے معاشرہ میں بھی مل جائے گی، شاید یہ اس لیے کہ مغربی فکر وفلسفہ کو برتری دینے والے مفکرین و مصنفین مغرب کی درندگی ‘بہیمیت وحشت ‘بربریت اور سفاکی کی تاریخ سے یاتو واقف نہیں یا پھر اس تاریخ کو دانستہ طورپر بیان کرنا نہیں چاہتے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نو کروڑ انسانوں کو مارنے والے امریکی اور تین سوسال میں ایک ارب پچھتر کروڑ انسانوں کو قتل کرنے والی مغربی اقوام دہشت گرد کہ بجائے انسانیت کے علمبردار ہوجائیں؟ مسلمانوں کو دہشت گردی ختم کرنے کا مشورہ دینے والے کسی مفکر کی عالمی دہشت گردوں کی دہشت گردی پر نظر ہی نہ پڑے؟ یہ نام نہاد حمیتِ دین سے عاری دانشوران اور مغربی ذہنیت کے حاملان جس بیباکی کے ساتھ عالم اسلام اور علماء کرام ‘ طلبائے علوم دینیہ مدارس و مکاتب پرطنز کرتے ہیں، اس قدر بیباکی کے ساتھ مغرب کی دہشت گردی کو عیاں کرتے ہوئے کیوں نہیں دکھائی دیتے؟ اہل مغرب کی سفاکیت اور درندگی کے خون آشام داستانوں اور مظالم کو اگر زیر قلم کیا جائے تو صفحات کی سیاہی سے زیادہ انسانی خون کی ارزانی نظر آئے گی،
مغرب اور ظلم کی داستانیں
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی موجودہ تہذیب مغربیت زدہ ہے،اور اس تہذیب کو فروغ دینے اور اسکو عام کرنے کے لیے اہل مغرب نے کئی صدیوں کا سفر طے کیا ہے،مذہب کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں کے ادوار سے لے کر علمی تفوق اور صنعتی ایجادات کی بلندی تک پہونچنے میں کئی پر پیچ راستوں سے گزرے ہیں، چودھویں صدی عیسوی سے لے کر سترہویں صدی عیسوی تک کی مدت میں اپنی نشاۃ ثانیہ کے لیے انہوں نے ایک ظالمانہ اور جابرانہ تاریخ رقم کی ہے؛ جس میں مغرب نے کلیسا کی بالادستی کا خاتمہ کیا، اہلیان مذاہب سے انکے مذہب کی حقیقی روح کو ختم کیا اور ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جس میں مذہب کے خلاف بغاوت تھی، امن و امان اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم طغیان، سفاکی اور درندگی تھی، مغرب اپنی اس خون آشام تہذیب کے فروغ میں ایک ایسی اسلام دشمنی کا عنصر پوشیدہ رکھا ہوا تھا جو مسلمانوں سے انکے ایمان کو سلب کرلے، انکی فکر و نظر کے زاویے کو تبدیل کردے، انکے رہن سہن اور طرز معاشرت کو یکسر ختم کردے اور ایک ایسی عالمی جنگ کو چھیڑ دے کہ قوم مسلم کا بالکل صفایا ہوجائے؛ چنانچہ ایک سازشی ذہن اور مکارانہ طرز پر ظلم و ستم کا ایک نیا باب مغرب نے کھولا، چنانچہ اندلس میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے، خون کی ندیاں بہتی ہیں،اور فرڈیننڈ نامی ظالم ڈکٹیٹڑ انگریز حکمراں ۲۰ لاکھ مسلمانوں کو زندہ جلا دیتا ہے، تاریخ کے صفحات پر مغربی ظلم و ستم کی داستانیں بہت طویل ہیں، چاہے وہ روسی کمیونسٹ (اسٹالین جولینن) کا روس میں لاکھوں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینا ہو یا پھر سرب رہنما (ڈاوان کارزچ) کا پانچ لاکھ مسلمانوں کو محض آزادی کے نام پر قتل کرانا اور ظلم اور ستم کی نا قابل یقین مثال قائم کرنا ہو یا پھر امریکہ کا سابق وزیر اعظم (جارج بش) کا تقریبا پندرہ لاکھ بے گناہ مسلمانوں کا عراق اور افغانستان میں خون بہانا ہو، الغرض مغرب اپنے جِلو میں ظلم و ستم اور سفاکی ودرندگی کی وہ تاریخ رکھتا جو بیان سے باہر ہے، مغرب کی درندگی اور اسلام دشمنی کو سمجھنے کے لیے میں انگلستان کے وزیرِ اعظم ،جنرل ایلبنی کا یہ قول نقل کرنا کافی سمجھتا ہوں جب اس نے فلسطین کو فتح کرتے ہوئے کہا تھا کہ:”یہ ہلال پر صلیب کی فتح ہے اور آج ہم نے سلطان صلاح الدین کے ہاتھوں ہوئی اپنی شکست کا انتقام لے لیا ہے ”۔یا بقول فرانسیسی جنرل گورو جب اس نے سلطان ایوبی کی قبر پر کھڑے ہوکرکہا:”اے صلاح الدین قبرسے باہر نکل، دیکھ آج صلیبی جنگوں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے”۔(انقلابی شخصیات ٩٢)۔
ذرا ان جملوں پر غور کیجئے! اور سمجھیے کہ مغربی اقوام اپنی تہذیب نو کی جگمگاتی اور طلسماتی دنیا کے در پردہ اسلام دشمنی کا کس قدر زہر اپنے سینہ میں پنہاں رکھتے ہیں ،اور امت مسلمہ کو ختم کرنے کے لئے کیسی کیسی سازشیں کرتے ہیں، اسی سازش کے تحت انہوں نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا اور مسلمانوں کے وجود پر ایسا کاری ضرب لگایا کہ مسلمان اب تک اس زخم کو بھر نہ سکے
مولانا نور عالم خلیل امینی مدظلہ العالی رقمطراز ہیں:خلافتِ عثمانیہ کے پرزے اُڑائے گئے، جو اپنی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود اِسلام اور مسلمانوں کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتی تھی۔ نیز اِسی پالیسی کے تحت اللہ پاک کی محبوب و مقدس اور مبارک سرزمین، یعنی مسجد اقصیٰ و فلسطین کی بعثتِ انبیا کی سرزمین میں، جو خالص اِسلامی اور عربی سرزمین ہے، اِسرائیل کے ناپاک درخت کی زور زبردستی سے اور مکمل ظالمانہ وغاصبانہ طور پر کاشت کی گئی۔ پھر اسرائیل کو طاقتور ترین بنادینے کے لیے کوشش کی گئی کہ وہ عسکری و اقتصادی طور پر خود کفیل ہوجائے اور باقی ماندہ اَرضِ فلسطین کو ہڑپ کرکے فلسطینیوں کو خانما برباد کردے اور جو وہاں رہ جائیں انھیں ہمہ گیر طورپر ”اَدب“ سکھاتا رہے اور دوسری طرف اِسرائیل کے سامنے کے عربی ممالک اور پڑوسی اِسلامی و عربی ریاستوں کو اِس درجہ ناتواں، غیرمسلح، بے دم اور بے دست و پاکردیا جائے کہ اسرائیل جب چاہے ان کے اینٹ کا جواب پتھر سے دے اور ان کی طرف سے فرضی خوف اور عدمِ تحفظ کے اِحساس کا ڈھنڈورا پیٹ کر عالمی رائے عامہ بالخصوص یورپ اور امریکہ کی ”ضرورت“ سے زیادہ ہمدردی اورہم نوائی اور مادی و معنوی تعاون سے بہرہ ور رہے،
آگے چل کر لکھتے ہیں:اور پھر اس کے نتیجے میں ہندوستان سے مراکش تک تمام دنیائے اسلام پر نکبت وادبار کی گھٹائیں چھاگئیں ۔ عرب انگریزوں کے چنگل میں پھنس گئے، بیت المقدس پر صلیبی پرچم لہرانے لگا، دمشق و بغداد غیروں کے قبضے میں چلے گئے ، حجاز کا حکمراں برطانیہ کا وظیفہ خوار بن گیا ۔ بظاہر ثنویت مانوی کے تہذیبی علم برداروں کی یہ انتہائی پر فریب اولین یورش ویلغار تھی ، ترکی کی حکومت کا خاتمہ محض ملک گیری کا شاخسانہ نہ تھا بلکہ توحید وتثلیث کا ایک معرکہ تھا۔۔(بحوالہ:ماہنامہ دار العلوم شمارہ:٥ج:٩٠)
مغرب کی خون آشام تہذیب کا بھیانک چہرہ اور چشم دید گواہیاں
دنیا کی تاریخ میں سب سے زبردست خوں ریزی اس صدی میں مغرب کے ہاتھوں ہوئی، دنیا کی تاریخ میں لڑی جانے والی جنگوں کے مقتولین کی کل تعداد سے کئی ہزار گنا زیادہ افراد پچھلی صدی میں مغرب کے ہاتھوں مارے گئے گئے ان کی کل تعداد 10 کروڑ سے بھی زیادہ ہے(تفصیل کے لیے دیکھیے: مغربی دنیا کی انتہاپسندی اور عالمی دہشت گردی)
سائنس کی ترقی اور صنعت و حرفت کے عروج کے کے گزشتہ تین سوسال اپنے دامن میں عالم انسانیت کے لیے لیے بے پناہ مصائب مشکلات اور تکالیف لےکر آئیں، مغرب نے آزادی خوش حالی مسرت اور خوشیوں کے نام پر دس کروڑ انسانوں کو ذبح کر ڈالا اس دوران ظلم و بربریت کا سیلِ رواں اور لہو رنگ تاریخ کے بے شمار صفحات وجود میں آئے ہیں جس کی سطر سطر سے آنسو اور لہو کے قطرے ٹپک رہے ہیں مغرب نے جس تک پہنچنے کے لئے لیے واحد ذریعہ یا عقل کو قرار دیا تھا عقل کے ذریعے تین سو سال تک تاریکیوں میں بھٹکتا رہا اس سفر کے دوران چین روس امریکہ برطانیہ، فرانس جرمنی اسرائیل اور یوگوسلاویہ ویت کے نام پر عراق افغانستان الجزائر فلسطین کشمیر میں تہذیب جدید کے نمائندوں نے مارڈن ازم اور مارکس ازم کے نام پر دنیا کو دس کروڑ انسانوں کے خونی لاشیں دیے، یہ مہذب مغربی دنیا کی انتہا پسندی دہشت گردی اور فرقہ واریت کی ایک جھلک ہے ورنہ ان کی پوری تاریخ انتہا پسندی اور دہشت گردی ظلم و سرکشی سے عبارت ہے
(1)ہیروشیما اور ناگاساکی
مغرب کی سفاکیت اور درندگی کی سب سے بدترین تصویر ھیروشیما اور ناگاساکی ہے جہاں صرف اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے، اپنی بے عزتی کو برداشت نہ کرنے کی بنا پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ویکیپیڈیا کی تحقیق کے مطابق تاریخ کے اس بدترین دن میں دو لاکھ چھیالیس ہزار انسانوں کو ہلاک کیا گیا
(2)افغانستان
اہل مغرب کے مظالم کی دوسری تصویر افغانستان ہے جہاں صرف چند لوگوں کو پکڑنے کی خاطر پوری قوم کو یتیم بنانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے تقریباً ساٹھ لاکھ افغان شہید کر دیے گئے
(3)عراق
مغرب کی عسکری حیوانیت اور خون آشام تاریخ میں ایک معرکہ عراق کا ہے جہاں بے بنیاد پروپیگنڈہ کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا پیٹرول اور ڈیزل کی دولت پر ناجائز قبضہ کرنے لیے مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر چڑھائی کی گئی تقریباً اس میں سات لاکھ انسان مارے گئے
(4)فلسطین
دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ایک اور مثال فلسطین، مقام قدس اور بعثت انبیاء کی سرزمین ہے مغرب نے قاہرانہ تسلط کے ساتھ اپنے پنجے وہاں گاڑھے اور امریکہ کا متبنی اسرائیل کو وہاں پر ترقی دی بلکہ غاصبانہ حقوق عطا کیے، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی فلسطین کا مسئلہ کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے لگتا ہے مغرب پرست امریکہ اپنی فوجیں اور ذرائع استعمال کر کے اس کو آگے بڑھنے نہیں دیتا،جس کی وجہ سے آئے دن غیر مسلح فلسطینی مسلمان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں نہ جانے اب تک کتنے لوگوں کو ظلم و بربریت کا شکار بنادیا گیا، اور آج تک مسئلہ فلسطین ایک بین الاقوامی سطح پر پر ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے، جہاں قتل و غارت گری اور ظلم و سفاکی کا ایک نہ رکنے ولا سلسلہ چل رہا ہے اور تقریباً اب تک ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے
مختصر طور پر چند مظالم کو سپردِ قرطاس کیا گیا اگر بنظر غور دیکھاجائے تو مصر، شام، غزہ، برما، اندلس،سقوط غرناطہ،سقوط خلافت عثمانیہ اور سقوطِ سلطنتِ مغلیہ،یہ سب اہلِ مغرب کی جنگی و عسکری یلغاریں ہیں جن کی زد میں نہ جانے کتنے معصوم لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، آج بھی مغرب اپنی چالبازی سے اسلام کو ختم کرنے کی سازشیں کررہا ہے جنگ کے انداز اور زاویے بدل گئے، مگر اسلام دشمنی کا جو تخم انکی مٹی میں بویا گیا ہے اسکا اثر آج بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے بلکہ
آج معاملہ الٹا ہوگیا ہے یہ کالے لباس میں ملبوس وہ ظالم و جابر سفاک اور اذیت پسند جن سے چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی پناہ مانگے اسلام اور مسلمانوں کو انسانیت کا درس دینے چلے ہیں، وہ جن کے ہاتھوں میں لاکھوں شہیدوں کی سرخی ہے آج اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں،
عامر عثمانی نے شاید اسی پس منظر میں کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے
کیوں ہوئے قتل! ہم پر یہ الزام ہے!
قتل جس نے کیا، ہے وہی مدعی
قاضئ وقت نے فیصلہ دے دیا لاش کو نذر زنداں کیا جائے گا
اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے
یہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی
یہ جو خنجر میں ہلکا سا خم آ گیا
اس کا تاوان کس سے لیا جائے گا
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
آج دنیا میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے اور بہت سے مسلم اکثریتی ممالک ہیں مگر کوئی ایک ملک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو مغربی ممالک امریکہ اور یوروپ کے سامنے سر اٹھاسکے۔ شام کی طاقت ابھر رہی تھی تو اسے بشار الاسد جیسے رزیل ترین شخص سے کچل دیا گیا اور لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، مصر میں اخوان کا ظہور ہوا تو سنبھلنے سے پہلے ہی اس کے خلاف سازشیں کرکے حکومت کی باگ ڈور اپنے شیطانی کارندے سیسی کے سپرد کردی گئی اور اسلام پسند محمد مرسی کے خلاف بغاوت پیدا کردی گئی اور آخر کار اخوان المسلمین کی اس تحریک کے مشن کو کمزور کردیا گیا۔آج بھی ترکی کی موجودہ حکومت کے خلاف سازشیں کی جارہی ہے، ترکی کے اسلام پسند مغرب کی آنکھ میں کھٹک رہے ہیں اور انھیں برباد کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ عالم اسلام کے پسندیدہ حکمران رجب طیب أردوغان مغرب کو ایک آنکھ نہیں بھارہے ہیں، اس لیے مغرب نے کئی بار فوج کو جمہوری حکومت کے مد مقابل لانے کی کوشش کی ہے۔
افسوس کہ ان سب باتوں کے باوجود عرب ممالک دوست اور دشمن کے درمیان فرق نہیں کرتے اور مسلمانوں کی طرف بڑھتے ہوئے اس خوفناک جارحیت کو روکنے کے لئے مسلمانوں کے تشخصات و مقدسات کی حفاظت کے لیے ان پر ہونے والے مظالم کو ختم کرنے کے لئے ان کے اندر کوئی حرکت نہیں پائی جاتی بلکہ افسوس صد افسوس کہ آج عرب بالخصوص سعودیہ اور متحدہ عرب امارات اسلامی مملکت کے نام پر ایک بد نما داغ بنے ہوئے ہیں، بے حیائی عریانیت، عیش پرستی کا اڈہ بنادیا گیا ہے، حتی کہ شراب نوشی، قمار بازی، ہم جنس پرستی کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے، اسلامی قوانین یکے بعد دیگرے ختم کئے جارہے ہیں، مدینہ منورہ میں تفریح گاہیں، سینما ہال، فن پارک بنائیں نہ جانے کیا کیا خرافات فروغ دے رہے ہیں،یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ ابھی تک مقاماتِ مقدسہ کی کھلے عام توہین نہیں ہوئی تھی آج ان ایمان فروشوں نے اس کسر کو بھی پورا کردیا یہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات تو اسرائیل کا زرخرید غلام بن گیا ہے، انسان خوروں، ظالموں اور صیہونی کارندوں سے امن معاہدے اور مذاکرات چل رہے ہیں آہ
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
حالات مزید تباہ کن ہوتے جارہے ہیں، ہر آنے والا سورج اپنے ساتھ ایک نئی آفت لارہا ہے اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو پر امید کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کا تقاضہ ہے کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی ہم ناامید نہ ہوں بقول علامہ اقبال
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ اپنے احیاء اور تشخص کی برقراری کے لیے عالمی سطح پر نئے عزم اور ولولے سے مضبوط بنیادوں پر کام کا آغاز کرے مسلم امہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلام کے عظیم مرکز کی طرف لوٹے، اللہ اور اس کے رسول کی کامل پیروی کو لابدی سمجھے، ساتھ ہی ساتھ اپنے اندر دین کے لئے مرمٹنے کا جذبہ پیدا کرے،بالخصوص دین پر استقامت اور اسلام کی سربلندی کے لئے لیے ایثار و قربانی کی راہ اپنائے، اور عالمی سطح پر مغربی تہذیب کے مقابلہ کے لئے اسلامی تہذیب کو ہر ممکن فروغ دے، اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی اخوت و اجتماعیت کا وہ مثالی جذبہ پیدا کرے جو ہمارے دین کا امتیاز اور مسلم امہ کا دینی و ملی شعار ہے یقین رکھیے!! عالمی سطح پر مسلم امہ کی تباہی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ اتحاد و یکجہتی کا فقدان،اسلام کی دینی و تہذیبی اقدار سے دوری،اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور تعلیمات نبوی سے انحراف خود فراموشی اور خدا فراموشی ہے
اللہ پاک مسلمانوں کو عظمت رفتہ شوکت رفتہ کو بحال فرمائے، اس تاریک ترین دور میں ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا