Skip to content
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟
ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان
امریکہ و اسرائیل کے حالیہ تصادم میں صہیونیوں کو نہ صرف جنگ کے میدان میں بلکہ سفارتکاری کے شعبے میں بعد بڑی شکست ہوئی ۔عالمی رائے عامہ اسرائیل کے بجائے ایران کے ساتھ تھی اور اس کا سب سے بڑا ثبوت شیوسینا کے ترجمان کو کشادہ دلی کے ساتھ پیش کیا جانے والاخراجِ عقیدت ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایران کی اسرائیل سمیت امریکہ کو جھکانے کی تعریف کی بلکہ آیت اللہ خامہ ای کو قیادت کو بھی دل کھول کر سراہا اور آر ایس ایس کو اس پر تحقیق کرنے کا مشورہ دے دیا۔ امریکی صدر جب ایران پر حملے کے لیے امریکی فوج کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے بہت ہی کامیاب فوجی آپریشن قرار دے رہے تھے ا اس وقت ایران کی زبردست جوابی کارروائی نے اسرائیل کے تل ابیب سمیت دیگر شہروں کےزیر زمین بنکر اور میٹرو اسٹیشن میں چھپنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا تھا۔ اس دوران تہران سے لے کر لبنان ، بغداد اور یمن تک لاکھوں لوگ سڑک پر اتر کر صہیونی مخالف مظاہرے کررہے تھے ۔ ایمان و شجاعت کا مظاہرہ توحسبِ توقع تھا مگر امریکی ایوانِ پارلیمان کے سامنے ایران اور فلسطین کے حق میں مظاہرے کی ویڈیو نے ساری دنیا کوحیرت زدہ کر دیا ۔
یہ بات کون سوچ سکتا تھا کہ ایران سے چھیڑی گئی اسرائیل کی بلا اشتعال جنگ کے خلاف قصرِ ابیض کے باہر ہزاروں امریکی احتجاج کریں گے؟ تصورِ خیال سے پرے اس واردات کو نیتن یاہو کی مسلط شدہ جارحیت نے حقیقت بنادیا ۔ شدید بارش کے باوجود وہاں موجود مظاہرین نےغزہ میں جاری نسل کشی اور ایران پر اسرائیلی فوجی حملوں کے خلاف نعرے لگا ئے ۔ وہائٹ ہاؤس کے سامنے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے والے امریکی باشندے اپنی حکومت سے اسرائیل کو روکنے اور اس جنگ میں حملہ آور کی معاونت نہ کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان مظاہرین کے ہاتھوں میں فلسطینی اور ایرانی پرچم لہرا رہےتھے۔ ان میں سے متعدد نے مجاہدین غزہ سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کی خاطر کیفیہ بھی پہن رکھی تھی۔ احتجاج کرنے والوں کے پلے کارڈز پر مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کے واضح پیغامات تھے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی مذمت کرنےوالے یہ انصاف پسند نفوس امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر غزہ میں قتل عام کو فوری طور پر روکنے کے لیے دباو ڈال رہے تھے۔
امریکہ کی تاریخ میں ’’۱۱؍ستمبر‘‘ کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورس کا زمین بوس ہونا ایسا غیر معمولی واقعہ تھا کہ جس کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد ایک طوفان برپا کردیاگیا ۔ افغانستان پر ناٹو حملہ کے لیے بلا کسی ثبوت اسی حملے کو بہانہ بنایا گیا ۔ وہ تو بس ایک ابتداء تھی ا ٓگے چل کر اسلاموفوبیا کا وہ طوفان برپا کیا گیا کہ جس نے دیکھتے دیکھتے امریکہ اور یوروپ کے اندر اسلام و مسلمانوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ۔’’۱۱؍ستمبر‘‘حملے کے بعد تشکیل دی جانے والی’’آنسر‘‘ نامی تنظیم کے ذریعہ مذکورہ بالا مظاہرے کااہتمام کسی معجزے سے کم نہیں تھا ۔ اس احتجاج کو’’ اسرائیل کے خلاف ہتھیار بن کر کھڑے لوگ‘‘ کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے آپ کو جمہوریت کا سرخیل کہنے والے امریکہ اور ’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ اور عوام کے لیے‘ کا خوشنما نعرہ لگانے والی امریکی حکومت نے اگلے ہی دن ایران پر حملہ کرکے اپنی منافقت کو بے نقاب کردیا ۔
اس سے قطع نظر وائٹ ہاوس کے باہر صدائے احتجاج بلند کرنے و الے حریت پسندوں نے یہ پیغام تو ساری دنیا تک پہنچا ہی دیا کہ خود امریکہ میں بھی لاکھوں افراد ان مظالم کی حمایت نہیں کرتےبلکہ اس کے مخالفت کرتے ہیں مگر افسوس کے ان پر جمہوری نظام نے ایسے حکمرانوں کو مسلط کردیا ہے جنھیں اپنے ہی لوگوں کے احساسات و جذبات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ حکمراں اپنے سیاسی اور سرمایہ داروں کے معاشی مفادات کی خاطر اس دنیا کو جہنم زار بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ مذکورہ بالا مظاہرے میں شامل فلسطینی یوتھ موومنٹ کی ایک اہلکارایمان نے قصر ابیض کے باہر نہایت دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’آج ہم یہاں ایران پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اسرائیل پر ہتھیاروں کی مکمل پابندی پر زور دیتے ہوئے مارسک جیسی کمپنیوں سے ہتھیاروں کی ترسیل کوپوری طرح روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرہ محض عربوں یا مسلمانوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں مختلف ممالک اور مذاہب کے ماننے والے لوگ شریک تھے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ آہنی ہاتھوں سے باہری لوگوں کو ڈرا دھمکا رہا ہے اس احتجاج کا اہتمام کرنے والوں نے بہت بڑا خطرہ مول لے کر کمال جرأتمندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مونٹگمری کاؤنٹی سے مظاہرے میں آنے والی سارہ گریمشا نے اخبار نوایسوں کوبتایا کہ وہ امریکی پیسے اور اثر و رسوخ کے ذریعہ بے گناہ شہریوں کو مزید نقصان سے بچانا چاہتی ہے۔ دنیا کی سب سے عظیم جمہوریت امریکہ میں تو کم از کم سرکار کی اسرائیلی حمایت کےخلاف احتجاج تو ہوگیا لیکن انہیں دنوں میں خود کو دنیا کی وسیع ترین جمہوریت کا تمغہ دینے والے ہندوستان کے عروس البلاد میں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ 18؍ جون کو جب امریکہ کے مظاہرے والے دن ممبئی کے اندر دائیں بازو کی جماعتوں نے دیگر ہمنواوں کو ساتھ لے کر غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف امن مارچ نکالنے کا اعلان تو کیا مگر اسے بزورِ قوت کچل دیا گیا۔
مذکورہ بالا امن ریلی کا فیصلہ ایران اسرائیل تصادم سے بہت پہلے ہوا تھا۔ یہ در اصل ملک گیر تحریک کا حصہ تھا ۔ دہلی سمیت ملک دیگر شہروں میں تو اس کے تحت بڑے زور و شور سے مظاہرے منعقد ہوئے مگر وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کی ممبئی پولیس اس معاملے میں بہت حساس ہوگئی ۔ اس نے اسرائیلی قونصل خانے کے باہر مظاہرے کی اجازت نہیں دی اور میمورنڈم پہنچانے تک کی سہولت دینے سے انکار کردیا ۔ دہلی کے جنتر منتر کی مانند ممبئی کےآزاد میدان کو بمبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعہ احتجاج و مظاہروں کے لیے مختص کیا ہوا ہے۔ اسرائیلی قونصل خانے تک رسائی سےمحرومی کے بعد منتظمین نے آزاد میدان پر امن ریلی کے اہتمام کا فیصلہ کیا ۔ وہاں مظاہرہ روکنے کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا اس کے باوجود انتظامیہ نے اجازت منسوخ کردی ۔
انتظامیہ نے بین الاقوامی حالات اور دیگر تنظیموں مثلاً وشوہندو پریشد وغیرہ کے اسرائیل کی حمایت میں جلوس نکالنے کی دھمکی کا بہانہ بنایا ۔ ان دونوں کے تصادم سے نظم نسق میں خلل کا اندیشہ ظاہر کیا گیا۔ یہ نہایت نامعقول دلائل تھے کیونکہ دہلی اور پٹنہ وغیرہ میں اگر بین الاقوامی حالات ریلی کی راہ کا روڑہ نہیں بنے تو ممبئی میں وہ کیسے بدل گئے؟ دیگر فسادی تنظیموں کی آڑ میں مذکورہ احتجاج کے بیشتر منتظمین کو حراست میں لےلیناموجودہ حکومت کی اسرائیل نوازی کا بینّ ثبوت ہے۔ وہائٹ ہاؤس مظاہرے کے دوران بھی ایک چھوٹا گروہ اسرائیلی پرچم لےکر پہنچا تو فلسطین اور ایران حامیوں نے بآواز بلند’’صیہونی، صیہونی واپس جاؤ، مشرق وسطیٰ ہمارا ہے۔‘‘ کا نعرہ لگایا۔ پولیس نےتصادم روکنے کے لیے دھکا مکی کی تو اسرائیل کا حامی گروہ منتشر ہوگیا۔ ممبئی میں بھی یہی ہوتابلکہ مشرق وسطیٰ کے اندر بھی اسرائیل کو ایسی ہی ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔
امریکی مظاہرے میں شریک ایمان کا یہ عزم حوصلہ افزا ہے کہ ’’ہم اس وقت تک سڑکوں پر رہیں گے جب تک کہ فلسطین کا ایک ایک انچ آزاد نہیں ہو جاتا، جب تک امریکہ مشرق وسطیٰ سے مکمل طور پر باہر نہیں ہو جاتا، اور جب تک اسرائیل ایران، فلسطین، لبنان، یمن اور ہر دوسرے عرب ملک پر اپنی جارحیت بند نہیں کرتا۔‘‘ ٹرمپ جیسے ظالم و جابر کے دور ِ اقتدار میں اس جری و بے خوف موقف کا اعلان ایمان و یقین میں اضافہ کرتا ہے۔ وہاں پرایرانیوں شرکت فطری امر تھی کیونکہ وہ لوگ اپنے ملک میں ا عزہ و اقارب کی خاطر فکر مند ہیں ۔ ان میں سے ایک آریہ مہان نامی ایرانی نژاد فرد نے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کرکے اسے بہت بڑا خطرہ بتایا ۔ اس کو اندیشہ ہے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اپنی جنگ جاری رکھنے سے کوئی نہیں روکے گا لیکن ایران کی مزاحمت اور اقدام نے اسے پسپائی کے لیے مجبور کردیا ہے ۔ امریکہ کو اسی لیے میدان میں کودنا پڑا کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم اپنے آقا کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑا رہا تھا ۔
امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک نے جی ۷ میں کھل کر اسرائیل کے حملے کی حمایت تو کی مگر بعد میں جینیوا کے اندر فرانس ، جرمنی اور برطانیہ نے ایران کے ساتھ جنگ بندی پر گفتگو بھی شروع کردی ۔ ایک طرف دنیا بھر میں اس حوالے سے بیداری آرہی دوسری جانب ہندوستان نے اسرائیل-ایران تنازعہ پر شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے بیان پر بحث میں حصہ نہیں لیامگر کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری پر زور دیا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے ایرانی ہم منصب سے تبادلہ خیال کرکے اس پیش رفت پر عالمی برادری کی گہری تشویش سے آگاہ کیا لیکن یہ لیپا پوتی ملک کے روایتی خارجہ پالیسی کے خلاف ہونے کے ساتھ ہندوستان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اس ڈھل مل رویہ سے وطن عزیز کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے مودی سرکار کی ہندوتواز سرکار کی اسرائیل نوازی ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا بھٹا ّ بیٹھا دیا۔
Like this:
Like Loading...
Muslim woman’s Khula divorce victory in Telangana HC rekindles marital-equality debate – India Today https://www.indiatoday.in/india/story/muslim-woman-divorce-win-in-telangana-high-court-rekindles-marital-equality-debate-khula-doesnt-need-husband-consent-2750771-2025-07-05#google_vignette
محترم المقام جناب ڈاکٹر سلیم صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں آپ کے ایڈیٹوریلس ضرور پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالیُآپ کی ہر خطرہ سے حفاظت فرمائے۔
اللہ کرے زور قلم اور ہو زیادہ
اس وقت تلنگانہ کورٹ کا خلع کے بارہ میں فیصلے شریعت کے بالکل خلاف ہے-
مسلم پر سنل لا بورڈ کو جگانے کی ضرورت ہے اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ انھں جگائیں اور جلد سے جلد قانونی مدت ختم ہونے سے پہلے سپریم کورٹ رجوع ہوں۔
میرا ایک مضمون ( ایک نئی پارٹی کی سخت ضرورت) آپ کو ارسال کیا تھا مگر مجھے بے حد افسوس ہے کہ آپ نے اسے نظر انداز کر دیا ۔ کاش بحیثیت ایک مسلمان اس پر آپ کے رائے ہی بھیج دیتے۔
آپ کا مخلص
سید محمد ظفر ندوی
سابق فیملی کونسلر دبی کورٹ
حال مقیم شارجہ