Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Najeeb ur Rehman Khan

`مولانا الطاف حسین حالی کی زندگی موجودہ دور کے طلبہ و نوجوانوں کے لیے ایک جامع لائحۂ عمل`

Posted on 29-05-2025 by Maqsood

`مولانا الطاف حسین حالی کی زندگی موجودہ دور کے طلبہ و نوجوانوں کے لیے ایک جامع لائحۂ عمل`

ازقلم ✍️ نجیب الرحمن خان
( لیکچرر انجمن جونیئر کالج کھام گاؤں )
9657233166

قوموں کی فکری و اخلاقی ترقی میں چند افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے عہد کے محض نمائندہ نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی انہی نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے قلم، فکر اور عمل کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو بیداری تعلیم، تہذیب اور اخلاق کی طرف متوجہ کیا۔ آج کے طلبہ و نوجوانوں کے لیے حالی کی زندگی اور فکر ایک مکمل لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔

`پیدائش اور خاندان`
مولانا حالی کی ولادت 1 جنوری 1837ء میں پانی پت (موجودہ ہریانہ، بھارت) کے ایک شریف، مذہبی اور تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی۔ ان کا اصل نام الطاف حسین تھا، پہلے "خستہ” تخلص استعمال کیا اور بعد میں غالب کے سمجھانے پر "حالی” تخلص رکھ لیا۔ ان کے والد خواجہ ایزؔو بخش ایک دیندار انسان تھے، ان کا تعلق انصار برادری سے تھا جب کہ والدہ سادات میں سے تھیں لیکن حالی نے کم عمری میں ہی والد کو کھو دیا، جس کی وجہ سے انہیں کم سنی میں محنت و مشقت اور فکری پختگی کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا حالی کی ولادت ہی کے بعد ان کی والدہ کا دماغ محمل ہو گیا تھا اور وہ ابھی نو برس ہی کے تھے کہ والد بزرگوار بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی پرورش بنیادی طور پر ان کے بڑے بھائی امدؔاد حسین اور بہنوں نے کی۔ بھائی اور بہنوں نے ان کی تربیت، حفاظت اور ذہنی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔
بڑے بھائی نے ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں بہت مدد فراہم کی۔ ان کا کردار خاص طور پر اس وقت اہم ہوا جب حالی دہلی جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ مالی حالات اجازت نہیں دیتے تھے، مگر بڑے بھائی نے ان کی خواہش کا احترام کیا اور حد استطاعت تعاون کیا۔ اسی بھائی نے حالی کو عملی زندگی کی ابتدائی تربیت دی اور ان میں ذمہ داری، خودداری اور غیرت کے اوصاف پیدا کیے۔

`تعلیم و ابتدائی زندگی`
حالی نے ابتدائی تعلیم مقامی مکتب سے حاصل کی جہاں سب سے پہلے آپ نے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد عربی، فارسی، منطق اور حدیث و تفسیر کی بنیادی تعلیم حاصل کی بعد از مزید علم حاصل کرنے کے لیے دہلی چلے گئے جہاں انہیں اس وقت کی علمی و ادبی فضا نے متاثر کیا۔ انہوں نے مولوی امام بخش صہبائی، قاری ممتاز علی، سید جعفر علی، مولوی ابراہیم انصاری، مولوی نوازش علی، مرزا اسد اللہ خان غالب جیسے اساتذہ سے کسبِ علم کیا۔ لیکن تعلیم کا باقاعدہ سلسلہ وسائل کی کمی کے سبب متاثر ہوتا رہا، جس کا ذکر حالی نے اپنی خودنوشت "یادگارِ حالی” میں بھی کیا ہے۔۔ ان کی علمی پیاس نے انہیں خود خواندہ بنا دیا، اور یہی شوق بعد ازاں انہیں سر سید احمد خان کے اصلاحی مشن سے جوڑتا ہے۔ حالی کی تعلیمی زندگی میں دو پہلو نمایاں ہیں: ایک، رسمی تعلیم کا فقدان؛ دوسرا، خود سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کا جذبہ۔

`حالی کی فکری، ادبی و تعلیمی خدمات`
مولانا حالی نے اردو ادب کو نئی فکری سمت دی۔ وہ بیک وقت شاعر، نثر نگار، سوانح نگار، نقاد اور مصلح تھے۔ ان کی تصانیف "مقدمہ شعر و شاعری”، "حیاتِ جاوید” (سر سید کی سوانح) اور "مسدس حالی” جیسے علمی و ادبی آثار نے نئی نسل کو شعور، تعلیم، اخلاق اور قومی غیرت سے آشنا کیا۔
"مقدمہ شعر و شاعری” محض ادبی تنقید نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ، تعلیم کی افادیت، اور قوم کی فکری تعمیر کا منصوبہ ہے۔ حالی کے نزدیک شاعری کا اصل مقصد انسان کی اخلاقی و ذہنی تربیت تھا۔ انہوں نے تعلیم کو قوم کی زندگی قرار دیا۔ یہی نہیں بلکہ "مقدمہ شعر و شاعری” (1893ء) کو اردو تنقید کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ حالی نے شاعری کو محض تفریح نہیں بلکہ اصلاحِ اخلاق کا ذریعہ قرار دیا:

> "شاعری کا اصل مقصد قوم کی اخلاقی تربیت اور شعور کی بیداری ہونا چاہیے۔”
(حالی، مقدمہ شعر و شاعری)

"تعلیمی نظریہ”
"حالی کا عقیدہ تھا کہ تعلیم صرف نوکری کے لیے نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ انسان بنانے کے لیے ضروری ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد کردار سازی، فکری آزادی، اور خدمتِ خلق تھا۔”
(حوالہ: ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اردو میں تنقیدی روایت)

"سوانح نگاری اور نثر”
حالی کی حیاتِ جاوید، سر سید احمد خان کی سوانح ہے جو صرف سوانح نہیں بلکہ ایک فکری دستاویز ہے۔ اس میں انہوں نے سر سید کی تعلیمی جدوجہد اور فکری تحریک کو مفصل بیان کیا۔ (حوالہ: حالی، حیاتِ جاوید)

`موجودہ دور کے طلبہ و نوجوانوں کے لیے حالی کا پیغام و لائحہ عمل`
آج جب ہمارا نوجوان طبقہ بے یقینی، فکری انتشار اور تعلیمی زوال کا شکار ہے، مولانا حالی کا پیغام پہلے سے زیادہ مؤثر اور ضروری بن گیا ہے۔

۱. "علم کی جستجو”
حالی کی پوری زندگی علم کی تلاش میں گزری۔ وہ کہتے ہیں:

> "تعلیم وہ چراغ ہے جو قوموں کو اندھیروں سے نکالتا ہے۔” ان میں علمی ذوق و شوق فطری تھا۔ سترہ سال کی عمر میں ان کا نکاح کر دیا گیا جب کہ وہ مزید پڑھنا چاہتے تھے۔ حالی نے نکاح کے بعد بھی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور دلی گئے اور وہیں ایک مدرسہ میں عربی و فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کیں۔

پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو کی ملازمت کے دوران انگریزی زبان اور اس کے لٹریچر کے ساتھ مناسبت پیدا ہو گئی۔ اس طرح انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل کر لیا.

آج طلبہ کو چاہیے کہ رسمی تعلیم سے آگے بڑھ کر مطالعہ، تحقیق اور تنقیدی شعور کو اپنائیں۔

۲. "اخلاقی اصلاح”
حالی نے ہمیشہ تعلیم کے ساتھ اخلاق کی اہمیت پر زور دیا۔ آج کے نوجوان کو صرف ڈگری یافتہ نہیں بلکہ بااخلاق انسان بننے کی ضرورت ہے۔

۳. "قومی و سماجی شعور”
حالی نے قوم کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے نظمیں لکھیں جیسے ”مدوجزر اسلام“ جو عام طور پر ”مسدس حالی“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ اس نے مقبولیت اور شہرت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی سال تک برصغیر کے طول و عرض میں جو کتاب قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ شائع ہوئی وہ ”مسدس حالی“ تھی۔
آج کے نوجوان کو اپنے معاشرے، تاریخ اور مسائل سے آگاہ ہونا چاہیے ساتھ ہی اس کا حل بھی پیش کرنا چاہیے۔

٤. "کردار سازی”
حالی نے کردار کو تعلیم سے زیادہ اہم قرار دیا۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوان کو چاہیے کہ کردار، دیانت، محنت اور سچائی کو اپنا شعار بنائے۔

٥. "خدمتِ خلق”
حالی کے نزدیک علم کا مقصد ذاتی فائدہ نہیں بلکہ خلقِ خدا کی خدمت تھا۔ موجودہ دور میں نوجوان طبقہ اپنے علم و صلاحیت کو معاشرتی بہتری کے لیے بروئے کار لائے۔

۶۔ "نکاح میں تاخیر نہیں بلکہ جلدی”

آپ نے بلوغت کے فوری بعد یعنی 17 سال کی عمر میں نکاح کرکے طلبہ و نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ فحاشی و بے حیائی سے اپنے دامن کو بچانے کے لیے سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر سختی سے عمل کریں اور اسی کے ساتھ اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھے۔

۷۔ "تعصّب ان میں نام کو نہ تھا۔”
ہر قوم و ملت کے آدمی سے یکساں خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے حامی تھے۔ جب کبھی ہندو مسلم نزاع کا کوئی واقعہ سنتے تھے انہیں بہت رنج و افسوس ہوتا تھا۔ آج طلبہ و نوجوان اس صفت کو اپنے اندر پیدا کریں۔

مولانا الطاف حسین حالی صرف ماضی کی شخصیت نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا فکری ستون ہیں۔ آج کے طلبہ و نوجوان اگر حالی کی تعلیمات، افکار اور عملی زندگی کو سامنے رکھیں تو نہ صرف وہ اپنی ذات کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ایک بیدار، ترقی یافتہ اور بااخلاق معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ مولانا حالی کی زندگی اور فکر موجودہ دور کے لیے ایک جامع لائحۂ عمل فراہم کرتی ہے۔ ان کی تعلیمی جدوجہد، اخلاقی تعلیم پر زور، اور اصلاحی جذبہ آج کے نوجوانوں کو ایک بامقصد، بااخلاق اور باعمل انسان بنانے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حالی کے افکار کو اپنے ذاتی مطالعہ، نصاب، اداروں اور قومی پالیسیوں میں جگہ دیں تاکہ نوجوان نسل ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو۔

آپ کی وفات 31 دسمبر 1914ء کو پانی پت میں ہوئی۔ کل 77 سال کی عمر پائی۔

4 thoughts on “`مولانا الطاف حسین حالی کی زندگی موجودہ دور کے طلبہ و نوجوانوں کے لیے ایک جامع لائحۂ عمل`”

  1. نجیب الرحمن خان نے کہا:
    29-05-2025 وقت 9:45 شام

    الحمد للہ

    جواب دیں
    1. ملک اکبر نے کہا:
      29-05-2025 وقت 10:18 شام

      حالی پر بڑا ہی عمدہ مضمون پڑھنے ملا۔آپ نے مختصر مگر جامع انداز سے ان کا اور انکی خدمات ،صفات و ادبی موقف کا تعارف کرایا ۔شکریہ

      جواب دیں
      1. نجیب الرحمن خان نے کہا:
        29-05-2025 وقت 11:26 شام

        جزاک اللّہ

        جواب دیں
  2. ناہیدہ جبین نے کہا:
    30-05-2025 وقت 1:07 صبح

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ , ماشاءاللہ تبارک اللہ , پڑھ کر بہت خوشی ہوئی اور معلومات بھی حاصل ہوئی,
    اللہ تعالی اور ترقی دے اور کامیابی دے, آمین ثم آمین

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb