۳۰؍ جون یوم پیدائش پر خصوصی مضمون
بچوں کے دل میں اسلام کی عظمت پیداکرنے والا شاعراور ادیب مرتضیٰ ساحل ؔتسلیمی
ازقلم:ڈاکٹر سراج الدین ندوی
مدیر ماہنامہ اچھاساتھی۔بجنور
9897334419
مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی کی ولادت 30؍جون1953ء کو رام پور کے ایک معززروہیلہ پٹھان خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام مصطفی علی خاں تھاجو اردو اور فارسی کا اچھا علم رکھتے تھے ساتھ ہی شاعری کا شوق بھی تھا۔ شاعری میں صرف نعت کہتے تھے۔ ان کے نانا حبیب الرحمن خاں ریاست رام پور میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ آپ کے ایک بھائی مولانا شفیق الرحمن تھے جو مولانا محمد علی جوہرؔ کے ہم عمر اور ہم مذاق تھے۔ مولانا شفیق الرحمن مجاہدین آزادی میں ایک ممتاز مقام کے حامل تھے۔
مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی نے دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم رام پور میں ہی حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز ایک دینی مدرسے سے ہوا۔ جہاں آپ نے دوسال تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کا داخلہ ایک سرکاری اسکول میں کرادیا گیا جہاں آپ کی باقاعدہ نصابی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ 1968ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرلیا ۔ آپ نے گیارہویں کلاس میں داخلہ لینے کے بجائے آئی۔ ٹی ۔ آئی میں داخلہ لے لیا۔1969ء میں الیکٹریشن ٹریڈ میں ڈپلو حاصل کیا۔اس کے بعد1971ء میں انٹر میڈیٹ اور1974ء میں بی اے کا امتحان پاس کرلیا. وہ اسکول اور کالج میں ہمیشہ نمایاں طلبہ کی فہرست میں رہے۔دوران ملازمت ہی انہوںنے 1976ء میں اردو میں ایم۔ اے کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی اور پھر1982ء میں معلم اردو اور بی ایڈ کے امتحانات بھی پاس کئے۔
آپ 1972 میں ’ادارہ الحسنات‘ آئے۔1994میں سرکاری ملازمت بحیثیت پرائمری اردو ٹیچر اختیار کی ۔آپ کی شادی 14؍جولائی 1984ء کو ایک معزز گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دین دار لڑکی عصمت آرا کے ساتھ ہوئی۔1969میں شعر گوئی کا ذوق پیدا ہواجو مسلسل پختہ ہوتا گیا۔
آپ کی ادبی کاوشوں کو بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔جن میں ’’ایوارڈ برائے ادبِ اطفال‘‘ از اردو اکیڈمی،مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ، ڈاکٹر ہتیش چند گپتا فیلو شپ ایوارڈ،آسرا ایوارڈشہید آصف شاہ میری قومی ایوارڈ ،خان امانت کمال میموریل ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔آپ اترپردیش اردو اکیڈمی کے ممبر بھی رہے۔
’’نور‘‘ اور ’’ہلال‘‘ کے مختلف کالموں کے ذریعہ مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی سے غائبانہ تعارف ہوا۔ ان کی شخصیت کا ذہن میں جو خاکہ مرتسم ہوا وہ کچھ اس طرح تھا۔’’عمر رسیدہ صاحب ریش بزرگ، ایک ٹوٹی پھوٹی میز پر جلوہ افروز، سامنے ایک طرف بہت سے نئے اور پرانے قلم دوسری طرف بکھرے ہوئے اوراق کہیں سے لکھے ہوئے، کہیں سے مٹے ہوئے، ماحول سے بے نیاز، مسودوں میں گم۔‘‘مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی صاحب کی یہ تصویر میں نے نہیں بلکہ ان کی تخلیقات نے میرے ذہن میں نقش کی تھی۔ میں جب ان کی تخلیقات پڑھتا تو ان کی بارعب وباتمکنت شخصیت کا یہی خاکہ میرے ذہن کو اپنے حصار میں لے لیتا۔لیکن ملاقات پر میں نے ان کو جواں سال،کالی داڑھی ،سلیقہ پر میز پر سامان رکھا ہوا،چاق و چوبند ،ہر شئی پر نظر رکھنے والا پایا۔
مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی صاحب بڑی جرأت وہمت اور حوصلہ واُمنگ کے آدمی تھے۔ وہ رسالوں کی ترتیب وتزئین کے لیے کس قدر محنت کرتے تھے یہ بات صرف ان کے قریبی احباب ہی جانتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اوراق میں اس قدر گم ہوجاتے تھے کہ انہیں اپنی بھی فکر نہیں رہتی، نہ یہ خیال رہتا ہے کہ کب کھانا کھایا اور کب پانی پیا ہے۔ صبح کو کرسی پر بیٹھے ہیں تو آدھی آدھی رات تک بیٹھے رہتے اور مسلسل کام کرتے رہتے تھے۔ بس ضروریات یا نماز کے لیے اٹھتے تھے۔
مسلسل محنت انسان کی طبیعت میں روکھا پن پیدا کردیتی ہے مگر یہ تضادمرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی صاحب کے یہاں بدرجۂ اتم موجود تھاکہ وہ جتنے محنتی تھے اتنے ہی زندہ دل اور شگفتہ مزاج اور ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ وہ محنتی زیادہ تھے یا زندہ دل زیادہ تھے۔ آ پ ان سے ایسے وقت جب وہ بہت مصروف ہوں، ان پر کاموں کا بوجھ سوار ہو، ملنے جائیں اس وقت بھی آپ ان کو دل گرفتہ نہیں پائیں گے۔ ان کی طبیعت میں بڑی زندہ دلی تھی، کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا تھاکہ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے اپنے کو خوش رکھتے ہیں۔ وہ اگر یہ محسوس کرتے تھے کہ مخاطب کچھ دل گرفتہ ہے تو اس سے ایسی ایسی باتیں کرتے تھے کہ وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا گے بلکہ وہ اس کی تلخیوں کو بھی قہقہوں میں تحلیل کرکے رکھ دیتے تھے۔ وہ دوستوں کا غم اس طرح بانٹتے تھے کہ وہ غم دوستوں کا نہیں بلکہ خود ان کا بن جاتا تھا۔ وہ دوستوں کی خوشی میں بھی اس طرح شریک ہوتے تھے کہ گویا ان کے یہاں کوئی تقریب مسرت منائی جارہی ہے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ گہرے مطالعہ اور خلوص نے ان کی طبیعت کو یہ رنگ دیا تھا یا ان کا خلوص اور گہرا مطالعہ ان کی طبیعت کے رنگ کا نتیجہ تھا۔
آپ ان سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کیجئے ان کی شگفتہ مزاجی آپ کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکے گی۔ آپ کسی نازک یا جذباتی مسئلہ پر گفتگو کرکے ان کو مشتعل کرنا چاہیں تو آپ کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ ان کی گفتگو شاعری، نثر اور خطوط سب میں لطافت طبیعت اور سوز دروں کی دلآویز کیفیت ملتی ہے۔ ماہنامہ نور کے قارئین ہر طرح کے خطوط لکھتے ہیں بعض خطوط بہت حوصلہ افزا ہوتے ہیں اور بعض خطوط کا اندازہ بڑا تیکھا ہوتا ہے مگر مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی صاحب جب ’’آپ کا خط ملا‘‘ کے تحت ان خطوط کا جواب دیتے تھے توشکایت کرنے والا بھی جواب پڑھ کر ہنسے بغیر نہ رہتا تھا ۔
ساحل صاحب کے یہاں عبارتوں میں ظرافت وچاشنی ہوتی تھی اور سادگی وسہل نگاری بھی۔ آپ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اخلاقی قدروں کے پیش نظر بچوں کو آسان زبان وبیان میں بہت مواد فراہم کیا ہے۔ بہت سی کہانیاں اور نظمیں تخلیق کرکے آپ نے بچوں کے ادب میں قابل قدر اضافہ کیاہے۔ آپ بچوں کے لیے ایسی زبان استعمال کرتے تھے جو ان کی عمر اور صلاحیت کے اعتبار سے نہایت موزوں اور آسان ہوتی تھی۔ بچوں کی نفسیات اور دلچسپی کا بھرپور خیال رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ بچے اور طلبہ ، آپ کی تخلیقات کو آج بھی بہت شوق اور رغبت سے پڑھتے ہیں۔دل کی کیفیات کو قلم کے ذریعہ کاغذ پر اتارنے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔ مولانا عبدالحی ؒ کے سانحۂ ارتحال پر اپنے خصوصی مضمون کا آغاز اس طرح کرتے ہیں۔
’’آہ وہ لمحہ کہ جب دل کے ہیروشیما پر الفاظ کا ایٹم بم گرا!‘‘
آنے والے نے کہا’’ابا جان گزر گئے۔‘‘
’’کیا ـــــ؟‘‘
اور وہ آنکھوں میںآنسوئوں کے موتی سجائے سرجھکاکر سراپا سوگوار ہوگیا…
دیکھا گیا ہے کہ علمی وادبی کاموں میں مصروف شخصیتیں زندگی کی دوسری سرگرمیوں سے کٹ کر رہ جاتی ہیں، ان کا کام صرف پڑھنا اور لکھنا رہ جاتا ہے ملکی وملی مسائل سے وہ بہت کم تعرض کرتے ہیں مگر ساحل صاحب کی یہ خوبی بہت نمایاں تھی کہ وہ ملکی وملی مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتے تھے بلکہ ان کے حل کے لیے سرگرم عمل بھی رہتے تھے۔ وہ ملکی وملی مسائل کے سلسلہ میں اپنی فراست اور اندازِ فکر پر پورا اعتماد کرتے تھے۔ ان کی رائے میں تذبذب، پائے ثبات میں تزلزل اور مزاج میں تلون برائے نام بھی نہیں ملتا ۔یہی وجہ ہے کہ بعض احباب کو ان سے غلو وانتہا پسندی کی شکایت ہونے لگتی تھی۔
مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی صاحب دور جدید کے اردو ادب کے معماروں میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ وہ ایک ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی تھے جو اخلاقی قدروں کا فروغ اپنا ادبی فریضہ سمجھتے تھے اس لیے ان کے اسلوب کو اخلاقی قدروں سے اور اخلاقی قدروں کو ان کے اسلوب سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ بڑی ناقدری ہوگی اگر میں کھلے دل سے یہ اعتراف نہ کروں کہ میری تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور ادبی حلقہ میں مجھے متعارف کرانے میں مرتضیٰ ساحلؔ صاحب کا ایک بڑا حصہ ہے۔ وہ میرے ایک بے تکلف دوست، مخلص مشیر وہمدرد اور بے لوث مرُبیّ تھے۔
ساحلؔ تسلیمی صاحب نے بچوں کے لیے بامقصد اور تعمیری ادب تخلیق کیا، وہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے ، وہ اپنی اس مہارت(SKILL)کو بھی بچوں کی فکری اورذہنی صالح تربیت کے لیے استعمال کرتے تھے۔مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی صاحب بچوں کے ایسے ادیب ہیں جنہوںنے خود بچہ بن کر بچوں کے لیے نظمیں بھی کہیں اور کہانیاں بھی لکھیں۔ ان کی تخلیقات بہت مقصدی اور شعوری ہوتی تھیں۔ وہ کسی عظیم مقصد تک بچوں کے ذہن وفکر کی ترسیل کے لیے ادب تخلیق کرتے تھے۔ ان کی نظموں میں بہت نغمگی اور ترنم ہوتا تھا۔ کہانیاں بھی بہت آسان اور سلیس زبان میں لکھتے تھے، ان کے یہاں پیچیدگی اور ابہام بالکل نہیں ہوتا تھا وہ صحیح معنیٰ میں ابوسلیم عبدالحی اور مائل خیرآبادی کے جاں نشین تھے۔
آج جب کہ رشتوں کی پہچان ختم ہوتی جارہی ہے، ڈیجیٹل مصروفیت نے بچوں کو اپنی خالہ، ممانی، پھوپی، چچی اور تائی وغیرہ سے بہت دور کردیا ہے۔کبھی بچے ان کے پاس گھنٹوں گھنٹوں بیٹھا کرتے تھے اور ان کی صحبت سے اپنی توانائیوں میں اضافہ کرتے تھے۔ آج بچوں کو ان سے بات کرنے کی فرصت بھی نہیں ملتی چہ جائیکہ ان سے کہانیاں سنیں اوران کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ اس دور میں مرتضیٰ ساحلؔ تسلیمی صاحب نے اپنی کہانیوں اور نظموں کے ذریعے بچوں کو رشتوں کی پہچان کرائی اور ان کی اہمیت اور قدردانی سکھائی۔
ان کا ایک بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے بہت سے نوجوانوں کو قلم پکڑنا سکھایا۔ کم لکھنے والوں کو زیادہ لکھنے والا بنایا۔ سست رفتار لوگوں کو تیز رفتار بنایا۔ مایوس اور شکستہ خاطر ادیبوں کو مایوسیوں کے سمندر سے نکال کر امید کے ساحل پر لاکھڑا کیا۔ انہوںنے بچوں کو اپنی خوابید ہ صلاحیتیں پہچاننے اور بڑھانے کا ہنر سکھایا۔ انھوںنے بچوں کو مفید اور عظیم انسان بننے پر آمادہ کیا۔
وہ اچھے ادیب وشاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے۔ انکساری وتواضع ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ بہت قناعت پسند تھے۔ انہوںنے کبھی معاشی ضرورتوں کی فائل نہیں کھولی، انہوںنے کبھی اپنے مالکان سے مشاہرے میں اضافے کے لیے دبائو نہیں بنایا۔ وہ لوگوں سے تعلقات بنانے اور انہیں قائم رکھنے بلکہ انہیں بڑھانے کا بھی خوب ملکہ رکھتے تھے۔
انہیں تین نسلوں کے ماتحت کام کرنے کا موقع ملا۔ رسائل کے بانی مولانا عبدالحی صاحب پھر ان کے بیٹے عبد الملک سلیم صاحب پھر ان کے بیٹے عبدالباری وسیم اور عبدالخالق نسیم صاحب ان رسائل کے مالکان رہے اور ساحلؔ تسلیمی صاحب ان رسائل کی ادارت کرتے رہے اور ان کے تعلقات ومعاملات سب سے اچھے رہے۔بچوں کا یہ ادیب ،دوستوں کا دوست اور غم زدوں کو ہنسانے والا، 21اگست2020 کو اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں درجات بلند فرمائے۔
٭٭