Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
In the bunkers of Greater Israel

گودی میڈیا ۔۔کتنی آمدنی ہے ایک جائزہ

Posted on 29-05-202529-05-2025 by Maqsood

گودی میڈیا ۔۔کتنی آمدنی ہے ایک جائزہ

ازقلم:شیخ سلیم ،ویلفیئر پارٹی آف انڈیا

ڈیڑھ سو سال پہلے صرف اخبار ہوا کرتا تھا پھر ریڈیو آ گیا پھر 1927 میں ٹیلیویژن آ گیا، صحافت اور ٹیلی ویژن ایک عرصے سے خبروں کا اہم ذریعہ رہے ہیں، مگر حالیہ 10-15 برسوں میں سوشل میڈیا نے بھی اس میدان میں قدم جما لیا ہے۔ اس کے باوجود آج بھی ہمارے ملک میں پرنٹ میڈیا اور ٹیلی ویژن کا دائرہ سب سے وسیع ہے۔ لوگ روز شام کو ٹی وی دیکھتے ہیں، پرائم ٹائم شوز، فلمیں اور مزاحیہ پروگرام ان کی روزمرہ کی عادت بن چکے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی کمائی کا اصل ذریعہ اشتہارات ہوتے ہیں، جن میں سرکاری اشتہارات سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اخبار جو پانچ روپے میں بکتا ہے، اس کی چھپائی کی لاگت 25 سے 30 روپے تک ہوتی ہے، اور یہ فرق اشتہارات سے پورا کیا جاتا ہے۔ اگر کسی میڈیا ادارے کو سرکاری اشتہار نہ ملے تو اس کا مالیاتی وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر میڈیا حکومت کے خلاف کچھ بولنے سے ہچکچاتا ہے۔
ٹیلی ویژن چینلز اشتہارات کے لیے ٹی آر پی بڑھانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں، اور اس دوڑ میں وہ مرچ مصالحے سے بھری اور اکثر جھوٹی خبریں نشر کرتے ہیں تاکہ ناظرین کی توجہ حاصل ہو۔ حالیہ بھارت-پاکستان تناؤ کے دوران مختلف چینلز نے فیک نیوز کی بھرمار کر دی جیسے کہ پاکستان کے شہروں پر قبضے کی خبریں یا لیڈروں کے فرار ہونے کے جھوٹے دعوے۔ ایسی سنسنی خیز خبروں کا مقصد صرف اور صرف عوام کی دلچسپی حاصل کرنا اور اشتہارات کے ذریعے زیادہ آمدنی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جو چینل زیادہ دیکھا جائے، اسے زیادہ اشتہارات ملتے ہیں، اس سے مالکان اور اینکرز کو زیادہ پیسہ ملتا ہے۔ نتیجتاً ایک ایسا نظام بن گیا ہے جہاں سنجیدہ اور حقیقت پر مبنی صحافت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

2014 سے پہلے میڈیا حکومت پر تنقید کرنے کی آزادی رکھتا تھا، مگر اس کے بعد سے میڈیا بڑی حد تک حکومت کا ترجمان بن چکا ہے۔ اب میڈیا نہ حکومت سے سوال کرتا ہے، نہ عوامی مسائل کو اُجاگر کرتا ہے۔ وہ حزبِ اختلاف پر حملے کرتا ہے، میڈیا راہول گاندھی سے سوال کرتا ہے اور ہر مسئلے کا الزام ماضی کی حکومتوں، خاص طور پر پنڈت نہرو پر ڈال دیتا ہے۔ میڈیا کا اصل کام بے روزگاری، کسانوں کی خودکشیاں، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری، اور عوامی مسائل کی خبر دینا ہے، مگر موجودہ گودی میڈیا ان سب حقائق پر پردہ ڈال کر حکومت کی مدح سرائی اور عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا اپنی اصل ذمہ داری سے ہٹ چکا ہے اور صرف نفع بخش کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔
بھارت کی الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری، خاص طور پر ٹیلی ویژن کا شعبہ، ملک کی تفریحی اور خبروں کی دنیا میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 2023 میں بھارتی ٹیلی ویژن انڈسٹری نے اشتہارات اور سبسکرپشن کی مد میں تقریباً 696 ارب روپے (تقریباً 8.4 ارب امریکی ڈالر) کی آمدنی حاصل کی۔ تاہم، سال بہ سال کی بنیاد پر ٹی وی اشتہارات میں 6 فیصد کمی دیکھنے کو ملی، جبکہ سبسکرپشن آمدنی میں صرف 2 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس، ڈیجیٹل میڈیا نے 2024 میں میڈیا انڈسٹری پر غلبہ حاصل کرتے ہوئے کل میڈیا آمدنی کا 32 فیصد حصہ اپنے نام کیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ناظرین کی توجہ اب آن لائن پلیٹ فارمز کی طرف تیزی سے منتقل ہو رہی ہے۔

ٹیلی ویژن کی آمدنی کے بڑے ذرائع میں اشتہارات، سبسکرپشن، اور حکومتی یا بین الاقوامی تعاون شامل ہیں۔ اشتہارات کی دنیا میں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اب ٹی وی سے بازی لے لی ہے۔ 2024 میں ڈیجیٹل اشتہارات میں 17 فیصد اضافہ ہوا اور ان کی مجموعی مالیت تقریباً 700 ارب روپے تک پہنچ گئی، جو بھارت کے کل اشتہاراتی بجٹ کا 55 فیصد حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، کنیکٹڈ ٹی وی یعنی انٹرنیٹ سے جڑے اسمارٹ ٹی وی کی مقبولیت بھی بڑھتی جا رہی ہے، جن کی تعداد 2023 کے 2.3 کروڑ گھروں سے بڑھ کر 2024 میں 3 کروڑ گھروں تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم بھارت کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤسز کی کمائی کی بات کریں تو مالیاتی لحاظ سے سرفہرست دس ادارے درج ذیل ہیں:
1. ڈزنی-اسٹار (Disney-Star) جس میں اسٹار پلس، اسٹار اسپورٹس، اور علاقائی چینلز شامل ہیں، اس کی سال 2022 کی آمدنی تقریباً 14,350 کروڑ روپے رہی۔
2. سونی-زی (Sony-Zee) کا انضمام ہونے کے بعد یہ میڈیا گروپ 15,056 کروڑ روپے کی آمدنی کے ساتھ سرفہرست رہا، جن کے پاس زی ٹی وی، سونی انٹرٹینمنٹ، سونی سب اور دیگر علاقائی چینلز ہیں۔
3. سن نیٹ ورک (Sun Network) نے 3,504 کروڑ روپے کمائے، جو جنوبی بھارت میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز جیسے سن ٹی وی، جمنی ٹی وی، اور سوریہ ٹی وی کا مالک ہے۔
4. ٹائمز گروپ (Times Group)، جس کی ملکیت میں ٹائمز ناؤ، ای ٹی ناؤ اور دیگر نیوز چینلز شامل ہیں، کی آمدنی تقریباً 8,000 کروڑ روپے رہی۔
5. ویاکوم 18 (Viacom18)، جو کلرز، ایم ٹی وی، اور نکلوڈین جیسے چینلز چلاتا ہے، کی آمدنی کا تخمینہ 5,000 سے 7,000 کروڑ روپے کے درمیان لگایا گیا ہے۔
6. ریلائنس جیو (Reliance Jio) بھی میڈیا میں اپنی شراکت داری کے ذریعے، خاص طور پر ویاکوم 18 اور جیو سینما کے اشتراک سے، 7,000 کروڑ روپے کے آس پاس کی آمدنی کے ساتھ ابھرتا ہوا میڈیا کھلاڑی ہے۔
7. ٹاٹا پلے (Tata Play) اور
8. ایئرٹیل ڈی ٹی ایچ (Airtel DTH)، دونوں ڈائریکٹ ٹو ہوم خدمات فراہم کرتے ہیں، جن کی بالترتیب 4,741 کروڑ اور 4,000 کروڑ روپے کی آمدنی ہے، مگر ان کا زیادہ تر انحصار سبسکرپشن پر ہے نہ کہ اشتہارات پر۔
9. ڈی بی کارپ (DB Corp) جو بنیادی طور پر پرنٹ میڈیا کا ادارہ ہے، مگر کچھ نیوز چینلز بھی چلاتا ہے، اس کی آمدنی تقریباً 2,000 کروڑ روپے ہے۔
10. ایروس انٹرنیشنل (Eros International) جو فلموں اور او ٹی ٹی مواد پر مرکوز ہے، مگر ٹی وی میں محدود موجودگی رکھتا ہے، اس کی آمدنی تقریباً 1,500 سے 2,000 کروڑ روپے تک ہے۔( اگر اعداد و شمار میں کوئی غلطی ہے تو اوپر دیے گئے میڈیا ہاؤس صحیح اعداد و شمار ممبئی اُردو نیوز کو تحریری طور پر بتا سکتے ہیں)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنی زیادہ اور آسان کمائی گودی میڈیا کرتا ہے۔ زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا، ان ٹیلی ویژن چینلز کو دھماکے دار خبریں بتانا ہوتی ہیں، ہندو مسلم بحث کرنی ہوتی ہے، فضول مباحثے کرنے ہوتے ہیں، اور فیک نیوز پھیلانی ہوتی ہے اور بدلے میں پیسے کمانے ہوتے ہیں۔ہندی اخباروں اور گودی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف گیارہ سال سے بےانتہا نفرت پھیلانے کا کام کیا ہے اور سماج میں دراڑ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اسی نفرت کا استعمال کرکے انتخابات کے دوران مسلمانوں کو گالیاں دی جاتی ہیں اسی نفرت کی وجہ سے انتطامیہ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلاتی ہے اور گودی میڈیا بلڈوزر کی کارروائی کو بڑے شان سے ٹیلیویژن پر بتاتا ہے” گرجا یوگی کا بلڈوزر” اس طرح کی خبریں روز آپ میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں پڑھ سکتے ہیں اسی نفرت کی وجہ سے حجومی تشدد ہوتا ہے ایک مسلمان کو بھیڑ پیٹ پیٹ کر لہو لہان کر دیتی ہے مار دیتی ہے نفرتی ٹولہ ویڈیو بناتا ہے شان سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے جیسے کوئی ملک فتح کر لیا صنعتی بنیادوں پر نفرت پھیلانے کا کام گودی میڈیا نے کیا ہے۔
ویسے مجموعی طور پر، بھارتی ٹیلی ویژن انڈسٹری ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہی ہے۔ جہاں ٹی وی آج بھی لاکھوں گھروں میں سب سے اہم تفریحی ذریعہ ہے، وہیں ناظرین کی ترجیحات تیزی سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ آنے والے برسوں میں ٹی وی کی اشتہاری آمدنی پر دباؤ بڑھنے کا امکان ہے، لیکن کھیلوں کے نشریات، علاقائی مواد اور سبسکرپشن پر مبنی ماڈل کے ذریعے یہ صنعت اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ٹی آر پی کا کھیل انتہائی خطرناک ہے زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارا چینل دیکھیں، اس چکر میں میڈیا کسی بھی حد تک گرنے کے لیے تیار ہے۔ جھوٹی خبریں پھیلانے پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوتی۔
اب ایسے میں عوام کیا کرے؟ سب سے اچھا یہ ہے کہ گودی میڈیا بالکل نہ دیکھے۔ ٹیلی ویژن دیکھنے والے کم ہوں گے تو ہی یہ چینل والے تھوڑا بہت سدھر سکتے ہیں اور اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ خبروں کے لیے کچھ یوٹیوب چینلز دیکھے جا سکتے ہیں، اور جو حضرات X یا ٹوئٹر استعمال کر سکتے ہیں وہ ضرور ٹوئٹر استعمال کریں X پر آپ خبروں کے سچ یا جھوٹ کا پتہ Grok سے لگا سکتے ہیں۔یاد رکھیے، جب تک عوام ٹیلی ویژن دیکھتی رہے گی اور اس پر بھروسہ کرتی رہے گی، گودی میڈیا پیسہ کماتا رہے گا اور نفرت پھیلاتا رہے گا۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb