Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Bano Mushtaqs collection of short stories Heart Lamp

بانو مشتاق کے ’چراغِ دل ‘سے عالمِ ادب منور

Posted on 21-05-2025 by Maqsood

بانو مشتاق کے’چراغِ دل‘سےعالمِ ادب منور

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

بانو مشتاق کے افسانوں کا مجموعہ ‘ہارٹ لیمپ'(چراغِ دل ) نے لندن میں بین الاقوامی بوکر پرائز حاصل کرکے ہندوستانی مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔ سپاسنامہ اور ٹرافی کے ساتھ 50,000 پاونڈ یعنی 57لاکھ روپیہ سے زائد رقم بھی کوئی معمولی شئے نہیں ہے۔ معروف سماجی کارکن اور وکیل بانو مشتاق بوکر انعام سے نوازی جانے والی کنڑ کی پہلی ادیبہ ہیں ۔انہوں نے اپنی مادری زبان کا شمار بوکر اعزاز حاصل کرنے والوں کی فہرست میں شامل کردیا ۔ وزیر اعلیٰ سدا رمیاّ نے ان کے انعام کی دوڑ میں شامل ہونےپر فخرجتایا تھا اور اب تو انہوں نے کامیابی درج کراکے سارے عالم میں ریاست سمیت ملک کا نام روشن کردیا ہے۔ ادب کی دنیا میں بوکر پرائز کسی بھی معنیٰ میں نوبل اعزازسے کم نہیں ہے۔برطانیہ کے اندر 1969سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ 2005 سے انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کو بھی اس کے بین الاقوامی زمرے میں شامل کیا گیا اور اتفاق سے پہلا ہی انعام البانیہ کے عبدالقادر کو مل گیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ پچھلے سال فلسطین کی دگر گوں صورتحال کے درمیان اسرائیل کی جیل میں قید فلسطینی ناول نگار باسم خندقجی کے ناول ’قناع بلون السما‘(آسمانی رنگ کی نقاب )نے بین الاقوامی بوکر ایوارڈ برائے عربی افسانہ جیتا اور اس سال ایک ہندوستانی مسلم افسانہ نگار کو برطانیہ میں اس اعزاز سے نوازہ گیا۔

بانو مشتاق کے علاوہ ۶ ؍ مصنفین کی تخلیقات کوانعام کا اہل قرار دینے کی مسابقت میں منتخب کیا گیا تھا ۔موصوفہ نےاپنی کامیابی کے بعد اسے تنوع سے منسوب کیا ۔ ججوں کو ان کی کہانیوں میں خاندانی اور برادری کے تناؤ کی تصویر کشی نے متاثر کیا ۔ انہوں بانو مشتاق کی تخلیقات میں بذلہ سنجی اور ذہانت آمیز حاضرجوابی کی تعریف کی۔ ان کے واضح اورپرجوش انداز بیان نے انہیں متاثر کیا ۔ ججوں نے ان کہانیوں کے دل گداز اور روایتی پہلو کو بھی سراہا۔ بانو مشتاق کے قلمی نام سے خامہ فرسائی کرنے والی مصنفہ کا پورا نام’سیدہ خوشتربانو‘ہے۔ ہارٹ لیمپ میں شامل 12؍کہانیوں کو لکھنے کا سلسلہ رام مندر کی تحریک کے زمانے 1990سے شروع ہوا اور اگلے 34؍ سالوں تک جاری رہا۔ ماضی میں ان کو کرناٹک ساہتیہ اکادمی ایوارڈسے نوازہ جاچکا ہے اور ان کی ایک کہانی کا انگریزی ترجمہ پیرس ریویو نامی عالمی جریدے میں شائع ہو کر ان کی عالمی شہرت کا سبب بنا تھا۔

۷۷؍ سالہ بانو مشتاق کے کوائفِ زندگی خاصے دلچسپ ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خاندان میں تصوف کی روایت رائج تھی ۔ دادا اپنے گاؤں میں قاضی ہونے کے ساتھ اُردو اسکول میں معلم کے فرائض انجام دیتے تھے۔ اُن کے والد سینئر ہیلتھ انسپکٹرتھے، مختلف شہر وں میں ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ انٹرویو میں بانو مشتاق نے اپنے والد کے تعلق سے بتایا تھا کہ وہ بہت کشادہ ذہن اور مشترکہ تہذیب کے حامی تھے۔ شادی کے وقت اُن کی والدہ محض 12؍ سال کی تھیں اور14؍سال کی عمر میں ان کی گودخوشتر بانو سے بھر چکی تھی۔ بانو مشتاق چھ بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں ۔ والد انہیں بیٹی کے بجائے بیٹا کہہ کرپکارتے اور زندگی کے مختلف معاملات میں ان کی حمایت کرتے۔ والد کے حوصلہ افزا رویے نے انہیں زندگی اور سماج کے حوالے سے کشادہ فکری کی ترغیب دی ۔

بانو مشتاق کی تعلیم کرناٹک کے ایک مشنری اسکول میں ہوئی ۔ ادبی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل انہوں نے ایک اخبار میں ترجمان کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں اور آل انڈیا ریڈیو بنگلور سے بھی وابستہ رہیں ۔ وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پریکٹس کے ساتھ وہ سماجی کاموں میں سرگرمِ عمل ہوگئیں۔ خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی بانو مشتاق نے مساجد میں عورتوں کو نماز ادا کرنے کے سہولیات کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں حجابی طالبات کےتعلیمی حقوق کی بھی حمایت کی مگر اس کے شانہ بشانہ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سماجی سرگرمیوں نے ان کی تخلیقات میں ادب برائے زندگی کا عنصر شامل کردیا ۔ اس طرح ان کا فن زندگی کے سانچے میں ڈھلنے لگا یایوں کہا جائے کہ زندگی ادب کا قالب اختیار کرنے لگی اور اس حسین امتزاج نے ایسا ادب تخلیق کیا جس کو بوکر انعام کے ذریعہ عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔

بانو مشتاق کےازدواجی زندگی کے تنوع یا تضاد نے ان کو بہت سارے نفسیاتی تجربات و شواہد سے روبروکیا۔ اس لیے ان کہانیوں میں ایک حساس،مظلوم اور ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والی عورت چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ بانو مشتاق کے مطابق اُن کے سسرالی عزیز ان کی سماجی سرگرمیوں سے ناراض تھے کیونکہ وہ انہیں خاتون خانہ کی حیثیت سے دیکھناچاہتے تھے لیکن وہ خود متحرک سماجی زندگی کی قائل تھیں ۔ اس کشمکش میں انہیں اپنے خاوند نے کی فراخدلانہ حمایت میسر آئی ۔ انہوں نے ایک قلم کار اور سماجی کارکن کے طور پر بانو مشتاق کی حوصلہ افزائی کی مگردیگر اہل خانہ سے ناچاقی ہوگئی جو نہیں چاہتے تھے کہ وہ سماجی سرگرمیوں مثلاً احتجاج وغیرہ میں شامل ہو ں۔ اس لیے بانو مشتاق کو اپنے شوہر کے ساتھ گھر بدرہونا پڑا۔ اس کے ساتھ ایک معاشی آزمائش کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہاسن نام کے ایک قصبے میں منتقل ہو ئیں تو وہاں اُن کے شوہر نے گھڑی سازی کا کام شروع کیا اور وہ خود گھر میں سلائی کا کام کرنے لگیں ۔ آگے چل کر کچھ خوشحالی آئی تو ان لوگوں پس انداز رقم سے گھڑی کی ایک دوکان کھول لی۔ زندگی کےیہ نشیب و فراز ہی فنکار کی تربیت کرتے ہیں اور ان کے بغیر اچھے ادب کی تخلیق کا تصور محال ہے۔

بانو مشتاق نے پہلی اولاد کی ولادت کے بعد ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا تو وہیں سے ان کے اندر چھپا تخلیق کار کونپل سے باہر نکل آیااور جب وہ تناور درخت بنا تو ان کی کہانیوں کا مجموعی چراغِ دل کہلایا۔ زندگی کے تندو تیز تجربات اور مدھم و تیز روشنی جب حیات و کائنات کے سر بستہ راز بے نقاب کرتی ہے تو توانا ادب وجود میں آتا ہے۔ بانومشتاق کی کہانیوں کے اہم موضوعات کا مرکز و محور عورت کی ازدواجی زندگی ہے۔ ان کی کہانیوں میں شادی شدہ عورت کے مسائل کا بیان فطری ہے کیونکہ وہ خود ان سے نبرد آزمارہی ہیں ۔ان کے کردار روایتی طور پر وفاداری اور گھریلو زندگی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ تانیثی ادب میں عام طور پر ازدواجی زندگی کے مسائل کو عورت ہی کی ذات سے وابستہ کر کے مرد کو ان سے دور خاموش تماشائی یا ظالم و سفاک ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل کا مردوں سے براہ راست تعلق ہے اور وہ ان میں برابر کا شریک و حصہ دار ہوتا ہے۔
عصرِ حاضر کے پیچیدہ مسائل کا احاطہ کرنے کی خاطر ناول کی طوالت کو لازمی سمجھا جانے لگا ہے ۔اس لیےفکشن کی دنیا میں ناولوں کا بول بالا ہے اور افسانہ کہیں نہ کہیں تنگ دامانی کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسے میں بانو مشتاق کے افسانوی مجموعے کا بوکر انعام حاصل کرلینا اس بات کی علامت ہے کہ اچھی کہانیوں کی معنویت آج بھی باقی ہے اور ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کنڑ زبان میں لکھی جانے والی بانو مشتاق کی تخلیقات اردو، ہندی،تمل اور ملیالم میں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔بوکر انعام حاصل کرتے وقت انہوں نےاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ، ’’یہ کتاب اس یقین کی غماز ہے کہ کوئی بھی کہانی کبھی چھوٹی نہیں ہوتی، انسانی تجربات کے خوش رنگ تانے بانے میں ہر دھاگے کی اہمیت ہوتی ہے۔‘‘ اس موقع پراپنی طویل تجربات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا "ایک ایسی دنیا میں جو اکثر ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے، ادب ان گمشدہ مقدس مقامات میں سے ایک ہے جہاں ہم ایک دوسرے کے ذہنوں میں رہ سکتے ہیں، اگرچہ کہ صرف چند صفحات کے لیےسہی ۔”

بین الاقوامی بوکر پرائز 2025 کے ججوں کی مجلس کے سربراہ میکس پورٹر نے تقریب تقسیم ِ اسناد میں کہا کہ : "یہ فہرست)کتب) انسانیت کے بارے میں دباؤ اور حیرت انگیز تبادلۂ خیال کا ایک وسیلہ اور فکشن کے ترجمہ کا جشن ہے۔ یہ چشم کشا کتابیں پوچھتی ہیں کہ ہمارے لیے کیا امکانات ہیں۔ ہم کیسے مل جل کر ماتم و عبادت کرسکتے ہیں یا زندہ رہ سکتے ۔ وہ کبھی ان سوالات کے گنجلک، مایوس کن اور کبھی معروضی و پرامید جوابات فراہم کرتی ہیں‘‘۔پورٹر کے مطابق "ایک ساتھ مل کر وہ ایک معجزاتی عینک بناتے ہیں جس کے ذریعے ایسے انسانی تجربے کو دیکھا جا سکتا ہے جو واقعی پریشان کن اور دردناک حد تک خوبصورت ہوتے ہیں ۔ان میں سے ہر ایک دنیا کے لیے خوبصورت، عالمگیر اور انتہائی مخصوص کھڑکیاں ہیں ۔” بوکر انعام کی رقم مصنف اور مترجم کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردی جاتی ہے۔ اس موقع پر’چراغِ دل ‘ کی مترجم دیپا بھستی نے خوش ہوکر کہا: "یہ میری خوبصورت زبان کی کتنی خوبصورت جیت ہے۔” سچ تو یہ ہے کہ اس بیش قیمت اعزاز کے لیے بانو مشتاق اور دیپا بھستی کی جوڑی زبردست مبارکباد کی مستحق ہے۔

1 thought on “بانو مشتاق کے ’چراغِ دل ‘سے عالمِ ادب منور”

  1. ملک اکبر نے کہا:
    22-05-2025 وقت 6:18 صبح

    بہت خوب ۔شکریہ عمدہ تحریر

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb