بھارت میں ذات پر مبنی مردم شماری:
مودی نے سادھےایک تیر سے کئی نشانے
ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
بھارتی سیاست کے افق پر ایک غیر متوقع تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومتِ ہند نے ذات پر مبنی مردم شماری کے انعقاد کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ محض ایک انتظامی حکم نامہ نہیں، بلکہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک گہری نظریاتی کروٹ اور سیاسی حکمتِ عملی کا عکاس ہے۔ بی جے پی، جو طویل عرصے سے اس حساس معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتی آئی تھی اور ذات پات کی گنتی کو ‘سماجی ہم آہنگی’ اور ‘ہندو اتحاد’ کے لیے نقصان دہ قرار دیتی تھی، اب اچانک اس کی حمایت کرتی نظر آرہی ہے۔ اس اعلان کی غیر متوقع نوعیت، جو بظاہر کسی وسیع مشاورت کے بغیر سامنے آئی ہے، کئی سیاسی محاذوں پر بیک وقت دباؤ کم کرنے اور اپنے ممکنہ اہداف حاصل کرنے کی ایک پیچیدہ کوشش معلوم ہوتی ہے۔ بعض مبصرین اسے حالات کے جبر کا نتیجہ اور پسپائی قرار دے رہے ہیں، تو کچھ اسے نریندر مودی کا مخصوص ‘ماسٹر اسٹروک’ سمجھتے ہیں، حالانکہ اس کے دور رس نتائج اور کامیابی پر ابہام کے سائے گہرے ہیں۔
اس فیصلے کا ایک کلیدی پہلو اپوزیشن، بالخصوص راہول گاندھی، تیجسوی یادیو اور اکھلیش یادیو، کے سماجی انصاف پر مبنی ایجنڈے کا توڑ کرنا ہے۔ یہ رہنما مسلسل ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، اسے پسماندہ طبقات کی حقیقی نمائندگی، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے اسے اپنی سیاست کا محور بنا چکے ہیں۔ راہول گاندھی نے اسے ‘بھارتی معاشرے کا ایکس رے’ قرار دے کر بی جے پی کو اس پر مجبور کرنے یا اقتدار میں آکر خود نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ان کی مسلسل مہم، جسے بی جے پی اور میڈیا کے ایک حصے نے اکثر تنقید کا نشانہ بنایا، اب نتیجہ خیز ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اور اس اعلان کو اپوزیشن کی ‘بڑی فتح’ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس اقدام کو اپنا کر، بی جے پی بظاہر اپوزیشن کے سیاسی بیانیے کی ہوا نکالنے اور ایک ایسے مطالبے کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی وہ ماضی میں مخالفت کرتی تھی۔ یہ اپوزیشن کے ہاتھ سے ایک مؤثر سیاسی ہتھیار چھیننے کی چال ہے۔
اس اعلان کے وقت کا انتخاب بھی معنی خیز ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کا مقصد فوری نوعیت کے دیگر دباؤ، خاص طور پر پہلگام حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات، سے توجہ ہٹانا ہے۔ ایسے کشیدہ ماحول میں پاکستان کے خلاف کوئی بڑی فوجی کارروائی خطرات سے پُر ہو سکتی تھی۔ لہٰذا، ذات پات کی مردم شماری جیسے داخلی اور سیاسی طور پر گرما گرم موضوع کو سامنے لانا، حکومت کو قومی بیانیے کا رخ موڑنے اور خبروں کی سرخیوں پر حاوی ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، تاکہ ایک مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے وقت اور سپیس مل سکے۔ اگرچہ اس تعلق پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، تاہم وقت کا انتخاب بیانیے کو کنٹرول کرنے کی دانستہ کوشش ضرور لگتا ہے۔
یہ فیصلہ بنیادی طور پر انتخابی حکمت عملی اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) اور دلت ووٹوں کو اپنی گرفت میں مضبوط کرنے کی ضرورت سے جڑا ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کے اندر یہ احساس گہرا کیا کہ ان طبقات کے ووٹ کسی صورت ‘پکے’ نہیں ہیں۔ ان کمیونٹیز سے ماضی میں اچھی خاصی حمایت ملنے کے باوجود، پارٹی کو خدشہ ہے کہ اپوزیشن کی سماجی انصاف اور نمائندگی پر مبنی سیاست اس ووٹ بینک میں دراڑ ڈال سکتی ہے۔ خاص طور پر بہار اور اتر پردیش جیسی ریاستیں، جہاں آئندہ انتخابات ہونے ہیں اور جہاں ذات پات کی سیاست فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، اس حکمت عملی کے مرکز میں ہیں۔ ان ریاستوں میں آر جے ڈی اور ایس پی جیسی جماعتیں مضبوط ذات پر مبنی پلیٹ فارم رکھتی ہیں۔ ذات پات کی مردم شماری کا اعلان کر کے، بی جے پی خود کو پسماندہ طبقات اور سماجی انصاف کے چیمپئن کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے، تاکہ اس تاثر کو کمزور کیا جا سکے کہ وہ بنیادی طور پر اعلیٰ ذاتوں (برہمن-بنیا) کی نمائندہ ہے۔ یہ پسماندہ برادریوں کا اعتماد جیتنے اور اہم ریاستوں میں اپوزیشن کے بیانیے کو ناکام بنانے کی کوشش ہے۔
اس اقدام کا ایک اور پہلو پارٹی کے اندرونی معاملات اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ آر ایس ایس کی قیادت کے مشورے یا ہدایت پر کیا گیا، جس نے سماجی انصاف کے محاذ پر اپوزیشن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور بی جے پی کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور نریندر مودی کی حالیہ ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ قدم مودی کو آر ایس ایس کے روایتی نظریات، جو نمائندگی کے بجائے ‘سماجی ہم آہنگی’ پر زور دیتے ہیں، سے ایک حد تک فاصلہ اختیار کرنے اور اپنی قیادت کو مزید مستحکم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے سخت گیر ہندوتوا اور اعلیٰ ذات کی سیاست سے وابستہ رہنماؤں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت کر کے، مودی پارٹی کی نظریاتی سمت اور حکمت عملی پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔
تاہم، اس بظاہر ہوشیار اقدام کے ساتھ سنگین خطرات اور پیچیدگیاں وابستہ ہیں۔ ذات پات کی بنیاد پر ایک جامع مردم شماری کا انعقاد درحقیقت نمائندگی اور ریزرویشن کے بڑھتے ہوئے مطالبات کا ‘پنڈورا باکس’ کھول سکتا ہے۔ ‘جس کی جتنی حصہ داری، اس کی اتنی بھاگی داری’ (آبادی کے تناسب سے نمائندگی) کا نعرہ مزید بلند ہوگا۔ فی الحال استعمال ہونے والے 1931 کے اعداد و شمار او بی سی آبادی کو 52 فیصد بتاتے ہیں، لیکن غیر سرکاری اندازے اسے 70 فیصد تک بتاتے ہیں۔ اگر نئے اعداد و شمار او بی سی اور دلت آبادی کا تناسب نمایاں طور پر زیادہ دکھاتے ہیں، تو ناگزیر طور پر ریزرویشن میں متناسب اضافے کے مطالبات شدت اختیار کریں گے، جو ممکنہ طور پر سپریم کورٹ کی مقرر کردہ 50 فیصد کی حد سے تجاوز کر سکتے ہیں۔ نجی شعبے میں بھی ریزرویشن کے مطالبات زور پکڑ سکتے ہیں۔ یہ ایسے حساس معاملات ہیں جنہیں آر ایس ایس جیسی تنظیم شاید قبول نہ کرے۔ دوسری جانب، ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے بی جے پی کا روایتی اعلیٰ ذات کا ووٹ بینک ناراض ہو سکتا ہے، حالانکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس طبقے کے پاس فی الحال کوئی مضبوط متبادل نہیں، اس لیے بی جے پی یہ خطرہ مول لے سکتی ہے۔
اصل سیاسی جنگ شاید مردم شماری کے انعقاد پر نہیں، بلکہ اس کے نتائج سامنے آنے کے بعد ریزرویشن کو از سر نو ترتیب دینے اور پالیسیوں میں تبدیلیوں کے نفاذ پر ہوگی۔ اپوزیشن رہنما، جیسا کہ راہول گاندھی، پہلے ہی مردم شماری کے لیے ایک واضح ٹائم لائن، اس کے ڈیزائن، نجی شعبے میں ریزرویشن اور 50 فیصد کی حد کو ختم کرنے جیسے مطالبات سامنے لا رہے ہیں۔ بی جے پی کے لیے ان مطالبات کو من و عن تسلیم کرنا یا نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ بی جے پی کا ایک کثیر المقاصد اسٹریٹجک جوا ہے۔ یہ بیک وقت اپوزیشن کے سماجی انصاف کے بیانیے کو کمزور کرنے، مشکل داخلی و خارجی حالات سے توجہ ہٹانے، پسماندہ طبقات میں اپنی انتخابی بنیاد مضبوط کرنے، اور پارٹی و تنظیم کے اندرونی معاملات کو سنبھالنے کی کوشش ہے۔ یہ اقدام حالات کے دباؤ میں کمزوری کا مظہر ہے یا نریندر مودی کی سیاسی ذہانت کا ایک اور ثبوت، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس اعلان نے بھارتی سیاست کی سمت بدل دی ہے اور سماجی انصاف کے سوال کو قومی بحث کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی آنے والے دنوں میں مردم شماری کے اعداد و شمار، اس سے پیدا ہونے والے مطالبات اور اپنے متنوع حامیوں کے رد عمل کو کس طرح سنبھالتی ہے۔ کیا یہ جوا کامیاب ہوگا یا واقعی غیر متوقع نتائج کا ‘پنڈورا باکس’ کھل جائے گا، یہ بھارتی سیاست کے مستقبل کا تعین کرے گا۔