Skip to content
جی ۷ ؍ میں مودی اور سکھوں کا احتجاج
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے جب اپنے ہم منصب نریندر مودی کو جی۷؍ سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تو ان کی بانچھیں کھل گئیں کیونکہ انہیں ایک دہائی بعد کینیڈا جانے کا موقع مل گیا۔ سابق کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے حکومت ہند پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ 18 جون 2023 کو کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔مودی سرکار نے تردید کرکے الٹا کینیڈا پر سکھ علیحدگی پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کردیا۔فی الحال سکھ رہنماؤں نے اوٹاوا میں ایک زبردست مظاہرہ کیا ہے ۔ کینیڈا کی سکھ برادری کے وہ افراد احتجاج کررہے ہیں ۔ان لوگوں کوپولیس نے خبردار کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے اور ان دھمکیوں کے لیے حکومت ہند کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ریاستِ پنجاب کے مقابلے خالصتان تحریک کو بیرونی ممالک میں زیادہ حمایت مل رہی ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سارے سکھ وقتاً فوقتاً یہ مسئلہ اٹھاتے رہتے ہیں ۔ وزیر اعظم جب دورہ کرتے ہیں وہ ان کے خلاف اپنے غم وغصے کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔
سکھوں کی ویسے تو بہت سی بین لاقوامی تنظیمیں ہیں، مگر ان میں امریکہ کی’ سکھس فار جسٹس‘ کافی مشہور ہے۔ اس تنظیم کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے۔اس مقصد کےحصول کی خاطر یہ گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس تنظیم کا قیام سال 2007 میں امریکہ میں عمل میں آیا۔ اس گروپ کا مرکزی چہرہ گروپتونت سنگھ پنوں ہے، جو پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے لا گریجویٹ ہے۔ وہ امریکہ میں قانون کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ حکومت ہند نے 10 جولائی 2019 کو اس پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس تنظیم کا علیحدگی پسند ایجنڈا ہے۔اس کے ایک سال بعد 2020 میں خالصتانی گروپوں سے وابستہ نو افراد کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد تقریباً 40 خالصتان نواز ویب سائٹس بند کر دیاگیا۔
گروپتونت سنگھ پنوں نے خالصتان کی حمایت میں ’ریفرنڈم 2020‘ کرانے کی مہم شروع کرکےکینیڈا اور دیگر کئی حصوں میں رائے شماری کروائی لیکن اسے بین الاقوامی سیاست میں کوئی خاص اہمیت نہیں ملی لیکن اسی سال امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کمپلیکس کے اندر واقع اکال تخت کے سربراہ نےآپریشن بلیو اسٹار کی برسی کے موقع پر اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے اعلان کردیا کہ خالصتان کا مطالبہ جائز ہے۔صحافیوں سے بات چیت کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’سکھوں کو وہ جدوجہد یاد ہے، دنیا میں کوئی سکھ ایسا نہیں ہے جو خالصتان نہ چاہتا ہو۔‘ پچھلے سال گروپتونت سنگھ نے امریکہ میں حکومتِ ہندپر جان لیوا حملے کی سازش رچنے کا الزام بھی لگادیا اور اس کی سماعت جاری ہے۔ اس بابت امریکہ میں ہندوستانی خفیہ ادارے کے ایک سابق افسر وکاش یادو پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ وفاقی پراسیکیوٹرز کی جانب سے اضافی فرد جرم میں پہلی بار اس پر منی لانڈرنگ، سازش اور قتل کے لیے کرائے کے قاتلوں کے منصوبے کی قیادت کے الزامات عائد کیے گئے ۔ اس کا مبینہ ساتھی نکھل گپتا بروکلین کی جیل میں قید ہے۔ وکاش یادو کو قانون نافذ کرنے والے حکام نے اس منصوبے کا ’ماسٹر مائنڈ‘ کہہ کر مفرور قرار دیاہے۔
سرزمینِ ہند پر ہر سال آپریشن بلیو اسٹار کی برسی کے موقع پر امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں خالصتان کامطالبہ کیا جاتا ہے اور اس سال بہت شدت سے اٹھایا گیا۔ امسال 6 جون کو آپریشن بلیوا سٹار کی 41 ویں برسی کے موقع پر لوگوں میں اتنا زیادہ جوش تھا کہ سری اکال تخت صاحب کے قائم مقام جتھیدار کلدیپ سنگھ گڑگج سکھ برادری کے لیے روایتی طور پر سری اکال تخت صاحب کے فصیل سے اپنا پیغام جاری نہیں کرسکے۔ انہوں نے ارداس (دعا) کے دوران ہی اور سکھ برادری سے پنجاب کو میدان جنگ نہ بننے دینے کی اپیل کرنے پر اکتفاء کرلیا ۔ موصوف نے جیل میں قید والونت سنگھ راجوانہ سمیت دیگر سکھوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی فوج نے ہمارے گرودواروں پر حملہ کیا تھا۔ اس دوران کئی سکھ مارے گئے تھے جن کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔۔ ذرائع ابلاغ میں اس کی خبریں شائع ہوئیں مگر مودی سرکار گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر خاموش تماشائی بنی رہی۔ ایسا رویہ اگر کوئی دوسری حکومت اختیار کرتی تو زعفرانی آسمان سر پر اٹھالیتے مگر یہاں تو اپنے ہونٹ اور دانت بھی اپنے ہی ہیں اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں تو کریں کیا اور بولیں تو بولیں کیا؟
گولڈن ٹیمپل میں ہر سال سنت بھنڈارن والے زندہ باد اور خالصتان کے حق میں نعرے لگتے ہیں لیکن انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس طرح کب تک چلے گا؟کیا ان جذبات کی لا متناہی ان دیکھی کرنا ممکن ہے؟ آپریشن بلیو اسٹار کے ردعمل میں 31 اکتوبر 1984 کو، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ محافظوں بے انت سنگھ اور ستونت سنگھ نے قتل کر دیا تھا۔پچھلے سال منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں بے انت سنگھ کے بیٹے سربجیت سنگھ کی کامیابی کس بات کی علامت ہے؟ کیا حریت پسند سکھ مبلغ امرت پال سنگھ، کا 18ویں لوک سبھا کے منتخب ہوجانا عوامی جذبات کا عکاس نہیں ہے۔ سربجیت سنگھ خالصہ نے پنجاب کی فرید کوٹ کی سیٹ جیتی جبکہ ، آسام کی ڈبرو گڑھ کی جیل میں بند امرت پال نے کھڈور صاحب سے کامیابی حاصل کی۔ سربجیت نے عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے کرم جیت سنگھ انمول کو 70,053 ووٹوں کے فرق سے شکست دی، امرت پال نے کانگریس پارٹی کے کلدیپ سنگھ زیرا سے 197,120 زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی تو کہیں مقابلے پر ہی نہیں تھی۔
’وارث پنجاب دے‘ تنظیم کے سربراہ اور اب رکن پارلیمان امرت پال سنگھ کھلے عام اعلان کرتے ہیں کہ ’میں خود کو انڈین نہیں سمجھتا۔ میرے پاس جو پاسپورٹ ہے وہ مجھے ہندوستانی نہیں بناتا۔ یہ صرف سفر کرنے میں مدد کرنے والی ایک دستاویز ہے۔‘ پچھلے سال پنجاب حکومت کے امور داخلہ اور محکمہ انصاف نے لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے ایک دن قبل یعنی 3 جون کو امرت پال سنگھ پر این ایس اے میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی ۔وہ مارچ 2023 سے این ایس اے کے تحت آسام کی ڈبرو گڑھ جیل میں بندتھے۔ اس کالے قانون کے تحت چونکہ کسی بھی فرد کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتا کر صرف 12 ماہ تک بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا جا سکتا ہےاس لیے مذکورہ توسیع کرنی پڑی ۔ بی جے پی والے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے انتخابی کامیابی کو جواز بناتے ہیں مگر جب امرت پال سنگھ یا انجنیر رشید کی بات آتی ہے تو وہ دلیل ہوا ہوجاتی ہے۔
آئین کے مطابق چونکہ 6 ماہ کے اندر ہر رکن پارلیمان کی حلف برداری لازمی ہے اس کے لیے ان دونوں کو ایک دن کی پیرول رہا کرکے یہ رسم ادا کی گئی اور پھر جیل بھیج دیا گیا۔ ویسے انتخابی نتائج کے بعد اگر حکومت امرت پال سنگھ کے اوپر سے این ایس اے ہٹا بھی لیتی تو انہیں ضلع امرتسر کے اجنالہ تھانے میں غیر قانونی ہتھیاروں سے حملہ سمیت مختلف تھانوں میں تقریباً 12 مقدمات کی پیروی کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتےبلکہ اب تو آسام میں بھی ان کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود جمہوریت کا بھرم رکھنے کے لیے کچھ نمائشی رویات کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے ۔حلف برداری کے لیے گزشتہ سال جولائی میں امرت پال کو آسام کی ڈبرو گڑھ جیل سے نکال کر ایئربیس لایا گیا۔ وہاں سے امرت پال کو فوجی طیارے میں دہلی لاکر ایئرپورٹ سے پارلیمنٹ ہاؤس میں حلف برداری کرائی گئی نیز خاندان والوں سے ملاقات بھی کرائی گئی۔
سوال یہ ہے کہ اس رسم کی ادائیگی سےان لاکھوں لوگوں کواپنا حق مل گیاجنھوں نے نے امرت پال سنگھ کو منتخب کرکے اپنی آواز اٹھانے کی خاطر ایوان پارلیمان میں بھیجا ہے ؟ کیا یہ سب کرنے سے جس مقصد کی خاطر امرت پال سنگھ کو کامیاب کیا گیا اس کی جانب کوئی پیش رفت ہوئی؟؟ اگر نہیں تو کا کیا فائدہ؟ یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ امرت پال سنگھ کو حلف لینے کے لیے تقریباً ایک سال دو ماہ اور 12 دن بعد ڈبرو گڑھ جیل سے باہرتو آئے مگر ایک ہی دن بعد واپس جیل بھیج دیئے گئے ۔ ایک ایسا شخص حراست میں ہے جس کو جیل سے باہر انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن پھر بھی اسے 4 لاکھ سے زیادہ ووٹ مل گئے ۔ اس کے مقابلے کھڈور صاحب لوک سبھا سیٹ پر کانگریس کے کلبیر سنگھ زیرا صرف 2,07,310 ووٹ اورعام آدمی پارٹی کے بھولرمحض 1,94,836 ووٹ حاصل کرکے آزاد گھوم رہے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر امرت پال بی جے پی کا امیدوار ہوتاتو کیا اس انتخابی کامیابی کے باوجود جیل کے اندر ہوتا؟ بلکہ یہ سوال ہونا چاہیے کہ کیا اس پر این ایس اے لگتا اور لگ بھی جاتا تو اس میں مزید ایک سال کی توسیع ہوتی؟جب تک اس طرح کی تفریق و امتیاز جاری رہے گی عوام کا غم غصہ ختم نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم مودی کو اپنے غیر ملکی دوروں پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا اور جی ۷ کی نمائشی فوٹو بازی کسی کام نہیں آئے گی۔
Like this:
Like Loading...