Skip to content
کائنات کی وسعتوں میں جلوۂ خدا :
"اللہ اکبر” ایک کائناتی صدا
ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
1۔ انسانی تجسس اور کائناتی اسرار : روح کا سوال اور آسمان کا راز:
انسانی شعور کا آغاز ہی حیرت اور تجسس سے عبارت ہے۔ بچپن میں جب پہلی بار نظر آسمان پر پڑتی ہے، تو ٹمٹماتے ستارے اور چاند کی چاندنی ایک انوکھی دنیا کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہ تجسس عمر کے ساتھ بڑھتا ہے، اور انسان اپنے گرد و پیش کے اسرار، زمین کی گہرائیوں، اور آسمان کی بلندیوں کو جاننے کی پیاس محسوس کرتا ہے۔ رات کے آسمان پر بکھری کہکشائیں، اجرام فلکی کی پر اسرار گردش، اور شہاب ثاقب کی لمحاتی روشنی نے ہزاروں سالوں سے شاعروں، فلسفیوں اور سائنسدانوں کو یکساں طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ آسمانی منظرنامہ محض بصری تجربہ نہیں، بلکہ یہ انسان کو اس وسیع پس منظر کا ادراک دلاتا ہے جس میں اس کا ننھا سا وجود سانس لے رہا ہے۔ صدیوں تک، کائنات کا علم ہماری آنکھوں کی بینائی اور چند ابتدائی آلات تک محدود رہا۔
لیکن گزشتہ چند صدیوں، خصوصاً آخری چند دہائیوں میں، سائنسی علم اور ٹیکنالوجی نے برق رفتاری سے ترقی کی ہے۔ گیلیلیو کی پہلی دوربین سے لے کر ہبل، جیمز ویب اور دیگر خلائی رصد گاہوں تک، انسان نے کائنات کے حجابوں کو ایک ایک کر کے ہٹانا شروع کیا ہے۔ اس سائنسی سفر نے ہمیں ایک ایسی کائنات سے متعارف کروایا ہے جس کی وسعت، عظمت، اور پیچیدگی ہمارے ابتدائی تصورات سے کہیں زیادہ عظیم اور حیران کن ہے۔ یہ سائنسی مشاہدات، جو بظاہر مادے اور توانائی کے قوانین کی خالص مادی کھوج معلوم ہوتے ہیں، درحقیقت ایک ایسے مافوق الفطرت سوال کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جو انسانی شعور کی گہرائیوں میں پنپتا ہے: اس سب کے پیچھے کون ہے؟ اس عظیم الشان نظام کا خالق کون ہے؟
جتنا زیادہ ہم کائنات کو سمجھتے ہیں، اتنا ہی ہمیں اپنی محدودیت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر نئی دریافت ایک نیا راز کھولتی ہے اور ایک نیا سوال سامنے کھڑا کر دیتی ہے۔ سائنس ہمیں "کیسے” کے بارے میں بتاتی ہے، لیکن "کیوں” اور "کس نے” جیسے بنیادی سوالات کی طرف اشارہ ہی کر سکتی ہے۔ یہیں پر، کائنات کی بے پناہ وسعت اور اپنے وجود کی حقیر سی حیثیت کے سامنے کھڑے ہو کر، انسانی دل سے بے اختیار وہ ابدی صدا بلند ہوتی ہے جو کائنات کے سب سے بڑے سچ کا اعلان ہے: "اللہ اکبر” اللہ سب سے بڑا ہے۔
یہ کلمہ، جو ہر مسلمان کی زبان پر جاری رہتا ہے، اذانوں کی گونج بنتا ہے، اور نمازوں میں دہرایا جاتا ہے، محض چند الفاظ کا مجموعہ یا ایک مذہبی نعرہ نہیں ہے۔ یہ خالق کائنات کی مطلق برتری، بے مثال عظمت، اور ہر شے پر اس کے کامل اور نافذ کنٹرول کا اعلان ہے۔ یہ تسلیم ہے کہ اس کائنات کی وسعتیں کتنی ہی کیوں نہ ہوں، اس کا نظام کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، اور اس کے راز کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، ان سب کا خالق، مالک اور مدبر ایک ہی ہستی ہے جو ان سب سے ماورا اور عظیم تر ہے۔ یہ مضمون کائنات کی وسعتوں، اس کے حیران کن نظم و ضبط، اسے تھامے رکھنے والی قوتوں، اور اس کے آغاز و انجام پر ہونے والی جدید سائنسی دریافتوں کی روشنی میں اسی حقیقت کو واضح کرنے کی ایک کاوش ہے کہ یہ تمام مشاہدات درحقیقت "اللہ اکبر” کی صداقت، گہرائی، اور کائناتی معنویت کا زندہ ثبوت ہیں۔ یہ ایک سفر ہے سائنس سے معرفت الٰہی تک کا۔
2۔ کائناتی پیمانے: زمین سے ماوراء ایک لامتناہی سفر:
ہمارا کائناتی سفر ہمیشہ اس ننھے سیارے، زمین سے شروع ہوتا ہے۔ یہ سبز اور نیلا گولا، جو ہماری تمام تر زندگی، تاریخ، اور تمدن کا مرکز ہے، کائنات کے عظیم سمندر میں ایک ننھے سے کنکر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ زمین اپنے نظام شمسی کا ایک سیارہ ہے، جو سورج کے گرد گردش کرتا ہے۔ ہمارا سورج، جو زمین سے حجم میں 13 لاکھ گنا بڑا ہے، ستاروں کے جم غفیر میں ایک اوسط حجم اور چمک کا حامل ستارہ ہے۔ کائنات میں ایسے ستارے موجود ہیں جو سورج سے ہزاروں گنا بڑے اور لاکھوں گنا زیادہ روشن ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہمارا سورج ایسا ہے جیسے سمندر میں ریت کا ایک ذرہ۔ یہ ستارے، جو پلازما (گیسوں کی ایک انتہائی گرم حالت) کے عظیم کرّے ہیں، اپنی کشش ثقل کے تحت قائم ہیں اور ان کے اندر ہونے والے ایٹمی تعاملات سے توانائی خارج ہوتی ہے۔ ان کی عمریں اربوں سال پر محیط ہو سکتی ہیں، لیکن سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ وہ بھی فانی ہیں اور بالآخر اپنی زندگی کا اختتام کریں گے، یا تو ایک پرتشدد سپرنووا دھماکے میں یا خاموشی سے ٹھنڈے ہوتے ہوئے سفید بونے (White Dwarf) میں۔
یہ ستارے شاذ و نادر ہی تنہا پائے جاتے ہیں۔ اربوں، کھربوں ستارے کشش ثقل کے زیر اثر اکٹھے ہو کر کہکشاؤں (Galaxies) کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ہماری اپنی کہکشاں، جس کا نام "ملکی وے” (Milky Way) ہے، ایک خوبصورت چکر دار کہکشاں ہے جس میں اندازاً 100 ارب سے 400 ارب ستارے شامل ہیں۔ ملکی وے کا قطر تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے۔ نوری سال ایک حیران کن پیمانہ ہے۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی، جو کائنات کی تیز ترین چیز ہے اور ایک سیکنڈ میں 300,000 کلومیٹر کا سفر کرتی ہے، ایک پورے سال میں طے کرتی ہے۔ تصور کیجیے: ایک لاکھ سال تک اس بے پناہ رفتار سے سفر کرنے پر جو فاصلہ بنتا ہے، وہ ہماری کہکشاں کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کا فاصلہ ہے۔ اور ہم اس وسعت میں محض ایک ذرہ ہیں۔
لیکن کائنات صرف ایک کہکشاں تک محدود نہیں۔ ہبل اور جیمز ویب جیسی خلائی دوربینوں نے ہمیں کائنات کے ان گنت حصوں میں جھانکنے کا موقع دیا ہے اور ہمیں دکھایا ہے کہ کہکشائیں بھی تنہا نہیں ہیں بلکہ کشش ثقل کے زیر اثر بڑے بڑے گروہوں (Clusters) اور جھرمٹوں کی صورت میں پائی جاتی ہیں۔ ان کہکشائی کلسٹرز میں سینکڑوں، ہزاروں، اور بعض اوقات لاکھوں کہکشائیں شامل ہو سکتی ہیں۔ ہمارا اپنا ملکی وے، اینڈرومیڈا کہکشاں (Andromeda Galaxy) اور تقریباً 50 دیگر چھوٹی کہکشاؤں کے ساتھ مل کر "لوکل گروپ” (Local Group) نامی ایک نسبتاً چھوٹے کلسٹر کا حصہ ہے۔
اور یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہ کلسٹرز مزید بڑے ڈھانچوں میں منظم ہوتے ہیں جنہیں سپر کلسٹرز (Superclusters) کہا جاتا ہے۔ ہمارا لوکل گروپ ‘لانیاکیہ’ (Laniakea) نامی ایک بہت بڑے سپر کلسٹر کا حصہ ہے، جس کا تخمینہ قطر 520 ملین نوری سال ہے اور جس میں اندازاً ایک لاکھ کہکشائیں شامل ہیں۔ یہ سپر کلسٹرز کائنات کے بڑے پیمانے کے ڈھانچے (Large-Scale Structure) کا حصہ ہیں جو ایک وسیع، جال نما شکل اختیار کیے ہوئے ہیں جسے "کاسمک ویب” (Cosmic Web) کہتے ہیں۔ یہ ویب کہکشاؤں کے گھنے جھرمٹوں (nodes)، انہیں ملانے والے دھاگوں (filaments)، اور درمیان میں وسیع و عریض خالی جگہوں (voids) پر مشتمل ہے۔ یہ ساخت بتاتی ہے کہ کائنات بے ترتیب نہیں، بلکہ ایک حیران کن اور پیچیدہ نظم و ضبط کے تحت ترتیب دی گئی ہے۔ ماہرین فلکیات نے اس کاسمک ویب میں اس سے بھی بڑی ساختیں دریافت کی ہیں، جیسے ‘ہرکیولیز–کورونا بوریالِس گریٹ وال’ (Hercules–Corona Borealis Great Wall) جس کی لمبائی کا اندازہ 10 ارب نوری سال سے زیادہ ہے۔
یہ اعداد و شمار، یہ پیمانے، انسانی ذہن کے لیے محض ناقابل فہم ہیں۔ 10 ارب نوری سال کا فاصلہ کیا معنی رکھتا ہے جب ہم اپنی ہتھیلی پر موجود فاصلے کو آسانی سے ناپ سکتے ہیں؟ ہماری تمام تر سائنسی ترقی اور آلات کی طاقت کے باوجود، ہم صرف "قابل مشاہدہ کائنات” (Observable Universe) کے ایک حصے کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ دائرہ ہے جہاں سے روشنی بگ بینگ کے آغاز سے اب تک ہم تک پہنچ سکی ہے، اور اس کا تخمینہ قطر 93 ارب نوری سال ہے۔ 93 ارب نوری سال! یہ وہ حد ہے جہاں ہماری بصارت (آلات کے ذریعے) ختم ہو جاتی ہے۔ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ صرف وہ حصہ ہو سکتا ہے جسے ہم دیکھ پاتے ہیں۔ حقیقی کائنات اس سے کہیں زیادہ بڑی، شاید لامحدود بھی ہو سکتی ہے، جس کے بارے میں ہمارا علم ابھی صفر ہے۔
یہ کائنات کی بے پناہ، لامتناہی محسوس ہونے والی وسعت، اس کے پیمانے جو انسانی فہم کو چیلنج کرتے ہیں، اور انسانی علم و رسائی کی یہ حدود ہمیں اپنی حقیقی حیثیت کا احساس دلاتی ہیں۔ ہم اس وسیع و عریض سلطنت میں ایک ننھے سے نقطے سے بھی کم تر ہیں۔ یہ ادراک، یہ عاجزی، ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہم ایک ایسی ہستی کی مخلوق ہیں جس کا اقتدار اس تمام وسعت پر حاوی ہے۔ وہ ذات جس نے عدم سے اس کائنات کو وجود بخشا، وہ اس کے ایک ایک ذرے، ایک ایک کونے، اور اس کی ہر حد سے واقف ہے۔ اسی کی سلطنت ہر جگہ قائم ہے۔ انسان اور جن اپنی تمام تر ترقی اور طاقت کے باوجود اس کی مقرر کردہ حدود سے باہر نہیں نکل سکتے۔ یہ سائنسی مشاہدات چیخ چیخ کر ایک ہی حقیقت کا اعلان کرتے ہیں: "اللہ اکبر”۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اس وسعت سے، اس کے پیمانوں سے، ہمارے تصورات سے کہیں زیادہ بڑا۔ یہ کلمہ اس وقت ایک سادہ فقرہ نہیں رہتا، بلکہ کائنات کے وسعت کدے میں گونجتی ہوئی ایک ابدی حقیقت بن جاتا ہے۔
3۔ نظمِ کائنات اور خالقِ یزداں کی کارفرما قوتیں:
کائنات محض بکھرے ہوئے اجرام فلکی کا ایک مجموعہ نہیں۔ یہ ایک انتہائی منظم، دقیق، اور پیچیدہ نظام ہے۔ سیارے اپنے ستاروں کے گرد متعین مداروں میں گھومتے ہیں، ستارے کہکشاؤں کے مراکز کے گرد اربوں سال کا چکر لگاتے ہیں، کہکشائیں کلسٹرز اور سپر کلسٹرز میں بندھی ہوئی ہیں، اور کاسمک ویب ایک حیران کن پیٹرن میں پھیلا ہوا ہے۔ اس نظم و ضبط، اس ترتیب اور اس توازن کے پیچھے کیا طاقت کارفرما ہے؟ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کا یہ سارا ڈھانچہ اور اس کی حرکات چار بنیادی قوتوں کے مرہون منت ہیں: مضبوط نیوکلیائی قوت (ایٹم کے مرکزے کو باندھ کر رکھتی ہے)، کمزور نیوکلیائی قوت (تابکاری میں کردار ادا کرتی ہے)، برقی مقناطیسی قوت (ایٹم بناتی ہے اور روشنی کی وجہ ہے)، اور کششِ ثقل (اجرام فلکی کو ایک دوسرے سے کھینچتی ہے)۔ بڑے پیمانے پر، جیسے ستاروں، کہکشاؤں، اور کلسٹرز کی سطح پر، کششِ ثقل سب سے زیادہ حاوی قوت ہے، اور یہی کائنات کے بڑے ڈھانچوں کی تشکیل اور بقا کی ذمہ دار ہے۔
تاہم، جدید فلکیات کے دقیق مشاہدات نے ایک گہرا اور پراسرار سوال کھڑا کیا ہے۔ کہکشاؤں کی گردشی رفتار کو جب صرف نظر آنے والے مادے (ستارے، گیس، دھول) کی کشش ثقل سے موازنہ کیا گیا، تو یہ معلوم ہوا کہ کہکشائیں بہت تیزی سے گھوم رہی ہیں اور انہیں کشش ثقل کے اثر سے کب کا بکھر جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح، کہکشائی کلسٹرز میں کہکشاؤں کی رفتار اور کلسٹر کے مجموعی ماس کا حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ جتنا مادہ نظر آ رہا ہے، وہ کلسٹر کو ایک ساتھ رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس "گمشدہ ماس” کے معمّے کو حل کرنے کے لیے سائنسدانوں نے ایک "غیر مرئی” مادے کے وجود کا اندازہ لگایا جسے "تاریک مادہ” (Dark Matter) کہا جاتا ہے۔ تاریک مادہ روشنی یا کسی بھی برقناطیسی تابکاری سے براہ راست تعامل نہیں کرتا، اس لیے ہم اسے دیکھ نہیں سکتے، چھو نہیں سکتے، یا کسی معمول کے آلے سے محسوس نہیں کر سکتے۔ اس کا وجود صرف اس کی کشش ثقل کے اثرات سے جانا جاتا ہے جو نظر آنے والے مادے اور روشنی پر پڑتے ہیں۔ سائنسی شواہد (جیسے کہکشاؤں کی گردشی منحنی، کہکشائی کلسٹرز میں کشش ثقل کا لینسنگ، اور کاسمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ کا تجزیہ) نہایت قوی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ کائنات کے کل "مادہ-توانائی” بجٹ میں سے نظر آنے والا مادہ (ستارے، سیارے، گیس) صرف 5فیصد ہے۔ تقریباً 27فیصد تاریک مادہ پر مشتمل ہے، اور حیرت انگیز طور پر، تقریباً 68فیصد ایک اور پراسرار وجود، "تاریک توانائی” پر مشتمل ہے۔
تاریک توانائی (Dark Energy) کا تصور بیسویں صدی کے اواخر میں اس حیران کن مشاہدے کے بعد سامنے آیا کہ کائنات صرف پھیل ہی نہیں رہی، بلکہ اس کے پھیلاؤ کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔ یہ توقعات کے بالکل برعکس تھا، کیونکہ کشش ثقل کو تو پھیلاؤ کو آہستہ کرنا چاہیے تھا۔ اس تیز رفتار توسیع کی توجیہ کے لیے سائنسدانوں نے ایک ایسی قوت یا توانائی کا تصور پیش کیا جو کشش ثقل کے برعکس کام کرتی ہے اور اجرام فلکی کو ایک دوسرے سے دور دھکیلتی ہے۔ یہ تاریک توانائی ہے۔
پس، سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کا تقریباً 95فیصد ایک ایسے وجود پر مشتمل ہے جس کی اصل ماہیت اور وجہ ہمارے علم سے باہر ہے۔ یہ تاریک مادہ اور تاریک توانائی ہی وہ ان دیکھے معمار اور قوتیں ہیں جو کائنات کے ڈھانچے کو تشکیل دے رہے ہیں، اسے بکھرنے سے بچا رہے ہیں، اور اس کے پھیلاؤ کی رفتار کو متعین کر رہے ہیں۔ ماہرین فلکیات ان کے وجود کو ان کے اثرات کی بنیاد پر تسلیم کرتے ہیں، مگر ان کی اصل حقیقت جاننے سے قاصر ہیں۔ یہ سائنسی تحقیق کی انتہا پر ایک گہرا اعتراف عاجزی ہے، جہاں سائنس کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حقیقت ہمارے تجرباتی فریم ورک سے کہیں زیادہ وسیع اور پراسرار ہے۔
یہاں اہم سوال پیدا ہوتا ہے: یہ پراسرار قوتیں کس کے حکم پر کارفرما ہیں؟ تاریک مادہ کو وہ کشش ثقل کس نے عطا کی؟ تاریک توانائی کو وہ دافعانہ خصوصیت کس نے دی؟ کون ہے جو ان ان دیکھے، طاقتور، اور کائنات پر حاوی وجود کو کنٹرول کرتا ہے؟ سائنس ان قوتوں کے افعال کی پیمائش کر سکتی ہے اور ان کے رویے کے قوانین وضع کر سکتی ہے، لیکن ان قوتوں کی بنیاد، ان کا منبع، اور اس سارے نظام کا مقصد سائنس کی تجرباتی رسائی سے باہر ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں الہامی تعلیمات، خصوصاً اسلام، پکار پکار کر ایک حقیقت کا اعلان کرتی ہیں۔ قرآن مجید واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ یہ تمام کائنات، اس کی وسعتیں، اس کا نظم، اور اس میں کارفرما تمام قوتیں ایک ہی خالق کی تخلیق ہیں، اور وہی اسے تھامے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں ارشاد فرماتا ہے:
"بے شک اللہ نے آسمانوں اور زمین کو تھام رکھا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں، اور اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھام سکے۔ بے شک وہ بڑا بردبار، بڑا بخشنے والا ہے۔” (سورۃ فاطر: 41)
یہ آیت کریمہ کائنات کے قیام اور بقا کا راز نہایت وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ آسمانوں (جو کائنات کی وسعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں) اور زمین کا اپنے مقام پر قائم رہنا اللہ کے "تھامنے” (یُمسِکُ) کی وجہ سے ہے۔ سائنس جن قوتوں کو کشش ثقل، تاریک مادہ، اور تاریک توانائی کہتی ہے، وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی اس صفت "یُمسِکُ” کے عملی مظاہر اور قوانین ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے وہ کائنات کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ قوتیں اس کے اذن اور حکم کے تابع ہیں۔ اللہ کا ایک اسم "القیوم” ہے، جس کا مطلب ہے وہ ذات جو خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والی ہے۔ کائنات کا وجود، اس کا نظم، اور اس کا بقا اسی صفت "القیوم” کا مظہر ہے۔ وہی ہے جو اس تمام عظیم نظام کو لمحہ بہ لمحہ تھامے ہوئے ہے، اسے بکھرنے اور فنا ہونے سے بچائے ہوئے ہے، اور اس کے قوانین کو نافذ کیے ہوئے ہے۔ تاریک مادہ اور تاریک توانائی کا پراسرار وجود، جو کائنات کا غالب حصہ ہیں مگر ہمارے حواس اور آلات کی گرفت سے باہر ہیں، اللہ کے "الباطن” (پوشیدہ) ہونے کی ایک جھلک دکھاتے ہیں، جبکہ ان کے کائنات پر نافذ اثرات اس کے "الظاہر” (ظاہر) ہونے کی دلیل ہیں۔ "اللہ اکبر” کا مفہوم یہاں مزید گہرا ہوتا ہے: وہ ذات جو ان تمام بنیادی، پراسرار، اور کائناتی قوتوں سے بھی بالا و برتر ہے جو کائنات کا نظام چلا رہی ہیں۔ اس کی قدرت ہمارے سائنسی تصورات سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔
4۔ کلمۂ امر اور تکوینِ کائنات: نغمۂ کن فیکون کی بازگشت
کائنات صرف ایک موجود نظام ہی نہیں، بلکہ اس کا ایک آغاز بھی ہے۔ بگ بینگ (The Big Bang theory)، جو فلکیات میں سب سے زیادہ مقبول اور شواہد سے تائید شدہ نظریہ ہے، بتاتا ہے کہ کائنات تقریباً 13.8 ارب سال پہلے ایک انتہائی گرم، کثیف، اور غیر معمولی نقطہ (Singularity) سے شروع ہوئی۔ اس نقطے پر ہمارے معلوم طبیعی قوانین ٹوٹ جاتے ہیں اور سائنس کی رسائی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ نظریہ ایک ایسے آغاز کی طرف واضح اشارہ ہے جو ہمیشہ سے موجود نہیں تھا۔ جو چیز ہمیشہ سے موجود نہ ہو، اسے وجود میں لانے والی کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے جو خود ہمیشہ سے ہو اور اس وقت و مکان (Spacetime) سے ماورا ہو جس کا آغاز بگ بینگ سے ہوا ہے۔
یہاں قرآن مجید کا وہ ابدی فرمان گونجتا ہے جو اللہ کی تخلیق کی بے مثال طاقت اور آسانی کو بیان کرتا ہے:
ترجمہ : "بے شک ہمارا فرمان کسی چیز کے لیے جب ہم اس کا ارادہ کرتے ہیں تو یہی ہوتا ہے کہ ہم اسے کہیں ‘ہو جا’ بس وہ ہو جاتی ہے۔” (النحل: 40)
یہ "کن فیکون” کی طاقت اس ذات کی ہے جو وقت، مکان، مادے یا توانائی کی محتاج نہیں۔ کائنات کا آغاز بگ بینگ کے سائنسی ماڈل میں نظر آنے والے "سنگولیریٹی” نامی نقطے پر ہوا، لیکن اس نقطے سے پہلے کیا تھا؟ سائنس خاموش ہے۔ وہ نقطہ بذات خود ہمارے طبیعی قوانین کی حدود سے باہر ہے۔ یہیں پر "کن فیکون” کی طاقت جلوہ گر ہوتی ہے۔ وہ ذات جس نے عدم سے کائنات کو وجود بخشا، جس نے وقت اور مکان کو تخلیق کیا، وہی اللہ اکبر ہے۔
کائنات میں صرف قوانین کا ہونا کافی نہیں۔ ان قوانین کی بنیادیں اور طبیعی مستقلات (Physical Constants) جن پر یہ کائنات قائم ہے، زندگی اور پیچیدگی کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کشش ثقل کی قوت ذرا سی مختلف ہوتی، تو ستارے یا تو بنتے ہی نہیں یا بہت تیزی سے بجھ جاتے؛ اگر ایٹمی قوتیں مختلف ہوتیں تو وہ عناصر (جیسے کاربن اور آکسیجن) وجود میں نہ آتے جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ پروٹون اور نیوٹرون کے ماس کا معمولی فرق، کائنات میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی مقدار، اور کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار – یہ سب اتنی باریک بینی سے Fine-tuned ہیں کہ اگر ان میں معمولی سا بھی فرق ہوتا، تو یہ کائنات اس طرح وجود میں نہ آ سکتی تھی جیسا کہ یہ آج ہے۔ کائنات کے اس "فائن ٹیوننگ” (Fine-tuning) کے پہلو نے سائنسدانوں کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ کیا یہ محض اندھا اتفاق ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی عظیم دانشمندی اور منصوبہ بندی کارفرما ہے؟ سائنس اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دے سکتی۔
لیکن ایمان کہتا ہے کہ یہ "الحکیم” (سب سے زیادہ حکمت والا) اور "الخالق” (تخلیق کرنے والا) کی کارسازی ہے۔ قوانین فطرت دراصل اللہ کے حکم اور حکمت کا اظہار ہیں۔ ان قوانین کی نغمگی میں اس کی قدرت بولتی ہے۔ یہ فائن ٹیوننگ اس کے علم محیط اور بے مثال تدبیر کا ثبوت ہے۔ وہ ذات جو "الاول” (سب سے پہلے) ہے، جس سے پہلے کچھ نہیں تھا، اور جو "الآخر” (سب سے آخر میں) ہے، جس کے بعد کچھ نہیں رہے گا۔ کائنات کا آغاز اور اس کا ممکنہ انجام (جیسے بگ کرنچ یا بگ فریز کے نظریات) سب اس کی قدرت اور ارادے کے تابع ہیں۔ یہ کائنات، جو فانی ہے اور ایک آغاز رکھتی ہے، اس ذات کی محتاج ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس کی ذات، اس کی صفات، اس کا ارادہ – یہ سب اس کائنات سے کہیں بالا، کہیں عظیم تر ہیں۔
یہاں پھر "اللہ اکبر” کی صدا بلند ہوتی ہے۔ وہ ذات جو صرف موجودات میں سب سے بڑی نہیں، بلکہ جو کائنات کے وجود، اس کے آغاز، اس کے ہر قانون، اور اس کی ہر باریک بینی کی بنیاد ہے۔
5۔ کائنات کی سرحدیں اور انسانی حدود کی عاجزی
کائنات کی بے پناہ وسعتیں، اس کے پراسرار مادے اور توانائی، اس کے قوانین کی گہرائی، اور اس کا نامعلوم بیشتر حصہ واضح طور پر انسانی علم اور فہم کی حدود کو نمایاں کرتا ہے۔ ہم نے بلاشبہ حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ہم چاند پر قدم رکھ چکے ہیں، مریخ پر روبوٹ بھیج چکے ہیں، بلیک ہولز کی پہلی تصویریں لے چکے ہیں، اور اربوں نوری سال دور کی کہکشاؤں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اس دائرہ کار کے اندر ہے جو ہمارے لیے قابل رسائی بنایا گیا ہے۔ ہماری تحقیق، ہمارے آلات، اور ہمارے نظریات اسی کائنات کے اندر کام کرتے ہیں جس کے قوانین اللہ نے بنائے ہیں۔
سورۃ الرحمٰن کی آیات 33-34 اسی انسانی محدودیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو جدید سائنسی مشاہدات کے تناظر میں مزید بامعنی اور پر شکوہ ہو جاتی ہیں:
ترجمہ: "اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم سے ہو سکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، تم جہاں نکل کر جاؤ گے، وہاں اسی کی سلطنت پاؤ گے۔ تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟” (سورۃ الرحمٰن: 33-34)
"أقطار السماوات والأرض” کا مطلب ہے آسمانوں اور زمین کے کنارے، انتہائیں، یا حدود۔ یہ چیلنج بظاہر لامحدود لگنے والی کائنات میں بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سائنس نے جو "قابل مشاہدہ کائنات” کی حد بندی کی ہے، وہ ان "اقطار” کا ہی ایک سائنسی مفہوم ہو سکتا ہے۔ یہ آیات کہہ رہی ہیں کہ تم اپنی ذاتی طاقت، علم، یا ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ان حدود کو توڑ کر اللہ کی سلطنت سے باہر نہیں جا سکتے۔ کائنات کا ہر گوشہ، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اللہ کی بادشاہی ہے۔ اور سب سے اہم جملہ: "لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ” تم نفوذ (penetration)، یعنی ان حدود سے پار جا نہیں سکتے مگر "بِسُلْطٰنٍ” کے ذریعے۔ یہاں "بِسُلْطٰنٍ” کا معنی اختیار، طاقت، اذن، دلیل، یا غلبہ ہے۔ قرآنی سیاق و سباق میں یہ واضح طور پر اللہ کے اختیار، اس کے اذن، یا اس کے عطا کردہ علم اور طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
ہماری خلائی تحقیق، دور دراز سیاروں پر اترنا، یا کائنات کے گہرے مشاہدات ، یہ سب کچھ اللہ کے مقرر کردہ قوانین فطرت اور اس کے عطا کردہ علم و صلاحیتوں کے تحت ہی ممکن ہے۔ ہم اس نظام کے اندر رہتے ہوئے، اس کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق کام کر رہے ہیں، ان کی حدود کو توڑ کر اس سے باہر نہیں جا رہے۔ ہماری تمام تر سائنسی اور تکنیکی ترقی اسی "سلطان” کی مرہون منت ہے جو اللہ نے ہمیں بخشا ہے۔ یہ آیت ایک طرف مخلوق کی فطری بے بسی اور خالق پر اس کے انحصار کو انتہائی بلیغ انداز میں واضح کرتی ہے، دوسری طرف اللہ کی مطلق بادشاہی کا اعلان ہے کہ پوری کائنات، اس کی معلوم اور نامعلوم وسعتیں، اس کے مکمل اور غیر متزلزل کنٹرول میں ہیں۔ اس آیت کا چیلنج دراصل اللہ کی قدرت کی ایک ایسی نشانی ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں۔ یہ ایک بار پھر "اللہ اکبر” کے مفہوم کو قوی کرتا ہے کہ اس کی سلطنت، اس کا اختیار، ہر حد، ہر سرحد، اور ہمارے ہر تصور سے بالا ہے۔ وہ "اکبر” ہے، اتنا بڑا کہ کائنات کی وسعتیں بھی اس کی عظمت کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔
6۔ کائناتی ترنم ، قلبی آہنگ اور عظمت اِلٰہی کا اعلان
جدید سائنس، جب کائنات کی گہرائیوں میں جھانکتی ہے اور اس کے اسرار سے روبرو ہوتی ہے، تو وہ بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں اسے اپنی حدود کا ادراک ہوتا ہے۔ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی ناقابل فہم نوعیت، کائنات کا آغاز جس کی وضاحت ہمارے طبیعی قوانین نہیں کر سکتے، قوانین فطرت کا حیران کن فائن ٹیوننگ، اور کائنات کے حتمی مقدر جیسے سوالات سائنس کی تجرباتی اور نظریاتی رسائی سے باہر نکل جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سائنسی عاجزی جنم لیتی ہے۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کائنات کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے، اور شاید کبھی مکمل طور پر جان بھی نہ سکیں۔
تاریخ کے بہت سے عظیم سائنسدانوں نے اس کائناتی نظم، اسرار، اور عظمت کے سامنے گہری حیرت اور عاجزی کا اظہار کیا ہے۔ کارل سیگن، مشہور ماہر فلکیات اور مفسر، نے کہا تھا کہ "کہیں نہ کہیں، کوئی نہایت حیرت انگیز چیز دریافت ہونے کی منتظر ہے۔” یہ "حیرت انگیز چیز” کیا ہے جو مادی کائنات کے مشاہدے سے پرے ہے؟ آرتھر ایڈنگٹن، ایک اور ممتاز ماہر فلکیات، کے الفاظ میں، "کائنات نہ صرف ہماری سوچ سے زیادہ عجیب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ عجیب ہے جتنا ہم سوچ بھی سکتے ہیں۔” یہ عجیب پن اور اسرار ہی ہمیں اس حقیقت کی طرف لے جاتا ہے کہ اس مادی کائنات کے پیچھے ایک غیر مادی، مافوق الفطرت حقیقت موجود ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ، جو عموماً مادی کائنات کے قوانین پر مرکوز رہے، نے بھی اپنی مشہور کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم” میں سوال اٹھایا: "کائناتی قوانین میں زندگی کی چنگاری کس نے پھونکی؟” یعنی وہ اولین قوت کیا تھی جس نے اس عظیم نظام کو حرکت دی اور اس میں زندگی کے لیے موزوں قوانین وضع کیے؟ یہ سوال گویا "کن فیکون” کی ابدی گونج کا سائنسی اعتراف ہے۔ البرٹ آئن سٹائن، بیسویں صدی کے سب سے بڑے ماہر طبیعیات، نے کائنات میں موجود نظم و ضبط اور خوبصورتی کو دیکھ کر کہا تھا کہ "جتنا میں سائنس کا مطالعہ کرتا ہوں، اتنا ہی خدا پر میرا یقین بڑھتا ہے۔” وہ اس نظم میں ایک عظیم تر عقل اور منصوبہ بندی کا ثبوت دیکھتے تھے۔ جارج لومیٹر، جو بگ بینگ نظریے کے بانیوں میں سے تھے اور ایک کیتھولک پادری بھی تھے، نے بجا طور پر کہا کہ "مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں، دونوں سچائی ہی کی تلاش میں ہیں۔” سائنس مادی حقیقت کو جانتی ہے، مذہب حتمی حقیقت کو۔
یہ تمام سائنسدان، اپنے اپنے انداز اور فکری پس منظر میں، کائنات کے مشاہدے سے پیدا ہونے والی حیرت اور عاجزی کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ ایک ایسی حقیقت کا ادراک کر رہے تھے جو معلوم قوانین سے بالا اور گہری تھی۔ یہی وہ ادراک ہے جو ایک مؤمن کو کائنات کی وسعتوں اور اس کے اسرار کے سامنے کھڑے ہو کر "اللہ اکبر” کہنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ سائنسی شہادتیں اس حقیقت کو تقویت دیتی ہیں کہ یہ وسیع و عریض، منظم، دقیق، اور پراسرار کائنات کسی اندھے اتفاق کی پیداوار نہیں، بلکہ ایک برتر، دانشمند، غالب، اور مطلق طاقت والی ہستی کی صناعی ہے۔
7۔ "اللہ اکبر”: کائناتی ترنم اور قلبی آہنگ
قرآن مجید بارہا انسان کو کائنات کے مشاہدے اور اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ فصلت میں فرماتا ہے:
ترجمہ : "ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق (کائنات کے کناروں) میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفوس (وجود کی گہرائیوں) میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی (اللہ) حق ہے۔” (سورۃ فصلت: 53)
کائنات کی ہر نئی دریافت، چاہے وہ کتنی ہی بڑی کہکشاں ہو، کتنی ہی گہری سائنسی تفہیم ہو، یا کتنی ہی پیچیدہ حیاتیاتی ساخت ہو، دراصل آفاق اور انفس میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانی ہے۔ اور یہ نشانیاں ہمیں ایک ہی حقیقت کی طرف لے جاتی ہیں: وہ جو ان سب کا خالق، مالک، اور مدبر ہے، وہی حق ہے، وہی عبادت کے لائق ہے۔
جب ہم کائنات کی وسعتوں کو دیکھتے ہیں، اس کے اربوں کہکشاؤں، کھربوں ستاروں، ان دیکھے مادے اور توانائی کے غلبے، اور اس کے دقیق قوانین کو سمجھتے ہیں، تو یہ تمام مشاہدات دراصل "اللہ اکبر” کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جس ہستی نے یہ سب کچھ بنایا ہے، وہ ہماری تمام حدود، ہمارے تمام تصورات، اور اس ساری کائنات سے ماورا، عظیم تر ہے۔ اس کی قدرت لامتناہی، اس کا علم محیط (جو ظاہر اور باطن سب کو جانتا ہے)، اور اس کی مشیت ہر ذرے پر جاری و ساری ہے۔
"اللہ اکبر” محض ایک زبانی اقرار یا مذہبی نعرہ نہیں ہے۔ یہ کائنات کے سامنے انسان کے عاجزی کا اظہار ہے۔ جب ایک مؤمن نماز میں کھڑے ہو کر پہلی بار "اللہ اکبر” کہتا ہے، تو وہ گویا کائنات کی ساری وسعتوں اور اپنے تمام تر دنیاوی تعلقات، فکروں، پریشانیوں، خواہشات، اور اپنی انا کی قید سے آزاد ہو کر اس ذات کے سامنے حاضر ہوتا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ میں کتنا ہی چھوٹا اور کمزور ہوں، میرا علم کتنا ہی محدود ہو، میرا رب کتنا بڑا اور غالب ہے۔ اس کلمہ کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے، بلکہ یہ ہے کہ اللہ ہے، اور وہ ہر چیز سے زیادہ بڑا ہے، اتنا بڑا کہ اس کی عظمت کا احاطہ ممکن نہیں۔ یہ اقرار کائنات کی عظمت اور اس کے اسرار کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے بھی عظیم تر خالق کی طرف رجوع کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ کلمہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری اصلیت کیا ہے اور ہماری منزل کہاں ہے۔
8۔ اختتام: آیاتِ کائنات اورعلم اور یقین کی منزل: کائناتی نغمہ اور انسانی تسبیح
نگاہ جب کائنات کی خاموش وسعتوں میں بھٹکتی ہے، جہاں اربوں ستاریں دہکتے ہیں، کہکشاؤں کے عظیم سیلاب رقصاں ہیں، اور وہ پراسرار قوتیں کارفرما ہیں جو اس سارے نظام کو تھامے ہوئے ہیں،تو روح کی گہرائیوں سے ایک سوال ابھرتا ہےکہ آخر کون سی ہستی اس عظیم الشان نظام کو چلا رہی ہے؟ یہ لامتناہی ساز کس کے امر پر گامزن ہے؟
یہ محض بے ترتیب اتفاق نہیں، نہ فطرت کا بے لگام بہاؤ ہے۔ بلکہ یہ ایک بااختیار، علیم و حکیم، اور مطلق قوت کے مالک کی فعّال تجلی ہے۔ وہی جو ہر شے پر محیط ہے، ذرے ذرے کی خبر رکھتا ہے، کائنات کی ہر آہٹ سنتا ہے، اور اسے اپنے اٹل حکم اور بے پناہ طاقت سے تھامے ہوئے ہے۔ اور یہی ادراک "اللہ اکبر” کی گہرائی ہے۔ یہ صرف زبان کا اقرار نہیں، بلکہ روح کا عرفان، دل کا سجدہ، اور عقل کی وہ معراج ہے جو حقیقتِ عظمیٰ کو پا لیتی ہے۔ یہ کلمہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کائنات کی ہر موج، علم کا ہر راز، فطرت کا ہر قانون، اور وجود کا ہر مظہر، سب ایک ہی عظمت ذات باری تعالیٰ کی تسبیح میں مستغرق ہیں۔ آسمان و زمین، ان کی معلوم و نامعلوم آبادیاں، دیکھی اور ان دیکھی قوتیں ، سب اسی مالک یزداں کی کبریائی بیان کر رہی ہیں۔ جب یہ معرفت دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے، اور کائنات کی بے پناہ وسعتیں، اس کے قوانین میں پنہاں حکمتیں، اور ان دیکھے اختیار کی ہیبت روح پر آشکار ہوتی ہے، تو صرف لب ہی جنبش نہیں کرتے، وجود کا ذرّہ ذرّہ بول اٹھتا ہےاور ایک بے ساختہ صدا بلند ہوتی ہے جو کائنات کی سب سے بڑی، سب سے برتر، اور حتمی حقیقت کا اعلان ہے: "اللہ اکبر!”
یہ محض زمین کی صدا نہیں، یہ کائنات کا وہ ابدی اعلان ہے جو فضاؤں میں بکھرا ہوا، زمانوں پر چھایا ہوا،عالم بالا کا وہ کائناتی نغمہ ہے جو زمان و مکاں کی وسعتوں میں ہر سمت گونج رہا ہے۔
===تمام شد ===
Like this:
Like Loading...