وقف قانون ۔سپریم کورٹ سے جو امیدیں تھیں پوری نہیں ہوئی
ازقلم: شیخ سلیم
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا
آج ملک کے مسلمانوں کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی تھیں۔ سب کو اُمید تھی کہ عدالت عظمیٰ وقف ایکٹ 2025 کے خلاف دائر درخواستوں پر کوئی دوٹوک فیصلہ دے گی یا کم از کم مسلمانوں کو وقتی ریلیف فراہم کرے گی، مگر ایک بار پھر مایوسی ہاتھ آئی۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت کو مؤخر کرتے ہوئے اگلی تاریخ 25 مئی مقرر کر دی۔ اس تاخیر نے نہ صرف ایک حساس اقلیتی مسئلے کو الجھایا بلکہ مسلمانوں کے اندر ایک بار پھر وہی سوالات اور خدشات کو جنم دیا جو شہریت ترمیمی قانون (CAA) جیسے مقدمات کے دوران سامنے آئے تھے یعنی کیا مسلمانوں کے مسائل کبھی سنجیدگی سے سنے جائیں گے؟ کیا انصاف محض وعدہ ہی رہے گا؟
اس معاملے کی سماعت سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کر رہی ہے، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس سنجیو کھنہ کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ ایک معتبر قانونی ورثہ رکھتے ہیں اور وہ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کئی اہم مقدمات سن چکے ہیں۔ جسٹس سنجے کمار ایک سنجیدہ اور متوازن قانونی دماغ کے طور پر جانے جاتے ہیں، جبکہ جسٹس وشواناتھن بنیادی حقوق، پرائیویسی اور اقلیتوں کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان تینوں ججز کی موجودگی میں ملت کو اُمید تھی کہ کم از کم مقدمے کو سنجیدگی سے سنا جائے گا، لیکن ایک بار پھر تاخیر نے نااُمیدی کو جنم دیا ہے۔
وقف ایکٹ میں کی گئی ترامیم کا معاملہ صرف قانونی نہیں، بلکہ سماجی، مذہبی اور آئینی خودمختاری سے جڑا ہوا ہے۔ وقف املاک، جن کی مجموعی مالیت دو لاکھ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے، مسلمانوں کی مذہبی شناخت، تعلیمی و فلاحی ترقی اور ادارہ جاتی خودمختاری کی علامت ہیں۔ اگر ان پر حکومت کا کنٹرول بڑھتا ہے، تو یہ آئین کے آرٹیکل 25، 26 اور 30 کی روح کے منافی ہے۔ عدالت میں دائر درخواستوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے، مگر جب سماعتیں بار بار ملتوی ہوتی ہیں تو ملت کے اندر اعتماد کی دیواریں ہلنے لگتی ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک حساس اور بنیادی آئینی مسئلے کو بھی طول دیا جارہا ہے جو دیگر مسلم معاملات کو اکثر ملتا ہے تاخیر، ٹال مٹول، اور غیر یقینی۔ اس مرحلے پر صرف قانونی لڑائی کے ساتھ عوام کو بیدار رہنا ہوگا، میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور سیاسی و سماجی سطح پر یہ پیغام عام کرنا ہوگا کہ یہ مقدمہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت اور آئینی اصولوں کا ہے۔
ملت اور تمام انصاف پسند شہریوں کی طرف سے عدالت سے پُرزور مطالبہ ہے کہ وہ اس مقدمے کی حساسیت کو سمجھے، اس میں غیر ضروری تاخیر سے گریز کرے، اور ایسا فیصلہ دے جو آئین کی روح، اقلیتوں کے حقوق، اور ملک کی تکثیری شناخت کو مضبوط کرے۔ ہمیں مل کر یہ آواز بلند کرنی ہے کہ وقف بچاؤ، آئین بچاؤ، اور حق بچاؤ کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل صرف ہمارے ادارے نہیں بلکہ ہماری شناخت بھی خطرے میں ہوگی۔
