Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
Prof Irfan Shahid

موجودہ تعلیمی بحران اور اسکا سد باب

Posted on 27-06-202527-06-2025 by Maqsood

موجودہ تعلیمی بحران اور اسکا سد باب

ازقلم:پروفیسر عرفان شاھد

حالیہ برسوں میں بھارت میں اسکولی تعلیم شدید تنقید کی زد میں ہے۔ نہ صرف تعلیمی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تعلیم کا معیار بھی دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔ ایک تشویشناک رجحان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے نجی اسکولوں نے تعلیم دینے کے بجائے والدین کا مالی استحصال کرنے کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ اسکول، جو کہ علم اور تربیت کے مراکز ہونے چاہئیں، اب منافع کمانے کے مراکز بن چکے ہیں۔تعلیم کے بجائے منافع کا رجحا ن سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ اسکول فیس میں لگاتار اضافہ ہے۔ نرسری اور لوئر کے جی (LKG) کی سطح پر ہی والدین سے سالانہ ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک فیس وصول کی جاتی ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں ایک بڑی آبادی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں دشواری کا سامنا کرتی ہے۔

current education crisis and its solution

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، بھارت کا متوسط طبقہ گزشتہ چند سالوں میں شدید اقتصادی دباؤ کا شکار ہو کر تقریباً ختم ہو چکا ہے۔نجی اسکول والدین سے پیسے نکالنے کے لیے مختلف راستے تلاش کرتے ہیں۔ اکثر والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یونیفارم، جوتے، کتابیں اور اسٹیشنری اسکول ہی سے خریدیں، جو مارکیٹ ریٹ سے 30% سے 45% مہنگی ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اسکول بنیادی ادویات بھی زائد قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ اگر اسکولوں کو تعلیم اور راشن کے درمیان کوئی تعلق مل جاتا، تو وہ والدین سے اناج بھی خریدنے پر مجبور کر دیتے۔اور اس بات پر بھی زور دیتے کہ بنیادی ادویہ بھی اسکول کے فارمیسی سے مہنگی قیمت پر خریدیں اور اسی طرح سے اگر اسکول کے پاس کو پیٹرول پمپ ہوتا تو اسکول بچوں کے والدین کو مجبور کرتا کہ اسکول کے پیٹرول پمپ سے ہی پیٹرول بھریں۔

یہ ہے تعلیمی معیار کی زبوں حالی۔ بدقسمتی سے اسکولوں کی ترجیح اب تعلیم نہیں رہی۔ کئی اسکول والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ ٹیوشنز میں داخل کریں۔ یہ رجحان خود اس بات کی علامت ہے کہ اسکول اپنا بنیادی فرض نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ نتیجتاً، والدین کو نہ صرف ہوم ورک میں بچوں کی مدد کرنی پڑتی ہے بلکہ بعض اوقات خود پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچے نہیں، بلکہ والدین تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اصل مسئلہ اسکولوں کی ناقص انتظامیہ میں ہے۔ عموماً ایک کلاس میں 40 سے 50 بچے ہوتے ہیں جنہیں ایک ہی استاد پڑھاتا ہے۔ 30 سے 40 منٹ کی کلاس میں ایک استاد کا تمام طلبہ پر توجہ دینا ناممکن ہوتا ہے۔

تعلیمی تحقیق بتاتی ہے کہ مؤثر تدریس کے لیے فی استاد 15 سے 20 طلبہ کا ہونا زیادہ بہتر ہے (بلاچفورڈ، بیسیٹ، اینڈ براؤن، 2011)۔ زیادہ بھیڑ والی کلاسوں میں طلبہ کو معیاری تعلیم ملنا محال ہے، جس کا نتیجہ سطحی معلومات اور رٹنے کی عادت کی صورت میں نکلتا ہے۔تعلیم انسان کا ایک بنیادی حق ہے ۔ معاشیات کی زبان میں اسکو "merit goods” کہتے ہیں ۔ اور اسےہر شہری کے لیے دستیاب ہونا بہت ضروری ہےچاہیے وہ امیر ہو یا غریب۔ لیکن بدقسمتی سے اب یہ دولت مند طبقے کی کٹپتلی بنتی جا رہی ہے۔

اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو شرح خواندگی میں اضافہ رک جائے گا اور شرحِ ناخواندگی دوبارہ بڑھنے لگے گی۔ ناخواندگی کے بڑھنے سے بیروزگاری، غربت اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔ بے روزگاری پہلے ہی بھارت میں ایک سنگین مسئلہ ہے، اور معیاری تعلیم کے بغیر نوجوانوں کے لیے نوکری حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا ۔ تعلیمی سطح میں کمی اور جرائم کی شرح میں اضافے کے درمیان براہ راست تعلق پایا جاتا ہے ۔حکومتی غفلت اور میڈیا کا کرداربدقسمتی سے حکومت اور میڈیا اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دینے کے بجائے نوجوانوں کو غیر ضروری اور غیر صحت مند سرگرمیوں میں مشغول کر رہے ہیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر ٹھوس اقدامات نہ کیے تو تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں میں سرمایہ کاری کرے، نجی اسکولوں کے بے لگام رویے کو کنٹرول کرے اور تعلیم کو ہر شہری کی دسترس میں لائے۔

اسلام کا تعلیمی ماڈل اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے” (ابن ماجہ، حدیث 224)۔تعلیم محض دنیاوی ترقی کا ذریعہ نہیں، بلکہ شخصی نشوونما، معاشرتی فلاح، اور روحانی ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کو اس پہلو پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔ آج بہت سے مسلمان اپنی دولت فضول رسومات، فضول خرچی، شادیوں پر بے جا اخراجات اور غیر ضروری جھگڑوں میں ضائع کر رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی توانائی اور وسائل کو معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے میں صرف کریں۔

ایسے اسکول بنائے جائیں جہاں نفع خوری کے بجائے حقیقی علم اور تربیت پر توجہ دی جائے۔ مسلمانوں کو ماضی کی روایات کو زندہ کرنا ہوگا جب انہوں نے القروین (مراکش) اور الازہر (مصر) جیسے عظیم تعلیمی ادارے قائم کیے تھے، جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی علم کے مراکز تھے۔ایک ہمہ گیر تعلیمی ماڈل کی ضرو رت تعلیم کی اصلاح محض نصاب یا انفراسٹرکچر تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایک جامع ماڈل کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو طلبہ کے ذہن و کردار دونوں کی تربیت کرے۔ تعلیمی اداروں کا مقصد صرف نوکریوں کے لیے کلرک تیار کرنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ایسے باصلاحیت، محنتی اور دیانت دار شہری تیار کرنا چاہیے جو قوم کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

موجودہ تعلیمی صورت حال نہایت تشویشناک ہے
۔ تعلیم کا تجارتی بنیادوں پر استحصال، بڑھتی ہوئی فیسیں، ناقص تدریسی معیار اور والدین پر بڑھتا ہوا مالی دباؤ ایسے مسائل ہیں جن کا فوری حل ناگزیر ہے۔ حکومت کو تعلیم کو ہر فرد کا بنیادی حق بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ ساتھ ہی، مسلم معاشرے کو اپنی ترجیحات درست کرتے ہوئے تعلیم میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ایک ایسا مستقبل جہاں معیاری تعلیم ہر فرد کے لیے سستی اور دستیاب ہو، محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک فوری ضرورت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb