ایٹمی ڈھال: امن کی ضمانت
ازقلم: شیخ سلیم۔۔ممبئی
آج کی دنیا میں جنگ کا منظرنامہ بھی ایک عجیب تضاد ہے۔جس کے پاس ایٹم بم نہیں ہے حملا کر دو پچھلی چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کا قریبی اتحادی اسرائیل مسلسل مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں میں فوجی مداخلت کرتے آئے ہیں۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام – یہ سب میدانِ جنگ بن گئے، ان کی حکومتیں نشانہ بنیں۔
افغانستان پر روس اور بعد میں امریکی حملے اور طویل بمباری میں تیس سے چالیس لاکھ افغان شہری شہید ہوئے۔ عراق پر امریکہ کے ذریعے مسلط کردہ جنگ میں بھی دس لاکھ کے قریب عراقی شہید ہوئے۔ پورا کا پورا ملک کھنڈر بن گیا، نہ کوئی تباہی پھیلانے والے ہتھیار ملے نہ ہی کوئی جمہوریت قائم ہوئی۔
فلسطین و غزہ میں جاری طویل جنگ کے دوران یورپ و امریکہ اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ عالمی ضمیر مردہ ہو چکا ہے، روٹی لینے والے بھوکے پیاسے بچوں کو اسرائیلی گولیوں سے بھون دیتے ہیں، پوری دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔
اب آئیے شمالی کوریا کو دیکھتے ہیں۔ کم جونگ کی مطلق العنان حکومت ہے، امریکہ وہاں حکومت بدلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا لمبے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بناتا ہے، ایٹم بم بناتا ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ آج تک کسی بڑی فوجی کارروائی کا نشانہ نہیں بنا۔ اس کی وجہ ہے ایک تلخ حقیقت – اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی۔
امریکی جنگی جنون اور جنگ یا مداخلت کی وجہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ افغانستان اور عراق پر حملے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کیے گئے، جو آج تک معمہ ہیں۔ جنہیں قومی سلامتی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، اور عراق کے مبینہ مہلک ہتھیاروں کی بنیاد پر جواز دیا گیا۔ (بعد میں کوئی ہتھیار نہیں ملے۔) لیبیا میں مداخلت ایک خانہ جنگی کے دوران ہوئی۔
شام میں مغربی طاقتوں نے جو ظلم ڈھائے، اس کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔ امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ، اسرائیل اور ایران سبھی نے وہاں قتلِ عام کیا۔ دس سے پندرہ لاکھ آزادی کے متوالوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں کارروائیوں کو ریاستی دہشت گردی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔ ان تمام تنازعات کی اپنی الگ تاریخ اور توجیہات ہیں۔
لیکن ان تمام مظلوم ممالک میں ایک اہم قدرِ مشترک ہے متاثرہ ممالک میں ایٹمی ہتھیاروں کا نہ ہونا۔ صدام حسین پر WMDs رکھنے کا الزام ضرور تھا، لیکن اس کے پاس ایٹم بم نہیں تھا۔ افغانستان اور لیبیا بھی ایٹمی طاقت سے محروم تھے۔ شام کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے، ایٹمی ہتھیار بھی نہیں۔ حماس اور حزب اللہ جیسے گروہ چھوٹے راکٹ داغ سکتے ہیں یا گوریلا حملے کر سکتے ہیں۔یہ کمی، حملہ آوروں کے لیے صرف ایک چیز سے خطرہ ہے – جوہری ہتھیار۔ جوہری رد عمل کا خوف جو شہروں کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ جب یہ نہیں ہوتا، تو فوجی کارروائی ایک قابلِ عمل انتخاب بن جاتی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جو شمالی کوریا کو دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔ ایک تنہا، غریب، اور ناپسندیدہ حکومت ہونے کے باوجود، وہ اپنے دفاع کی ایسی دیوار قائم کر چکا ہے جسے عبور کرنا کسی بڑی طاقت کے لیے آسان نہیں۔ اندازے کے مطابق اس کے پاس 50 کے قریب جوہری بم ہیں، اور ان کے لیے میزائل بھی، جو نہ صرف جنوبی کوریا اور جاپان بلکہ امریکہ تک مار کر سکتے ہیں۔ یہ صلاحیت، چاہے عالمی طاقتوں کے مقابلے میں محدود ہو، جنگ کے امکان کو ختم کر دیتی ہے۔امریکہ کو جنگ کرنے سے پہلے دس بار سوچنا پڑتا ہے
سوچیے، اگر کوئی روایتی حملہ شمالی کوریا کے خلاف ہو، تو کم حکومت کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہوگا۔ جوابی ایٹمی حملہ سیول جیسے شہر پر، یا جاپان میں امریکی فوجی اڈوں پر، یا حتیٰ کہ امریکہ تک خارج از امکان نہیں ہوگا۔ Mutually Assured Destruction، یعنی ‘باہمی یقینی تباہی’ کا پرانا تصور یہاں پوری شدت سے کارفرما ہوتا ہے۔ ایک ایسا حملہ جو کروڑوں جانیں لے سکتا ہے، عالمی معیشت کو تباہ کر سکتا ہے، کوئی بھی عقلمند ملک اس کا خطرہ نہیں لے گا۔ یہی وہ ‘ناقابلِ تسخیر ڈھال’ ہے جو شمالی کوریا کو حاصل ہے۔ ایک ایسی ڈھال جو صرف ایٹم بم سے ممکن ہوئی۔
یقیناً کچھ اور بھی عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ چین کے ساتھ شمالی کوریا کے تعلقات، جو کہ ایک ایٹمی طاقت ہے، کسی ممکنہ جنگ میں بڑی طاقتوں کے ٹکراؤ کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، شمالی کوریا کی روایتی توپ خانے کی طاقت، جو سیول کو ابتدائی حملے میں خاک میں ملا سکتی ہے، بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ اور جہاں مشرق وسطیٰ میں تیل اور دہشت گردی کے خلاف مفادات تھے، وہاں شمالی کوریا پر حملے کے فوائد نہایت محدود، اور خطرات تباہ کن حد تک زیادہ ہیں۔
غزہ کی حالیہ المناک صورتحال اس کے برعکس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ جب کوئی گروہ – جیسا کہ حماس – نہ ایٹمی طاقت رکھتا ہے، نہ اس کے پیچھے کوئی بڑا ملک کھڑا ہوتا ہے، اور نہ اس کی عسکری طاقت دشمن کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، تو وہ کھلے حملے کا آسان نشانہ بن جاتا ہے۔ چاہے بین الاقوامی مذمت ہو یا انسانی جانوں کا شدید نقصان، عسکری کارروائی ممکن اور جاری رہتی ہے۔ امریکہ اور یورپ تماشا دیکھتے ہیں اور اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں۔ طاقت کا یہ غیر مساوی توازن بہت واضح ہے۔
اس سے ایک کڑوی حقیقت سامنے آتی ہے: ایٹمی ہتھیار آج کی دنیا میں غیر ملکی حملوں اور حکومت کی جبری تبدیلی کے خلاف سب سے مؤثر تحفظ ہیں۔ وہ ایک ایسی سرخ لکیر کھینچ دیتے ہیں جسے دنیا کی بڑی طاقتیں پار کرنے سے کتراتی ہیں۔ جن ممالک نے ایٹمی پروگرام ترک کیا – جیسے عراق یا لیبیا اور یوکرین- انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ شمالی کوریا، جوہری طاقت بن کر، ایک ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جہاں اب صرف پابندیاں، سائبر حملے، یا سفارتی کوششیں ہی باقی بچی ہیں۔جنگ ممکن نہیں اور یوں عالمی طاقتیں ایک ایسے بحران کو ختم کرنے کے بجائے صرف ‘قابو’ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔یہ ہے ہماری موجودہ دنیا کی حقیقت – جہاں ایٹم بم، اپنی تمام ہلاکت خیزی کے باوجود، طاقت کا سب سے بڑا تحفظ بن چکا ہے۔ ایک ایسا خوفناک ہتھیار جو اپنے رکھنے والوں – چاہے اچھے ہوں یا برے اس کو کسی حد تک ‘ناقابلِ تسخیر’ بنا دیتا ہے۔ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں پتہ نہیں امریکہ اور اسرائیل ایران کا کیا حال کر دیں اندازہ لگانا آسان نہیں جنگ کتنی لمبی ہوگی اور کتنی تباہی ہوگی اسکا بھی اندازہ لگانا آسان نہیں ہے ۔
شیخ سلیم
