Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
The contemporary spirituality of the Abrahamic call and knowledge

جمعہ نامہ: ابراہیمیؑ دعوت و معرفت کی عصری معنویت

Posted on 05-06-2025 by Maqsood

جمعہ نامہ:
ابراہیمیؑ دعوت و معرفت کی عصری معنویت

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے :’’کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟‘‘ جابر حکمرانِ وقت نمرودکے بحث و تکرار کابنیادیہ تھی کہ :’’ ۰۰ابراہیمؑ کا رب کون ہے؟‘‘۔ یعنی عقیدۂ توحید اورطاغوت کی ربوبیت کاانکار نزاع کا سبب تھا ۔ نمرود کی ناراضی اس کے اقتدارپر فائز ہونے کی وجہ سے بھی تھی۔ تصدیق ِ قرآنی ہے :’’ اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی ‘‘۔ نمرود اس حقیقت کوبھول گیا تھا کہ یہ عطائی اقتدار ایک دن چھِن جائے گا ۔بادشاہِ وقت کے سامنے اپنے رب کا تعارف کراتے ہوئے :’’جب ابراہیمؑ نے کہا کہ "میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے” ۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر نمرود نے ایک بے قصور کو سزائے موت دے کر ایک پھانسی کے قیدی کو رہا کردیا حالانکہ ان دونوں کونمرود نےنہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی عطا کی تھی ۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ آگے چل کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو نارِ نمرود سے بچا کریہ ثابت کردیا کہ اگر رب کائنات بچانے پر آجائے تو کوئی کسی کو ہلاک نہیں کرسکتا ۔ نمرود کی عبرتناک موت بھی اس کے رعونت آمیز دعویٰ کی تردید ہے۔ اس بودی منطق کے باوجود حضرتِ ابراہیم ؑ نے یہ نہیں سوچا کہ اسے سمجھانا فضول اور وقت کی بربادی ہے بلکہ صبرو تحمل کے ساتھ نہایت دلنشین انداز میں اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے :’’ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا”۔ اس مثال نے نمرود کو چاروں خانے چت کردیا۔ وہ اگر کہتا سورج اس کی مرضی سے نکلتا ہے تو لوگ سوچتے یہ تو نمرود کی پیدائش سے پہلے بھی مشرق سے ہی نکلا کرتا تھا ۔

اس سے بھی سنگین مسئلہ یہ تھا کہ خود کو ’سوریہ ونشی‘ یعنی سورج دیوتا کی اولاد کہہ کر اس سے اقتدارو اطاعت جوازحاصل کرنے والے نمرود کا سورج کو مطیع کہہ دینا عبد و معبود کا توازن ہی بگاڑدیتا تھا۔ فرمانِ خداوندی ہے کہ اس لیے :’’ وہ منکر حق ششدر رہ گیا‘‘۔ یہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ داعی اسلام کی ایسی دلیل کے باوجود کہ جس کو جھٹلانا ممکن نہ ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ مخاطب ایمان لے آئے۔ کسی کو حلقہ بگوش ِ اسلام کردینا داعی کی نہ تو ذمہ داری ہے اورنہ اس کے اختیار میں ہے ۔ اس لیے مخاطب کا انکارِ حق اس کی ناکامی بھی نہیں ہے۔ کتابِ حق میں نمرود کے انکار کی خاطر حضرتِ ابراہیم کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ فرمایا:’’ اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا ‘‘۔نمرود کا ظلم اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا اور اس کے دامنِ رحمت سے محرومی کا سبب بنا ۔ جگر مراد آبادی نے کیا خوب کہا ہے؎
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
یہ تو نے کہا کیا اے ناداں فیاضی قدرت عام نہیں
تو فکر و نظر تو پیدا کر کیا چیز ہے جو انعام نہیں

حضرت ِ ابراہیم ؑ کی فکر نظر ان کے معرفتِ حق کا وسیلہ بنی ۔ ارشادِ حقانی ہے:’’ابراہیمؑ کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظام سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے‘‘۔ یعنی آفاق و انفس میں پھیلی ہوئی آیاتِ ربانی عرفان و یقین کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’ چنانچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اُس نے ایک تار ا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں، پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میر ی رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہو گیا ہوتا، پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیمؑ پکار اٹھا "اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو ۔ میں نے تویکسو ہو کر اپنا رخ اُس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔

حضرت ابراہیم ؑ نے معرفت ربانی کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کے بجائے عامۃ الناس تک پہنچا دیا۔اس کے جواب میں قوم چاہیتی تو ان کی اتباع کرتی یا نظر انداز کردیتی مگر :’’ وہ لوگ ان سے جھگڑنے لگےتو انہوں نے قوم سے کہا "کیا تم لوگ اللہ کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے‘‘ انکارِ حق کے باوجود داعیٔ اسلام دل شکستہ یا مایوس نہیں ہوتا اور قوم کی دھونس اور دھمکی کے جواب میں کمال جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:’’ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہو سکتا ہے میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟‘‘ آگے ابراہیمؑ بڑی دردمندی کے ساتھ اپنی قوم کواستفہامیہ انداز میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں:

’’اور آخر میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتاؤ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو، حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے ‘‘۔ امن و آشتی کے حوالے سے یہ قائدۂ کلیہ بیان کرنے کے بعدخبردار کیا گیا کہ :’’ راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا” ۔ اس آفاقی حقیقت کے حوالے سے تصدیقِ ربانی ہے:’’ یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیمؑ کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی ہم جسے چاہتے ہیں بلند مرتبے عطا کرتے ہیں حق یہ ہے کہ تمہارا رب نہایت دانا اور علیم ہے ‘‘۔ عصرِ حاضر کےنمرود صفت حکمرانوں کے پیروکار قومِ ابراہیمؑ سےمشابہت رکھتے ہیں۔اس لیے ان کے سامنے دعوتِ حق پیش کرتے وقت اسوۂ ابراہیمیؑ کو پیش نظر رکھنا بہت مفید ہے۔

1 thought on “جمعہ نامہ: ابراہیمیؑ دعوت و معرفت کی عصری معنویت”

  1. Mohammad Mazher Farooque نے کہا:
    06-06-2025 وقت 10:55 صبح

    جزاک اللہ خیراً کثیرا
    موجودہ حالات میں اسوہ ابرہیم علیہ السلام پر عمل ناگزیر ہے ، داعی امت کے لیے مفید رہنمائی ۔

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

اشتہارات

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb