Skip to content
Al Hilal Media.

Al Hilal Media.

Editor : Maqsood Yamani

Menu
  • اہم خبریں
  • قومی خبریں
  • بین الاقوامی
  • عالم عرب
  • مضامین
  • اسلامیات
  • حیدرآباد
  • کھیل و تفریح
  • مذہبی خبریں
  • ہمارے بارے میں
  • Advertisement
Menu
ظہران ممدانی

ظہران ممدانی :عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

Posted on 30-06-202501-07-2025 by Maqsood

ظہران ممدانی :عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

(گزشتہ سے پیوستہ)

ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان

نیویارک شہر میں میئر کے امیدوار ظہران ممدانی کی شخصیت فی الحال امریکہ سے لے کر ہندوستان تک موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ ان کا بیک وقت ’مودی ، یاہو اور ٹرمپ ‘ کامخالف ہونا ہے اس لیے امریکہ میں اپنی تعداد پر فخر کرنے والے زعفرانی ہندوستانی بھی ممدانی سے ناراض ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں ممدانی کی ایک پرانی ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر بہت زور و شور سے وائرل ہورہی ہے۔ اس ویڈیو میں وہ مودی کی دُکھتی رگ یعنی 2002 کے گجرات فسادات پر نہایت سخت تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ظہران ممدانی اپنا تعارف اس طرح کرایاتھاکہ ، ’’میرے والد، ان کا خاندان ہندوستان کے گجرات سے آتا ہے، ان کا خاندان مسلمان ہے، اور میں مسلمان ہوں۔‘‘ ممدانی کی والدہ معروف فلم سازمیرا نائر ہیں اس تناظر میں یہ تعارف غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں انہوں نے یہ بتایا کہ وہ براک اوبامہ کی مانند اپنی والدہ کے نہیں بلکہ والد کے دین پر ہیں ۔

ممدانی نےاپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ ، ’’نریندر مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کرنے میں اس حد تک مدد کی کہ ہمیں یقین تک نہیں آتا کہ اب گجراتی مسلمان موجود ہیں۔‘‘ امریکہ کے تناظر میں وہ آگے کہتے ہیں کہ ’’جب میں کسی کو بتاتا ہوں کہ میں [ایک گجراتی مسلمان] ہوں، تو یہ ان کے لیے صدمہ (کی خبر) ہوتی ہے۔ ظہران نے جب ہندوستانی وزیر اعظم کا موازنہ ان کے اسرائیلی ہم منصب ب یامین نیتن یاہو سے کیاتو بہت سارے لوگوں پر یہ تبصرہ گراں گزرا مگر پی ایم مودی تو اس پر خوش ہوئے ہوں گے کیونکہ پہلگام و ایران پر حملے کے بعد انہیں دونوں نے فون پربات کرکے ایک دوسرے کا غم غلط کیا تھا ۔ عالمی دوستی کےدن پر تو نیتن یاہو کا فلمی پیغام’ یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے ، توڑیں گے دم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے‘ کون بھول سکتا ہے۔ ظہران نےگزشتہ سال نومبر( 2024) میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری کا حوالہ دےکر کہا تھا کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نیویارک شہر کا دورہ کرتے ہیں، تو وہ انہیں گرفتار کرانے کی کوشش کریں گے۔

اپنے دو ٹوک موقف کے سبب ظہران نے بیک وقت سنگھ پریوار، یہودی لابی اورسفید فام نسل پرستی کے سرخیل ٹرمپ سے بھی پنگا لے رکھا ہے۔ وہ اقتدار کے آگے سرینڈر کرکے کش پٹیل کی مانند دُم ہلانے کے بجائے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں۔ فلسطین نواز موقف کی وجہ سے وہ اسرائیل کے حامی گروہوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور خود ٹرمپ نے بھی ان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ہندوستانی نژاد امریکی رہنماؤں اور اہم شخصیات نے ظہران کی اس حقیقت بیانی پر شدید پر نفرت انگیزی اور مذہبی تقسیم کو وسیع کرنے کا الزام لگاتے ہیں ۔ امریکی سیاست ڈان جینیفر راجکمار نے اپنی مذمت میں کہا تھا کہ غیر ملکی لیڈروں کو نشانہ بنانے والی تفرقہ انگیز بیان بازی کی نیویارک کے میئر کی دوڑ میں کوئی جگہ نہیں ہے لیکن مودی کے جگری دوست نیتن یاہو تو علی الاعلان حماس رہنماوں کو شہید کرکے جشن مناتے ہیں نیز ایران کے فوجی کمانڈروں کو شہید کرنے کے بعد رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے قتل کی خاطرامریکی صدر سے اجازت طلب کرنے کے بعد اس میں ناکامی پر افسوس کرتے ہیں۔ ان ساری باتوں پر خاموش رہنے والے راجکمار کی تنقید کون سنے گا؟
نومبر میں نیویارک کے باشندوں کو ترجیح کے لحاظ سے پانچ امیدواروں کا انتخاب کرنا پڑے گاتاہم ظہران کے حریف اول اور ریاست کے سابق گورنر اینڈریو کوومو نے اپنی شکست قبول کر لی ہے۔ 67 سالہ کوومو پر 4 سال پرانے جنسی ہراسانی کے الزامات ہیں اور نیویارک کا میئربن کر وہ اپنی شبیہ سدھارنا چاہتے تھے ۔ نومبر کے انتخابات میں ظہران ممدانی کا مقابلہ موجودہ میئر ایرک ایڈمز اور ریپبلکن کرٹس سلیوا سے ہوگا۔ظہران ممدانی کی مہم کے حوالے سے نیویارک میں مسلمانوں کا پرجوش ہونا فطری امر ہے، کیونکہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو نیویارک شہر کو پہلا مسلمان میئر ملے گا۔ ان کی یہ فتح نیویارک میں مقیم تقریباً دس لاکھ مسلمانوں کے لیے نہ صرف انتخابی بلکہ ایک سماجی و تہذیبی پیش رفت بھی ہوگی ۔یہ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں ایک تاریخی اضافہ کے ساتھ اس بات کی علامت بھی ہے کہ مسلم شناخت کو امریکی سیاست میں نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔

ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی سے تعلق کے باوجود ظہران ممدانی مساجد، رمضان، حلال فوڈ کلچر اور مسلم ثقافت سے گہراتعلق رکھتے ہیں ۔ اس لیے مسلم معاشرے کو پالیسی سطح پر درپیش مسائل کے حل میں مددگا ملے گی۔ظہران نے میئر منتخب ہونے کی صورت میں نفرت انگیز جرائم کے خلاف بجٹ میں اضافہ اور اسلاموفوبیا کے خلاف عملی اقدامات کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی انتخابی مہم میں فلسطینیوں کی حمایت، اسرائیل پر تنقید، اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے احترام پر مبنی جرات مندانہ مؤقف اختیار نے مسلمانوں کا دل جیت لیا۔ ان کی غریب پروری اسلام کی مثبت شبیہ پیش کرتی ہے۔ ان کے منشورمیں سستے مکانات کی فراہمی، کرایہ فریز کرنے، فری بس سروس، اور شہری سطح پر کم قیمت پر اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں کے قیام پرزور دیا گیا ہے۔ ان اصلاحی اقدامات سے نہ صرف کم آمدنی والے مسلمان بلکہ دیگر اقلیتیں اور مزور طبقات بھی براہ راست مستفید ہوں گے۔

ظہران ممدانی کا اینڈریو کومو جیسے تجربہ کار اور بھاری سرمایہ رکھنے والے امیدوار کو شکست دینا بڑے ڈونرز پر منحصر روایتی انتخابی مہم سے علی الرغم عوامی جڑوں والی تحریک کی کامیابی کا اشارہ ہےجس میں طلبہ، تارکین وطن، کرایہ دار، اور نوجوان تخلیق کاروں نے بھرپور حصہ لیا۔ سوشل میڈیا پر میمز، ٹک ٹاک ویڈیوز میں اردو، بنگالی و ہسپانوی زبان کے استعمال نے بہت سے نوجوان مسلمانوں کو امریکی سیاست میں دلچسپی لینے کی ترغیب دی۔ اس طرح یوگنڈا میں پیدا ہو کر سات سال کی عمر میں نیویارک منتقل ہونے والے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے۳۳؍سالہ رکن نیویارک شہر کی ایک چوتھائی غریب آبادی کے مسیحا بن کر ابھرے ۔ظہران ممدانی چونکہ اپنے فلاحی منصبوں کی تکمیل کے لیے امیر رہائشیوں پر 10 بلین ڈالر کے اضافی ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے صدر ٹرمپ جیسے لوگوں کا پریشان ہوجانا ایک فطری امر ہے۔

ظہران کی اس مرحلے میں کامیابی نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو باولہ کردیا ہے ۔ انہوں نے اپنے میڈیا پلیٹ ’ٹروتھ سوشل‘پر پوسٹ میں ممدانی کو ’صدفیصد جنونی کمیونسٹ ‘کے لقب سے نواز دیا۔ ٹرمپ کا یہ بھونڈا طرز عمل ہندوستان کے زعفرانیوں کی یاد دلاتا جن کو اپنا ہر مخالف پاکستان یا چین نواز اور شہری (اربن) نکسل نظر آتا ہے۔ ٹرمپ نے میئر بننے کی سمت ظہران کی پیش رفت کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئےان کے خلاف جو کچھ لکھا اس کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ٹرمپ لکھتے ہیں:’’اس کا چہرہ بے حد خراب ہے، آواز اچھی نہیں ہے، دماغ بھی تیز نہیں ہے، اس کے ساتھ اے او سی+3 (الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور اس کے ترقی پسند اتحادی) جیسے احمق لوگ کھڑے ہیں‘‘۔ یہ ذاتی قسم کی اوچھی تنقید ٹرمپ کا طرۂ امتیاز ہےجو عالمی رہنما کیمرے کے سامنے اپنے حلیف نیتن یاہو کو گالی دے سکتا ہے تو اس سے مہذب رویہ کی توقع کر ناعبث ہے۔ ٹرمپ کی تنقید پر ممدانی نے طنزیہ انداز میں لکھا، ’جی ہاں، یہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک بڑا لمحہ ہے!آج رات ہم نے تاریخ رقم کی۔‘

ظہران کے حوالے سے براک اوباما کے وزیر خزانہ لارنس سمرز نے کہا کہ’میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ملک کے مستقبل کے بارے میں سخت تشویش میں مبتلا ہوں۔‘ لیکن اسی پارٹی کے ک بیباک رکن پارلیمان( سینیٹر) برنی سینڈرز نے ممدانی کی مہم کو سراہتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو اب ارب پتیوں کی فکر چھوڑ کر عام محنت کش لوگوں کی فکر کرنی چاہیے۔سینڈرز نے پارٹی کے اندرونی ناقدین اور ریپبلکن پارٹی کو متنبہ کیا کہ ظہران ممدانی ان کے لیے’سب سے بڑا درد سر‘ بن سکتے ہیں۔سینڈرز کے دعویٰ کی دلیل ٹرمپ کا بیان ہے کہ ، "بالآخر ڈیموکریٹس نے حد پار کرکے صدفیصد پاگل کمیونسٹ ظہران ممدانی کوپرائمری میں کامیاب کردیا اور وہ میئر بننے کے راستے پر ہیں۔”صدر ٹرمپ نے یہ پیشنگوئی بھی کی کہ "نیویارک سٹی کے وہ اور ان کے ساتھی ملک کو برباد کر دیں گے!”
سرمایہ دارانہ نظام کا المیہ ہے کہ نیویارک جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی 5 لاکھ بچے بھوکے سوتے ہیں لیکن پہلی بارظہران نے اپنے منشور میں ان حالات کو بدلنے کا عزم کیا ہے ۔ نومبر کے عام انتخابات میں اگر ظہران ممدانی کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ نیویارک شہر کے 111ویں اور پہلے مسلمان میئر ہوں گے۔ ممدانی کی فتح کے امکانات اس لیے روشن ہیں کیونکہ عدم مقبولیت کا شکار موجودہ میئر ایرک ایڈمز اب آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑیں گے۔ ظہران ممدانی کی کامیابی صرف امریکی مسلمانوں کی سیاست کو نئی بلندیوں سے ہمکنار نہیں کرےگا بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک علامتی اور حوصلہ افزا ئی کا پیغام دے گی کیونکہ نیویارک وہی شہر ہے جہاں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد مسلمانوں کے تئیں نفرت کا آتش فشاں پھوٹا تھا۔ ان کی کامیابی اس حقیقت کی علامت بھی ہوگی کہ اگر قیادت پرعزم ہو تو پس منظریا مذہب و رنگ کی رکاوٹیں سرنگوں ہوجاتی ہیں ۔ جواں سال ظہران پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Cont: +91 99855 61218

اشتہارات

Like Us On Facebook

Facebook Pagelike Widget

مضمون نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

©2025 Al Hilal Media. | Built using WordPress and Responsive Blogily theme by Superb