Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
A time of testing and trial of leadership

قیادت کے امتحان و آزمائش کازمانہ

Posted on 20-05-2025 by Maqsood

قیادت کے امتحان و آزمائش کازمانہ

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

پہلگام حملے کو ایک ماہ کا طویل عرصہ ہوا چاہتا ہے اس لیے ٹھہر کر جائزہ لینا چاہیے کہ اس دوران کیا کچھ ہوا؟ قیادت کا امتحان انتخابی مہم کے دوران نہیں جنگ جیسی آزمائش میں ہوتا ہے مگر سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر وزیر داخلہ دہشت گردوں کو پکڑنے میں ہنوز ناکام ہے ۔ وزیر خارجہ بہکے بہکے اعترافات کرکے نت نئے تنازعات پیدا کررہے ہیں لیکن سب سے بڑاسوالیہ نشان وزیر اعظم نریندر مودی کی قائدانہ صلاحیت پر لگ چکاہے ۔ ملک کے حالتِ جنگ میں جاتے ہی گیا تو وہ اچانک پردے سے غائب ہوگئے اور سیاسی کمان عملاً وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں میں تھما دی گئی کیونکہ یہ انتخابی مہم یا دنگا فساد کا معاملہ نہیں تھا کہ جہاں مودی و شاہ پیش پیش ہوتے ۔ وزیر دفاع نے ہی دونوں مرتبہ کل جماعتی نشست کی صدارت کی ۔ وزیر اعظم نے پر اسرار طریقہ پر دونوں مرتبہ کنی کاٹ لی۔ ان کی بابت یہ تو کہا گیا کہ وہ مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن آخر انہیں حزب اختلاف کے ساتھ بیٹھنے میں کیا پریشانی تھی؟ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ہی ابتداء میں سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان اور تینوں آرمی چیفس سے بات کرنے کے بعد مودی جی کو تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کیا تھا یعنی وزیر اعظم نےاس وقت تک فوجی سربراہوں سے بھی براہِ راست ملنے کی زحمت نہیں فرمائی تھی ۔
کانگریس پارٹی جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے دوسری آل پارٹی میٹنگ سے قبل امید جتائی تھی ہے کہ کم از کم اِس مرتبہ پی ایم مودی شریک ہوکر سبھی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ان کے خدشات اس لیے تھے کیونکہ پہلی کُل جماعتی میٹنگ کو چھوڑ کر مودی جی بہار چلے گئے تھے۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے جئے رام رمیش نے کہا تھا کہ ’’ہم نے 24 اپریل کو کُل جماعتی میٹنگ کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی دن وہ میٹنگ بھی طلب کی گئی تھی۔ ہمیں امید تھی کہ وزیر اعظم اس کی صدارت کریں گے، لیکن کسی وجہ سے وزیر اعظم موجود نہیں تھے۔‘‘ انھوں نے یقین دلایا کہ اس میٹنگ میں کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی بھی شریک ہوں گے۔ جئے رام رمیش نے دہشت گردی کے خلاف حکومت ہند کے ذریعہ کی جانے والی کارروائی کو واجب ٹھہراتے ہوئے کہا تھاکہ ’’آج ملک میں اتحاد و یکجہتی کی بہت ضرورت ہے۔ کانگریس کی مجلس عاملہ نے کئی سیاسی تقاریب پر روک لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت جو بھی قدم اٹھائے گی، ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم فوج کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ نیز سیکورٹی فورسز کا حوصلہ کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ ‘‘
جئے رام رمیش سمیت پورے حزب اختلاف کو مایوس کرتے ہوئے وزیر اعظم ‘آپریشن سندور’ کے بعدوالی آل پارٹی میٹنگ سے بھی گریز کیا ۔ اس لیے صدارت مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو کرنی پڑی ۔کل جماعتی نشست میں سب سے پہلے وزیر دفاع نے آپریشن سندور کی مکمل تفصیلات پیش کیں، اس کے بعد تمام رہنماؤں نے اپنی رائے اور مفید مشورے دیئے۔ سبھی جماعتوں نے افواج کو مبارکباد دینے کے ساتھ یقین دہانی کرائی کہ ہم متحد ہیں اور فوج کی ہر کارروائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس موقع پرمرکزی وزیر کرن رجیجو نے سیاسی جماعتوں کے مشوروں کو قابل قدر قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ان پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے نشست کے بعد بتایا کہ ان کی پارٹی نے حکومت کو مکمل حمایت دی ہےمگر دہشت گردی کے خلاف ہر قدم میں شفافیت بھی لازمی ہے۔ راہل گاندھی نے موجودہ صورتحال پر پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس کی تجویز دی تاکہ تمام ارکان اپنی رائے دے سکیں اور اس اہم مسئلے پر قوم کا اعتماد مزید مضبوط ہو۔سبھی نے حکومت کی جانب سے شفاف رابطہ قائم کرنے اور جماعتوں کو اعتماد میں لینے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دے کر سراہا ۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے سکیورٹی فورسز اور حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) کے خلاف عالمی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکہ سے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی درخواست کی جائے اور پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کرانے کی سعی کی جائے۔ان بیانات سے محسوس ہوا کہ جنگ کی بابت حکومت سے زیادہ حزب اختلاف سنجیدہ ہے ورنہ وزیر اعظم اس نشست سے غیر حاضر نہ رہتے اور مقبوضہ کشمیر کے لیے جان دینے کی دہائی دینے والے وزیر داخلہ پر اسرار چپیّ نہیں سادھتے اور اسی میں خیر ہے کیونکہ وزیر خارجہ نے اپنی چونچ کھول کر مودی سرکار کو بڑی مصیبت میں گرفتار کردیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کل جماعتی نشست میں تو نہیں آئے مگر انہوں نے اسی دوران مختلف مرکزی وزارتوں اور محکموں کے سیکریٹریوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی۔ وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ وہ عوام کے منتخب شدہ نمائندے ہیں اور اس لحاظ سے سیاسی جماعتوں کی نشست کو قابلِ ترجیح ہے۔ سرکاری ملازمین تو ان کےبلانے پر کسی بھی وقت آسکتے تھے۔
وزیر اعظم سرکاری افسران کو اس لیے ترجیح دی کیونکہ وہ صرف تائید کرتے ہیں ۔ نہ سوال پوچھتے ہیں اور نہ صلاح دیتے ہیں ۔ وزیر اعظم نہ تو کسی کا جواب دینا چاہتے ہیں اور نہ مشورہ لینے میں یقین رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے سیاستدانوں کے مقابلے نوکرشاہوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا ۔ اس نشست کا مقصد قومی سلامتی سے متعلق حالات کا جائزہ لینا اور جعلی اطلاعات کے بہاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانا تھا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ملک کے لیے حساس مرحلہ کا اعتراف کرکے ادارہ جاتی رابطہ، آپریشنل تیاری اور واضح مواصلات پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ غلط معلومات اور فرضی خبروں کا پھیلاؤ نہ صرف عوامی اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس وقت گودی سمیت سوشل میڈیا پر بھگتوں نے غلط خبروں کا جو سیلاب برپا رکھا تھا اس سے پریشان ہوکر مودی جی کو یہ کہنا پڑا۔ کرن رجیجو نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور وزارت دفاع نے بھی من مانی سنسنی پھیلانے پر تنقید کرکے صرف تصدیق شدہ خبروں پر انحصار کرنے کی تاکید کی تھی ۔
سرکار کی جانب سے زبانی نصیحت سے بات نہیں بنی تووزارت اطلاعات و نشریات کومیڈیا چینلز کے لیے ایک اہم ایڈوائزری جاری کرکے دفاعی کارروائیوں اور سکیورٹی فورسز کی سرگرمیوں کے براہِ راست کوریج سے اجتناب کرنے کی ہدایت دینی پڑی ۔ وزارت نے بے لگام رپورٹنگ کوقومی سلامتی اور جوانوں کی جانوں کے لیے خطرناک بتایا ۔ تمام میڈیا چینلز، نیوز ایجنسیوں اور سوشل میڈیا صارفین کواس بابت انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوانین و ضوابط کی سختی سے پیروی کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریئل ٹائم رپورٹنگ، تصاویر یا ذرائع پر مبنی معلومات کا پھیلانے سے منع کیا گیا۔ وزارت نے حساس معلومات کا قبل از وقت افشا نادانستہ طور پر دشمن کے لیے مفید ہونے اورآپریشن کی کامیابی کو نقصان پہنچانے کا ذکر کرکے کیبل ٹی وی نیٹ ورک (ترمیمی) قواعد 2021 کے قاعدہ 6(1)(پی) کے تحت کارروائی کی یاددہانی کرا ئی کیونکہ ٹی آر پی کے چکر میں میڈیا پاگل ہوچکا تھا اور وہ اپنے اعتبار کے ساتھ ملک کے وقار سے کھلواڑ کر رہا تھا ۔
وزیراعظم نے تمام وزارتوں کو ریاستی سطح کے اداروں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنے پر زور دیا تاکہ نچلی سطح پر بھی ہم آہنگی اور چوکسی برقرار رکھی جا سکے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت ملک کے ہر کونے میں امن و امان برقرار رکھنے، اہم انفراسٹرکچر کی حفاظت اور شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔یہ سب تو عام حالات میں بھی امن عامہ کے لیے ضروری ہوتا ہے مگر وزارت داخلہ حملے والے دن سائرن بجا کر بلیک آوٹ کرنے اور ماک ڈرل کرانے میں مصروف تھا۔ پرانے زمانے میں بمبار تیاروں کو فریب دینے کی خاطر شہروں میں سائرن بجتے ہی بتیاں بجھا دی جاتی تھیں ۔ اس سے حملہ آور کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کہاں بم گرایا جائے۔ آج کل تو انٹرنیٹ اور جی پی ایس کی مدد سے منتخبہ مقام پر بمباری کرنا سہل ہو گیا ہے۔ ماک ڈرل کے بعد بنکر میں جاکر چھپنا ہوتا ہےلیکن اگر بنکر ہی نہ ہوں تو اس مشق سے کیا حاصل ؟ یہ تو کورونا میں تالی اور تھالی بجانے جیسا ہے۔ یہ سارا ناٹک امیت شاہ کے پہلگام میں پہرا نہ لگوانے کی غلطی کو چھپانے کے لیے کیا جارہا تھا کہ جس کے سبب وہ سانحہ ہوا ۔ اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنگ کا اعلان تو نہیں ہوا لیکن جنگ بندی نافذ ہوگئی اور وہ بھی ایک ایسے فرد کی جانب سے جو ہندوستان و پاکستان کے تنازع کو پندرہ سو سالہ پرانا کہتا ہے جبکہ پاکستان کو وجود میں آئے صرف 78سال بھی نہیں ہوئے ہیں ۔ اس ایک ماہ کے گوشوارے کو دیکھ کر فیض کے یہ اشعار یاد آتے ہیں؎
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں دشمن نہ ہم،کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم
منتشر دوستوں کو صدا دے سکا،اجنبی دشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb