Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
virtues and importance of the month of Muharram Al-Haram

ماہ محرم الحرام فضیلت واہمیت

Posted on 27-06-2025 by Maqsood

ماہ محرم الحرام فضیلت واہمیت

از مفتی عبیدالرحمن قاسمی ظہیرآبادی
استاذ حدیث جامعہ حنفیہ للبنات ظہیرآباد‎

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اسی مہینے سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے یہ وہ مہینہ ہے جس کو اسلام میں عظمت و احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے کیونکہ اس مہینے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعمال مخصوصہ اور تاریخ اسلامی کے بیشتر اہم واقعات وابستہ ہیں اللہ تعالی نے جن چار مہینوں کو محترم مہینے قرار دیا ہے ان میں سے ماہ محرم الحرام بھی ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡهَاۤ اَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ‌
مہینوں کی گنتی اللہ تعالی کے نزدیک بارہ ہے اسی دن سے جس دن اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں اس ایت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانے کی رفتار وہی ہے جس دن اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا (یعنی جس طرح مشرکین ان مہینوں میں کمی زیادتی کرتے تھے اب وہ نہیں ہوگی بلکہ اللہ جس ترتیب کے ساتھ ان کو رکھا ہے اسی کے مطابق چلیں گے )ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے عظمت و حرمت والے ہیں جن میں سے تین مہینے مسلسل آتے ہیں ذوالقعدہ ذوالحجہ محرم اور ایک رجب کا مہینہ ہے جو جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے (صحیح بخاری کتاب التفسیر)
*عظمت والے مہینوں کی قدردانی*
ان حرمت والے مہینوں کی خصوصیت یہ ہے کہ جو شخص ان مہینوں کی قدردانی کرتا ہے اور ان میں اعمال صالحہ کو انجام دیتا ہے اور گناہوں سے اجتناب کرتا ہےتو دیگر مہینوں میں بھی اس کو اللہ تعالی اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرماتے ہیں اسی طریقے سے اس مہینے میں جو نیک اعمال انجام دیے جاتے ہیں ان کے ثواب میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایسے ہی برے اعمال اور گناہوں کا وبال بھی اتنا ہی ہوتا ہے
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا حرمت کے مہینوں میں نیک کام کرنے کا ثواب بہت بڑا ہے لہذا ان میں گناہ کرنے کا وبال بھی بہت بڑا ہے (مظہری)
الغرض یہ وہ مہینے ہیں جنہیں اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی محترم سمجھا جاتا تھا اور اس زمانے کے لوگ ان میں جنگ و قتال کو حرام سمجھتے تھے اور اسلام انے کے بعد بھی ان مہینوں کی عظمت اور حرمت میں اضافہ ہوا ہے
*ماہ محرم‌کی‌نسبت اللہ کی طرف*
خصوصا ماہ محرم الحرام کو ان چاروں میں بھی خاص فضیلت اور اہمیت حاصل ہے اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کی نسبت اللہ رب العزت کی جانب کرتے ہوئے فرمایا افضل الصیام بعد شہر رمضان صیام شہر اللہ المحرم (مسلم)
جس کی نسبت اللہ کی طرف کی جاتی ہے اس کا مقام و مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اس لیے اس ماہ میں اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کرے اور نئے سال کا اغاز اچھے اعمال سے کرے
*محرم الحرام کے روزوں کی فضیلت*
یوں تو اس ماہ میں کی جانے والی ہر عبادت قابل قدر وباعث اجر ہے لیکن احادیث مبارکہ میں محرم کے روزوں کو خصوصی فضیلت دی گئی ہے ایک حدیث پاک میں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہوئے اس ماہ کے روزوں کو رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں أفضل الصیام بعد رمضان صیام شہر اللہ المحرم (مسلم)

اسی طریقے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی اس ماہ کے روزوں کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک صاحب نے آ کر پوچھا یا رسول اللہ اپ مجھے رمضان کے روزوں کے بعد کس مہینے کے روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر رمضان کے مہینے کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہو تو محرم کے مہینے کا روزہ رکھو اس لیے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس میں ایک دن ایسا ہے اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی بھی توبہ قبول فرمائیں گے
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں جس کو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے غنیۃ الطالبین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صام‌یوما من المحرم فلہ بکل یوم‌ ثلاثون‌ یوما جو محرم کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اس کو ایک مہینے کے روزوں کا ثواب ملے گا
*یوم عاشورہ کا روزہ اور اس کے فضائل*
یوم عاشور کے متعلق امام مسلم نے یہ حدیث نقل کی ہے صیام یوم عاشورہ احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ اللتی قبلہ واللتی بعدہ جو شخص یوم عاشورہ کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے گزشتہ سال کے (صغیرہ) گناہ معاف کرتے ہیں
اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان اور دس محرم کے دن روزہ رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان موجود ہے مارأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتحری صیام یوم فضلہ علی غیرہ الا ہذا الیوم عاشوراء (البخاری)
یوم عاشوراء کے روزہ کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدائے اسلام اس دن روزہ فرض تھا لیکن رمضان کے روزوں کے فرض ہونے کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتےتھے اس لئے علماء نے لکھا ہے اس دن کا روزہ مسنون ومستحب ہے اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہواکہ یہودی بھی شکرانہ کے طور پر عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی رکھوں گا جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھو لہٰذا فقہاءِ کرام نے عاشورہ کے ساتھ نو محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا ہے اور یہودیوں کی مشابہت کی کی بنا پر صرف عاشورہ کا روزہ رکھنے کو مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے اس لیےدسویں کے ساتھ نویں یا گیارہوں کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے اس سلسلے میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے بہترین توجیہ کی ہے کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں: (۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے، (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے، (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے

عاشوراء کے دن اہل و عیال پر وسعت کرنا
عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر رزق کی وسعت اور فراخی سے پیش آنے کی ہدایات حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ملتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے.
حضرت سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا
محدثین کرام کے ہاں یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے یہ قابلِ استدلال ہے، لہٰذااگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل پر جو فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ ان شاءالله ضرور حاصل ہوگی۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہر مسلمان کو اس ماہ میں اعمال صالحہ کی طرف توجہ دینا چاہیے اور گناہوں سے اجتناب کرناچاہئے اور یوم‌عاشواء کے دن صرف دوکام‌کاثبوت ملتا ہے ہے ایک تو روزہ کہنا ہے اور دوسرا اس دن اپنے اہل وعیال پر وسعت سے خرچ کرنا ہے اس کے علاہ ناجائز رسومات اور بدعات وخرافات میں حصہ لینا یہ انتہائ کبیرہ گناہ ہے اس سے ہر مسلمان کے لئے احتراز اور پرہیز کرنا ضروری ہے ورنہ نیکی برباد گناہ لازم آجائےگا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb