ہیروشیما سے ایران تک:
مغربی دہشت پسندی کا خون آلود ایجنڈا
ازقلم: ڈاکٹر محمد عظیم الدین
تاریخ کے خون آلود صفحات مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کے عالمی بالادستی کے گھناؤنے کھیل کی گواہی دیتے ہیں۔ ہیروشیما کے ایٹمی دھماکوں سے لے کر ایران کی جوہری تنصیبات پر تازہ حملوں تک، مغرب نے "امن”، "جمہوریت”، اور "عالمی سلامتی” کے جھوٹے نقاب اوڑھ کر اقوام کو تباہی کے دہانے پر دھکیلا۔ یہ مداخلتیں کوئی اتفاقیہ نہیں، بلکہ ایک منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد وسائل کی لوٹ مار، جغرافیائی سیاسی کنٹرول، اور طاقت کی وحشیانہ نمائش ہے۔ نارتھ کوریا کی ناکہ بندی ہو یا افریقی ممالک کی دولت کی چوری، مغرب کا دوغلا کردار ہر موڑ پر عیاں ہے۔ یہ اداریہ ان واقعات کو زمانی ترتیب میں پیش کرتے ہوئے ایک علمی، تحقیقی، تنقیدی، اور تجزیاتی جائزہ لیتا ہے، جو مغرب کے اس استعماری کردار کو طنز کے نشتر سے بے نقاب کرتا ہے۔
1945 میں، جب دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی، امریکہ نے 6 اگست کو ہیروشیما اور 9 اگست کو ناگاساکی پر ایٹمی بم گرا کر انسانیت کو ناقابل تلافی زخم دیے۔ ان حملوں نے 140,000 اور 74,000 جانیں لیں، جن میں عورتیں، بچے، اور بوڑھے شامل تھے۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ یہ بم جنگ ختم کرنے اور زمینی حملے سے ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے ناگزیر تھے۔ مگر کیا یہ واقعی فوجی ضرورت تھی، یا عالمی تخت پر اپنی وحشت ناک حاکمیت کا اعلان؟ مورخ گار ایلپرویٹز نے ثابت کیا کہ جاپان ہتھیار ڈالنے کے لیے مذاکرات کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ بم سوویت یونین کو دھمکی اور عالمی بالادستی کی نمائش تھے۔ سرد جنگ کا باضابطہ آغاز 1947 میں ہوا، مگر ہیروشیما کے شعلوں نے مغرب کے استعماری عزائم کو پہلے ہی عیاں کر دیا۔ یہ حملے کوئی دفاعی اقدام نہیں، بلکہ انسانیت کے خلاف ایک ناقابل معافی جرم تھے، جسے مغرب آج بھی "ناگزیر” کا لبادہ اوڑھا کر چھپاتا ہے۔ کیا یہ طنزیہ نہیں کہ وہ خود کو "امن” کا داعی کہتے ہیں، جب ان کے ہاتھ لاکھوں معصوموں کے خون سے رنگین ہیں؟
1953 میں ایران میں مغرب نے جمہوریت کا جنازہ نکالا۔ وزیراعظم محمد مصدق، جنہوں نے ایرانی تیل کو قومی تحویل میں لینے کی جرات کی، سی آئی اے کے آپریشن اجاکس کا شکار ہوئے۔ ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر شاہ محمد رضا پہلوی کی آمریت مسلط کی گئی، جس نے مغربی مفادات کی چاکری کی اور ایرانی عوام کو جبر کی چکی میں پیسا۔ یہ مداخلت سرد جنگ کے تناظر میں پیش کی جاتی ہے، مگر حقیقت میں یہ تیل کی لوٹ مار اور خطے پر کنٹرول کی گھناؤنی چال تھی۔ مغرب کا دعویٰ کہ وہ جمہوریت کا چیمپئن ہے، اس واقعے کے آئینے میں ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ وہ "آزادی” کی باتیں کرتے ہیں، جب انہوں نے ایک پوری قوم کی خودمختاری کو بوٹوں تلے روندا؟
1955 سے 1975 تک ویتنام جنگ نے مغرب کی وحشت کی نئی داستان رقم کی۔ اس جنگ میں 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جن میں لاکھوں شہری تھے۔ نیپام بموں اور ایجنٹ اورنج جیسے کیمیائی ہتھیاروں نے ویتنامی زمین، فضا، اور نسلوں کو زہر آلود کیا۔ امریکہ نے اسے "کمیونزم کے خلاف جنگ” قرار دیا، مگر یہ جنوب مشرقی ایشیا پر نوآبادیاتی تسلط کی کوشش تھی۔ 1975 میں امریکی انخلا نے ثابت کیا کہ یہ جنگ بے نتیجہ تھی، اور ویتنام تباہی کے دلدل میں دھنس گیا۔ مغرب کی "آزادی” اور "انسانی حقوق” کی باتیں ویتنام کے جلتے دیہاتوں اور چلاتی ماںؤں کے سامنے جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ کیا یہ طنزیہ نہیں کہ وہ خود کو انسانیت کا محافظ کہتے ہیں، جب ان کے ہتھیاروں نے لاکھوں معصوموں کو راکھ کیا؟
1979 سے 1989 تک سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کو مغرب نے پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا، مگر خود اس نے مجاہدین کو اسلحہ اور تربیت دے کر خطے کو آگ میں جھونکا۔ اس جنگ میں 10 سے 15 لاکھ افراد ہلاک ہوئے، اور افغانستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ مغرب کی حمایت یافتہ مجاہدین نے بعد میں القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو جنم دیا۔ یہ دوغلا پن مغرب کے کردار کو بے نقاب کرتا ہے، جو اپنے مفادات کے لیے خطوں کو عدم استحکام کا شکار کرتا ہے اور پھر خود کو "امن” کا مسیحا قرار دیتا ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھونگ رچاتے ہیں، جب انہوں نے خود اس کے بیج بوئے؟
2001 سے 2021 تک امریکی زیرقیادت Afghanistan جنگ نے مغرب کے جھوٹے وعدوں کو عیاں کیا۔ القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی یہ جنگ 20 سال تک جاری رہی، جس میں 170,000 افراد ہلاک ہوئے۔ 2021 میں امریکی انخلا کے بعد طالبان کی واپسی نے ثابت کیا کہ "جمہوریت” اور "ترقی” کے وعدے دھوکا تھے۔ مغرب نے Afghan عوام کو تباہی کے حوالے کر کے ہاتھ جھاڑ لیے۔ یہ جنگ کوئی دفاعی اقدام نہیں، بلکہ خطے میں جغرافیائی سیاسی کنٹرول کی کوشش تھی۔ کیا یہ طنزیہ نہیں کہ وہ "عالمی سلامتی” کی باتیں کرتے ہیں، جب ان کی پالیسیوں نے ایک پوری قوم کو برباد کیا؟
2003 کی عراق جنگ مغرب کی جارحیت کی بدترین مثال ہے۔ "تباہی کے ہتھیاروں” کے جھوٹے دعوے پر شروع ہونے والی اس جنگ میں 200,000 شہری ہلاک ہوئے۔ امریکی رپورٹس نے تسلیم کیا کہ کوئی ہتھیار تھے ہی نہیں۔ عراق کو تیل کی لوٹ مار اور خطے پر کنٹرول کے لیے تباہ کیا گیا، اور آج وہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کی آگ میں جل رہا ہے۔ مغرب کا "عالمی امن” کا دعویٰ عراق کے کھنڈرات میں دفن ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ وہ "آزادی” کا پرچم لہراتے ہیں، جب انہوں نے ایک ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا؟
2011 میں لیبیا میں نیٹو کی مداخلت نے مغرب کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 1973 کے تحت "انسانی تحفظ” کے نام پر معمر قذافی کی حکومت ختم کی گئی، مگر نتیجہ خانہ جنگی اور انتشار کی صورت میں نکلا۔ لیبیا آج سیاسی تقسیم اور افراتفری کا شکار ہے۔ یہ مداخلت تیل اور جغرافیائی مفادات کے لیے تھی، نہ کہ انسانی حقوق کے لیے۔ مغرب نے لیبیا کو تباہ کر کے اگلی "دکان” کی طرف رخ کیا۔ کیا یہ طنزیہ نہیں کہ وہ "انسانی حقوق” کی باتیں کرتے ہیں، جب ان کی پالیسیوں نے ایک قوم کو بربادی کے حوالے کیا؟
2025 میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے مغرب کی تازہ جارحیت ہیں۔ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا، جسے امریکی حمایت حاصل تھی۔ 22 جون کو امریکی فوج نے فورڈو، نٹانز، اور اصفہان کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ایرانی میڈیا نے تصدیق کی کہ کوئی جوہری رساؤ نہیں ہوا، مگر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کے لیے "سخت سزا” اور وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکہ کے لیے "دیرپا نتائج” کی دھمکی دی۔ یہ حملے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے نام پر کیے گئے، مگر حقیقت میں یہ مشرقِ وسطیٰ میں مغربی بالادستی اور آبنائے ہرمز پر کنٹرول کی کوشش ہیں۔ حوثیوں کے بحیرہ احمر میں حملوں سے خطے کا عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ مغرب کا یہ دعویٺ کہ وہ "عالمی سلامتی” کے لیے کام کرتا ہے، ایران کے ان حملوں کے تناظر میں ایک کھوکھلا مذاق ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی بات کرتے ہیں، جب ان کے اتحادیوں کے جوہری پروگرام پر خاموشی اختیار کرتے ہیں؟
نارتھ کوریا پر مغرب کی ناکہ بندی ایک ظالمانہ حکمت عملی ہے۔ نارتھ کوریا کے جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائلوں کی وجہ سے عائد پابندیاں اس کے عوام کو بھوک اور غربت کی طرف دھکیلتی ہیں۔ نارتھ کوریا نے ایران کے میزائل پروگرام کی ترقی میں کردار ادا کیا، مگر مغرب کا دوغلا معیار اس وقت عیاں ہوتا ہے جب وہ اسرائیل کے جوہری پروگرام کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ پابندیاں نارتھ کوریا کو تنہا کرنے کے بجائے اسے روس اور چین کے قریب لے جا رہی ہیں۔ مغرب کی یہ پالیسی عالمی امن کے بجائے تنازعات کو ہوا دیتی ہے۔ کیا یہ طنزیہ نہیں کہ وہ "عالمی استحکام” کی باتیں کرتے ہیں، جب ان کی پابندیاں لاکھوں انسانوں کو اذیت میں مبتلا کرتی ہیں؟
افریقی ممالک کی دولت کی لوٹ مار مغرب کے استعماری کردار کی بدترین مثال ہے۔ مغربی کمپنیاں نائیجیریا، انگولا، اور کانگو کے تیل، ہیرے، اور معدنیات کو لوٹتی ہیں، جبکہ مقامی عوام غربت اور بیماریوں سے لڑتے ہیں۔ افریقہ کے تنازعات کو ہوا دے کر مغرب اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے، جیسا کہ مغربی افریقہ میں دہشت گرد گروہوں کے عروج سے ظاہر ہے۔ یہ استحصال افریقی قوموں کو عدم استحکام اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیلتا ہے۔ مغرب کا دعویٺ کہ وہ "ترقی” کا حامی ہے، افریقی عوام کی بدحالی کے سامنے ایک گھناؤنا مذاق ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ وہ "مساوات” کی باتیں کرتے ہیں، جب ان کی کمپنیاں افریقہ کی دولت پر قبضہ جمائے بیٹھی ہیں؟
مغرب، خاص طور پر امریکہ، کا کردار انسانیت کے لیے زہر آلود ہے۔ ہیروشیما سے ایران تک، اس نے اقوام کو تباہ کیا، وسائل لوٹے، اور بالادستی قائم رکھی۔ اگرچہ روس اور چین بھی اپنے مفادات کی جنگ لڑتے ہیں، مگر مغرب کا دوغلا پن اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ وہ "جمہوریت” اور "انسانی حقوق” کے جھوٹے نقاب میں اپنی وحشت چھپاتا ہے۔ عالمی برادری کو اس استعماری کردار کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ شفافیت، جوابدہی، اور انسانی حقوق کی پاسداری کے بغیر عالمی امن ایک سراب ہے۔ ہمیں ایسی دنیا کی تعمیر کے لیے لڑنا ہوگا جہاں طاقت انسانیت کی خدمت کرے، نہ کہ اس کی تباہی کا باعث بنے۔ مغرب کو اپنی خون آلود تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا، ورنہ انسانیت اس کی جارحیت کی قیمت ادا کرتی رہے گی۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaAIvuFDuMRbMl73RA1U
Follow Whatsapp Group Link