"ظالم بیٹا ماں کو سنبھالنے تیار نہیں”
ہمارے سماج میں ماں باپ کی عزت اور ان کی دیکھ بھال میں کمی کا رویہ کیوں پروان چڑھ رہا ہے
از قلم عبدالواحد شیخَ، ممبئی
8108188098
اردو کے مشہور شاعر منور رانا نے بہت پہلے ماں کی عظمت پر ایک بہترین شعر کہا تھا:
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف ایک کاغذ پر لکھا لفظ ماں رہنے دیا
آج ہم ایک بدنصیب ماں اور بے شرم بیٹے کی ہائی کورٹ کے حوالے سے کہانی پیش کریں گے۔ سن ورسیز سرجیت کور کیس میں پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ کے جسٹس جسگور پیٹ سنگھ پوری ( Jasgurpeet singh puri ) نے یہ آرڈر 27 فروری 2025 کو سنایا۔ سورجیت کور ایک 77 سالہ بوڑھی بیوہ عورت ہیں۔۔ 1992 میں اس کے شوہر بھاگ سنگھ انتقال کر گئے۔ اس کے شوہر کی ساری جائیداد اس کے بچے لے چکے ہیں ان کی 50 بیگھہ زمین تھی۔ اس خاتون کے پاس کمائی کا اب کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ اپنی شادی شدہ بیٹی کے گھر رہنے پر مجبور ہیں۔۔ وہ اپنی بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے خرچ مانگتی ہیں مگر اس کا بیٹا خرچ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ گڑگڑاکر بیٹے کے سامنے بھیک مانگتی ہیں مگر ظالم بیٹا اس کی بات سننے تیار نہیں۔ لہذا بحالت مجبوری وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔ اس نے پرنسپل جج فیملی کورٹ سنگرور Sangrur سے ایک حکم نامہ حاصل کیا کہ اس کا بیٹا ہر ماہ اس کو خرچ کے لیے پانچ ہزار روپیہ ادا کرے ۔بیٹا اس حکم کے خلاف ہے۔ چنانچہ اس نے اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی ۔ اس کا کہنا ہے کہ 1993 میں یعنی 32 سال پہلے جب جائیداد کا بٹوارہ ہوا تھا تب اس نے اپنی ماں کو زندگی بھر کے خرچ کے لیے ایک لاکھ روپے دیے تھے۔ اس لیے ہر ماہ پانچ ہزار روپے دینا کا عدالت کا فیصلہ غلط ہے۔ چنانچہ یہ مینٹیننس کا آرڈر ختم کیا جائے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ 32 سال پہلے اگر کسی نے ایک لاکھ روپے جائیداد کے بٹوارے سے دیے ہیں تو کیا وہ اس کے ماضی ، حال اور مستقبل کے تمام زندگی بھر کےلیے کام آئیں گے۔ جب کہ معاملہ اپنی ماں کا ہو۔ ایک لاکھ روپیہ کتنے دن چلتا ہے ۔ ہائی کورٹ نے جب یہ عرضی دیکھی تو اس کو بہت تکلیف ہوئی کورٹ نے اسے” کل یوگ کی عمدہ مثال” کا نام دیا ہے۔ بیٹا اور بہو ماں کی دیکھ بھال نہیں کرتے ۔ اسی لیےجائیداد کا بٹوارہ ہونے کے بعد سے ہی بوڑھی گھر چھوڑ کر مجبوراََ اپنی بیٹی کے پاس رہنے چلی گئی۔ اور بیٹے نے ایک لاکھ روپے دے دیے تھے اس لیے ہر ماہ خرچ دینا انصاف کے خلاف ہے یہ بیٹے کی دلیل ہے ۔ عدالت نے عرض گزار کی دلیل سن کر کہا کہ یہ بدقسمت کیس ہے جہاں ایک بیٹا اپنی ماں کو دینے والے خرچ کے خلاف عرضی کر رہا ہے۔ بیٹا ، ماں باپ کی جائیداد میں سے آدھی جائیداد لے چکا ہے۔ عدالت نے بیٹے کی عرضی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہر ماہ اسے ماں کو خرچ دینا ہوگا اور 50 ہزار روپے جرمانہ ماں کو عطا کرنے کا تین ما ہ کے اندر حکم دیا ہے۔
ماں باپ اپنے بچے کو بچپن سے بڑی محبت سے پرورش کرتے ہیں۔ خود دکھ اٹھا کر اپنے بچوں کو زندگی کے ہر سکھ پہنچانے کی دن رات تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن یہی اولاد بڑی ہو کر ماں باپ کے ان عظیم احسانات کو فراموش کر بیٹھتی ہے ۔ اور جینے کے لیے ماں باپ کو خرچ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اسلام نے ماں باپ کی بڑی اہمیت جتائی ہے۔ اور قران مجید میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ ماں باپ کو بہترین غذا دی جائے۔ ان کی بھرپور دیکھ بھال کی جائے ۔ ان کے سامنے عزت و تکریم سے پیش آیا جائے اور انہیں اف تک نہ کہنا چاہیے۔
اسلام میں ماں باپ کے حقوق واضح کر دیے گئے ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 23 میں اللہ تعالی کہتا ہے "اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔ "
سورہ لقمان آیت نمبر 41 میں اللہ تعالی کا فرمان ہے” میرا شکریہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو۔ میری طرف تم کو لوٹ کر آنا ہے۔ ‘
سورہ عنکبوت آیت نمبر 8میں ارشار ربانی ہے،
"ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بتا دیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے ساتھ شریک ٹھہرا ے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو ان کا کہنا مت ماننا۔ ” یعنی ہر حال میں اسلام نے یہ سکھایا ہے کہ ماں باپ کی تعظیم کی جائے ان کی دیکھ بھال کی جائے۔ اگر ماں باپ مسلمان نہیں ہیں، یا نہیں رہے، غیر مسلم ہو جاتے ہیں تب بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ان کی صرف مشرکانہ باتوں کو ماننے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ باقی ہر بات ان کی ماننی ہے۔ اسی طرح سورہ انعام آیت نمبر 152 میں رب العالمین نے فرمایا ،
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا کچھ حرام کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور یہ کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ” یعنی والدین کے ساتھ بدسلوکی اسلام میں حرام ہے۔ ایک حدیث ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ( بحوالہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی، مسلم شریف) ” اس شخص کی ناک خاک میں ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ بات کہی۔ جب ان سے پوچھا گیا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ کس کی ناک خاک آلود ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس کی جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو بحالت بڑھاپا پایا اور جنت میں داخل نہ ہو سکا یعنی ان کی خدمت کر کے یا انہیں راضی رکھ کر جنت کا حقدار نہ بن سکا ۔ سرجیت کور کے بیٹے سے ہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ماں ایک انمول تحفہ ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچےجنت ہے۔ ماں کی خدمت کرنا، اس کی دیکھ بھال کرنا، اس پر خرچ کرنا بڑا ثواب کا کام ہے۔ تو وہ نہ صرف ماں کو ہر ماہ خرچ دے بلکہ دل سے ان کی خدمت کرے۔ اگر آپ سرجیت کور کے اس ججمنٹ پر بنائی گئی ہماری ویڈیو دیکھنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے ہوئے لنک میں دیکھ سکتے ہیں ۔ شکریہ
https://youtu.be/bZMVpnEj_LI?si=TIqxx7SI69R4SBNl