Skip to content
معلم: فقط معمار نہیں، معراجِ فکر و فن
ازقلم: ڈاکٹر نسرین فرحت صدیقی
(امباجوگائی، مہاراشٹر)
انسان کی ہستی میں سب سے انمول اور حیرت انگیز ورثہ اگر کوئی ہے تو وہ زبان ہے، مگر اس زبان کو سلیقے سے استعمال کرنے اور آنے والی نسلوں تک اس کا جوہر منتقل کرنے کا فریضہ صرف ایک ہستی انجام دیتی ہے: معلم۔ یہ فقط ایک پیشہ ور نہیں بلکہ نسلوں کا معمار، قوموں کا رہنما اور تہذیبوں کا محافظ ہوتا ہے۔ اس کی ہستی میں وہ جوہر پنہاں ہے جو علم کی شمع سے جہل کے اندھیروں کو دور کرتا ہے اور انسانی ذہنوں کی آبیاری کرکے انہیں عالمِ فکر و عمل کا حصہ بناتا ہے۔ یہ بات محض شاعرانہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ جس طرح سنگ تراش پتھر کو تراش کر ایک جاندار صورت میں ڈھال دیتا ہے، اسی طرح معلم اپنے فنِ تدریس سے خام اذہان کو تراش کر انہیں دانش و بصیرت کا پیکر بناتا ہے۔
سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام نے درست کہا تھا کہ کوئی بھی عظیم کام محض پیشہ نہیں ہوتا بلکہ وہ مقصدِ حیات بن جاتا ہے، اور یقیناً معلم کا کام بھی ایک جذبے، ایک تڑپ اور ایک گہرے مقصد کے تحت ہی انجام پانا چاہیے۔ پروفیسر ہمایوں کبیر معلم کو "قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا” قرار دیتے ہیں، اور جان ایڈمز اسے "انسان ساز” کہتے ہیں، کیونکہ ایک قابل معلم ہی مستقبل کی نسل کا سرپرست، قوم کا حقیقی معمار، اور مرکزی شخصیت کا حامل ہوتا ہے جس پر کسی بھی قوم کی ترقی اور نسلِ انسانی کا انحصار ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اس ملک کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے، اور اس نظام کی روح معلم کی ذات میں پنہاں ہے۔
جدید تعلیمی نظریات معلم کو محض معلومات فراہم کرنے والے سے کہیں بڑھ کر رہنما، معاون اور سہولت کار (facilitator) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ معلم کا کردار طلباء کی ہمہ جہتی ترقی کا سبب بن کر انہیں ملک کے بہترین سپوت اور ذمہ دار شہری بنانے کی بہت بڑی ذمہ داری کا حامل ہے۔ یہ ذمہ داری تبھی نبھائی جا سکتی ہے جب معلم خود بے انتہا قابلیت، گہری بصیرت اور وسیع علم کا مالک ہو۔
تعلیمی میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، جس میں نت نئی تبدیلیاں، ایجادات اور سائنسی رجحانات تیزی سے شامل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں معلم کا فریضہ صرف نصاب کی تدریس تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسے ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے طلباء کو تنقیدی سوچ (critical thinking)، مسائل کے حل (problem-solving) اور جدید لسانی رجحانات سے آراستہ کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ای اے پیرس کے بقول "قوم کا مدرس جس طرح واضح ہوگا تو قوم بھی اسی طرح واضح ہوگی، اور اس کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے”، یہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ اگر ہم بہترین قوم بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے معلم کو بھی بہترین نوعیت کا ہونا چاہیے۔
طلباء کی عادات، ذوقِ سلیم، اخلاق اور شخصیت کی تعمیر میں معلم کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اور یہی وہ شعبہ ہے جہاں معلم کی اصل فنکاری نمایاں ہوتی ہے۔ اردو زبان کے معلم کا کردار اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ ایک ایسی زبان کی تدریس کرتا ہے جو برصغیر کی ایک عظیم تہذیبی میراث ہے۔ ایک مثالی اردو معلم کو نہ صرف اردو سے فطری محبت اور رغبت ہونی چاہیے، بلکہ اسے زبان پر مکمل عبور، معیاری تلفظ، عمدہ لہجہ اور شائستہ روانی کے ساتھ گفتگو کرنے کی صلاحیت بھی حاصل ہو۔
یہ محض لسانی مہارت نہیں بلکہ اس زبان کے ادب، شاعری اور جمالیاتی اقدار سے گہری واقفیت کا تقاضا کرتا ہے۔ معلم کو مطالعے کا نہایت شوقین، تخلیقی، تقریری صلاحیتوں کا حامل، اور ادب سے گہری دلچسپی رکھنے والا ہونا چاہیے تاکہ وہ طلباء میں بھی یہ ذوق پیدا کر سکے۔ تدریس کے اس فن کو نکھارنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معلم طلباء کی نفسیات سے واقف ہو، ان کے معیاری مناسبت سے تدریسی اصولوں اور گروں کا استعمال کرے، اور تدریس کے جدید طریقوں اور تکنیکوں (جیسے انٹرایکٹو لرننگ، ملٹی میڈیا کا استعمال) سے بخوبی آشنا ہو۔
قوتِ برداشت، تحمل، ہمدردانہ سلوک، اور خوش اخلاقی معلم کی شخصیت کے وہ ستون ہیں جو اسے طلباء کا حقیقی رہبر بناتے ہیں۔ وہ خود اعتماد، صحت مند اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کا مالک ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے پیشے سے لگاؤ اور وفاداری کے ساتھ طلباء کے لیے ایک مثالی نمونہ بن سکے۔ مزید برآں، معلم کو محاوروں اور کہاوتوں کا وسیع علم رکھنے والا اور تعینِ قدر (assessment) کے مختلف طریقوں اور مرحلوں سے واقف ہونا چاہیے، تاکہ طلباء کی صلاحیتوں کو درست طور پر پرکھ سکے۔ ایک معلم ہمیشہ ایک طالب علم کی طرح رہتا ہے، جو مسلسل سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے۔
اردو کے معلم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو زبان کی تدریس کے ذریعے طلباء میں زبان سے دلچسپی کو فروغ دینے کے لیے ایسی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے جس سے طلبہ میں زبان کی مہارتیں، زبان کی چاشنی، نفسِ مضمون کی گہرائی، حسنِ بیان، صحیح تلفظ اور صحیح مخارج کو ادا کرنے کی صلاحیتیں نکھر سکیں۔ اس کے علاوہ، طلباء میں مختلف لسانی مہارتوں کو ترقی دینے کے لیے معلم کو چاہیے کہ وہ اسکول میں ہم نصابی، زائد نصابی اور بین المدرسی سرگرمیوں کا اہتمام کرے، چونکہ یہ سرگرمیاں درس و تدریس کا ایک جزوِ لاینفک ہیں۔ ماہرین تعلیم کا ایقان ہے کہ اسکول میں حاصل ہونے والا تجربہ درس و تدریس کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔
معلم کو اپنے مضمون کو دلچسپ بنانے کے لیے برجستہ اشعار اور محاوروں کا استعمال کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ عام فہم، سادہ اور سلیس زبان میں اپنے مدعا کا اظہار کرے اور کلاس میں ایسے محرکات کو روبہ عمل لائے جس سے طلباء میں خود اعتمادی کے ذریعے اظہارِ خیال کی مہارت پیدا ہو اور ان کے ذہنوں میں ایک فکری آبیاری ہو سکے۔
آج کے تیزی سے بدلتے ہوئے دور میں، جہاں ڈیجیٹل انقلاب اور لسانی تنوع کے چیلنجز سامنے ہیں، معلم کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اسے صرف ایک استاد نہیں بلکہ ایک پیشہ ور رہبر اور ایک فکری موجد بننا ہو گا جو نہ صرف نصاب پڑھائے بلکہ زندگی کی حقیقتوں اور جدید تقاضوں کے مطابق طلباء کو تیار کرے۔ اس کے لیے معلم کی پیشہ ورانہ نشو و نما کے تربیتی پروگراموں میں باقاعدہ شرکت نہایت ضروری ہے، تاکہ وہ جدید تدریسی طریقوں اور ٹیکنالوجی سے خود کو ہم آہنگ رکھ سکے۔ یہ وہ راستہ ہے جو معلم کو "برائے زندگی” سکھانے کے ساتھ ساتھ "بذریعہ زندگی” سیکھنے کا ہنر سکھاتا ہے، اور یوں وہ ایک مثالی معلم کہلانے کا حقدار ہو سکتا ہے۔
آخر میں، معلم کی عظمت کو ایک لازوال حقیقت سمجھا جانا چاہیے، کیونکہ قوموں کی تقدیر کے فیصلے انہی کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے، شرط یہ ہے کہ اسے سلیقے سے تراشا جائے – اور یہ سلیقہ معلم ہی کے ہنر میں پنہاں ہے۔ جیسا کہ معروف امریکی فلسفی اور ماہرِ تعلیم جان ڈیوی (John Dewey) نے کہا تھا: "Education is not preparation for life; education is life itself.” (تعلیم زندگی کی تیاری نہیں بلکہ تعلیم خود زندگی ہے۔) اس قول کی گہرائی میں معلم کا کردار واضح ہوتا ہے جو محض مستقبل کے لیے بچوں کو تیار نہیں کرتا بلکہ ہر روز کی تدریس کے ذریعے انہیں جینے اور سیکھنے کا فن سکھاتا ہے۔ معلم کا یہ لازوال فریضہ ہی دراصل قوموں کی ترقی اور انسانیت کی معراج کی ضمانت ہے۔
Like this:
Like Loading...