ٹرمپ، یو ایس میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
ازقلم : ڈاکٹر سلیم خان
ایران پر امریکی حملے نے عالم انسانیت کو چار حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اسلامی ممالک سمیت روس اور چین کھل کر ایران کی حمایت کررہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کھڑا ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ جیسے یوروپی ممالک ایرانی جوہری اسلحہ کی مخالفت کے باوجود امریکی حملے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن ہندوستان کی کیفیت یہ ہے کہ’ میں اِدھر جاوں یا اُدھر جاوں ، بڑی مشکل میں ہو ں میں کدھر جاوں؟‘ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ آپریشن سیندور کے بعدجب ساری دنیا نے منہ موڑ لیا تونیتن یاہو نے بغضِ پاکستان میں ساتھ دیا اوراب چونکہ اسرائیل کی لڑائی مسلمانوں سے ہے اس لیے مودی ہمدردی رکھتے ہیں۔ ایران کاحق بجانب ہونا اور اس سے قدیم تعلقات ہندوستان کو اسرائیل کے ساتھ جانے میں رکاوٹ ہیں ۔ امریکہ کا ہندوستان کے خلاف جارحانہ رویہ بھی تذبذب میں اضافہ کرتا ہے ۔ مودی بڑے ارمانوں سے جی ۷ کے لیے کینیڈا گئے تو ٹرمپ نے واپسی میں امریکہ رکنے کی دعوت دی مگر وہ نہیں گئے کیونکہ جنرل عاصم منیر وہاں موجود تھے ۔
جنرل عاصم منیر کا امریکی دورہ اس لیے غیر معمولی تھا کیونکہ پہلی بار صدر ٹرمپ نے کسی غیر ملکی فوجی سربراہ کو براہِ راست ون آن ون ملاقات کے لیے قصرِ ابیض مدعو کیا تھا۔ اس سے قبل 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے بطور صدر اور فوجی سربراہ، اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ملاقات کی تھی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک گھنٹہ کی ملاقات طے تھی مگر اس کا دورانیہ دو گنا ہوگیا۔ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے بتایا کہ جنرل منیر سے انہوں نے ایران کے حوالے سے بھی بات چیت کی اور ’وہ ایران کو بہت اچھی طرح بلکہ دوسروں سے بہتر جانتے ہیں ۔ وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔‘کھانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نےکہا کہ جنرل عاصم منیر نے (ہندوپاک) جنگ روکنے میں اہم کردار ادا کیا ‘ہندوستان جنگ بندی کے معاملے میں امریکہ کی مداخلت کا انکار کرتا ہے اور پاکستان اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔مگر ٹرمپ 13؍ بار یہ کہہ چکے ہی اس لیے وہ دونوں دوست اور ہم دونوں کے دشمن بن گئے ہیں ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کو ہندوستان دہشت گردی کا سرغنہ کہتا ہے جبکہ علاقائی امن و استحکام کے لیے صدر ٹرمپ پاکستان کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے امریکہ اور پاکستان درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کو سراہتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے جوڑنے کی تمام ہندوستانی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد نہ تو پہلگام حملے کا ذکر کیا اور نہ ہی ہندوستانی خدشات کو اہمیت دی، بلکہ انھوں نے جنگ سے گریز پر پاکستانی فوج کی تعریف کی۔ ٹرمپ نے کہا: میں ان سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں۔‘ ایسا خراجِ عقیدت تو انہوں نے مودی جی کی خدمت میں کبھی پیش نہیں کیا۔ پہلگام دہشت گردی کے بعد ساری دنیا کی رائے عامہ ہندوستان کے ساتھ تھی مگر آپریشن سیندور نے منظر بدل دیا ۔مودی نے جی بہار انتخاب جیتنے کی خاطر جب گھر میں گھس کر مارا تو بیشتر ممالک سے ہندوستان سے منہ موڑ لیا اور ملک عالمی تنہائی کا شکار ہوگئے۔
دنیا کے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لیے مودی سرکار کو۷ کثیر الجماعتی وفد تشکیل دے کر تقریباً پچاس ارکان پارلیمان کو دنیا کے ۳۳ ممالک بھیجنا پڑا وہ بیچارے واپس لوٹے تو وزیر اعظم نے انہیں ملاقات کے لیے بلایا مگر پہلے کویڈ ٹیسٹ کرانے کی تلقین کی۔ کاش کہ وزیر اعظم ان کو اپنے اہل خانہ کے پاس جانے سے پہلے یہ ہدایت دیتے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا وزیر اعظم کو اپنی صحت کا جتنا خیال ہے اتنی فکر اپنے ارکان پالیمان یا ان کے اہل خانہ کی نہیں ہے کیونکہ وہ کئی دن پہلے واپس آئے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر مختلف ممالک میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے مختلف وفود کے ارکان سے ملاقات کے بعد ان کی لگن اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے ایکس پر لکھا:’’ امن کے تئیں ہندوستان کی وابستگی اور دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے کی ضرورت پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے جیسے ہندوستان کی آواز کو آگے بڑھایا اس پر ہم سبھی کو فخر ہے ۔‘‘
آپریشن سیندور کے بعد پاکستان سے منسلک دہشت گردی سے دنیا کو آگاہ کرنے والے وفود میں موجودہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ کچھ سابق ارکانِ پارلیمان اور سابق سفارت کار بھی شامل تھے۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی حمایت کے خلاف ہندوستان کے مضبوط موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ان کی کوششوں کی تعریف و توصیف سے علی الرغم ان دوروں کی حصولیابی کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے۔ مذکورہ وفود میں سب سے تیز طرار رکن پارلیمان ششی تھرور کی قیادت میں امریکہ جانے والے وفد کی کارکردگی کو مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اس دورے سے صرف ڈھائی ماہ قبل یعنی مارچ کے اواخر میں امریکی کانگریس ( ایوانِ پارلیمان) میں ایک ریپبلکن اورڈیموکریٹک قانون ساز نے مشترکہ طور پر پاکستانی حکام پر پابندیوں کے لیے ایک بل پیش کیا تھا۔ اس بل کا عنوان: "پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ” تھا اور اس میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ریپبلکن رکن جو ولسن سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کی رہائی کے لیے پاکستانی فوج پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت امریکہ کو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں کرنے والے افراد پر ویزا اور ملک میں داخلے جیسی پابندی عائد کرنے کا اختیار ہوتا ہے غالباً اسی طرح کے قانون کے تحت وزیر اعظم بننے سے قبل نریندر مودی کو امریکہ جانے کی اجازت نہیں تھی۔اس میں پہلی بارپاکستان کے آرمی چیف (جنرل عاصم منیر) پر 180 دن کے اندر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔اس بل میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر پر "جان بوجھ کر سیاسی مخالفین کو غلط طریقے سے ظلم و ستم اور قید کرنے میں ملوث ہونے” کا الزام عائد کیا گیا اور ایسے اہم افراد پر پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کی گئی تھی ۔ آپریشن سیندور کے بعد حالات پلٹ گئے اور ششی تھرور کاوفد بھی اسے سدھار نہیں سکا۔ جنرل عاصم منیر کو پاکستان کافیلڈ مارشل بنا دیا گیا اور وہ امریکہ کے دورے پر پہنچ گئے جہاں ان کا زبردست استقبال ہوا۔
ششی تھرور کی واپسی کے بعد امریکی فوج کی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل مائیک ایرک کوریلا نے امریکی کانگریس کے سامنے اپنے تفصیلی بیان اور سوال و جواب پر مبنی سماعت کے دوران انتہائی واضح الفاظ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد اور امریکہ سے تعاون کو شاندار اور انسداد دہشت گردی کے لئے مثبت و مفیدکردار کی تعریف کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت دونوں سے تعلقات رکھے گا۔ پچھلے ایک ماہ میں ایک درجن سے زیادہ مرتبہ صدر ٹرمپ تنازع کشمیر پر ثالثی کی غیر عملی اور زبانی پیشکش کے ساتھ ہند پاک جنگ بندی کرانے کا کریڈٹ لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کو پریشان کرچکےتھے۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ بالخصوص پنٹاگان کا پاکستان کی انسداد دہشت گردی کے لئے قربانیوں اور امریکہ سے شراکت کا سرٹیفکیٹ وفود کی ناکامی کا بینّ ثبوت ہے۔کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے اس معاملے کو ہندوستان کی دہائیوں پر محیط خارجہ پالیسی کے لیے ایک دھچکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی مرکزی کمان کے سربراہ کا یہ کہنا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک ’شاندار شراکت دار‘ ہے، ہندوستان کے لیے سفارتی سطح پر ایک سنگین پیغام ہے۔
جئے رام رمیش کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے امریکہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی سطح پر لا کر دیکھ رہا ہے، جو کہ دہائیوں کی خارجہ پالیسی سے حاصل ہونے والی پیش رفت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم اب تک ان نمائندوں کی ستائش میں مصروف ہیں جو دنیا کو پاکستان کی دہشت گردی کی حمایت سے آگاہ کر کے واپس آئے ہیں لیکن اسی دوران واشنگٹن ڈی سی سے آنے والی خبریں ہندوستان کو خارجہ محاذ پر غیر یقینی صورت حال میں دھکیل رہی ہیں۔جے رام رمیش نے مشورہ دیا کہ ، ’’ہم دہائیوں کی محنت سے حاصل شدہ خارجہ پالیسی کو اتنی آسانی سے کمزور نہیں ہونے دیں گے ۔ وقت آ گیا ہے کہ مودی جی ضد چھوڑ کر قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔‘‘ وزیر اعظم اگر اس طرح کے ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے تو جی ۷ جیسے اجلاس میں شرکت کرنے اور تصویریں کھنچوانے کی نمائشی کھیل تماشوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ۔جنرل عاصم منیر کی امریکہ میں پذیرائی وزیر اعظم نریندر مودی کے نوےّ سے زیادہ غیر ملکی دوروں کی ناکامی پر گواہ ہے۔ ویسے میں جہاں تک نیتن یاہو ، نریندر مودی کا سوال ہے ان دونوں کے آنسو پونچھنے والاکوئی تیسرا نہیں ہے اور اب جبکہ امریکہ سرجیکل اسٹرائیک بھی فرضیکل ہوگیا تویہ دونوں فرداً فرداً ٹرمپ کا غم بانٹنے کے لیے امریکہ غالب کا یہ شعر(مع ترمیم) پڑھتے ہوئے واشنگٹن جانا چاہتے ہیں ؎
ٹرمپ، یو ایس میں اکیلا ہے مجھے جانو دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
