جمعہ نامہ: کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں‘‘۔یہ جان و مال کا سودہ بندۂ مومن کو دنیا کی تمام آلائشوں سے بے نیاز کردیتا ہے۔ وہ اپنا سب کچھ راہِ خدا میں قربان کردینے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔ اسی لیے جب موقع آتا ہے تو اہل ایمان :’’ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ‘‘۔ مومنین اس قدر آسانی سے اپنی جانِ آفرین کا نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کرنی کی خاطر اس لیے تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ :’’ان سے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمہ ایک پختہ(جنت کا) وعدہ ہے‘‘۔ تمام آسمانی کتب میں مذکور یہ وعدۂ حق اہل ایمان کے دل میں راسخ ہوتا ہے کہ :’’ کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ ‘‘ ایسے ایمان والوں کو بشارت دی جاتی ہے:’’پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جذبۂ شہادت سے سرشار اہل ایمان کو ڈرا دھمکاکر مغلوب کرلینا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکی صدر کہتا ہے کہ : ’’اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔اور ایران ’’غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے‘‘ تو اس سے ایرانی قیادت یا عوام پر لرزہ طاری نہیں ہوتا ۔ آیت اللہ علی خامنہ ای اس کادوٹوک جواب دیتے ہیں کہ ان کا ملک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دینے کے مطالبے کو قبول نہیں کرے گا۔انہوں نے اپنے پہلے باضابطہ ردعمل میں کہا کہ ایران پر نہ تو امن کو مسلط کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی جنگ۔یہ جاہ و جلال حضرت ربعی بن عامر ؓ کی اس دعوت کا اثرہے جو انہوں نےاپنے وقت کےحاکمِ ایران کسریٰ کے دربار میں دی تھی ۔ آپؓ نے دین اسلام کا تعارف کراتے ہوئےفرمایا تھا کہ :’’ہم لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانا چاہتے ہیں۔ہم انسانیت کو دنیا کی تنگیوں سے رہائی اور نجات دلا کر انہیں دینا کی خوشحالی دینا چاہتے ہیں اورہم ادیان(باطل) کے ظلم و ستم سے نکال کر اسلام کا عادلانہ نظام انہیں دینا چاہتے ہیں‘‘۔ان تین جملوں میں اسلامی حریت و آزادی کے ساتھ معاشی خوشحالی اور سیاسی عدل و انصاف تک احاطہ کرلیا گیا ہے۔
آیت اللہ علی خامنہ ای سے آج بھی یہی حریت فکر ونظر کہلواتی ہے کہ ، ’’ ایران، ایرانی قوم اور اس کی تاریخ کو جاننے والے اس سے دھمکی آمیزلہجے میں بات نہیں کرتے کیونکہ ایرانی قوم کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گی۔‘‘ کبرو غرور کے نشے میں چور ڈونلڈ ٹرمپ جب کہتا ہے کہ:’’ہمیں معلوم ہے کہ نام نہاد ’سپریم لیڈر‘ کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ ہم فی الحال انہیں ہلاک کرنے نہیں جا رہے لیکن ہمارا صبر ختم ہو رہا ہے۔‘‘ تو سامنے سے جواب آتا ہے:’’امریکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی فوجی مداخلت کا جواب ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا ۔ہم صیہونی دہشت گرد حکومت کو سخت جواب دیں گےاور ان پر کوئی رحم نہیں کریں گے‘‘۔آیت اللہ خامنہ ای کوقتل کی دھمکی دینے والا نیتن یاہو نہیں جانتا کہ دین اسلام میں شخصیت پرستی کی جڑ اول روز ہی کاٹ کر فرد پر عقیدے کی برتری قائم کی گئی ہے ۔ ارشادِ فرقانی ہے:’’ محمد (ﷺ بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر گزر چکے ہیں، پھر اگر وہ وفات فرما جائیں یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنے (پچھلے مذہب کی طرف) الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ اللہ کا ہرگز کچھ نہیں بگاڑے گا، اور اللہ عنقریب (مصائب پر ثابت قدم رہ کر) شکر کرنے والوں کو جزا عطا فرمائے گا‘‘۔
اہل حق کی پامردی باطل کی خود اعتمادی کو متزلزل کردیتی ہے۔ اس کی مثال ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ہے کہ :’’ہو سکتا ہے میں (ایران پر) حملہ کروں، ہو سکتا ہے نہ کروں۔ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے والا ہوں۔البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایران بڑی مشکل میں ہے اور وہ مذاکرات چاہتا ہے۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ بار بارجوہری مذاکرات کا مطالبہ امریکہ کی جانب سے ہورہا ہے۔ ایران کے بجائے امریکہ سمیت اس کا بغل بچہ اسرائیل مشکل میں ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس مشکل سے کیسے نکلیں ۔اسرائیل کی پتلی حالت دیکھ کر امریکی حکام نے مزید جنگی طیارے بھیجنے کی تصدیق کرکے پہلے سےتعینات طیاروں کی توسیع کا اعتراف کرلیا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے وہ اپنے آقا امریکہ اور یوروپ پر ایک بوجھ بن گیا ہے۔ قرآن حکیم ایسے غلام کی نہایت دلپذیر تمثیل بیان کی گئی ہے ۔
فرمانِ خدواندی ہے :’’اللہ مثال دیتا ہے ایک تو ہے غلام، جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا دوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھلے اور چھپے خوب خرچ کرتا ہے بتاؤ، کیا یہ دونوں برابر ہیں؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ (اس سیدھی بات کو) نہیں جانتے‘‘۔ اس کے بعد والی آیت میں دی جانے والی مثال تو من عن اسرائیل اور ایران پر صادق آتی ہے۔ فرمانِ ربانی ہے:’’اللہ ایک اور مثال دیتا ہے دو آدمی ہیں ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اُس سے بن نہ آئے دوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہ راست پر قائم ہے بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں؟‘‘ چشم بینا رکھنے والی ہر آنکھ اس فرق دیکھ کر اس سے عبرت پکڑ رہی ہے۔ اسرائیل کی بقاء کا دارومدار امریکی مدد پر آکر ٹِک گیا ہے اس لیے وہ بار بار اپنے آقا کے آگے گہار لگا رہا ہے جبکہ ایران کو بغیر مانگے نہ صرف 21طاقتور اسلامی ممالک بلکہ روس اور چین کی حمایت بھی حاصل ہورہی ہے۔ یہ نصرتِ خداوندی اور اس حوصلہ مندی کا ثمرہے کہ جس کی بابت علامہ اقبال فرماتے ہیں؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی