Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Ceasefire between the US and the Houthis

امریکہ اور حوثیوں کے درمیان جنگ بندی

Posted on 12-05-2025 by Maqsood

امریکہ اور حوثیوں کے درمیان جنگ بندی

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

امریکہ کا حوثیوں سے امن معاہدہ ہند و پاک جنگ بندی سے کہیں زیادہ تعجب خیز ہے کیونکہ یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل پر حوثیوں کا میزائل حملہ جاری و ساری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ جنگ بندی معاہدے نے وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یسرائیل کاتز کو سخت مایوسی کے عالم میں کہاکہ اسرائیل ہر خطرے میں تنہا اپنا دفاع کرے گا۔ اسے کھٹے ّ انگور کہتے ہیں۔ واشنگٹن کےسیاسی مبصرین نے اس معاہدے کو تل ابیب سے لاتعلقی کا مظہر قرار دیا ۔عبرانی میڈیا کے مطابق تل ابیب کو اس فیصلے سے پہلے اعتماد میں نہ لینا امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو نظرانداز کرنے بلکہ تنہا چھوڑنے کے مترادف ہے۔ امریکہ نے پہلے تو اسرائیل کی خاطر انصاراللہ پر خوب بمباری کی، لیکن پھر اسے دال آٹے کا بھاو پتہ چل گیا ۔ حوثیوں کے مؤثر اور زبردست مدافعت نے امریکی قیادت کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔جنگ بندی معاہدے میں ثالث سلطنتِ عمان کی وزارت خارجہ نے اس کا مقصد بین الاقوامی تجارت اور بحری نقل و حرکت کو محفوظ بنانا بتایا ۔ امریکہ اور یمن نے دو طرفہ جنگ بندی کے تحت آئندہ کوئی بھی فریق دوسرے کو نشانہ نہیں بنائے گا۔

مشرق وسطیٰ کی یہ اہم پیش رفت نہ صرف یمن کے بحران کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اسرائیل کی جارحانہ حکمت عملی پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی ۔اس لیے معاہدے سے پریشان ہوکر اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے جب اعتراض کیا کہ امریکہ نے یمن میں حوثیوں سے ہونے والے معاہدے کے بارے میں اسرائیل کو کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی تو اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اسرائیل میں مقیم امریکی سفیر مائیک ہاکابی بولے "امریکہ … اسرائیل سے اجازت لینے کا پابند نہیں ہے”۔ ہاکابی نے بتایا کہ انھیں اس کی معلومات صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے دی ہے۔ اسرائیلی مفادات سے خود کو الگ تھلگ کرتے ہوئے ہاکابی نے وضح کیا کہ ان کا ملک حوثی حملوں کے خلاف صرف اس صورت میں کارروائی کرے گا، جب وہ امریکی شہریوں کو نقصان پہنچائیں۔اسرائیلی ٹی وی "چینل 12” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ہاکابی نے مزید کہا کہ "اسرائیل میں سات لاکھ امریکی شہری رہتے ہیں، ‘‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ صرف اس وقت مداخلت کرے گا جب کوئی امریکی شہری حوثیوں کے حملے کا نشانہ بنے، تو ان کا واضح جواب تھا کہ معاملہ صرف اسی وقت امریکی مفاد میں آتا ہے جب وہ براہِ راست متاثر ہوتا ہو۔ اسرائیل کو ایسے دو ٹوک جوابات کم ہی سننے کو ملے ہوں گے لیکن یہ ٹرمپ کا زمانہ ہے جس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے حوثیوں کے بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے روکنے پر رضامندی کوان کے ہتھیار ڈالنے پر مہمول کیا لیکن حوثی ترجمان محمد عبدالسلام نے المسیرہ نے ٹیلی ویژن انٹرویو میں بتایا کہ ہر امریکی اقدام کا جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، "اگر امریکی دشمن اپنے حملے دوبارہ شروع کر دے تو ہم بھی حملوں کا آغاز کردیں گے۔ ان کے مطابق معاہدے کی اصل ضمانت یمن میں ماریکہ کو ہونے والا تاریک تجربہ ہے ۔ مشاط نے واضح کیا کہ خطے میں امریکہ کے اہم اتحادی اسرائیل پر حملے "جاری رہیں گے” اور "اسرائیلی دشمن کی برداشت سے بڑھ” کر ہوں گے۔ ایسے میں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ آخر ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا انصار اللہ کے ساتھ جنگ بندی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ اب بھی وہ واشنگٹن کے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انصار اللہ گزشتہ ہفتوں میں200 ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کے کم از کم ۷؍ امریکی ایم کیو نائن ریپر ڈرونز کو تباہ کرنے میں کامیاب رہی ۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق حوثیوں کے خلاف موجودہ امریکی آپریشن کی کل لاگت ایک بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

ٹرمپ کی ڈینگ کے بر عکس حوثیوں کی وزارت انصاف نے اقوام متحدہ کے چارٹرکو اپنی خودمختاری کا جواز بنایا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ شہریوں کو نشانہ بنانا اقوام متحدہ کے مطابق جرم شمار کیا جاتاہے اور اور ان کا دفاع کا یمنی حکومت کا جائز حق ہے ۔ حوثیوں کے پاس اپنے حقوق کے دفاع کی خاطر صرف داد فریاد نہیں بلکہ دوہرا فضائی دفاعی نظام موجودہے۔ اس کے پاس اگر ایران کا جدید ترین MQ-9 ریپر کو مار گرانے کی صلاحیت رکھنے والا’’358‘‘میزائل سسٹم شامل نہ ہوتا تو امریکہ کبھی بھی ان کو منہ نہیں لگاتا کیونکہ دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔حوثیوں کے پاس تہران کے فراہم کردہ بہتر معیار کےنئے نظام کے علاوہ ڈرون اور میزائلوں کو موثر بنانے کی خاطر چین کی تجارتی منڈی سے حاصل کردہ متبادل یا متنوع اسلحہ بھی موجود ہے۔ حوثیوں نے اپنے ڈرون کی رینج اور پے لوڈ کو بڑھانے کے لیے چین سے ہائیڈروجن فیول سیل بھی حاصل کر رکھی ہے۔ وہ اپنی ڈرون صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل تجربات کر رہے ہیں ۔ امریکی محکمہ خارجہ بیجنگ اور ماسکو کے حوثیوں کی حمایت کا معترف ہے ۔ غزہ میں حماس کی علانیہ حمایت میں بحیرہ احمر کے اندر جہاز رانی پر حملے اور اسرائیل پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور ڈرون حملے کرکے حوثیوں نے اسلامی دنیا کا دل جیت لیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا طریقۂ کار یہ ہےکہ وہ پہلے ڈراتے ہیں اور بات نہیں بنتی تو خود ڈر جاتے ہیں۔امسال جنوری میں انہوں نے حوثیوں کو از سر نو دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور مارچ میں ایران کو اسلحہ کی فراہمی سے منع کیا ۔ بمباری کرکے سیکڑوں شہریوں کو شہید کیا اور اقوام متحدہ کی مدد بند کرادی لیکن جب یہ حربے ناکام ہوگئے تو اپنی سمت بدل دی یعنی ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کردئیے اور حوثیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا ۔امریکہ یہ بات سمجھ چکا ہے اگر ایران اور یمن سے دو دو ہاتھ کرنا ممکن نہیں ہے تو ہاتھ ملا لینے میں ہی بھلائی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سالوں کے درمیان جب سے اسرائیل اور غزہ کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا ہے یمن کے حوثی سب سے زیادہ کھل کر صہیونیت سے ٹکرا رہے ہیں ۔ اس کے نتیجے انہیں نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکیوں کے فضائی حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑرہاہے۔ اس کے باوجود افریقہ سے کشتیوں کے ذریعے یمن پہنچنے کے خواہشمند تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کے مطابق جنوری اور فروری میں 28,306 نئی آمد ریکارڈ کی گئی، جو پچھلے سال کی اسی مدت (3,481) کے مقابلے میں 713 فیصد زیادہ ہے۔ نئے آنے والوں کی اکثریت ایتھوپیا کی ہے۔

اس کے برعکس اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2024 میں اسرائیل سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد تقریباً 83,000 تھی، جو 2009 اور 2021 کے درمیان کی تعداد سے دو سو فیصد زیادہ تھی۔ اسرائیل کی آبادی میں اضافہ کی شرح 1.6 فیصد سے کم ہو کر 1.1 فیصد تک آگئی ہے۔ ویسے تقریباً 33,000 لوگ دوسرے ممالک سے آئے، 23,000 لوگ وطن بھی لوٹے۔ اس تعداد کو شامل کرلیا جائے تب بھی 27,000 کا خسارہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اسرائیل میں پیدا ہونے والے یا وہاں کافی عرصے سے مقیم تقریباً 630,000 یہودی لوگ اب دیگر ممالک میں منتقل ہوچکے ہیں یعنی انہوں نے اسرائیل کو خیر آباد کہہ دیا ہے ۔ اسی طرح تقریباً 330,000 ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ایک یا دو والدین کے ساتھ اسرائیل کے بجائے بیرون ملک پیدا ہوئے مگر اسرائیلی شہریت کے باوجود اسرائیل میں رہنا پسند نہیں کرتے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اب اسرائیل یہودیوں کی جنت نہیں رہی بلکہ ان کا دل اس سے بھر گیا ہے۔

یہودیوں جس طرح اسرائیل سے بیزار ہورہے ہیں اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بھی نتن یاہو سے عاجز آگئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے معزول قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز کو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے لیے اکساکر ٹرمپ کو ناراض کردیا۔ مائیکل نےنیتن یاہو کے موقف کو اپنا کر ایران کے جوہری تنصیبات پر فوجی حملہ کی حمایت کی تھی ۔ امریکی صدر کا ایران کی خاطر اسرائیلی وزیر اعظم سے ناراض ہوجانا کسی چمتکار سے کم نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جب 12؍ اپریل سے ایرانی فریق کے ساتھ جوہری فائل پر بالواسطہ مذاکرات شروع کیے تو اس سے تل ابیب پریشان ہ وگیا۔ اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی خاطر امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے اسرائیل کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے اور اب وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر جائیں گے۔ اس طرح امریکی وزیر دفاع کا اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز اور وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات رد ہوگیا ۔ ٹرمپ 12 مئی کو وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، وزیر توانائی کرس رائٹ اور وزیر تجارت ہاورڈ لٹنیِک سمیت سعودی عرب جارہے ہیں ایسے میں اگر وزیر دفاع مہ ہوتے توکیا فرق پڑتا مگریہ اسرائیل کو رسواکرنے کی ایک سعی ہے۔ فی الحال امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنےخبریں بھی آرہی ہیں۔ ویسے دنیا کے 160 ممالک فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں لیکن سلامتی کونسل کے ان اسرائیلی حلیفوں کا یہ اقدام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا سہرا طوفان الاقصیٰ کو جاتا ہے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb