Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
recent important decision of the Supreme Court

کہ قیدی مختلف میعاد کے ہوتے ہیں زنداں میں

Posted on 12-05-202513-05-2025 by Maqsood

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کہ قیدی مختلف میعاد کے ہوتے ہیں زنداں میں

از قلم عبدالواحد شیخ ممبئی
8108188098

آج ہم سپریم کورٹ کے حالیہ ایک اہم فیصلے کے بارے میں بات کریں گے۔ کیس کا نام ہے تپس کمار پلیت ورسز اسٹیٹ آف چھتیس گڑھ ، کریمنل اپیل نمبر, ,25 / 738 سپریم کورٹ آف انڈیا۔
معاملہ یہ ہے کہ ملزم تپس کمار کو 24 مارچ 2020 کی ایف آئی آر کی وجہ سے گرفتارکیاگیا،سیکشن 10,13,17,38,40,22 یو اے پی اے ،سیکشن 8 چھتیس گڑھ وشیش جن سرکشہ ادھنیم 2005 اور سیکشن 120 بی 201،149,34 آئی پی سی کے تحت گرفتاری عمل میں آئ۔
پولیس کی کہانی ہے کہ ملزم 24 مارچ 2020 کو ایک گاڑی چلا رہا تھا۔ پولیس کو انفارمیشن ملی کہ اس گاڑی میں نکسل سرگرمی میں استعمال ہونے والی چیزیں ہیں۔ پولیس نے گاڑی کو روک لیا۔ گاڑی کی تلاشی لی گئی تو اس میں سے 95 جوتے کی جوڑیاں،،ہرا کالا کپڑا ، ایل ای ڈی لینس، واکی ٹاکی اور دیگر چیزیں برآمد ہوئیں۔ اسی دن ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ ملزم کے خلاف چار ج شیٹ داخل کی گئی ، ٹرائل شروع ہوا۔ ٹرائیل کورٹ اور ہائی کورٹ نے ضمانت دینے سے انکار کیا۔آپ جانتے ہیں کہ نکسلزم کے نام پر بھارت میں برسوں سے دلت اور آدی باسی شہریوں کو ہماری پولیس آئے دن پریشان کرتی ہے اور مختلف مقدمات میں جیل بھیج دیتی ہے یا اکثر جھوٹے انکاؤنٹر میں مار گرایا جاتا ہے ۔ ان دنوں نکسلزم کے نام پر انکاؤنٹر میں کئی لوگوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے اور سول سوسائٹی کی طرف سے آواز بلند ہو رہی ہے کہ یہ انکاؤنٹرز بند ہونے چاہیے اور وزارت داخلہ کو ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے جن پر نکسل وادی ہونے کا شبہ ہے۔ اس کیس میں نہ جانے پولیس کو کہاں سے خبر لگ گئی اور آپ جانتے ہیں کہ اکثر پولیس کو خبر دینے والے خبری گھڑے جاتے ہیں اور اس من گھڑت انفارمیشن کی بنیاد پر لوگوں کے پکڑ دھکڑ کا تماشہ کیا جاتا ہے ۔ گاڑی سے جوتے اور کپڑے برآمد ہونے پر یو اے پی اے لگانا کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ لیکن بھارت میں یہ سب کچھ چل رہا ہے اور اس پر کوئی قدغن لگانے کو تیار نہیں ہے ۔

اس ملزم کی ضمانت کا معاملہ سپریم کورٹ پہونچا جہاں سنوائی کے وقت تک 42 گواہ ٹرائیل کورٹ میں آ چکے تھے۔ استغاثہ سو گواہوں کو عدالت بلانا چاہتا ہے۔ عموماً جب ٹرائل شروع ہو جاتا ہے تو عدالت ضمانت نہیں دیتی یا جو گواہی ہو چکی ہے اس کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ گواہوں نے ملزم کے خلاف ،جرم میں ملوث ہونے کے بارے میں کیا کیا کہا ہے ۔ لیکن اس کیس میں پچھلے پانچ سال سے ملزم زیر سماعت قیدی ہے۔ ملزم کے خلاف کوئی خاص بات اب تک ریکارڈ پر نہیں آئی ہے ۔ جس گاڑی سے سامان برآمد ہوا اس کے پنچ نامے کا پنچ بھی مکر ( یعنی ہوسٹائل) ہو چکا ہے۔ استغاثہ کو اندازہ نہیں ہے کہ ٹرائلم ختم ہونے میں کتنا وقت لگے گا ۔ ایسی صورت میں ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے علاوہ عدالت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ الزام کتنا بھی سنگین ہو اس کے باوجود دستور کی آرٹیکل 21 کے مطابق اسپیڈی ٹرائل ملزم کا بنیادی حق ہے ۔ استغاثہ کا حق ہے کہ وہ کسی گواہ کو بلائے کسی کو نہ بلائے مگر فلاں گواہ کیوں بلانا چاہتے ہیں یہ واضح نہیں ہے ۔ ایک ہی فیکٹ کے لیے 10 گواہ کو بلانا سود مند ثابت نہیں ہوتا ۔ اس طرح گواہوں کو بلانا ٹرائل کو طویل کرنا ہے۔ استغاثہ کو گواہ کو بلانے کے معاملے میں عقلمندی سے کام لینا چاہیے۔ NIA جج کا رول بھی اہم ہے ۔ اسے بھی استغاثہ سے سوال کرنا چاہیے کہ جب ایک گواہ ایک فیکٹ بیان کر چکا ہے تو دوسرا گواہ اسی فیکٹ پر کیوں بلایا جا رہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہمیں اس سلسلے میں گائیڈ لائن جاری کرنا چاہیے لیکن اس کیس میں ضمانت پر بات کرتے ہیں۔ آپ کو یہ بات سن کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ عدالت نے اس کیس میں گائیڈ لائنز جاری کرنے کی بات کی لیکن اس پورے آرڈر میں کوئی گائیڈ لائن جاری نہیں کی گئی اور ہماری اطلاع کے مطابق اب تک اس سلسلے میں یعنی عدالت میں کتنے گواہوں کو بلانا ہے ایک ہی فیکٹ پر زیادہ سے زیادہ کتنے گواہ بلائے جا سکتے ہیں اور اس سلسلے میں پروسیکیوشن کا اور جج کا کیا رول ہونا چاہیے، سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی ہے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہماری عدالتیں ایک معاملے کے کئی پہلوؤں کو دیکھتی ہیں لیکن تمام پہلوؤں پر بات اور حکم جاری کرنے سے گریز کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں وقت کی کمی ایک اہم رول ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابھی جو معاملہ ہے پہلے اس پر فیصلہ دیا جائے اور دیگر چیزوں کو بعد میں دیکھا جائے۔ لیکن ایسا کرنے سے اکثر چیزیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور بعد میں ان معاملات پر کم ہی روشنی ڈالی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر ایک ملزم چھ سات سال زیر سماعت قیدی کی حیثیت سے جیل میں رہتا ہے تو اس کا دستوری حق آرٹیکل 21 متاثر ہوتا ہے۔ ملزم جو گناہ ثابت ہونے تک بے گناہ تسلیم کیا جاتا ہے، طویل سماعت کی وجہ سے اسٹریس stress)میں ہوتا ہے۔زیر سماعت قیدی طویل عرصے تک جیل میں رہتے ہیں تو ان کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا ۔ عموماََ وہ نوکری، دھندہ، ریپیٹوشن کھو دیتے ہیں۔ ان کے ذاتی تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ایک بڑی رقم لیگل فیس پر خرچ کرتے ہیں ۔ جب ملزم بے گناہ رہا ہو جاتا ہے تو سماج میں اس کو دوبارہ سنبھالا نہیں ملتا، اس کی قوم بھی اس سے سوتیلا سلوک کرتی ہے۔ وہ اپنے بل پر دوبارہ زندگی شروع کرتا ہے ۔ ملزم کے لیے تاخیر(delay )منفی چیز ہے تو وکٹم کے لیے بھی۔ یہ چیز ہندوستانی سوسائٹی کے لیے بھی غلط ہے کہ وہ بھی ہمارے عدالتی نظام کو جو کہ عدالت کی نگاہ میں معتبر ہے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں جس کا کام ہے کہ وہ کیسوں کو تندہی سے چلا ۓ۔ اس لیے ہائی کورٹ نے ملزم کی جو ضمانت روک دی سپریم کورٹ اس آر ڈر کو ختم کرتا ہے اور ملزم کو ٹرائل کورٹ کی چند شرائط کے ساتھ فوراََ ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ملزم علاقہ کانکر چھتیس گڑھ میں داخل نہ ہو اس بات کا خیال رکھا جائے۔ وہ ہر تاریخ میں عدالت میں آن لائن شریک ہو۔ جب ملزم کا بیان عدالت میں ریکارڈ ہوگا آخر میں تبھی وہ عدالت میں حاضر ہو ۔

یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون نے حال ہی میں دیا ہے۔ اگر آپ یہ فیصلہ دیکھنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے ہوئے لنک میں اس پر بنائی ہماری ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ان بہت سے زیر سماعت قیدیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے جو پچھلے 5 اور 10 سال سے زیادہ انڈر ٹرائل قیدی کی حیثیت سے جیل میں قید یو اے پی اے کا مقدمہ فیس کر رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ نظیر بنے اور ان کی ضمانت کے راستے ہموار ہو۔ ہم امید کر سکتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کے لیے دعا بھی۔ نوح ناروی نے شاید اسی لیے کہا تھا:
ہمارے دل سے کیا ارمان سب اک ساتھ نکلیں گے
کہ قیدی مختلف میعاد کے ہوتے ہیں زنداں میں
شکریہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb