Skip to content
وہ چراغ بجھا !جس سے روشن تھازمانہ
ازقلم: محمدطفیل ندوی
(جنرل سکریٹری ! امام الہندفاؤنڈیشن ممبئی )
اللہ رب العزت کی ذات ہمیشہ رہنےوالی ہے ،باقی ہرچیزکو فناہوناہے، یہ دنیاعارضی ہے،یہاں کامسکن ایک وقت متعینہ تک ہے،متعینہ وقت کب تک ہے یہ کسی کونہیں معلوم لیکن یہاں سے رخصت ہونایقینی ہے ،کوئی اس سےمحفوظ نہیں رہا،یہ لفظ موت جوایک اٹل ہے، ایک لمحہ میں سکتہ طاری کردیتاہے ،یہ دنیاوی زندگی کی ایک حتمی منزل ہے،موت کی حقیقت کچھ بھی ہولیکن یہ زندوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے، اور اسی وجہ سے موت پر غم ایک فطری امر ہے، اللہ کے رسول ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم ؓ کا انتقال ہو گیا ،تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓنے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ بھی رورہے ہیں ؟تو آپﷺ نے فرمایاکہ یہ تو رحمت ہے، کسی کی موت پر آنسو جاری ہونا اورغم کا ہونا یہ فطری چیز ہے،خادم القرآن والسنہ حضرت مولانامحمدغلام صاحب وستانوی بانی جامعہ اشاعت العلوم اکل کواورکن شوری دارالعلوم دیوبند جو ہزاروں قلوب کو مغموم اور بیشمار آنکھوں کو اشکبار کرکے ہمارے درمیان سے۴؍مئی ۲۰۲۵ءبروزاتوار رخصت فرماگئے، اناللہ واناالیہ راجعون،جن کے جانے سے آج علمی فضا مغموم ہیں ، آپ تنےتنہانہیں گئے بلکہ آپ ایک انجمن تھے ،آپ گئے ایک پوری انجمن رخصت ہوگئی،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آپ کئی عرصہ سے مسلسل علیل تھے،چندروزسےصاحب فراش تھے ،لیکن یہ خیال نہیں تھا کہ علم وعمل کا یہ مجسمہ، مدارس دینیہ کا علمبردار اور اس کا محافظ ہمیں اس طرح اچانک داغ مفارقت دے کر چلا جائیگا،ہر وقت یہی دعا رہتی تھی کہ آپ کی عمرعزیز مزید طویل ہو، اور امت آپ سے فیضیاب ہوتی رہے،کیوں کہ آپ وہ چراغ تھے جس سے زمانہ روشنی حاصل کررہاتھا لیکن تقدیرالٰہی کے سامنےہرایک عاجز وبےبس ہیں ،جب کہ امت مسلمہ کی کشتی بھنور میں ہے، اور ہر چہارجانب سے طوفانوں میں گھری ہوئی ہے،آپ ؒنے دنیا ومافیہا سے بے پرواہ ہوکر پوری یکسوئی ، محنت اور جفاکشی کیساتھ اپنی عمر عزیز کے ایک ایک لمحے کو دین متین کی خدمت کیلئے وقف کرکے ہم جیسوں کیلئے عظیم اسوہ چھوڑا ہے، اسی محنت کاثمرہ تھا کہ آپ اپنے ابتدائی دور ہی سے ترقی کے زینے پر چڑھتے ہی چلے گئے ،یہاں تک کہ آپ نے علمی دنیا میں بالخصوص خدمت قرآن ، مدارس دینیہ، اور تعمیرات مساجد میں اپنی ایک شناخت قائم کی ،آپ نے خدمت کا صرف حق ہی ادا نہیں کیابلکہ اس کی عظمتوں اور رفعتوں کو چار چاند لگایا،آپ کی گفتگوبہت سادہ ہوتی مگرپرسوزآواز اوردل درد سے علم وحکمت کی باتیں نکلتی تھی، سننے والاباآسانی سمجھ جاتاحضرت کی جہاں بھی تشریف آوری ہوئی، انہیں اپنی دعاؤں سے نوازتے تھے، آپ ایک مشن کو لے کر چلتے اور دیار غیر میں اسلاف کے طرز پر مدارس کے قیام کے سلسلے میں فکر مند رہتے، اور خادم دین کی ہمت افزائی کرتے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے، اس باب میں آپ بڑے فراخ دل اور مخلص تھے،آپ کی رحلت موت العالِم موت العالَم کاصحیح مصداق ہے، ایسی جامع الکمالات ہستیاں بڑی تیزی کیساتھ دنیا سے رخصت ہوتی چلی جارہی ہیں،ایسالگتاہے کہ پروئی ہوئی تسبیح کادھاگہ ٹوٹ چکاہے، جانے کاایک سلسلہ ہے جو لمحہ بہ لمحہ دل کو افسردگی میں ڈالدیتاہے، اور صد افسوس کہ ایسے باعظمت لوگوں کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہے،آپ کی جو شخصیت تھی یقیناوہ قابل رشک تھی ، ایک چھوٹے سے مکتب جامعہ اشاعت العلوم سے جو کاوشیں ،محنتیں اورجدوجہد ملت اسلامیہ کیلئے پیش کرتے ہوئے آگے بڑھے توبڑھتےہی چلے گئے، پھر وہ مکتب نہیں ایک مثالی ادارہ بنا جس میں ہزاروں طالبان علوم نبوت نے اپنی علمی تشنگی سے سیرابی حاصل کی ،مزید علوم دینیہ کیساتھ جو علوم عصریہ کے حسین امتزاج کو پیش کیا یہ اور دوسرے اداروں کیلئے ایک نمونہ بنا اس حسین امتزاج میں آپ کی شخصیت لائق تحسین ہے جس کامکمل سراآپ کے سرہیں ،بلا مبالغہ اللہ رب العزت نے حضرت کے اندر بہت سی خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں،آپ ہم سے رخصت ہو گئے، حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر پوری ملت اسلامیہ مستحق تعزیت ہیں اسلئے کہ یہ ہم سب کیلئے مشترک حادثہ ہے،یہ بات وثوق سےکہی جاسکتی ہےکہ وہ فنا فی القرآن تھے، اور آپ کی شخصیت سےاس کی خوشبو مہکتی تھی، یہ آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا، اپنی مسلسل محنت اور علمی اشتغال کے اعتبار سے اسلاف کی یادگار تھے، آپ کی یادیں تا زندگی ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی،آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی،وضع داری کا پیکرتھے، تواضع و انکساری کیساتھ اپنے تمام ملنے جلنے والوں میں ممتاز تھے،آپ کا مسکراتا ہوا روشن چہرہ ہمارے دلوں کو امید اور یقین کی روشنی سے بھر دیتا تھاحالات خواہ کیسےبھی ہوتے؟ ہمیشہ پر امید رہتے،حضرت کی زندگی کا ایک نمایاں وصف ان کا غیر معمولی صبر تھا، بیماری میں بھی کبھی حرف شکایت نہیں آنے دیاکئی عرصہ سے بیمارتھے ، ان کی نگاہ ہر وقت منزل پہ رہتی ،اثناء سفر کی دقتوں اور پریشانیوں کو بھی کبھی خاطر میں نہیں لاتے، اشاعت اسلام کیلئے آپ نے کسی رکاوٹ کو رکاوٹ نہیں سمجھا،آخری وقت تک اشاعت دین کیلئے فکر مند رہیں،لیکن یہ تمام کیفیات اس بات کی گواہ تھی کہ انہوں نے رب العالمین سے ستائش اورصلے کی تمنا کے بدلے اپنی میٹھی نیند،اپنا آرام اور سکون سب کچھ قربان کر ڈالا،دل کی گہرائی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت کی مغفرت فرمائیں ، آپ کے مرقد کو انوار الٰہی کا مورد بنائیں ، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں ، آپ کی دینی وعلمی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائیں ، تا قیام قیامت روحانی وصلبی اولاد جن کی تعداد ہزاروں میں ہے آپ کے علمی اور روحانی فیض کو جاری رکھیں،اورا آپ کے نورنظر حضرت مولانامفتی محمدحذیفہ وستانوی مہتمم جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا،حضرت مولانامحمداویس وستانوی جن کے سروں سے ایک حقیقی مشفق باپ کاسایہ سرسے اٹھاان کے حوصلوں کو مضبوط فرماکر آپ کی خدمات کو آگے بڑھائیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت چلےگئے ،ان کی سعید روح اپنے مالک حقیقی سے جا ملی، جب ان کی یاد آئے گی، ہماری آنکھیں بھیگیں گی،ہمارادل اضطرابی کیفیت میں انگڑائیاں لےگا،آئیے ہم بھی عزم کریں کہ اشاعت اسلام کی خاطر اپنی زندگی، اپنا وقت، اپنا مال وقف کر دیں، جس کی خاطر انہوں نے اپنی تمام زندگی لگا دی،کیارشک والی نمازجنازہ اداکی گئی ،طالبان علوم نبوت کاایک حسین گلدستہ ، علمائے اکابرین کاایک مقدس قافلہ، قاری قرآن کاایک حسین مجمع تاحد نگاہ اپنے ڈگمگاتے ہوئے قدم ،دل کی آہوں اور سسکیوں کیساتھ ان کے آخری آرام گاہ کی طرف بڑھارہےتھے ،اوربزبان حال یہ کہہ رہےتھے جانیوالا آتانہیں، جانیوالےکی یادآتی ہے۔
ان کے جانے کا منظر تماشہ نہیں
دور تک دیکھیے دیر تک سوچئے
Like this:
Like Loading...