Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
historical status of the Cave of Hira

غار حرا ءکی تاریخی حیثیت

Posted on 16-05-202516-05-2025 by Maqsood

غار حرا ءکی تاریخی حیثیت
۔۔۔۔۔

از قلم : مفتی محمد ارشاد اشرفی
خادم تدریس: ادارہ کہف الایمان
صفدر نگر۔ بورابنڈہ ۔حیدرآباد
۔۔۔۔۔

مکہ مکرمہ کی دینی عظمت اور تاریخی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ خالق کائنات نے اس کو اپنے سب سے مقدس گھر خانے کعبہ کے لیے چنا،بے شمار حضرات انبیاء اولیاء عظام، اور صالحین نے اس بیت اللہ کے لیے اور ساتھ ہی ساتھ وہاں کے تاریخی مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے رخت سفر باندھا، اور مکے کے زائرین ان مقامات مقدسہ میں وقوع پذیر واقعات پر غور و فکر کر کر اپنی روحانیت کو پروان چڑھایا۔
انہی مقامات مقدسہ میں ایک تاریخی مقام غارِحراء کہلاتا ہے۔
غارحراء کا تعارف
غار حرا یہ غار جبل نور کی چوٹی پر مسجد حرام کے شمال مشرق میں واقع ہے اسے جبل حراء بھی کہتے ہیں ، سطح سمندر سے اس کی بلندی ۶۲۱ میٹر اور سطح زمین سے ۲۸۱ میٹر ہے اس پہاڑ کی چوٹی پر موجود غار تک پہنچنےمیں تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے، اس مبارک غار میں رسول اللہ ﷺ اپنی بعثت سے قبل عبادت کیا کرتے تھے، غار کی شمالی سمت دروازہ ہے جس تک پہنچنے کیلئے دو پتھروں کے درمیان سے گزر کر جاناپڑتا ہے جن کا درمیانی فاصلہ صرف ۱۰ سینٹی میٹر ہے، غار کی لمبائی تین میٹر بلندی دومیٹر اور چوڑائی کہیں کم کہیں زیادہ ہے، زیادہ سے زیادہ چوڑائی ۳۰ ،۱ میٹر ہے، اس میں دو آدمی ایک دوسرے کے آگے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں، داہنی سمت بھی تھوڑی سی جگہ ہے جس پر ایک آدمی بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ (تاریخ مکہ مکرمہ:ص 134)
نبیﷺکی خلو ت نشینی
مکہ مکرمہ میں عبادت کے لیے گوشہ نشینی اختیارکرنے کی داغ بیل نبی ﷺ کے دادا عبد المطلب نے ڈالی تھی۔
وہ رمضان کے مہینے میں خلوت اختیار کرتے تھے، رمضان کے آغاز میں غار حراءمیں چلے جاتے اور پورا مہینہ وہیں بسر کرتے تھے۔
ورقہ بن نوفل اس عمل کی خاص طور پر پابندی کرتے رہے ۔
آپﷺ اپنے شہر میں پھیلی ہوئی شرک اور بت پرستی کی وبا دیکھتے تو بہت آزردہ اور بیزار ہو جاتے تھے۔
اور دل ہی دل میں گڑھتے رہتے تھے۔ اس ماحول میں طبع مبارک خلوت نشینی کی طرف مائل ہوگئی۔ یوں آپ غار حراء میں جانے لگے۔
اس سلسلے میں سیدہ عائشہ صدیقہ کیا فرماتی ہیں:
ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الخَلاءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَدَّثُ فِيهِ –
وَهُوَ التَّعْبُدُ اللَّيَالِي دَواتِ العدد.
.پھر آپ ( ﷺ) کو تنہائی محبوب ہو گئی۔ آپ غار حراء میں خلوت نشین ہو جاتے اور مسلسل کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں عبادت میں مشغول رہتے ۔
رسول اللہ سلیم نبوت سے پہلے ہر رمضان کا مہینہ غار حراء میں گزارتے۔ اس دوران میں جو مسکین آجاتا، اُسے کھانا کھلاتے، جب غار سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے بیت اللہ میں حاضر ہوتے،بیت اللہ کا طواف کرتے، پھر اپنے گھر چلے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ رمضان آگیا جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔
غار ِحراء میں عبادت کی کیفیت
غار حراء میں نبی ﷺکی عبادت کی کیفیت واضح طور پر معلوم نہیں ہو سکی۔
سیرت نگاروں نے اس کی مختلف حالتیں بیان کی ؟
امام ابن کثیر اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ آپ موسی ؈کی شریعت کے مطابق عبادت کرتے تھے۔
بعض علماء نے یہ عبادت عیسی ؈
اور بعض نے نوح ؈کی شریعت کے مطابق بتائی ہے
بعض کہتے ہیں کہ آپﷺ کی عبادت دین ابراہیمی کے مطابق تھی۔
یہی بات قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے۔
بیت اللہ جو آل ابراہیم کا کعبہ ہے، اس کے طواف کے التزام سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہتے ہیں: کہ ام المؤمنین عائشہ ؆ کی حدیث میں مذکور لفظ
( فيتحنث يتحلف ) کے معنی میں ہے۔
مطلب یہ کہ آپ حنیفیت کی پیروی کرتے تھے جو دین ابراہیم ہے۔
مزید برآں قرآن مجید کے قرائن سے بھی آپﷺ کے دین ابراہیم پر کار بند ہونے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ نزول وجی کے بعد آپ کو ملت ابراہیمی ہی کی پیروی کا حکم ملا۔ ارشاد باری ہے:
(ثمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )
(اے نبی !) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم کی اتباع کریں جو (اللہ کی طرف) یکسو تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
(قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﳛ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاۚ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ)
(اے نبی !) کہہ دیجیے: بے شک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی ہے، صیح اعلیٰ اقدار کے حامل دین کی (ہدایت)، ایک رب کے پرستار ابراہیم کی ملت کی (ہدایت ) اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا ۔
علامہ زرقانی کہتے ہیں: کہ نبیﷺ نے خلوت نشینی اختیار کر لی۔
جمہور کا قول ہے کہ گوشہ نشین ہو کر تدبر و تفکر کرنا ہی عبادت کہلاتا تھا۔
غارِحراکوخاص کرنے کی وجہ
امام احمد بن محمد قَسْطَلَّانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں:
آپﷺ نے عبادت کرنے کے لئے غارِ حرا ءکواس لئے خاص فرمایا کہ اس غار کو دیگر غاروں پر اضافی فضیلت حاصل ہے کیونکہ اس میں لوگوں سے دوری، دِل جمعی کے ساتھ عبادت اور بَیْتُ اللہ شریف کی زیارت ہوتی تھی، گویا غارِ حرا میں
آپ ﷺکیلئےتین عبادتیں جمع ہوگئیں:
1: تنہائی، 2: عبادت 3: اور بَیْتُ اللہ کی زیارت جبکہ دیگر غاروں میں یہ تین
باتیں نہیں۔
(مواہب اللدنیہ،ج1،ص107)
پہلی وحی کا نزول
سرکارِ نامدار ﷺ پر پہلی وَحی اِسی غار میں اُتری، جو کہ تیسویں پارے کی سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں۔
(عاشقان رسول کی 130حکایات، ص241)
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴾ [العلق : 1]
اس وحی کے نزول کے بعد ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبریل ؈ کو اسی پہاڑ کے نزدیک ان کی اصل شکل میں دیکھا ۔
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے اس پہاڑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
( اسکن حراء ) حرکت نہ کرو۔
ذیل میں اس پہاڑ سے متعلق چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن سے اس کی عظمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :کہ رسول اللہ ﷺ پر نبوت کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی ، آپﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ واضح طور پر پورے ہوتے جس طرح صبح کی روشنی ، پھر آپ ﷺ کو عزلت نشینی اور تنہائی مرغوب ہوگئی چنانچہ آپﷺ غار حراء تشریف لے جاتے اور وہاں کئی کئی راتیں عبادت میں گزار دیتے جب تو شہ ختم ہو جاتا تو واپس تشریف لے آتے ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
آپ ﷺکے لئے تو شہ تیار کر دیتیں، اور آپﷺ پھر تشریف لے جاتے ایک روز آپﷺ غار حراء میں تھے کہ فرشتہ پیغام حق لیکر نمودار ہوا اور کہا:
پڑھیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ فرشتہ نے مجھے پکڑ کر خوب زور سے دبایا اور چھوڑ کر کہا: ” پڑھیے میں نے پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے مجھے پکڑ کر دبایا۔ تیسری مرتبہ مجھ سے کہا:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَق)
َ ترجمہ: پڑھیے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
اس پہلی وحی کے بعد جب آپﷺ غار حراء سے گھر تشریف لائے تو آپ کا جسم اطہر کپکپا رہا تھا۔

(صحیح بخاری کتاب التفسیر:حدیث 4953)
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں غار حراء میں رات گذار کر نیچے اتر اتو محسوس کیا کہ کوئی مجھے پکار رہا ہے، میں نے اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا پھر میںنے اوپر دیکھا تو کچھ نظر آیا میں فورا ہی خدیجہ ؆کے پاس آیا اور کہا مجھے کمبل اڑھا دو اور ٹھنڈے پانی سے میرے جسم کو ٹھنڈا کر دو، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا اور پانی بھی میرے جسم پر ڈالا ، اسی دوران سورۃ المدثر کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں۔ (یا أَيُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرُ)
حضرت خدیجہ ؆ کے تسلی بخش الفاظ
سورة العلق آية 1-5 فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ، فَقَالَ: زَمِّلُونِي، زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ: أَيْ خَدِيجَةُ: مَا لِي، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ "، قَالَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، قَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: كَلَّا أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، وَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ۔

ترجمہ:
“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کے ساتھ واپس لوٹے، (اس وقت) آپ کے کندھوں اور گردن کے درمیان کے گوشت کے حصے لرز رہے تھے یہاں تک کہ آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا: ”مجھے کپڑا اوڑھاؤ، مجھے کپڑا اوڑھاؤ۔
“ انہوں (گھر والوں) نے کپڑا اوڑھا دیا یہاں تک کہ آپ کا خوف زائل ہو گیا تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ”خدیجہ! یہ مجھے کیا ہوا ہے؟“ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ہرگز نہیں! (بلکہ) آپ کو خوشخبری ہو اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، اللہ کی قسم! آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اسے کما کر دیتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کے لیے پیش آنے والی مشکلات میں اعانت کرتے ہیں،
(صحیح مسلم : کتاب الایمان : حدیث :403)
غارِحراکی افضلیت
’’غارِ حرا‘‘ غارِ ثَور سے افضل اس لئے ہے کہ غارِ ثور نے تین دن تک سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم چومے جبکہ غارِ حرا سلطانِ دوجہاں ﷺکی صحبتِ
با بَرَکت سے زیادہ عرصہ مشرَّف ہوا۔
(عاشقان رسول کی 130 حکایات، ص 242)
العربیہ ڈٹ نیٹ کے مطابق
مسجد حرام سے غار حراء چار کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ غار کے اندر داخل ہونے کے راستہ اس کے شمال کی سمت سے ہے اور وہاں سے خانہ کعبہ کا براہ راست نظارہ ممکن ہے۔
سعودی حکومت نے غار حرا تک پورا راستہ ہموار کردیا
زائرین نجی گاڑیوں میں جا سکیں گے۔
مکہ۔31جنوری (اے پی پی):سعودی حکومت نے غار حرا کی زیارت کو آسان بنانے کے لئے پہاڑ کے نچلے حصے سے لے کر غار حرا تک پورا راستہ ہموار کردیا ہے جس کے بعد آئندہ ایام میں زائرین جبل حرا کے دامن میں واقع حرا کلچرل سینٹر سے نجی گاڑیوں کے ذریعے تقریبا 3 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے غار حرا تک جاسکیں گے۔
ماضی میں زائرین اپنے طریقے سے دشوار گزار راستوں سے گزر کر غار حرا کی زیارت کرتے تھے جس سے حادثات ہوتے رہتے تھے۔
اردو نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے 6 اداروں نے مکہ مکرمہ میں غار حرا (جبل حرا) کی زیارت کو آسان بنانے کے لئے مل کر کام کیا ہے۔
ان اداروں میں مکہ رائل کمیشن، وزارت ثقافت کے ماتحت آثار قدیمہ کا ادارہ، سعودی وژن کے ماتحت ضیوف الرحمن پروگرام، محکمہ سیاحت، مکہ میونسپلٹی اور محکمہ شہری دفاع شامل ہیں۔جبل حرا کے پاس ایک سینٹر قائم کیا گیا ہے جہاں زائرین کو غار حرا کی زیارت کے حوالے سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
نوٹ: ان پہاڑوں کے تعارف کا بنیادی مقصد یہ ہے تاکہ زائرین مکہ کو اچھی طرح اس بات کا علم ہو جائے کہ مکہ مکرمہ میں موجود ہر پہاڑ کی ایک الگ تاریخ ہے اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا ان پہاڑوں سے خاص تعلق رہا ہے ۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb