مودی کی گولی اور گالی کے مقابلے واجپئی کا گلے لگانا
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
پہلگام کا دہشت گردانہ حملہ اور اس کے بعد آپریشن سیندور نے ملک کے سیاسی افق کو سرخ زار کردیا ۔ اس کی مدد سےاب سیاسی مانگ میں سیندور بھرنے کا کام بھی زور و شور سے جاری ہے۔ وزیر اعظم نےرگوں میں گرم کا دوڑنے لگنا اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے لیکن خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ خون میں سیندو ر کے اثرات جب زبان تک پہنچے تو موصوف نے پاکستان کی عوام کو دھمکی دیتے ہوئے کہہ دیا کہ ’’سُکھ چین کی زندگی جیو، روٹی کھاؤ، ورنہ میری گولی تو ہے ہی۔‘‘ اس سڑک چھاپ ’اشتعال انگیز‘ بیان کو پاکستان کی جانب سے ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا گیامگر مودی جی یا ان کے بھگتوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ دونوں بھول گئے ہیں کہ 8؍سال قبل یوم آزادی کے موقع پر انہوں نے کیا کہا تھا۔آئین کی دفع 370 ختم کرنے ایک سال بعد لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے 15؍ اگست 2017 کو آزادی کے 70 ویں سالگرہ پر وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ گولی یا گالی سے نہیں بلکہ گلے لگانے سے حل ہو گا۔
نریندر مودی کےاس بیان کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے مشہور نعرہ ’ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت ‘ کا تسلسل سمجھا گیا مگر پہلگام حملہ اور آپریشن سیندور کے بعد اب چہار جانب گولی اور گالی کا بول بالا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی چونکہ پنڈت نہرو سمیت کانگریس کو مسئلۂ کشمیر کی بنیادی وجہ سمجھتی ہے اس لیے اسے ملک کے اولین وزیر اعظم کا حوالہ دینا فضول ہے مگر اٹل بہاری واجپائی تو ان کی اپنی سیاسی جماعت کے بانی صدر تھے اور آگے چل کر وزیر اعظم کے عہدے پر بھی فائز ہوئے اس لیے وہ سنگھیوں کے لیے قابلِ تقلید ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں بہت دلچسپی لی تھی۔ ان کی پرامن کوششوں میں جنگ سے بچنے پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں شدید کشیدگی کے باوجود وہ بس کے ذریعہ سفر کرکے پاکستان گئے تھے ۔ اس پر انتہا پسندوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹینک پر چڑھ کا پاکستان جانے کی صلاح دی گئی لیکن اس کی پروا کیے بغیر آنجہانی واجپئی نے ”لاہور ڈیکلریشن” کے تاریخی معاہدے کی پہل کی۔
واجپئی کو ان کے ان اقدامات کی وجہ سے بڑے دل والا رہنما کہا گیا اور انہوں نے اپنی حکمت عملی سے اسے سچ ثابت کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا 56؍انچ کی چھاتی والے وزیر اعظم کو بھی کوئی اس طرح کے خطاب سے نوازے گا یا وہ سیندور اور گولی کے لیے ہی یاد کیے جائیں گے؟ہندو پاک تعلقات کے معاملے میں اٹل جی کی ساری کوششوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان حالات میں بہتر ہونے کے بجائے اس وقت بگڑ گئے جب پاکستان کی جانب سے کرگل میں دراندازی کے سبب کشیدگی پیدا ہوگئی ۔ وہ اپنی دُھن کے ایسے پکےّ تھے کہ حالات کی ناسازی کے باوجود بھی اٹل جی نے معاملے کو طول دینے کے بجائے حل نکالنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا۔کرگل تنازع کے دوران بھی انہوں نے ہندو پاک کے درمیان مواصلات کو ختم نہیں کیا۔
اس کے برعکس اس بار لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا گیا ۔ ایسا کرتے وقت ماں کو بچے سے جد اکردیا گیا اور علاج کرنے کے لیے آنے والوں کو آپریشن تک رکنے کی مہلت بھی نہیں دی گئی۔ اس سفاکی کے مظاہرے کو میڈیا میں اچھال کر اس پر فخر جتایا گیا ۔ کیا وزیر اعظم نریندر مودی کے ’نئے بھارت‘ کا یہ نمونہ ہے؟ کیا ان کے نزدیک یہی جمہوریت کے سب سے بڑی طاقت ہونے کی علامت ہے؟مودی جی نے کہا تھا ’ جمہوریت صرف ووٹ تک محدود نہیں۔ نئےبھارت کی جمہوریت میں نظام کے بجائے عوام سے ملک چلے گا۔’ لیکن فی الحال نظام کے ساتھ عوام کو بھی اپنے سیاسی مفاد کے تحت چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے اعلان کیا تھا کہ ‘انسانیت کی خاطر جو کچھ بھی ممکن ہو وہ کشمیر کے لیے کیا جائے گا۔’ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر 2001 میں آگرہ کے اندر ہند پاک مذاکرات کا اہتمام کیا گیا ۔
اس موقع پر مشرف نے واجپئی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں پر روک لگائیں گے۔دوطرفہ بات چیت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی تھی اور کشمیر کی فضا بھی اس قدر پر امن ہونے لگی تھی کہ مرکزی حکومت نے وہاں سے فوج کی تعداد کم کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا تھا تاہم، اس پر عمل در آمد نہیں ہوسکا۔ہندو پاک کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ان مذاکرات کاایک منفرد پہلو یہ تھا کہ اس وقت کشمیر کےعلیحدگی پسند رہنماؤں نے دوطرفہ بات چیت میں کشمیریوں کو بھی حصہ دار بنانے کا مطالبہ کیا اور واجپئی نے اسے بھی تسلیم کرلیا۔ اس طرح پہلی بار کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کو بھارت پاکستان کے مابین منعقد ہونے والی بات چیت کے لیے مدعو کیا گیا۔ اس کشادہ دلی کے سبب واجپئی کی کشمیر کے تئیں حکمت عملی اور کردار کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔
واجپئی کے زمانے میں باہمی مذاکرات کو اہمیت دی گئی، اس پر سیاست نہیں کی گئی مگر اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ اس ہفتے تہران میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے کشمیر، دہشت گردی، پانی اور تجارت سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کی خاطرہندوستان کے ساتھ امن مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی گئی ۔ اس ایک پیشکش نے ہندوستان کی جانب سے بھیجے جانے والے تمام وفود کی کوششوں پر پانی یکسر پانی پھیر دیا۔ اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنی ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں ایسا جواب دیا کہ مودی سرکار کی شبیہ امن مخالف بن کر ابھرگئی ۔ انہوں نےکہاکہ ’’ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتی‘‘۔پاکستان کی جانب سے امن مذاکرات کی پیشکش پرجیسوال نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان صرف پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) کو حوالے کرنے اور دہشت گردی پر ہی بات چیت ہوگی۔ انہوں نے پاکستان سے دہشت گردوں کو بھارت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا ۔
مذکورہ بالا موقف وزیر اعظم نریندر مودی کے اس مکالمہ کی تائید کرتا ہےکہ ‘دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتی، دہشت گردی اور تجارت ساتھ نہیں چل سکتی اور پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے‘۔” اس طرح کی ڈائیلاگ بازی انتخابی مہم میں تو چلتی ہے مگر سگارتکاری میں کام نہیں آتی ۔ وزیر اعظم کو یہ فرق جتنی جلدی سمجھ میں آجائے اس میں ان کا ملک کا بھلا ہے۔ جیسوال نے 23؍ اپریل کو سندھ طاس معاہدے کی معطلی برقرار رہنے کا بھی اعادہ کیا جبکہ اس کے بہانے شملہ معاہدے کو معطل کرکے پاکستان نے امریکی مداخلت کا دروازہ کھول دیا ہے جو ہندوستان کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کا بھر پور استعمال کررہے ہیں اور ان روکنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے واجپئی کی حکمت عملی کے برخلاف ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے کشمیریوں کے زخموں پر نہ صرف نمک پاشی کی بلکہ اظہار رائے کی آزادی کو مکمل طور پر کچل کر حالات کو دھماکہ خیز بنادیا۔
وزیر اعظم نے۸؍سال قبل اپنے خطاب میں اعلان تو کیا تھا کہ : ‘ہمیں کشمیر کے معاملے پر مل کر کام کرنا ہو گا (تاکہ) کشمیر کی جنت کو ہم دوبارہ محسوس کر سکیں اور ہم اس کے لیے پرعزم ہیں۔’ پچھلے دوتین سالوں میں جنت نذیر کشمیر کے اندر سیاحوں تانتا بھی لگ گیا تھا لیکن پہلگام کی دہشت گردی کے واقعہ نےسارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اس معاملے سے بھی اگر ممبئی دہشت گرد حملے کی مانند نمٹا جاتا اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو گرفتار کرکے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جاتا تو حالات ایسے نہ ہوتے کہ کشمیر سنسان پڑ جائے اور وہاں کی معیشت تباہ و برباد ہوجائے۔ پہلے تو میڈیا میں نفرت و عناد کا طوفان اور پھر اس کے بامِ عروج پر پہنچ جانے کے بعد آپریشن سیندور نے کشمیر کے سرحدی علاقوں کو جہنم زار بنا دیا ۔
۸؍ سال قبل تو وزیر اعظم مودی نے درست کہا تھا کہ ‘جب سرجیکل سٹرائیکس ہوئیں تو دنیا نے ہماری طاقت کو تسلیم کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملک ہماری مدد کر رہے ہیں۔’ لیکن اس بارعالمی برادری میں ہندوستان تنہا رہ گیا۔ اس تنہائی کو دور کرنے کے لیے پچھلے دنوں ۷؍وفود کو دنیا بھر میں بھیجنے کی نوبت آگئی۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ صبح شام اپنے بھگتوں کو نفرت کے نشے کی گولی کھلانے کے بجائے ان کے لیےعزت و وقار کی روٹی کا بندوبست کریں ۔ وقت کی ضرورت گولی اور گالی کی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر گلے لگانے کی ہے ۔