نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی نے بہار کی ووٹر لسٹ کی خصوصی جانچ پڑتال کے فیصلے کی سختی سے مخالفت کی ہے، اور دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اسے ریاست کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو خفیہ طور پر لاگو کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا سائٹX پر پوسٹ کیا، "الیکشن کمیشن بہار میں NRC کو خاموشی سے نافذ کر رہا ہے۔” ووٹر لسٹ میں اپنا نام شامل کرنے کے لیے اب ہر شہری کو اپنی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا جس میں اس کے والدین کی جائے پیدائش بھی شامل ہے۔
معتبر اندازوں کے مطابق، بھارت میں صرف تین چوتھائی پیدائشیں ہی ریکارڈ کی جاتی ہیں، اور سرکاری کاغذی کارروائیوں میں اہم غلطیاں اکثر دریافت ہوتی ہیں، اویسی کے مطابق، جنہوں نے اس طریقہ کار کو عوام مخالف قرار دیا۔ ان کے مطابق، نئے طریقہ کار کے نتیجے میں لاکھوں رہائشیوں کو جن کے پاس مناسب دستاویزات نہیں ہیں، مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے خاص طور پر بہار کے سیمانچل علاقے کا ذکر کیا، جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ انتہائی غربت میں رہتا ہے اور اکثر سیلاب سے متاثر ہوتا ہے۔ اویسی نے کہا، "ان لوگوں کے لیے دن میں دو وقت کا کھانا تقریباً ناممکن ہے۔ ان سے اپنے والدین کے دستاویزات کی توقع کرنا ایک خوفناک مذاق ہے۔
اویسی نے خبردار کیا کہ اس طرح کی کارروائی سے ریاست کے غریب اور پسماندہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا جا سکتا ہے، ووٹ ڈالنے کی اہلیت کو آئینی حق قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ 1995 میں اس طرح کی من مانی کو روکنے کے لیے پہلے ہی سخت ریمارکس دے چکی ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کے اتنے قریب ایسی مشق شروع کرنے سے الیکشن کمیشن پر عوام کا اعتماد ختم ہو سکتا ہے جو کہ جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔
دوسری جانب بہار کے نائب وزیر اعلیٰ وجے کمار سنہا نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اپوزیشن لیڈر اس فیصلے سے پریشان کیوں ہیں؟ الیکشن کمیشن اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا چاہتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟