ٹرمپ اور مودی :دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم نریندر مودی کو آج کل یہ محاورہ خوب یاد آرہا ہوگا’نادان کی دوستی جی کا جنجال ‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان سے نہ جانے کس جنم کا انتقام لے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے تو نہ صرف امریکہ میں جاکر ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ کا نعرہ لگایا تھا بلکہ احمد آباد بلا کر ’نمستے ٹرمپ‘ بھی کیا تھا ۔ اتنا سب کرنے کے باوجود آپریشن سندور کے اثرات کو زائل کرنا بدترین احسان فراموشی ہے؟ پہلگام کی قتل و غارتگری کے خلاف جب ہندوستانی فوج نے پاکستان کے ۹؍ مقامات پر بمباری کی تو مودی جی کو توقع رہی ہوگی کہ حزب ِ اختلاف کی مانند امریکہ بھی دہشت گردی کے حوالے سے تائید میں کہے گا’ مودی جی آگے بڑھو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘۔ ’موگامبو خوش ہوا‘ لیکن صدر ٹرمپ کا تبصرہ ’یہ شرمناک ہے، ‘ سوچنے والی بات تو یہ ہے پاکستانی جوابی کارروائی سے قبل ٹرمپ کس اقدام کو شرمناک کہہ دیا ۔ وہ آگے بولے ’میرا خیال ہے ،ماضی کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو اندازہ تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ وہ کئی دہائیوں اور درحقیقت صدیوں سے لڑ رہے ہیں، اگر آپ واقعی اس پر غور کریں۔‘اس بیان نے وزیر اعظم کو مایوس کرکےغالب کےاس شعر کی یاد دلادی ؎
فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا
صدر ٹرمپ نے اپنے ابتدائی تبصرے میں یہ بھی کہا تھا کہ ’میں صرف امید کرتا ہوں کہ یہ جلد ختم ہو جائے۔‘ کون جانتا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر یہ شخص ایک جوہری جنگ روکنے کا دعویٰ کرکے عالمی امن اعزاز کا طاقتور دعویدار ہوجائے گا ۔ ’مودی ہے تو ممکن ہے ‘ والا نعرہ اب بدل کر’ٹرمپ ہے تو ممکن ہے‘ ہوگیا ہے مگر اس کے لیے اڈانی کے خلاف وارنٹ لازمی ہے۔ پہلگام حملے کے بعد جس طرح سرجیکل اسٹرائیک متوقع تھی اسی طرح پاکستان کا جواب بھی توقع کے عین مطابق تھا۔ پچھلی بار چونکہ ہندوستانی حملہ علامتی تھا اس لیے جواب بھی ویسا ہی تھا اور دونوں جانب کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس مرتبہ کی کارروائی شدید تر تھی اس لیے جواب میں غیر اعلانیہ جنگ شروع ہوگئی۔ ملک کے گودی میڈیا نے اس کی آڑ میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی تک کو فتح کرلینے کا دعویٰ کردیا ۔ اس دوران پاکستان نے اپنے جوہری اسلحہ کو ٹھیک ٹھاک کرنا شروع کیا تو دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی۔ ایسے میں اچانک ٹرمپ صاحب حرکت میں آئے ہیں اور اپنے ٹویٹ سے تہلکہ مچا دیا۔
ٹرمپ نے اپنےسوشل میڈیا ہینڈل ٹروتھ پر لکھا:’’امریکہ کی ثالثی میں رات کوطویل بات چیت کے بعد، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔دونوں ممالک کو دانشمندی اور سمجھ بوجھ سے کام لینے پر مبارکباد‘‘۔ انہوں نے ہندو پاک کے اعلان سے قبل اپنے پیغام میں ’مکمل اور فوری جنگ بندی ‘ کے الفاظ کو جلی حروف میں لکھ کر اشارہ دیا کہ اس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بس پھر کیا تھا پلک جھپکتے دونوں ممالک کے ترجمانوں نے تائید کردی مگر اس سے جہاں پاکستان میں خوشی کی لہر چل گئی وہیں ہندوستان کے اندر ماتم پسر گیا۔ اس متضاد ردعمل کا تجزیہ ضروری ہے۔ ہندوستان کے اندر غم و غصے کی وجہ یہ تھی کہ میڈیا کے مطابق پاکستان تباہ برباد ہوچکا تھا اور اس کے ہندوستان کا حصہ بن جانے سے اکھنڈ بھارت کا سپنا ساکار ہوا چاہتا تھا ۔ پاکستان ہی اگر قبضے میں آجاتا تو مودی جی کے ولیعہد امیت شاہ مقبوضہ کشمیر کے لیے جان لڑانے کی زحمت سے بھی بچ جاتے لیکن درمیان میں ٹرمپ نے کود کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔
اس موقع پربھگتوں کا غصہ ٹرمپ یا مودی کے بجائے وزارتِ خارجہ کے سیکریٹری اور ترجمان وکرم مصری پر پھوٹ پڑا حالانکہ انھوں نے صرف اعلان کیا تھا ۔ کشمیر فائلس بناکر کشمیری پنڈتوں کے نام پر تجوریاں بھرنے والے بھول گئے کہ وکرم مصری ایک کشمیری پنڈت ہے اور ان کے دشمنِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی کشمیری پنڈت ہی تھے۔ وکرم پر زعفرانی ٹولہ پِل پڑاتو ان کی بیٹی اور بیوی بھی گالی گلوچ کی زد میں آگئے۔ یہ دراصل بہت قدیم روایت ہے جس کا شکار مہا بھارت کی دروپدی بھی ہوچکی ہے۔ کورو کے دربار میں اس کی آبرو بچانے کے لیے تو کرشن آگئے تھے لیکن وکرم مصری کے لیے سرکار دربار سےکوئی آگے نہیں آیا تو مجبوراً انہیں نے اپنا بند کرنا پڑا۔ وکرم نے خود تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ وہ تو عصرِ جدید میں چوسر کی بساط کا بس ایک مہرہ تھے ۔ ان کی بیٹی اور بیوی تو دروپدی کی طرح اس کھیل میں شامل بھی نہیں تھی لیکن مہا بھارت کی عظیم تہذیب و ثقافت کی یہ روایت نہ جانے کب تک جاری رہے گی ؟ پہلے نیہا سنگھ پھرمیڈوساکاکوٹی ، ہیمانشی نروال ، ڈولی مصری اور اب صوفیہ قریشی تک یہ سلسلہ پہنچ گیا ہے ۔کرنل صوفیہ قریشی مدھیہ پردیش کی رہنے والی ہیں۔ اسی صوبے کے وزیر اور ۸؍بار منتخب ہونے والے بی جے پی رکن اسمبلی وجئے شاہ نےانہیں دہشت گردوں کی بہن قرار دے دیا ہے۔
پاکستان کو صفحۂ ہستی مٹانے کا خواب دیکھنے والے بھگتوں کی جنگ بندی سے ناراضی قابلِ فہم ہے مگر پاکستان میں خوشی کی لہر محض اس وجہ سے نہیں تھی کہ اب ہندوستانی حملوں سے نجات مل جائے گی بلکہ یہ بہت بڑی صفارتی کامیابی کا جشن تھا۔ کشمیر کے حوالے سے ہندو پاک موقف میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان اسے بین الاقوامی مسئلہ کہہ کر عالمی سطح پر لے جاتا ہے جبکہ حکومتِ ہند شملہ معاہدے کا حوالہ دے کر باہمی گفت و شنیدتک محدود کردیتی ہے۔ پاکستان جب باہمی گفتگو کے دوران جموں کشمیر کا معاملہ اٹھاتا ہے تو اسے داخلی معاملہ کہہ کر چپ کردیا جاتا ہے۔ حکومتِ ہند نے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرکے پاکستان کو شملہ سمجھوتے سے جان چھڑانے کا نادر موقع فراہم کردیا ۔ اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا اعلان کرکے اس دو فریقی معاملے کو سہ فریقی بنا دیا اورچونکہ حکومتِ ہند نے اس کی تردید نہیں کی اس لیے ہندو پاک کی پنچایت میں امریکہ کی پردھانی پاکستان کے لیے مفید بن گئی ۔
جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے ٹرمپ نے سماجی رابطے کے اپنے پلیٹ فارم ‘ٹروتھ’ پر لکھا ’’ میں بہت فخر محسوس کرتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل قیادت نے یہ سمجھنے اور جاننے کی ہمت دکھائی کہ اب جارحیت کو روکنے وقت آگیا ہے، کیونکہ اس سے بہت زیادہ ہلاکت اور تباہی ہو سکتی تھی۔ اس کشیدگی میں لاکھوں معصوم لوگ مر سکتے تھے، دونوں ممالک کے باہمت رویے سے اچھی روایت بن گئی ہے، مجھے فخر ہے کہ امریکہ آپ دونوں کی مدد کر سکا تاکہ آپ اس تاریخی فیصلے تک پہنچ سکیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگرچہ یہ بات زیرِ بحث نہیں آئی لیکن میں دونوں ممالک کے ساتھ تجارت میں خاطرخواہ اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ اس کے علاوہ، میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر یہ کوشش بھی کروں گا کہ کیا ایک ہزار سال بعد کشمیر کے حوالے سے کوئی حل تلاش کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس پیغام میں ہندوستان اور پاکستان کو ہم پلہ رکھا گیا ہے اور کہیں بھی پاکستان کو دہشت گردی پھیلانے کا ملزم نہیں ٹھہرایا گیا ۔ دوران جنگ پاکستان کو آئی ایم ایف قرض کی فراہمی بھی اس بات کا ثبوت ہے مودی سرکار عالمی برادری کے کسی ایک ملک کو بھی پاکستان کے خلاف اپنے ساتھ نہیں کرسکی۔
آپریشن سندور کے شروع ہوتے ہی سمع خراشی کے لیے مشہور وزیر اعظم نریندر مودی مونی بابا بن گئے۔ جنگ سے پہلے انہوں نے فوج کو کھلی چھوٹ دے کر اپنا دامن سمیٹ لیا۔ فوجی کارروائی کے دوران ان کی جانب سے مکمل خاموشی رہی۔ جنگ بندی کے بعد انہیں ایوانِ پارلیمان کا خصوصی اجلاس بلا کر عوام کے نمائندوں کو یہ پوچھنے کا موقع دینا چاہیے تھا کہ پہلگام میں حفاظتی انتظام کیوں نہیں تھا اور دہشت گرد کیسے آئے اور کہاں غائب ہوگئے۔ اس کے بجائے انہوں نے حسبِ عادت رات ۸؍ بجے ٹیلی ویژن پر آکر عوام کو گمراہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس سے قبل بھی ٹرمپ نے پھر سے بیان دےکر رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ وہ بولے ہم نے تجارت بند کرنے کی دھمکی دے کر جوہری جنگ رکوادی ۔ کسی کی تجارتی دھمکی میں آکر جنگ روک دینا بجائے خود شرمناک ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اس کی تردید تو دور ٹرمپ کا نام لینے کی جرأت تک نہیں کی الٹا یہ کہہ دیا کہ اب پاکستان سے کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت ہوگی یعنی اب اسے داخلی معاملہ کہہ کر ٹالا نہیں جائے گا۔ یہی تو پاکستان اور امریکہ چاہتے ہیں ۔ امریکی وزیرخارجہ مارک روبیو بھی ہندو پاک کے درمیان کسی غیرجانبدار مقام پرکئی اہم امور پر بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ۔ اس طرح 53؍ سال سے شملہ معاہدے کی صورت میں جو ڈھال قومی مفادات کا تحفظ کرتی تھی اس کو وزیر اعظم نے خود کمزور کرکے اپنے دوست ٹرمپ کو خوش کردیا ۔ ایسے میں وہ فلمی نغمہ یاد آرہا ہے ’دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے‘۔