Skip to content
قربانی کا مقصد اطاعت ربانی ہے
از قلم: مفتی عمر فاروق حسامی
استاذ حدیث جامعہ اسلامیہ ازہر العلوم للبنات
خطیب: مسجد و مدرسہ اسلامیہ گلزار مدینہ
عید الاضحی کے لیے ایک دن باقی ہے، تقریبا سبھی گھروں میں قربانی کے جانور آچکے ہیں، عید کی اہم تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی امت مسلمہ بڑی عقیدت کے ساتھ اس عبادت کو انجام دینے کے لیے تیار ہے؛ لیکن ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا اس قربانی کا مقصد ہمیں معلوم ہے؟ کیوں اللہ عزوجل نے اس دن کو مسلمانوں کی دوسری بڑی عید مقرر کیا ہے؟ اور جانور کو ذبح کرنے کا عمل ہمیں کیا پیغام دے رہا ہے؟ ان سب باتوں کو اگر ہم نہیں جانیں گے تو عید الأضحى محض دل لگی اور گوشت کی تقسیم کا دن رہ جائے گا، اور اس دن کی نورانیت ہم سے مفقود ہوجائے گی۔
قربانی کی فضیلت
جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت یعنی تقریبا ستر ہزار روپیے یا اتنی قیمت کا ضرورت سے زائد سامان ایام قربانی میں موجود ہو تو ایسے شخص پر قربانی کرنا لازم اور ضروری ہے، اور قربانی کا عمل اللہ عز وجل کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا.(ترمذی، حدیث نمبر: 1493) ترجمہ: ابن آدم (انسان) نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے پاس قبول ہوجاتا ہے؛ لہذا تم اس کی وجہ سے دلوں کو خوش کرو۔ حدیث شریف سے قربانی کی فضیلت صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ یوم النحر میں اللہ تعالی کو جو عمل سب سے زیادہ پسند ہے وہ جانور کی قربانی ہے، اور جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے یہ قربانی اللہ کے یہاں قبول ہوجاتی ہے۔
ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: ائے اللہ کے رسول! یہ قربانی کیا ہے؟ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہ نے پوچھا: ہمارے لیے اس میں کیا اجر و ثواب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی، صحابہ نے پھر پوچھا ائے اللہ کے رسول! اون کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اون کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔(ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3127)
اسی طرح قربانی کی فضیلت اس بات سے بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ خون پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی بندے کی مغفرت ہوجاتی ہے، اور قیامت کے دن قربانی کا جانور ستر گنا زیادہ کرکے ترازو میں رکھا جائے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: يا فاطمة! قومي فاشْهدي أُضحيتَكِ؛ فإن لكِ بأَول قَطرة تقطر من دمها مغفرةً لكل ذنب، أما إنه يجاء بدمها ولحمها فيوضع في ميزانِك سبعين ضعفاً، فقال أبو سعيد: يا رسول الله! هذا لآلِ محمد خاصةً؛ فإنهم أهل لما خُصّوا به من الخير، أَو لآل محمد وللمسلمين عامة؟ قال: لآل محمد خاصة، وللمسلمين عامة. (الترغیب والترھیب، حدیث نمبر: 675) ترجمہ: ائے فاطمہ! اٹھو، اور اپنی قربانی کے پاس موجود رہو؛ اس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا، اور تمہارے ترازو میں ستر گنا کرکے رکھا جائے گا، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ائے اللہ کے رسول! یہ آل محمد کے ساتھ خاص ہے- اس لیے کہ وہ کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدار ہیں- یا آل محمد اور تمام مسلمانوں کے لیے عموما ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آل محمد کے لیے خصوصا اور مسلمانوں کے لیے عموما ہے۔
ان سب احادیث کو سامنے رکھ کر ہر مسلمان یہ سمجھ سکتا ہے کہ قربانی کی کیا اہمیت و فضیلت ہے، اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا تو ایسا شخص کو مسلمانوں کی صفوں میں کھڑے ہونے کا حق نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.(ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3123) ترجمہ: جس کے پاس استطاعت ہو، اور وہ قربانی نہ کرے تو ایسا شخص ہرگز ہماری عید گاہ کے قریب آئے۔
قربانی کا پس منظر
قربانی کا حکم صرف دین محمدی کے ساتھ خاص نہیں ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں نے بھی قربانی پیش کی تھی، چنانچہ ہر امت میں قربانی کا تصور رہا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْۢ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ.(الحج:34) ترجمہ: اور ہر اُمت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کردی ہے ؛ تاکہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے چوپایوں پر ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا کریں۔
لیکن ہم جو قربانی کرتے ہیں اسے سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ ہم اس قربانی کے ذریعہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہیں، جس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی مدتوں اور تمناؤں کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کی خوش خبری سنائی گئی تھی،پھر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو اللہ عز وجل کی طرف سے ایک خواب دکھایا جاتا ہے جس میں ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں، بعض روایتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ خواب تین دن لگاتار دکھایا گیا، اور انبیاء کا خواب وحی کے درجہ میں ہوتا ہے تو ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے ایک اور حکم آچکا ہے جس کے سامنے مجھے سر تسلیم خم کرنا ہوگا؛ لہذا انہوں نے اپنے لخت جگر کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو بیٹے نے تاریخی جواب دیا: یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.( الصٰفٰت:102) ترجمہ: ائے اباجان! آپ کو جو حکم ہوا ہے ، اُسے کر گزریئے ، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا ، اور حکم الہی کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری پھیرنے لگے، تو اللہ عزوجل نے آواز لگائی: قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَا، اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ.( الصٰفٰت:105) ترجمہ: یقیناً تم نے خواب کو سچا کر دِکھایا ، ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بہر حال ایک جنتی مینڈھے کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے ذبح کیا گیا، اور یہی وہ واقعہ ہے جس کی یاد میں تمام امت محمدیہ ہر سال قربانی کرتی ہے، لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قربانی کا اصل مقصد اللہ عزوجل کے حکم کو بلا چوں و چرا کے ماننا ہے، جیسا حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے اس واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے۔
اطاعت ربانی
ہر سال بڑے زور وشور کے ساتھ جانور کی قربانی تو دی جاتی ہے؛ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو قربانی کے سبق کو سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں:
(1) ہم اپنے ذہن کو اس بات کا عادی بنادیں کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ عز وجل کا ہے، یہ بات جب تک ہمارے ذہنوں میں نہیں بسے گی، اس وقت تک ہمارے اندر جذبۂ اطاعت پیدا نہیں ہوسکتا، دیکھیے! کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے، کیا ان کو اپنے بیٹے سے محبت نہیں تھی؟ کیا ان کو اپنے بیٹے کی قربانی دیتے ہوئے تکلیف نہیں ہورہی تھی؟ بے شک یہ ان کے لیے بڑی آزمائش تھی؛ لیکن ان کے نزدیک اللہ کے حکم سے بڑھ کر کسی چیز کی محبت نہیں تھی، اسی وجہ سے وہ بلا تامل اس حکم کی تعمیل کے لیے آگے بڑھ گئے، لہذا ہم بھی یہ عزم مصمم کریں کہ جو چیز بھی حکم خداوندی کو ماننے میں آڑ بنے گی، ہم اس شیء کو قربان کردیں گے۔
(2) ہمیں قربانی کرتے وقت اس بات کا بھی استحضار ہونا چاہیے کہ آج جس طرح ہم اس جانور کو قربان کررہے ہیں، اسی طرح ہم راہ خدا میں اپنے نفسانی خواہشات کو قربان کردیں گے، دلوں سے حسد، بغض، کینہ اور دشمنی کو نکال دیں گے، اور معاشرے میں اسلامی اخوت اور ایمانی محبت کو فروغ دیں گے۔
(3) ہمارا تعلق اللہ تعالی سے بحال کریں گے، جو گناہ اور کوتاہیاں ہم سے ہوئی ہیں، اللہ کی بارگاہ میں ان سب کی معافی مانگیں گے، اور آئندہ کی زندگی رب العالمین کے منشا کے مطابق گزارنے کی فکر کریں گے۔
(4) نمازوں کا اہتمام کریں گے، جس حالت میں ہوں جس جگہ بھی ہوں، نماز کو قضا ہونے نہیں دیں گے؛ کیوں کہ عید الأضحى کے موقعہ پر یہ سب سے بڑا پیغام ہے کہ جب جانور اللہ کی راہ میں گردن کٹا سکتا ہے تو کیا ہم اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بارگاہ الہی میں سر جھکا نہیں سکتے؟ اور یہاں یہ بات خوب ذہن میں رہے کہ جب دل نماز پڑھنے پر آمادہ ہو اس وقت نماز پڑھ لینا اور باقی اوقات نمازوں کو قضا کردینا یہ قربانی نہیں ہے؛ بلکہ پانچوں وقت پابندی کے ساتھ باجماعت نمازوں کو ادا کرنا بڑی قربانی ہے؛ کیوں کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے نیند کی قربانی دینی پڑتی ہے، فرصت ہو یا مشغولیت، پرسکون ہو یا پریشان حال، بہر صورت مسجد میں آنا پڑتا ہے، دل میں خوشی ہو یا غم، اذان سنتے ہی نماز کی تیاری میں مشغول ہونا پڑتا ہے، اور نفس امارہ سے روزانہ لڑنا پڑتا ہے تب جاکر یہ پابندی ممکن ہوسکتی ہے، اور اس آیت پر عمل ہوسکتا ہے کہ: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. (الأنعام:162) ترجمہ: آپ کہہ دیجئے : میری نماز ، میری عبادتیں ، میرا جینا اور میرا مرنا یقیناً اﷲ ہی کے لئے ہے ، جو تمام عالم کے پروردگار ہیں۔
اگر ہمارے اندر ابراہیم علیہ السلام جیسی اطاعت پیدا ہوگئ تو گویا ہم نے فلسفۂ قربانی کو سمجھ لیا، اور عید الأضحى کا پیغام ہم تک پہنونچ گیا، یہاں عربی کے چند اشعار لکھنا مناسب سمجھتا ہوں:
لیس العید لمن لبس الوعید ÷ إنما العيد لمن خاف الوعيد ( عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس پہنا ہے؛ بلکہ عید تو ان کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرے ہیں)
لیس العید لمن تبخر بالعود ÷ إنما العيد لمن تاب ولا يعود. ( عید ان کی نہیں جنہوں نے عود لگایا ہے؛ بلکہ عید تو ان کی ہے جہنوں نے توبہ کی، اور وہ اس گناہ کی طرف واپس نہیں لوٹیں گے)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہم قربانی کے مقصد پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اپنے اندر جذبۂ قربانی کو پیدا کریں، راہ خدا میں خواہشات کو ذبح کرنے کا عزم رکھیں، دلوں کے میل کو صاف کریں، اور اسلامی تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزاریں، اگر یہ سب باتیں ہمارے اندر پیدا ہوجائیں تو یہ عید ہمارے لیے باعث مسرت ہوگی، اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ رب العالمین ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے، اور جذبۂ قربانی ہمارے دلوں میں پیدا فرمائے، آمین
Like this:
Like Loading...
ماشاءاللہ