Skip to content
حیدرآباد،26جون(ایجنسیز)(مفتی)انعام الحق (خادم محکمہ شرعیہ حیدرآباد) نے اپنے ایک اہم صحافتی بیان میں بتایا کہہائی کورٹ آف تلنگانہ کا فسخ کا ایک مقدمہ اس وقت کافی چرچا میں ہے ، اس کو خلع کے نام سے پیش کیا گیا ہے ۔
اس مقدمہ کے ہائی کورٹ کے آرڈر کو نکال کر دیکھا گیا۔ یہ آرڈر نتیجتاً ڈیسولیوشن آف میریج میں عدالتوں کے کردار سے متعلق ہی بحث کرتا ہے۔ البتہ اس مقدمہ میں ہائی کورٹ سے پہلے یہ فیملی کورٹ بھی گیا تھا، یہ مقدمہ درحقیقت فسخ نکاح کے صدائے حق شرعی کونسل کے ایک فیصلہ سے متعلق ہے ۔ فیملی کورٹ کے فیصلہ میں ایک نکتہ کو چھوڑ کر باقی پہلوؤں کو ہائی کورٹ نے درست قرار دیا ہے۔
2020 میں صدائے حق شرعی کونسل نے ایک متاثرہ کی شوہر کے خلاف شکایت کی سنوائی کر کے اس کا نکاح فسخ کر دیا تھا۔اور فسخ کی بنیاد اسی نکتہ کو بنایا تھا کہ عورت کو خلع کا حق ہے اور مرد اس حق سے انکار نہیں کر سکتا، اگر انکار کرے گا تو اس کا اعتبار نہیں ہے، اور فسخ کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا تھا۔
شوہر نے اس فیصلے کو فیملی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
لیکن اس مقدمے میں مرد نے صرف صدائے حق کونسل کی عدالتی حیثیت کو چیلنج کیا، باقی وجو ہ فسخ کو پرکھنے سے بحث نہیں کی۔
اس مقدمہ میں فیملی کورٹ نے چھ نکات پر مبنی خلع کے ایک طریقہ کار کو پیش کیا کہ:
1-خلع کے موقع پر مصالحتی کوشش ہونی چاہیے۔
2-خلع میں عورت کی طرف سے عوض ہونا چاہیے۔
3-لیکن وقوع خلع کے لیے مرد کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔
4-اگر مرد راضی نہ ہو تو عورت قاضی کے پاس جا سکتی ہے، قاضی کے پاس سے خلع نامہ لے سکتی ہے۔
5-اگر مرد کو قاضی کے خلع نامہ سے اختلاف ہو تو وہ فیملی کورٹ رجوع کر سکتا ہے۔
6-اور فیملی کورٹ جائزہ لے گی کہ قاضی نے خلع نامہ صحیح بنیادوں پر دیا ہے یا نہیں۔
اس فیصلے میں خلع کی شرعی حدود سے تجاوز کیا گیا ہے ، اور ایک خود ساختہ طریقہ خلع کی بات کی ہے
اورفیملی کورٹ نے اپنے ان چھ نکات میں سے پہلے تین نکات پر صدائے حق کے فیصلے کو پرکھا، اور اس کی بنیاد پر مرد کی درخواست کو رد کر دیا کہ کونسل کی جانب سے مصالحتی عمل ہوا تھا، اس کے بعد مرد کو رد کا حق نہیں تھا
مرد فیملی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع ہوا۔
ہائی کورٹ نے اس پورے معاملہ کو جانچا اور ہائی کورٹ نے بھی فیملی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ۔
صرف ایک نکتہ سے اختلاف کیا ، چنانچہ ہائی کورٹ نے مذکورہ بالا فیملی کورٹ کے فیصلے کے چھ نکات میں سے چوتھے نکتہ کو غلط قرار دیا، یعنی خلع نامہ اور خلع کا سرٹیفیکیٹ صدائے حق شرعی کونسل کی جانب سے دئیے جانے کو غلط قرار دیا ، اور ساتھ ہی کہا کہ مفتی یا قاضی کو خلع نامہ کا سرٹیفیکیٹ دینے کا حق نہیں ہے، ہاں وہ شرعی رہنمائی کر سکتے ہیں ، باقی ہائی کورٹ نے اس کے علاوہ فیملی کورٹ کے مقدمے کے فیصلے کے دیگر نکات کو صحیح قرار دیا.
اس فیصلہ سے بھی خلع کے طریقے پر غلط فہمی پیدا ہو رہی، جو شرعی طور پر واضح ہے کہ جب تک خلع کا معاملہ قاضی اسلامی یا عدالتی عمل کے بغیر میاں بیوی میں انجام پائے تو وہاں مرد کی رضامندی لازما ضروری ہے ، ہاں عدالتی عمل اور قضاء میں یہ خلع نہیں رہے گا بلکہ فسخ کا مقدمہ ہو جائے، قاضی شرعی وجوہ فسخ نکاح پر شکایت کو پرکھے گا، اگر شکایت وجوہ فسخ نکاح کے مطابق ہوگی تو قضاء کے ضابطہ سے قاضی شرعی فسخ کا فیصلہ کر سکتا ہے، اور وہاں مرد کی رضامندی ضروری نہیں ہے ۔
بہر حال ہائی کورٹ نے اس مقدمہ میں پابند کیا کہ پارٹیز کو ایسے معاملات میں کورٹ سے رجوع ہونا ہوگا۔
صدائے حق کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے حق کے خلاف اس نکتہ کے علاوہ ہائی کورٹ نے کہا کہ :
چونکہ اس مقدمے میں فیملی کورٹ نے خود بھی عورت کے خلع طلب کرنے کے حق کی وجوہات کو پرکھ لیا ہے اس لیے فیملی کورٹ کا اس مقدمے میں مرد کی درخواست کو رد کرنے کا فیصلہ درست ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ کی جانب سے عدالتی عمل کے لازم ہونے کے بعد خلع میں مرد کی رضامندی اور عدم رضامندی والا معاملہ پھر سے فسخ کا ہو جاتا ہے، خلع کا باقی نہیں رہتا ہے، اس لئے خلع میں مرد کی رضامندی ضروری نہیں ہے کہنا شرعی طور پر صحیح نہیں ہے ۔
لیکن بہرحال مقدمہ کی بعض عبارتوں سے یہ غلط سمجھا جائے گا کہ عدالتی یا پنچائتی عمل میں بھی خلع کی بات ہو رہی ہے ۔
Like this:
Like Loading...