ڈیجیٹل زہرکا پھیلاؤ: بھارت کے عالمی وقار پر کاری ضرب
———
ازقلم : ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
———
اکیسویں صدی بلاشبہ رابطوں، معلومات اور علم کے ایک نئے عہد کا نقیب بن کر طلوع ہوئی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے فاصلوں کو سمیٹا، علم کے خزانوں تک رسائی کو لمحوں میں ممکن بنایا اور عالمی گاؤں کے تصور کو حقیقت کا روپ بخشا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انسانیت ابلاغ کے ایک سنہری دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں افہام و تفہیم اور آگاہی کی روشنی ہر سو پھیلے گی۔ لیکن ہر روشن تصویر کا ایک سایہ دار رخ بھی ہوتا ہے۔ اس ڈیجیٹل انقلاب نے، اپنی تمام تر چکاچوند کے باوجود، ایک ایسی زہرناک دھند بھی پیدا کی ہے جو نہ صرف انفرادی ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہے بلکہ معاشروں کی بنیادوں کو کھوکھلا اور قوموں کے عالمی وقار کو داغدار کر رہی ہے۔ یہ دھند نفرت انگیز بیانیوں، گمراہ کن معلومات، منظم کردار کشی اور آن لائن بدزبانی پر مشتمل ، ایک ایسا "ڈیجیٹل زہر” ہے جو خاموشی سے ہماری رگوں میں سرایت کر رہا ہے۔ بھارت، اپنی قدیم تہذیب، جمہوری اقدار اور بڑھتی ہوئی عالمی اہمیت کے ساتھ، اس زہر کے اثرات سے نہ صرف بری طرح متاثر ہو رہا ہے، بلکہ اس کی بین الاقوامی ساکھ اور تشخص پر بھی گہرے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
یہ ڈیجیٹل زہر کوئی یک شکل عفریت نہیں، بلکہ کئی بہروپ رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر منظم ٹرولنگ، جہاں گمنام اکاؤنٹس کے پیچھے چھپے افراد نفرت اور ذاتی حملوں کا طوفان برپا کرتے ہیں، اس کی ایک مکروہ شکل ہے۔ جعلی خبروں (Fake News) اور غلط معلومات (Disinformation) کا سیلاب، جو حقائق کو مسخ کرکے عوام کو گمراہ کرتا اور مخصوص ایجنڈوں کو تقویت دیتا ہے، اس کی دوسری خطرناک جہت ہے۔ مذہبی، سیاسی یا سماجی شخصیات کی آن لائن کردار کشی، اقلیتوں اور کمزور طبقات کو منظم انداز میں ہراساں کرنا، اور مباحثوں کو چیخ و پکار اور گالم گلوچ کی نذر کر دینا، یہ سب اسی زہرناک دھند کے مختلف اجزاء ہیں۔ بھارت میں اس صورتحال کی سنگینی کو حالیہ واقعات نے مزید آشکار کیا ہے۔ ایک طرف، جب ملک کے ایک اعلیٰ ترین سفارت کار، فارن سیکرٹری وکرم مسری، پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے جیسی انتہائی حساس قومی ذمہ داری نبھا رہے تھے، تو ان کی بیٹیوں کو سوشل میڈیا پر شرمناک اور بے رحمانہ آن لائن حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ صرف ایک فرد یا خاندان پر حملہ نہیں تھا، بلکہ یہ اس گراوٹ کی علامت تھا جہاں قومی مفاد پر کام کرنے والے افراد کو بھی ذاتی اور گھٹیا حملوں سے محفوظ نہیں رکھا جاتا۔ دوسری طرف، ایک قومی ٹیلی ویژن چینل کے میزبان، گورو آریہ کا، ایران جیسے اہم ملک کے ایک اعلیٰ سفارت کار (سابق نائب وزیر خارجہ اراقچی) کے خلاف براہ راست نشریات میں انتہائی توہین آمیز اور غیر سفارتی زبان کا استعمال، عالمی سطح پر بھارت کے لیے شدید شرمندگی کا باعث بنا۔ یہ واقعات محض انفرادی غلطیاں نہیں، بلکہ یہ اس وسیع تر مسئلے کی علامات ہیں جہاں ڈیجیٹل اور الیکٹرانک پلیٹ فارمز کو ذمہ داری اور اخلاقیات سے عاری ہو کر استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی قیمت بالآخر ملک کی مجموعی ساکھ کو چکانی پڑ رہی ہے۔
اس زہرناک ماحول کو پروان چڑھانے میں بھارتی میڈیا کے ایک مخصوص حصے کا کردار انتہائی تشویشناک اور قابلِ مذمت رہا ہے، جسے عرفِ عام میں "گودی میڈیا” کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح ان میڈیا اداروں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو مبینہ طور پر حکومتی موقف کی غیر تنقیدی ترویج کرتے ہیں، اختلاف رائے رکھنے والوں کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں اور صحافتی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سنسنی خیزی اور تفرقہ انگیزی کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ 2014 کے بعد سے، کئی نیوز چینلز نے شعوری طور پر ایک ایسا ماحول تخلیق کیا ہے جہاں حقائق کی جانچ پڑتال کی بجائے جذباتی اپیلوں، مذہبی منافرت اور سیاسی مخالفین پر ذاتی حملوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ان چینلز پر ہونے والے مباحثے اکثر مہذب مکالمے کی بجائے اکھاڑے کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں اینکرز خود غیر جانبداری کا لبادہ اتار کر ایک فریق بن جاتے ہیں۔ اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈا، "لو جہاد” جیسے بے بنیاد اور من گھڑت نظریات کی تشہیر، تاریخ کی من پسند اور تفرقہ انگیز تشریحات، اور حکومت پر جائز تنقید کرنے والوں کی کردار کشی اس طبقے کا وتیرہ بن چکا ہے۔ ان کا بنیادی مقصد اکثر اپنی ٹی آر پی (TRP) بڑھانا اور سیاسی سرپرستوں کو خوش کرنا ہوتا ہے، چاہے اس کی قیمت ملک کی سماجی ہم آہنگی، جمہوری اقدار اور صحافتی ساکھ کی تباہی کی صورت میں ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ اس طرزِ صحافت نے نہ صرف معاشرے میں موجود تقسیم کو گہرا کیا ہے بلکہ عام شہریوں میں تنقیدی سوچ اور معروضی تجزیے کی صلاحیت کو بھی بری طرح مجروح کیا ہے، انہیں ایک مخصوص، زہریلے بیانیے کا اسیر بنا دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف بھارت کے داخلی استحکام بلکہ اس کی عالمی ساکھ کے لیے بھی سمِ قاتل ثابت ہو رہی ہے۔
بھارت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ایک قدیم اور متنوع تہذیب کا امین، اور ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر، بین الاقوامی برادری میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس کی "نرم طاقت” (Soft Power) – جس کی بنیاد اس کی جمہوری روایات، ثقافتی رنگارنگی، بالی ووڈ کی فلمیں، یوگا کا عالمی فروغ، اور تعلیمی ادارے ہیں – نے دنیا بھر میں اس کے لیے عزت و احترام پیدا کیا ہے۔ لیکن جب اسی ملک سے ایسی خبریں تواتر سے سامنے آئیں جہاں میڈیا چینلز کھلے عام نفرت پھیلا رہے ہوں، اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اور ان کے خاندانوں کو آن لائن ہراساں کیا جا رہا ہو، غیر ملکی نمائندوں کی تضحیک کی جا رہی ہو، اور اقلیتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہو، تو بھارت کی یہ محنت سے کمائی گئی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں، عالمی میڈیا، اور مختلف ممالک کی حکومتیں بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری، مذہبی منافرت، صحافتی آزادیوں پر قدغنوں اور ڈیجیٹل اسپیس کے غلط استعمال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ جب بھارتی ٹی وی اسکرینوں پر زہریلی بحثیں اور سوشل میڈیا پر منظم نفرت انگیز مہمات عالمی توجہ کا مرکز بنتی ہیں، تو دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کیا یہ وہی بھارت ہے جو ‘وسودھیوا کٹمبکم’ (پوری دنیا ایک خاندان ہے) کے فلسفے پر یقین رکھتا تھا؟ یہ صورتحال نہ صرف بھارت کی اخلاقی اتھارٹی کو کمزور کرتی ہے، بلکہ اس کے معاشی مفادات (غیر ملکی سرمایہ کاری، سیاحت) اور سفارتی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے داخلی تضادات اور نفرتوں پر قابو پانے میں ناکام نظر آئے، وہ عالمی سطح پر ایک قابل اعتماد اور مستحکم رہنما یا شراکت دار کے طور پر کیسے اپنا مقام برقرار رکھ سکتا ہے؟
اس پیچیدہ مسئلے کے پھیلاؤ کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن کا ادراک اس کے حل کے لیے ضروری ہے۔ اولاً، زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم ایسے مواد کو ترجیح دیتے ہیں جو زیادہ ردعمل (engagement) پیدا کرے، چاہے وہ منفی، سنسنی خیز یا اشتعال انگیز ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے نفرت انگیز اور گمراہ کن مواد تیزی سے پھیلتا ہے۔ دوم، آن لائن دنیا میں فرضی شناختوں کے پیچھے چھپ کر کچھ بھی کہنے کی آزادی نے غیر ذمہ دار عناصر کو بے لگام کر دیا ہے۔ قانونی کارروائی کا خوف کم ہونے کی وجہ سے لوگ انتہائی منفی اور جارحانہ رویے اپنانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ سوم، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، "گودی میڈیا” نے نفرت اور تقسیم کے بیانیوں کو معمول بنا کر ٹرول آرمیز اور نفرت پھیلانے والے عناصر کو نظریاتی جواز اور حوصلہ فراہم کیا ہے۔ چہارم، بھارت میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز تک رسائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد میں آن لائن معلومات کی صداقت پرکھنے، جھوٹی خبروں کو پہچاننے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ذمہ داری سے استعمال کرنے کی صلاحیت (ڈیجیٹل خواندگی) اسی رفتار سے نہیں بڑھی۔ اس وجہ سے وہ آسانی سے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پنجم، سیاسی جماعتوں اور نظریاتی گروہوں نے سوشل میڈیا کو اپنے مخالفین کو بدنام کرنے، اپنے حامیوں کو متحرک کرنے اور معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کے لیے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اور ششم، آن لائن نفرت انگیز مواد، غلط معلومات اور ہراسانی سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین اور ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار اکثر ناکافی، سست یا غیر مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
ان عوامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے زہریلے ماحول کے اثرات گہرے اور دور رس ہیں۔ آن لائن نفرت، ٹرولنگ اور کردار کشی کا شکار ہونے والے افراد شدید ذہنی دباؤ، خوف، بے بسی، سماجی تنہائی اور ڈپریشن جیسی کیفیات سے گزرتے ہیں۔ خواتین، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، اقلیتی برادریوں کے افراد اور حکومت پر تنقید کرنے والے خاص طور پر اس منظم ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں، جس سے ان کی نجی زندگیاں اور پیشہ ورانہ کام بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ سماجی سطح پر، اس ڈیجیٹل زہر نے مختلف طبقات اور برادریوں کے درمیان پہلے سے موجود خلیج کو مزید وسیع کیا ہے، باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور معاشرے میں عمومی بے چینی اور عدم استحکام کو فروغ دیا ہے۔ جب عوامی مکالمے کی جگہ گالم گلوچ، دھمکیوں اور نفرت نے لے لی ہو، تو ایک صحت مند، روادار اور جمہوری معاشرے کا تصور دھندلا جاتا ہے۔
اس گمبھیر صورتحال سے نمٹنے اور ڈیجیٹل دنیا کو محفوظ اور مثبت بنانے کے لیے ایک جامع، مربوط اور کثیر الجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یعنی فیس بک، ٹویٹر (ایکس)، یوٹیوب، انسٹاگرام وغیرہ کو اپنی پالیسیوں کو مزید سخت اور شفاف بنانا ہوگا تاکہ نفرت انگیز مواد، جعلی اکاؤنٹس اور منظم ہراسانی کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کی جا سکے۔ انہیں اپنے الگورتھم کو بھی ذمہ دارانہ بنانا ہوگا اور خاص طور پر بھارت کی مقامی زبانوں میں مواد کی نگرانی کے نظام کو ڈرامائی طور پر بہتر کرنا ہوگا۔ اسی طرح، پریس کونسل آف انڈیا (PCI) اور نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن (NBDA) جیسے میڈیا ریگولیٹری اداروں کو مزید بااختیار، غیر جانبدار اور فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحافتی اخلاقیات کی سنگین خلاف ورزیوں، بالخصوص نفرت اور تفرقہ پھیلانے والے چینلز اور اینکرز کے خلاف ٹھوس کارروائی کر سکیں۔ میڈیا ہاؤسز کو بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا اور اپنی ادارتی پالیسیوں کو قومی مفاد اور سماجی ہم آہنگی کے تابع بنانا ہوگا۔ حکومتی سطح پر، آزادی اظہار رائے کا مکمل احترام یقینی بناتے ہوئے، نفرت انگیز تقاریر، آن لائن ہراسانی اور غلط معلومات کے ذریعے تشدد بھڑکانے کے خلاف موجودہ قوانین کا سختی سے نفاذ کرنا چاہیے۔ اگر ضروری ہو تو، تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئے اور مؤثر قوانین وضع کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا سیاسی مقاصد کے لیے غلط استعمال نہ ہو۔ اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی سطح پر ڈیجیٹل خواندگی، میڈیا لٹریسی اور ذمہ دارانہ ڈیجیٹل شہریت کے بارے میں وسیع پیمانے پر آگاہی مہمات چلانے کی اشد ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو آن لائن مواد پر تنقیدی نگاہ ڈالنے، ذرائع کی تصدیق کرنے اور جھوٹ و سچ میں تمیز کرنے کی تربیت دینا لازمی ہے۔ مزید براں، حکومت اور معاشرے کو آزاد، غیر جانبدار، تحقیقی اور اخلاقی صحافت کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ آزاد میڈیا ہی عوام تک درست معلومات پہنچا سکتا ہے، طاقتوروں کا احتساب کر سکتا ہے اور "گودی میڈیا” کے زہریلے بیانیے کا مؤثر توڑ فراہم کر سکتا ہے۔ فیکٹ چیکنگ اداروں کو مضبوط کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ آخر میں، بحیثیت شہری، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم آن لائن اسپیس میں تہذیب اور احترام کو فروغ دیں۔ نفرت انگیز مواد کو شیئر کرنے سے گریز کریں، غلط معلومات کی نشاندہی کریں، اور مثبت اور تعمیری مکالمے کی حوصلہ افزائی کریں۔
بھارت آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ترقی اور رابطے کے بے پناہ مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن اگر اسے نفرت، تقسیم اور گمراہی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ملک کی بنیادوں کو کمزور کر سکتی ہے اور اس کی عالمی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ "گودی میڈیا” کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور سوشل میڈیا پر پھیلتی زہرناکی کا مقابلہ کرنا صرف ایک چیلنج نہیں، بلکہ بھارت کے مستقبل کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی ڈیجیٹل دنیا کو از سر نو تشکیل دینا ہوگا – اسے جہالت اور تعصب کا اکھاڑہ بنانے کی بجائے علم، مکالمے، رواداری اور ترقی کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس میں ہر شہری، ہر ادارے اور ہر پلیٹ فارم کو اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ بھارت کو نہ صرف اپنی عظیم جمہوری اور تہذیبی روایات پر فخر کرنا چاہیے بلکہ ایک ایسا مستقبل بھی تعمیر کرنا چاہیے جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال انسانیت کی بھلائی، سماجی ہم آہنگی اور ملک کی نیک نامی کے لیے ہو۔ ڈیجیٹل دنیا کو رحمت بنانے کے لیے ہمیں دانشمندی، ذمہ داری اور اجتماعی عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ بھارت عالمی افق پر ایک روشن، متحد اور قابلِ احترام قوم کے طور پر اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔
======================