مودی جی نےجی ۷؍ اجلاس میں کیا کھویا کیا پایا؟
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
جی ۷؍ اجلاس کی فوٹومیں دوسری قطار کے کنارے پرکھڑے وزیر اعظم نریندر مودی کو دیکھ کر بھگتوں نے سوچا ہوگا کاش یہ رسوائی اٹھانے کے لیےنہ جاتے لیکن بیرونِ ملک جاکر سرکاری خرچ پر سیر و سیاحت کرنا مودی جی کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔ اس بار جی ۷ ممالک کی سالانہ کانفرنس میڈیا میں بحث کا موضوع بن گئی تھی کیونکہ پچھلے ۶؍ سالوں سے وزیر اعظم کو وہاں ایک مشاہد کے طور جاتے رہے ہیں۔اس بار دعوتنامہ ملنے میں غیر معمولی تاخیر کے سبب ذرائع ابلاغ میں طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ حزب اختلاف نے اسے مودی حکومت کی ناکامی قرار دیا تو حامیانِ سرکار نے کہا کہ مودی جی کووقت کم ہونے کی وجہ سے وہاں جانے میں دلچسپی ہی نہیں ہے ، حالانکہ مشاہدین کووہاں منہ دیکھنے اور تصویر کھنچوانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا ۔ ویسے فوٹو سیشن میں مودی جی کو سبھی پر سبقت حاصل ہے۔ حکومت کے مخالفین نےدلچسپی نہیں ہونےکو ’انگور کھٹے‘ کہہ کر کینیڈا کے ساتھ حکومتِ ہند پر کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے میں ناکامی کا الزام دھرا تو مودی بھگتوں اس کا تعلق وہاں موجود خالصتان نواز سکھوں کے اثر و رسوخ سے جوڑ کر داخلی سیاسی مجبوریوں کا حوالہ دیا ۔ اس تو تو میں کے بیچ وزیر اعظم مارک کارنی کے ایک فون نے اچانک منظر بدل گیا۔
جی سیون اجلاس سے قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران کینیڈین وزیرِ اعظم نے اس حوالے سے اپنا مؤقف واضح کر تے ہوئے کہہ دیا کہ : ’جی ۷ اتحادیوں کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ توانائی، مصنوعی ذہانت اور اہم معدنیات جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کے لیے دنیا کے سب سے اہم ممالک کو مدعو کرنا ضروری ہے۔‘ اس تمہید کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو دعوت دینے سے قبل رکھی جانے والی شرائط کے تعلق سے وہ بولے : ’ہم دوطرفہ سطح پر اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ قانون کے نفاذ پر بات چیت کی جائے گی اور اس سمت میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ احتساب کے مسئلے پر بھی اتفاق پایا گیا ہے‘‘۔ اس کا صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی بابت نہ صرف ملزمین کو قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے گا بلکہ ان کا احتساب یعنی انہیں سزا دے کر کیفرِ کردار تک پہنچانے کا انتظام بھی ہو گا۔
سابق صدر ٹروڈو جب یہی بات کہتے تھے تو مودی جی بگڑ جاتے تھے مگر جب جی ۷ میں شرکت کو اس سے مشروط کردیا گیا تو وزیر اعظم مان گئے اور کھٹے انگور اچانک میٹھے ہوگئے ۔ مارک کارنی نے نریندر مودی کو دعوت کیا دی کہ فوراً انھوں نے بخوشی اس کو قبول کرکے تیاری شروع کردی ۔ اس مدھر ملن کی خوشی میں زعفرانی حلقوں کے اندرشہنائی بجنے لگی ۔ان لوگوں نے پلک جھپکتے ہند کینیڈا تعلقات کے استوار ہوجانے کی نوید بھی سنا دی حالانکہ ’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘۔کینیڈین وزیرِ اعظم مارک کارنی کے اس بیان کو کہ ’ہندوستان: دنیا کی پانچویں بڑی معیشت، سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور عالمی سپلائی چینز کا مرکز ہے۔‘ میڈیا میں اچھالا جانے لگا۔ یہ بات بھی زیر بحث آگئی کہ کینیڈا میں تقریباً 30 لاکھ انڈین نژاد افراد مقیم ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ہندوستانی تارکین وطن کا ایک اہم ملک ہے لیکن یہ سب تو مذکورہ بالا شرائط کی قبولیت سے پہلے بھی تھا اوریہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بار ملک چھوڑ کرجانے والاپھر ملک کے لیے کچھ نہیں کرپاتا۔
امریکہ کے اندر اعلیٰ عہدوں پرفائز ہندوستانی نژاد لوگ وہاں پر ہندی شہریوں پر ہونے والے مظالم اور ذلت ورسوائی کے خلاف کچھ کرنا تو دور زبان سے ایک لفظ احتجاج تک نہیں نکال پاتے۔پردیس میں جاکر بسنے والوں کا کیا قصور اپنی دیش بھگت سرکار کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر ایوان پارلیمان کے اندر کھڑے ہوکر ڈھٹائی سے امریکی زیادتی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ مودی جی کو ملنے والی دعوت کے بعد یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ کینیڈین پنشن فنڈز نے ہندوستان میں تقریباً 75 ارب کینیڈین ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے600 سے زائد کینیڈین کمپنیاں یہاں کام کر رہی ہیں، جبکہ 1,000 سے زائد کمپنیاں ہندوستانی بازارمیں کاروبار کرتی ہیں۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پچھلے دس سالوں میں مودی جی نے ایک بار بھی کینیڈا کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا۔ اس لیے یہ بے معنیٰ دلائل ہیں ۔یہ بھی کہا گیا ٹرمپ نے کینیڈا کو اپنی 51 ویں ریاست بنانے کی بات کر کے وہاں کے حکمرانوں کو ناراض کردیا ہے اس لیے وہ ہندوستان سے قریب آنا چاہتا ہے مگر خود ہندوستان امریکہ کی گود میں جانا چاہتا ویسے جی ۷ میں امریکہ شمولیت تویقیناً ہوگی۔
کینیڈا کے پاس تیل اور گیس کے بڑے ذخائر ہیں اور اس بابت تکنیکی تعاون کے چلتے ہندو کینیڈا کے تعلقات کی بہتری دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے لیکن حکومت ہند امریکہ کی ناراضی مول لے کر کسی ملک کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ کینیڈا کے ہندوستانی تجارت کے فروغ کا شاہِ کلید ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اقتدار میں تبدیلی کے باوجود ہندوستان اور کینیڈا کے بیچ تعلقات کی بحالی کا دارومدار18 جون 2023 کو قتل ہونے والےہردیپ سنگھ نجرکےقتل سے متعلق حکومتِ ہند کے رویہ پر ہے ۔ سابق کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہندوستانی حکومت پراس میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا تھا، جسے مودی سرکار نے مسترد کردیا ۔اسی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اچھال آیا۔ نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی ٹوئنٹی اجلاس کے بعد جب جسٹن ٹروڈو کا طیارہ خراب ہوگیا تو مودی سرکارنے متبادل طیارے تک کی پیشکش نہیں کی اور نتیجتاً وہ دودن دہلی میں پڑے رہے ۔
خالصتانی شدت پسندی کے حوالے سے وزیرِ اعظم مارک کا کہنا ہے: ’چونکہ ایک قانونی عمل جاری ہے، اس لیے تفتیش کے مراحل میں اس پر تبصرہ کرنا درست نہیں ہے ۔ ‘یہ گول مول جواب’پاسباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘ کی مصداق ہے۔ اس میں مودی کے ساتھ سکھوں کی ناراضی سے بچنے کی سعی صاف نظر آتی ہےلیکن اگر26 خالصتان نوازوں حوالگی پر مودی سرکار اصرار کرے گی تو بات بگڑ جائے گی کیونکہ ہر کسی کو اپنا ووٹر عزیز ہے۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ کینیڈا میں انگریزی اور فرانسیسی کے بعد پنجابی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے اور وہاں کی کل آبادی کے 1.3 فیصد باشندےپنجابی بولتے اور سمجھتے ہیں۔پنجاب کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ سکھ کینیڈا میں بستے ہیں نیزوہاں ان کے پُرامن احتجاج کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ورلڈ سکھ آرگنائزیشن کے صدر دانش سنگھ کے نزدیک وزیر اعظم نریندر مودی کو دعوت دینا نہ صرف وہاں مقیم سکھوں کے ساتھ بلکہ کینیڈین اقدار سے بھی غداری ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے کینیڈا میں قدم رکھتے ہی وہاں کئی شہروں میں احتجاج و مظاہرے شروع ہوگئے ہیں ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی وہاں جانے کے لیے اتنے پریشان کیوں تھے؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی بیساکھی والی سرکار کےکمزوری کو چھپانا چاہتے ہیں اور دوسرےآپریشن سیندور کے بعد عالمی سطح کی تنہائی کے تاثر کو دور کرنے کا یہ موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ جی ۷ نے اس بار چونکہ اپنے 50 سال مکمل کرلیے ہیں اس لیے کینیڈا کی صدارت میں وہ اپنی گولڈن جوبلی منارہا ہے۔ یہ دراصل دنیا کی۷ سب سے ترقی یافتہ معیشتوں کا ایک وفاق ہے۔ 2014سے قبل یہ جی ۸ہواکرتا تھا مگر کریمیا پر قبضے کے بعد روس کو اس گروہ سے نکال باہر کیا گیا۔ بظاہر عالمی تجارت اور بین الاقوامی مالیاتی نظام پر ان لوگوں غلبہ ہے مگر برکس جیسے وفاق کے مقابلے یہ روبہ زوال ہے۔ 2000 کے عالمی جی ڈی پی میں جی ۷ کی حصہ داری 40 فیصد تھی اب وہ گھٹ کر 28.43 فیصد آچکی ہے۔ روس کو نکالنے کی کمی چین کی شمولیت سے پوری ہوسکتی تھی مگر چین کی فی کس آمدنی کے کم ہونے کا بہانہ بناکر اس کو رکنیت نہیں دی گئی اور وہ ہندوستان کی طرح محض مشاہد کے طور پر شریک ہونے کو اپنی توہین سمجھ کر مسترد کردے گا۔
ہندوستان کا کیا ہے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟یورپی یونین بھی ہماری طرح جی ۷ کا باضابطہ رکن نہیں ہے، مگر اس کے عہدیدار بھی ہرسال اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔اس موقع پر ان ممالک کے وزراء اور افسران کی ملاقاتیں ہوتی ہیں تو باہمی معاہدے بھی طے پاتے ہیں نیز عالمی حالات پر مشترکہ بیانات جاری کیے جاتے ہیں۔ جی۷ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہونے سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کی دعوت پر اس میں شرکت کر رہے ہیں اور کناناسکس کے اندر ان ممالک کا شکریہ ادا کریں گے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی جنگ کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ حمایت کرنے ممالک ہیں کہاں؟اور جو ہیں بھی تو انہیں وہاں کون بلائے گا؟ مودی کے گہرے دوست ٹرمپ اسرائیل کے خلاف ایران کی حمایت کرنے والے چین اور روس کو توجی ۷ میں شامل کرنے کی وکالت کرتے ہیں مگر انہیں ہندوستان نظر نہیں آتا۔ مودی جی کےغیر ملکی دورے کا جزو لاینفک وہاں موجود ہندوستانیوں کے سامنے تقریر ہوتی ہے لیکن اس بار خالصتانی سکھوں کی مخالفت کے خوف سے وہ نہیں ہوئی۔ اس لیے یہ دورہ ممبئی کی زبان میں ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ‘ جیسا رہا۔